سیاست میں ذاتیات

کہتے ہیں کہ یہ دیکھو کیا کہہ رہا ہے، یہ مت دیکھو کون کہہ رہا ہے


Muhammad Saeed Arain January 05, 2017

PESHAWAR: کہتے ہیں کہ یہ دیکھو کیا کہہ رہا ہے، یہ مت دیکھو کون کہہ رہا ہے۔ لیکن آج سیاست میں بالکل برعکس ہو رہا ہے، جس کی وجہ سے ملک کی سیاست ذاتیات میں تبدیل ہوتی جا رہی ہے اور رہے سیاست میں اصول، اخلاق اور سچ، اب ان تینوں کا تو سیاست سے کوئی تعلق نہیں رہا ہے۔ ایسے سیاست دانوں کا شمار اب تو انگلیوں پر ہی رہ گیا ہے جن کی سیاست عبادت اور عوام کی خدمت واقعی ہوا کرتی تھی اور وہ سیاست میں مخالفت بھی شائستگی سے کیا کرتے تھے۔ ایسے ہی ایک سیاست دان کی تعریف وزیراعظم نواز شریف نے لاہور میں پیپلزپارٹی کے مرحوم مرکزی رہنما جہانگیر بدر کے ورثا سے کی اور مرحوم کی یہ سب سے بڑی خوبی بتائی کہ جہانگیر بدر اپنے سیاسی مخالفین کا بھی بے حد احترام اور ان سے اختلاف بڑی شائستگی سے کرتے تھے اور یہ خوبی بہت کم ہی کسی پرانے سیاست دان میں نظر آئے گی، جب کہ آج کی سیاست میں تو یہ خوبی عنقا ہو چکی ہے۔

اب تو سیاست میں نفرتیں بھی اپنے سیاسی مفاد اور مصلحت کے تحت ہی کی جاتی ہیں یا کوئی بہت ہی قابل احترام ہو تو اس کی زندگی میں اس کی عیادت نہیں بلکہ مرنے کے بعد تعزیت ضرور کر لی جاتی ہے۔ وزیراعظم نواز شریف ہی کو دیکھ لیں، انھوں نے دنیا میں مشہور سماجی رہنما عبدالستار ایدھی کی رسمی سی دو فقروں پر تعزیت کی، اہل خانہ سے ملاقات نہیں کی جب کہ پی پی کے رہنما جہانگیر بدر کی تعزیت چند روز بعد ہی کر لی۔

فوجی صدر جنرل ضیا الحق اپنی انکساری میں بہت مشہور تھے، انھوں نے تو پاکستان مخالف جئے سندھ تحریک کے بانی جی ایم سید کی بھی عیادت کی تھی، جس پر ان پر تنقید بھی ہوئی تھی مگر تنقید کرنے والوں نے یہ سوچنے کی زحمت نہیں کی تھی کہ جی ایم سید کا بھی تحریک پاکستان میں نمایاں کردار تھا، مگر کسی بڑے نے ان سے کبھی نہیں پوچھا کہ وہ پاکستان کے حامی ہونے کے بعد مخالف کیوں ہوئے۔ جی ایم سی کی سیاست بھی غلط تھی کہ اگر انھیں قائداعظم یا بعد کے حکمرانوں سے ذاتی شکایات تھیں تو اس کے باعث اپنے ہی کردار سے بنائے گئے ملک سے دشمنی شروع اور اپنی سیاست کے لیے مخالفت نہیں کرنی تھی۔ ناپسندیدہ حکومتیں تو ہو سکتی ہیں جو تبدیل تو ہو جاتی ہیں مگر ملک نے ہمیشہ قائم رہنا ہوتا ہے۔ حکومت مخالفت میں ملک دشمنی کبھی نہیں ہونی چاہیے۔

1999ء میں جنرل پرویز مشرف نے خود کو بچانے کے لیے وزیراعظم نواز شریف کو معزول کر کے نو سال تک فوجی حمایت کے باعث جو حکومت کی وہ آخر ختم ہونے کے پانچ سال بعد 2013ء میں نواز شریف تو تیسری بار اقتدار میں آ گئے مگر ملک میں جمہوریت کو ذاتی مفاد کی وجہ سے جو نقصان پہنچا اس کی ذمے داری دونوں میں کوئی قبول نہیں کرے گا اور دونوں ہی ایک دوسرے کو ذمے دار قرار دیتے رہیں گے۔

1999ء میں نواز شریف کی معزولی کے بعد ملک میں جو سیاست پروان چڑھی اور بعد میں سیاسی وفاداریوں کی جو تبدیلی ہوئی اور ملکی سیاست ذاتیات سے بڑھ کر دشمنی میں کیوں تبدیل ہوئی، اس کی ذمے داری کسی ایک پر نہیں سب پر ہی ہوتی ہے۔

