چیف جسٹس کے ازخود نوٹسز
معاشرے میں پھیلی بے حسی، سفاکیت اور خودغرضانہ طرز عمل کے تناظر میں یہ دونوں ہی معاملات نہایت اہمیت کے حامل ہیں
چیف جسٹس جسٹس میاں ثاقب نثار نے انسانی رویوں اور عوامی صحت کے حوالے سے دو نہایت اہم ازخود نوٹسزلیے ہیں جو کہ قابل ستائش عمل ہے۔ پہلا کیس ایڈیشنل سیشن جج اسلام آباد کے گھر میں کمسن ملازمہ طیبہ کو تشدد کا نشانہ بنانے اور اس کے ہاتھوں کو جلانے کا واقعہ ہے جب کہ دوسرا نوٹس یوٹیلٹی اسٹورز پر غیر معیاری کوکنگ آئل اور گھی کی فروخت کاہے۔
معاشرے میں پھیلی بے حسی، سفاکیت اور خودغرضانہ طرز عمل کے تناظر میں یہ دونوں ہی معاملات نہایت اہمیت کے حامل ہیں۔ چیف جسٹس نے یہ نوٹس ان خبروں پر لیا جن میں کہا گیا تھا کہ ایڈیشنل سیشن جج اسلام آباد کے گھر میں کام کرنے والی کمسن ملازمہ طیبہ کو بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنایا گیا تاہم مذکورہ جج کی اہلیہ کے خلاف مقدمہ درج کرنے کے بعد مبینہ طور پر دباؤ کے باعث بچی کے والد کو صلح پر مجبور کیا گیا۔
یہ عمومی رویہ معاشرے کی رگوں میں سرائیت کرچکا ہے جہاں بااثر افراد کی جانب سے مجبور و لاچار لوگوں پر غیر انسانی تشدد یہاں تک کہ جان سے مار دینے کے واقعات پیش آتے ہیں لیکن قانون تک رسائی کے پیچ و خم میں الجھ کر ان لاچاروں کی کہیں شنوائی نہیں ہو پاتی، عموماً تو ایسے واقعات کی تھانے میں رپورٹ ہی درج نہیں ہو پاتی اور اگر میڈیا میں رپورٹ آنے یا مختلف این جی اوز کے معاملے میں پڑنے کے بعد تھانے میں رپورٹ درج ہو بھی جائے تو بااثر افراد دھونس دھمکیوں کے ذریعے متاثرہ خاندان کو پیچھے ہٹنے پر مجبور کردیتے ہیں۔
چیف جسٹس نے اس معاملے پر ازخود نوٹس لے کر بااثر افراد کو یہ باور کرانے کی صائب کوشش کی ہے کہ قانون سب کے لیے برابر ہے، جو بھی مجرم ثابت ہوا اسے سزا سے کوئی نہیں بچا سکتا۔ دوسری جانب یوٹیلٹی اسٹورز پر غیر معیاری کوکنگ آئل اور گھی کی فروخت کا معاملہ بھی سنگین ہے، کیونکہ یہ دولت جمع کرنے کی ہوس میں پھنسے ان سفاک بھیڑیوں کا طرز عمل ہے جو اپنے لالچ میں اندھے ہوکر انسانی صحت اور جان سے کھیل رہے ہیں۔ ملک میں اس وقت ملاوٹ، جعلی ادویات اور ناقص مصنوعات کے کاروبار خوب پھل پھول رہے ہیں۔
ملک میں ان جرائم کا احتساب کرنے کے لیے پاکستان اسٹینڈرڈ اینڈ کوالٹی کنٹرول اتھارٹی کا محکمہ تو بلاشبہ قائم ہے لیکن اس کے ثمرات نظر نہیں آتے، جس کا واضح ثبوت یکے بعد دیگرے ملاوٹ اور جعلی اشیا کی فروخت کے معاملات منظر عام پر آنے سے ملتا ہے۔ چند روز پیشتر ہی ملاوٹ شدہ اور جعلی دودھ کے معاملے پر عدالت میں نوٹس لیاگیا۔ صائب ہوگا کہ عوام کی صحت کے معاملے پر ذرہ برابر بھی کوتاہی نہ برتی جائے اور ان جرائم میں ملوث عناصر کے خلاف آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے۔
معاشرے میں پھیلی بے حسی، سفاکیت اور خودغرضانہ طرز عمل کے تناظر میں یہ دونوں ہی معاملات نہایت اہمیت کے حامل ہیں۔ چیف جسٹس نے یہ نوٹس ان خبروں پر لیا جن میں کہا گیا تھا کہ ایڈیشنل سیشن جج اسلام آباد کے گھر میں کام کرنے والی کمسن ملازمہ طیبہ کو بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنایا گیا تاہم مذکورہ جج کی اہلیہ کے خلاف مقدمہ درج کرنے کے بعد مبینہ طور پر دباؤ کے باعث بچی کے والد کو صلح پر مجبور کیا گیا۔
یہ عمومی رویہ معاشرے کی رگوں میں سرائیت کرچکا ہے جہاں بااثر افراد کی جانب سے مجبور و لاچار لوگوں پر غیر انسانی تشدد یہاں تک کہ جان سے مار دینے کے واقعات پیش آتے ہیں لیکن قانون تک رسائی کے پیچ و خم میں الجھ کر ان لاچاروں کی کہیں شنوائی نہیں ہو پاتی، عموماً تو ایسے واقعات کی تھانے میں رپورٹ ہی درج نہیں ہو پاتی اور اگر میڈیا میں رپورٹ آنے یا مختلف این جی اوز کے معاملے میں پڑنے کے بعد تھانے میں رپورٹ درج ہو بھی جائے تو بااثر افراد دھونس دھمکیوں کے ذریعے متاثرہ خاندان کو پیچھے ہٹنے پر مجبور کردیتے ہیں۔
چیف جسٹس نے اس معاملے پر ازخود نوٹس لے کر بااثر افراد کو یہ باور کرانے کی صائب کوشش کی ہے کہ قانون سب کے لیے برابر ہے، جو بھی مجرم ثابت ہوا اسے سزا سے کوئی نہیں بچا سکتا۔ دوسری جانب یوٹیلٹی اسٹورز پر غیر معیاری کوکنگ آئل اور گھی کی فروخت کا معاملہ بھی سنگین ہے، کیونکہ یہ دولت جمع کرنے کی ہوس میں پھنسے ان سفاک بھیڑیوں کا طرز عمل ہے جو اپنے لالچ میں اندھے ہوکر انسانی صحت اور جان سے کھیل رہے ہیں۔ ملک میں اس وقت ملاوٹ، جعلی ادویات اور ناقص مصنوعات کے کاروبار خوب پھل پھول رہے ہیں۔
ملک میں ان جرائم کا احتساب کرنے کے لیے پاکستان اسٹینڈرڈ اینڈ کوالٹی کنٹرول اتھارٹی کا محکمہ تو بلاشبہ قائم ہے لیکن اس کے ثمرات نظر نہیں آتے، جس کا واضح ثبوت یکے بعد دیگرے ملاوٹ اور جعلی اشیا کی فروخت کے معاملات منظر عام پر آنے سے ملتا ہے۔ چند روز پیشتر ہی ملاوٹ شدہ اور جعلی دودھ کے معاملے پر عدالت میں نوٹس لیاگیا۔ صائب ہوگا کہ عوام کی صحت کے معاملے پر ذرہ برابر بھی کوتاہی نہ برتی جائے اور ان جرائم میں ملوث عناصر کے خلاف آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے۔