سیاسی آمریت

نہ مسلم لیگ قائداعظم کی پارٹی کے طور پر سیاست کررہی ہے، نہ پیپلز پارٹی ذوالفقار علی بھٹو کی فکر کے مطابق کام کررہی ہے

mohsin014@hotmail.com

KARACHI:
نہ مسلم لیگ قائداعظم کی پارٹی کے طور پر سیاست کررہی ہے، نہ پیپلز پارٹی ذوالفقار علی بھٹو کی فکر کے مطابق کام کررہی ہے۔ بینظیر بھٹو نے کسی حد تک پارٹی کو بھٹو کی عوامی سیاست کے طور پر چلایا، اسی وجہ سے پورے پاکستان میں ان کا نام تھا، خاص طور پر صوبہ پنجاب میں۔ حالانکہ پی پی پی کے خلاف بہت سازشیں ہوئیں، جس میں بہت حد تک کامیابی ہوئی، پی پی پی کا پنجاب میں ووٹ کم ہوتا چلا گیا۔ لیکن جب محترمہ بینظیر کو قتل کردیا گیا تو ملک میں قیادت کا ایک زبر دست خلا پیدا ہوا، کیونکہ بینظیر شہید ہی مقبولیت میں سرفہرست تھیں۔

جب بی بی کو 27 دسمبر 2007ء کو راولپنڈی میں قتل کیا گیا تو پورے پاکستا ن کے ہر کونے سے صدائے غم و رنج بلند ہوئی اور سندھ میں شدید ردعمل آیا، پھر جب 2008ء کے انتخابات ہوئے تو بینظیر کا ہمدردی کا ووٹ پنجاب سے نہیں ملا۔ حالانکہ فطری تقاضا تھا کہ وہاں ووٹ بینک بڑھنا چاہیے تھا مگر بڑھنے کے بجائے جو کچھ ووٹ بینک موجود تھا وہ بھی نہ ملا۔ یہ بات بینظیر بھٹو کے چاہنے والوں کے لیے افسوسناک بھی تھی اور شدید دھچکا بھی۔ اس کی کچھ اہم وجوہات ہیں۔ پہلی وجہ یہ تھی پی پی پی کے جیالے، ہمدرد اور عوام یہ سمجھ رہے تھے کہ شاید پی پی پی کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی انتخابات کے ذریعے اپنا چیئرمین منتخب کرے گی، یا کم سے کم صنم بھٹو اپنی بہن کی جگہ لیں گی۔

لیکن وہاں جب وصیت نامہ سامنے لایا گیا جس کے مطابق کم عمر بلاول زرداری چیئرمین قرار پائے، اس کا نقصان پنجاب میں پی پی پی کو اٹھانا پڑا۔ پھر فیصلہ ہوا آصف علی زرداری اس پارٹی کے شریک چیئرمین ہوں گے۔ اس اعلان کا اثر بھی پنجاب میں بہت منفی ہوا، کیونکہ آصف علی زرداری جو کہ بدنام زیادہ رہے، اس نے پاکستان کے پی پی پی کے ہمدردوں کو دور کردیا۔ شاید اس فیصلے پر پی پی پی کی بقا کی خاطر یہ فیصلہ قبول کیا، پھر جوں جوں آصف زرداری کی گرفت پارٹی پر مضبوط ہوتی گئی اور ان کے اختیارات میں اضافہ ہوتا گیا تو انھوں نے اہم فیصلے کرنے شر وع کر دیے۔

جس میں اچانک یہ فیصلہ بھی کیا وہ یعنی آصف علی زرداری ہی مملکت کے صدر کا عہدہ بھی سنبھالیں گے اور اس طرح وہ صدر بن گئے۔ یہی وہ بڑا غلط فیصلہ تھا۔ اگر آصف زرداری پارٹی قیادت تک محدود رہتے اور صدر پاکستان کا عہدہ کسی اور کو دے دیتے امین فہیم، خورشید شاہ جیسے لوگ بہت مناسب تھے، تو اس کا اثر پنجاب میں پی پی پی کو مثبت ملتا۔ اور آصف علی زر داری سندھ کے بجائے پنجاب میں بیٹھ کر پی پی پی کی تنظیم نو کرتے تو پنجاب میں پی پی پی کی حمایت میں بہت اضافہ ہوتا۔

آصف زر داری کے صدر بننے سے پنجاب، کے پی کے، بلوچستان میں حمایت میں بہت کمی ہوئی۔ سندھ میں چونکہ دو قومیں آباد ہیں، ایک اندرون سندھ جو سندھیوں کی اکثریت ہے، اور شہروں میں اردو بولنے والے مہاجر، میمن، کاٹھیاواڑی لوگوں کی اکثریت ہے۔ شہری علاقوں میں ایم کیو ایم کا اثر تھا، اس لیے بانی ایم کیو ایم نے بظاہر آصف زرداری کے صدر بننے پر حمایت کی، جس کو سندھ کے شہریوں نے بادل نخواستہ قبول کیا، جب کہ اندرون سندھ کے رہنے والے لوگ وہاں کے فیوڈل سسٹم کے زیر اثر ہیں اور اس سسٹم کے اتنے عادی ہیں کہ وہ اس کے خلاف مزاحمت کا سوچ بھی نہیں سکتے، اس لیے وہاں کا ووٹر اپنا ووٹ زمیندار یا بااثر لوگوں کی مرضی کے مطابق دیتا ہے اور دیتا رہے گا۔


شہروں میں پی پی پی کی حمایت نہیں ہے، اس طرح پارٹی کی مقبولیت میں کمی کا آغاز ہوا۔ جو زوال بے نظیر بھٹو شہید سے شروع ہوا اور روز بہ روز اس کی مقبولیت اور ووٹ میں کمی ہی ہو رہی ہے، اس کا تازہ ترین ثبوت یہ ہے کہ پی پی پی نے کشمیر میں جو شکست کھائی ہے وہ انتہائی شرمناک رہی ہے، حالانکہ کشمیر کے انتخابات کے وقت طالبان اور دہشتگردوں کا کوئی اثر بھی نہ تھا، اور اب جو اہم فیصلہ لاڑکانہ کے گڑھی خدا بخش میں محترمہ کی نویں برسی پر کیا گیا کہ آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو زرداری دونوں ایم این اے کا انتخاب لڑیں گے اور یقیناً جیت بھی جائیں گے۔ مگر اس اعلان سے پورے پاکستان میں ذوالفقار علی بھٹو اور بینظیر بھٹو کے چاہنے والوں کو بڑا صدمہ ہوا ہے۔

پہلی بات یہ کہ جو شخص اس ملک کے مقتدر ترین منصب پر بطور صدر مملکت رہا ہو، اس کے یہ شایان شان نہیں کہ وہ اس سے کم منصب پر عہدہ حاصل کرے۔ دوسرا یہ کہ ابھی بلاول زرداری اتنے تجربہ کار نہیں ہوئے کہ پارٹی کے بہترین تجربہ کار سیاسی سوجھ بوجھ کے مالک لوگوں کی قیادت کریں۔ انھیں تو پہلے کم سے کم ایم پی اے کی سطح کی سیاست کرنی چاہیے تاکہ وہ سیاست میں اور تجربہ حاصل کریں اور عمر کے اس مقام پر پہنچ جائیں جہاں لوگ انھیں ذہنی طور پر بے نظیر کے بدل کے طور پر قبول کریں۔

اس اعلان نے کہ ''میں وزیراعظم اور میرے بابا صدر پاکستان ہوں گے'' پی پی پی کی سیاسی ساخت کو بہت نقصان پہنچایا ہے اور بھٹو کے چاہنے والوں نے یہ سمجھ لیا ہے کہ پی پی پی اب جمہوری انداز میں سیاست نہیں کر رہی ہے بلکہ اس پارٹی پر زرداری خاندان کی من مانی ہو گی۔ بہن اور بیٹی سندھ کے معاملات اور باپ اور بیٹا باقی ماندہ علاقوں کے معاملات چلائیں گے۔ اس عمل سے یہ ثابت ہوا کہ پی پی پی کے نہایت تجربہ کار سینئر سیاستدانوں کی نہ کوئی اہمیت ہے، نہ ہی ان کی حیثیت۔

بلاشبہ پاکستان پیپلز پارٹی، پاکستان کی وہ واحد جماعت تھی جو جمہوریت کی بقا، ملک کی ترقی اور غریب عوام کے لیے بہترین منصوبے پیش کرنے والی جماعت تھی۔ یہ وہ جماعت تھی، جس کے دو قائدین نے جمہوریت اور ملکی ترقی کی خاطر اپنی جان قربان کر دی۔ جب تک ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر اس پارٹی کو چلاتے رہے، تب تک انھوں نے پارٹی میں منصب کا فیصلہ اپنی قربت، اپنی قرابت کی بنیاد پر نہیں بلکہ اپنے کارکنوں، سیاسی شخصتیوں کی اہلیت کی بنیاد پر کیا۔ اس لیے یہ پارٹی بڑھ رہی تھی۔

پی پی پی کے اس غیر مقبول فیصلے سے سب سے بڑا سیاسی فائدہ میاں نواز شریف کی مسلم لیگ، اور عمران خان کی پی ٹی آئی کو پہنچے گا۔ پی پی پی آیندہ انتخابات میں صرف سندھ کے دیہی علاقوں تک محدود ہو جائے گی۔ اور اگر ایسا ہوا تو سب سے زیادہ ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو کی روح کو صدمہ ہو گا، کیونکہ ان دونوں کا وژن بڑا وسیع تھا، وہ پورے پاکستان کا سوچتے تھے، وہ سیاسی آمریت کے خلاف تھے۔ پی پی پی کے پاس دو تیر ہیں ایک مفاہمت کا دوسرا مزاحمت کا۔ بیٹا مزاحمت کا اعلان کرتا ہے تو وہ مفاہمت کے لیے ہاتھ بڑھاتے ہیں۔

اس طرح پی پی پی کی قیادت بھی وہی کر رہی ہے جو شریف برادران کرتے تھے۔ کچھ دو اور کچھ لو، یہ پی پی پی کا طرۂ امتیاز نہیں تھا۔ پی پی پی کے بھٹو نے پاکستان کو طاقت دی، غربیوں کو سہولت دی۔ مگر 2008ء سے پی پی پی نے سب سے زیادہ عوام کو نظر انداز کیا۔ اگر وہ سندھ میں، کراچی اور حیدرآباد میں ترقیاتی کام کرتے، بسیں، سڑکوں، پانی اور بجلی کے مسئلے حل کرتے، میگا پروجیکٹ بناتے تو اس کا مبثت اثر پورے پنجاب اور دوسرے صوبوں پر ہوتا۔ لیکن آج کے دن تک لاہور، پشاور اور کوئٹہ کے صوبائی دارالخلافہ، کراچی کے مقابلے میں زیادہ ترقی یافتہ، زیادہ صاف و شفاف ہیں۔ پورے پاکستان میں کراچی سے زیادہ گندا و غیر ترقیاتی دارالخلافہ نہیں ہے۔ وزیراعلیٰ سندھ کی تبدیلی نے بھی کوئی فائدہ نہیں پہنچایا۔
Load Next Story