1999ء تک گجرات کے چوہدریوں کو نواز شریف اس حد تک عزیز تھے کہ نواز شریف کی گاڑی اظہار محبت کے لیے چوہدریوں کے حامیوں نے کندھوں پر اٹھا لی تھی حالانکہ چوہدریوں کو نواز شریف سے شکایت تھی کہ انھوں نے چوہدری پرویز الٰہی کے بجائے اپنے بھائی شہباز شریف کو پنجاب کا وزیراعلیٰ بنا دیا تھا مگر چوہدریوں کے بقول نواز شریف 2000ء میں جنرل پرویز مشرف سے معاہدہ کر کے سعودیہ چلے گئے اور ان سے مشورہ تک نہیں کیا۔ چوہدری یہ بھی جانتے تھے کہ جنرل پرویز کے زیر عتاب اور اسیر نواز شریف اس وقت چوہدریوں سے ملنے کی پوزیشن میں نہیں تھے۔ نواز شریف کے پرویز الٰہی کو وزیراعلیٰ نہ بنانے کا بدلہ چوہدریوں نے جنرل مشرف کی ق لیگ بنوا کر اور پرویز الٰہی کو وزیراعلیٰ پنجاب بنوا کر لے تو لیا تھا مگر دونوں میں پیدا ہونے والی دوریاں دشمنی میں تبدیل ہو چکی ہیں اور پرویز الٰہی بھی عمران خان اور شیخ رشید کی طرح نواز شریف کے ذاتی دشمن بنے ہوئے ہیں۔

وزیراعظم نواز شریف کے احسان کا بدلہ جنرل پرویز مشرف نے جو دیا وہ اپنی جگہ مگر نواز شریف کو ملک کے لیے سیکیورٹی رسک جنرل پرویز اب بھی نہیں سمجھتے جب کہ سیاسی دشمنی میں عمران خان اپنے پرانے دوست نواز شریف کے سخت دشمن بنے ہوئے ہیں اور انھیں وزیراعظم ماننے کو تیار نہیں اور جس قومی اسمبلی نے نواز شریف کو وزیراعظم منتخب کیا اسی قومی اسمبلی کی رکنیت کے وہ تمام فوائد بھی حاصل کر رہے ہیں اور قومی اسمبلی سے نواز مخالفت میں باہر بیٹھے ہوئے ہیں اور پہلے مستعفی ہو کر اسی قومی اسمبلی میں آ بھی چکے ہیں اور باقی ڈیڑھ سال بھی اسی آنے جانے میں گزر جائے گا۔

شیخ رشید تو نواز شریف کی مخالفت میں وہ سب کچھ کر گزرے ہیں جو کر سکتے تھے اور وہ اپنے ماضی کے قائد نواز شریف کے دشمن بنے ہوئے ہیں۔ شیخ رشید 1997ء میں اپنے قائد سے اس لیے بھی ناراض ہوئے تھے کہ نواز شریف نے انھیں پہلے مرحلے میں وزیر کیوں نہیں بنایا اور دوسرے مرحلے میں وہ جھٹ وزیر بن گئے تھے جب کہ اعجاز الحق نے دوسرے مرحلے میں وزیر بننے سے انکار کر دیا تھا۔ اب بھی مسلم لیگ ضیا کی عوامی مسلم لیگ سے زیادہ نشستیں ہیں اور جنرل ضیا کے نواز شریف پر احسانات تھے مگر نظر انداز کیے جانے کے باوجود نواز شریف کی اعجاز الحق حمایت کر رہے ہیں سیاست میں بعض دفعہ اپنے کسی قریبی دوست کی بات بھی نہیں مانی جاتی یا ہر بار انتخابی ٹکٹ بھی نہیں دیا جاتا جس پر برسوں کے تعلقات سیاسی وفاداری تبدیل کر کے نہ صرف ختم کر لیے جاتے ہیں بلکہ ماضی کے اپنے محسن کو بھی بھلا دیا جاتا ہے۔

ملک میں یہ تبدیلی ضرور آ گئی ہے کہ سیاست اب عبادت یا باعزت نہیں رہی بلکہ گالی بنائی جا رہی ہے اور اوئے توتیکار کلچر بن چکا ہے، سیاسی لوگوں کے بعد عدلیہ کے ججوں اور ملکی اداروں کے سربراہوں تک کے کردار پر انگلی اٹھائی جاتی ہے، پہلے سیاسی مخالفت اصولوں پر ہوتی تھی، شائستگی اور لحاظ و مروت لا پاس تھا، اب سیاست مفادات پر ہوتی ہے اور مفادات کی خاطر عہدہ نہیں چھوڑاجاتا۔ پارٹی پالیسی کے برعکس بیانات دیے جاتے ہیں جس کی ایک واضح مثال چوہدری اعتزاز احسن ہیں جنھوں نے ذاتی مخالفت میں سیاسی اصولوں کو بھی بالائے طاق رکھ دیا ہے اور نواز شریف دشمنی کا نیا ریکارڈ بنا چکے ہیں مگر اتنا نہیں کرتے کہ سینیٹ چھوڑ کر پی ٹی آئی جوائن کر لی، چوہدری اعتزاز کی سیاست بلاول زرداری کے بیانات کے بھی برعکس ہے۔

پیپلزپارٹی اور خورشید شاہ وزیراعظم کے اتنے خلاف نہیں جتنے چوہدری اعتزاز احسن ہیں۔ سیاست کی بھی حد ہوتی ہے جس میں بند گلی میں نہیں پھنسا جاتا نہ سیاست میں ذاتیات کو ترجیح دی جاتی ہے مخالفت تو عبدالحکیم بلوچ کی طرح مستعفی ہو کر بھی ہو سکتی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں