دھوکے کا سامان

لوگ قبرستانوں پر تیزی سے قبضے کر رہے ہیں


[email protected]

KARACHI: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہر بات وحی الٰہی کے مطابق فرمایا کرتے تھے، چنانچہ آپؐ نے اپنی امت کی اوسط زندگی سے آگاہ و باخبر کرتے ہوئے فرمایا کہ ''میری امت کے لوگوں کی اوسط عمریں ساٹھ سے ستر برس ہوں گی، بہت کم لوگ اس سے آگے بڑھیں گے۔'' (ترمذی شریف)

کیا ہم اس روشن حقیقت سے ناآشنا ہیں کہ یہ دنیا فانی ہے اور جہاں عارضی ہے؟ اور یہاں کا سارا سامان زندگی متغیر اور عارضی ہے؟ کیا ہم پورے دعوے سے کہہ سکتے ہیں کہ میں اور آپ مزید کتنے دن زندہ رہیں گے؟ کچھ پتہ نہیں، ہم تو ابھی بھی مر سکتے ہیں اور چند دنوں اور چند سال کے بعد بھی، لیکن اس زندہ حقیقت سے انکار تو قطعی نہیں کہ موت ایک اٹل حقیقت ہے اور ہماری یہ عارضی و فانی زندگی برف کی طرح پگھل رہی ہے، ہم لمحہ بہ لمحہ موت کی جانب بڑھ رہے ہیں، گردش لیل و نہار عمر عزیز کو دیمک کی طرح چاٹ رہی ہے، عمر عزیز روز بروز گھٹ رہی ہے اور بالآخر ختم ہو جائے گی۔ جو لمحہ گزر جاتا ہے، کبھی واپس نہیں آتا۔ اگر آپ کو یقین نہیں آتا تو بتائیے آپ کا لڑکپن کدھر گیا؟ جوانی کہاں گئی؟

عمر رفتہ کتنی تیزی سے بیت گئی؟ کچھ پتہ بھی چلا۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ بچپن اور لڑکپن ابھی کل ہی کی بات ہے۔ اسی حقیقت کی جانب قرآن حکیم نے سورۃ الروم میں اس طرح توجہ دلائی ہے کہ ''قیامت کے روز مجرم قسمیں اٹھا اٹھا کر کہیں گے کہ ہم تو بس ایک پل کے لیے دنیا میں آئے تھے۔''

کیا ہم شب و روز مشاہدہ نہیں کرتے کہ موت کس طرح ہم سے ہمارے دوست، احباب، عزیز و اقارب اور آل اولاد کو چھین کر لے جاتی ہے۔ جب مقررہ وقت آ جاتا ہے تو پھر موت نہ بچوں کی کم عمری، نہ والدین کا بڑھاپا، نہ بیوی کی جوانی اور نہ ہی کسی کی خانہ ویرانی دیکھتی ہے۔ کیا ہم نہیں جانتے کہ موت سے کسی کو مفر نہیں؟ نہ اس سے شاہ بچے، نہ گدا، نہ صالحین اور نہ انبیا، حتیٰ کہ نہ موت بچے گی نہ ملک الموت۔ چنانچہ ارشاد ربانی ہے کہ ''ہر جان نے موت کا ذائقہ چکھنا ہے اور تم لوگ قیامت کے دن اپنے کیے کا پورا پورا اجر پاؤ گے۔ پس جو شخص جہنم سے بچا لیا گیا اور جنت میں پہنچا دیا گیا، وہی کامیاب ہوا اور دنیا کی چند روزہ زندگی تو دھوکے کے سامان ہے۔'' (سورۃ آل عمران: 185)۔

جہان فانی میں بندہ خاکی کو نصیب ہونے والا سامان زندگی اور مال و اسباب کی حقیقت بھلا اور کیا ہے کہ یہ مال آج ہمارا تو کل کسی اور کا ہے۔ ہمارے آباؤ اجداد کی موت کے بعد یہ متاع الغرور ہمارے پاس آ گیا اور جب ہم مر جائیں گے تو ہماری تمام چیزیں پیچھے والوں میں تقسیم ہو جائیں گی۔ پھر وہ بھی مر جائیں گے۔ مکانات کی دیواریں، ہر کچھ عرصے بعد نئے لوگوں کی شکلیں دیکھتی ہیں، اور پوچھتی ہیں کہ ہمارے بنانے والے کہاں گئے؟ ان کا کیا بنا؟ اب تو قبروں کے نشانات بھی جلدی مٹ جاتے ہیں۔ زمینوں کے کاروبار نے زمین کو ظلم اور فساد سے بھر دیا ہے۔

لوگ قبرستانوں پر تیزی سے قبضے کر رہے ہیں۔ آہ! قبریں تک بک رہی ہیں اور ان پر پلازے کھڑے ہو رہے ہیں۔ دھوکے باز شیطان نے ہم سب کو دھوکے میں ڈال رکھا ہے، یہی ابلیس ملعون کی چالیں اور اس کے گمراہ کن جال ہیں کہ وہ خود تو ڈوبا ہوا ہے ہی دوسروں کو بھی اپنے ساتھ ملانا چاہتا ہے۔ سورۃ فاطر کی آیت نمبر 6 ملاحظہ فرمائیں، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ''وہ (شیطان) تو اپنے ہمنواؤں کو بلاتا ہے، تاکہ اس کے ساتھ جہنم کا ایندھن بنیں۔'' قرآن حکیم کے مطالعے سے معلوم چلتا ہے کہ شیطان انسان کا دشمن ہے اور اس کی پیروی روز اول ہی سے انسان اور انسانیت کے لیے گمراہی کا سبب رہی ہے۔ اور ابلیس ملعون نے ہم سے پہلے بھی کتنی خلقت کو گمراہ کیا ہے۔

انسان کے لیے یہی بہتر ہے کہ وہ اپنی زندگی ہی میں اپنے مستقبل حقیقی کے بارے میں آگاہی حاصل کرے، تاکہ صراط مستقیم پر چلے اور اپنے حقیقی مستقبل کی بھرپور تیاری کرسکے۔ ہم اپنے دنیاوی مستقبل کے لیے بہت منصوبے بناتے ہیں حالانکہ اس دنیا کی حقیقت حقیقی زندگی اور حقیقی مستقبل کے مقابلے میں ایک لمحے کے برابر بھی نہیں ہے۔

چنانچہ دانشمند مومن کو اپنی دنیا اور آخرت دونوں کے لیے منصوبہ سازی کرنی چاہیے۔ ایک شخص نے حضرت سفیان نوریؒ سے درخواست کی کہ مجھے کچھ نصیحت فرما دیجیے، تو حضرت نے فرمایا کہ دنیا کے لیے اتنی محنت کرو جتنا تم کو اس میں رہنا ہے اور آخرت اور جنت کے لیے اتنی محنت کرو جتنا اس میں رہنا ہے (وفیات الاعیان لابن خلکان، جلد دوم)۔ ہمارے اسلاف کا طرز عمل یہی تھا۔ حضرت کعبؓ نے فرمایا ''جو شخص آخرت کا بلند مرتبہ چاہتا ہو اس کو چاہیے کہ خوب غور و فکر کیا کرے، اس سے وہ اس کے احوال سے بھی باخبر رہے گا (العطمۃ للاصبھانی)۔ حضرت حسنؓ نے فرمایا ''آخرت کے متعلق ایک لمحے کا غور و فکر پوری رات نفل پڑھنے سے افضل ہے (مفتاح دارالسعادہ، جلد اول)

اللہ تعالیٰ قیامت کے دن کا مالک ہے۔ قیامت کا دن بالکل برحق ہے، اور قیامت تیزی سے قریب آ رہی ہے، قیامت کی بہت سی نشانیاں ظاہر ہو چکی ہیں اور بعض بڑی نشانیاں ظاہر ہونا باقی ہیں، ہم میں سے جو موت کی آغوش میں چلا جاتا ہے تو اس کی قیامت تو اسی وقت قائم ہو جاتی ہے، ہم بھی مر جائیں گے، تو ہماری قیامت بھی شروع ہو جائے گی۔ تھوڑا سا سوچیں کہ آپ کے جاننے والے کون کون انتقال فرما چکے ہیں، کئی لوگ آپ کے ساتھ پڑھتے ہوں گے، کئی آپ کے رشتے دار ہوں گے اور کئی آپ کے دوست احباب ہوں گے۔

ان سب کی قیامت تو شروع ہو گئی۔ چھوٹا حساب کتاب تو قبر میں ہو جائے گا اور قبر سے ہی راحت یا عذاب کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے، جیساکہ رسول اللہؐ نے فرمایا کہ ''قبر جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے یا جہنم کے گڑھوں میں سے ایک گڑھا۔'' ایک حدیث شریف کا مفہوم ہے کہ ''جسے آخرت کی فکر نصیب ہو جائے اللہ تعالیٰ اسے دنیا کی فکروں سے خلاصی عطا فرما دیتا ہے۔'' اسی طرح نبی کریمؐ نے ہم مسلمانوں کو حکم دیا ہے کہ ''موت کو یاد کیا کرو۔'' آپؐ نے موت کی یاد کے لیے قبرستانوں کا رخ کرنے کی بھی تلقین فرمائی ہے۔

آج انسان کا المیہ یہ ہے کہ وہ بیش بہا چیزوں کو کم بہا اور کم قدر چیزوں کو بیش قدر تصور کرتا ہے۔ کیا کبھی ہم نے اس حقیقت پر بھی غور کیا کہ ہمارے حقیقی مسائل کیا ہیں؟ حقیقی دولت کون سی ہے؟ ہماری حقیقی فکر کیا ہونی چاہیے؟ ہم سب کی حقیقی زندگی کون سی ہے؟ ہم سب کا حقیقی مستقبل کیا ہے؟ آج ہم دعا کے لیے ہاتھ اٹھاتے ہیں تو بیٹے کی نوکری، اچھے مکان، روپیہ پیسہ اور دیگر دنیاوی حرص و ہوس سے لبالب دعائیں کرتے ہماری زبان نہیں تھکتی، جب کہ ان دعاؤں کا نمبر تو آخر میں آنا چاہیے، ہماری اولین دعائیں تو اللہ کے حضور حقیقی مسائل، حقیقی دولت، حقیقی فکر، حقیقی زندگی اور حقیقی مستقبل کے حوالے سے ہونی چاہیے، ہماری دعاؤں کا اصل محور، ایمان کامل، جہنم اور قبر کے عذاب سے حفاظت، جنت میں دخول اولیٰ اخلاص اور عمدہ اخلاق کی چاہت، فکر آخرت سے مزین سوچ، رسول اللہؐ کی اتباع، سعادت کی زندگی اور شہادت کی موت کی آرزو ہونا چاہیے۔ یہ ہیں ہمارے حقیقی مسائل، یہ ہے حقیقی دولت اور یہ ہے وہ حقیقی فکر جس میں درحقیقت ہمارے مستقبل کی اصل بھلائی

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں