فتنے اور خون خرابہ مگر کیوں۔۔۔۔
فتنے کو قتل و غارت سے بھی بدتر اور مردود قرار دیا جاتا ہے۔
GILGIT:
آج جو ہمارے چاروں طرف فتنوں اور خون خرابے کا بازار گرم ہے، بے سبب نہیں، مگر ہمارا کیا ہے۔۔۔۔ ؟ بے ضمیری اور لاشعوری کے باعث ابتر قومی و اجتماعی حالت زار کا تحلیل و تجزیہ تو دور کی بات ہمارے اندر معمولی سی کڑھن اور احساسِ زیاں تک موجود نہیں۔
وگرنہ مثبت یا منفی نتائج کے پسِ منظر میں فکر و عمل کی کارفرمائی ضرور دخیل ہوتی ہے اور یہی کچھ علت و معلول کا چکر اور قانون فطرت بھی ہے۔ فتنے کو قتل و غارت سے بھی بدتر اور مردود قرار دیا جاتا ہے اس لیے کہ کشت و خون اور قتل و غارت دراصل کسی نہ کسی فتنے کا نتیجہ، ثمر اور حاصل ہوتا ہے اور پھر آخر یہ فتنے ہی کیوں سر اٹھاتے ہیں۔۔۔؟
آئیے اس سوال کا اطمینان بخش جواب پانے اور اس پیچیدہ مسئلے کا شافی و کافی حل جاننے کے لیے بارگاہ رسالتِ مآب صلی اﷲ علیہ وسلم میں حاضری کا شرف و اجازت حاصل کرتے ہیں۔ بہ قول اقبال: تُو اے مولائے یثربؐ، آپ میری چارہ سازی کر صحیح بخاری و مسلم میں سیدنا ابوہریرہؓ روایت کرتے ہیں کہ دانائے سبل، ختم الرسل صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: '' ایک وقت آئے گا کہ زمانہ قریب قریب ہوجائے گا، علم اٹھا لیا جائے گا اور فتنے نمودار ہوں گے، انسانی طبیعتوں میں بخل ڈال دیا جائے گا اور بہت ہرج ہوگا، صحابہ کرامؓ نے عرض کیا، ہرج کا کیا مطلب ہے؟ آپؐ نے ارشاد فرمایا کشت و خون۔''
(متفق علیہ)
ذرا حدیث کے مبارک متن پر غور فرمائیے!
'' زمانہ قریب قریب ہوجائے گا '' کا واضح ترین مفہوم بھلا موجودہ مشینی دور کی برق رفتاری کے سوا اور کیا ہوسکتا ہے؟ واﷲ اعلم بالصواب
بہ ہرحال اوقات میں برکت کے اٹھ جانے کو ہم سبھی بہ خوبی محسوس کررہے ہیں، جس کی طرف ایک خاص اسلوب میں چودہ صدی قبل نشان دہی کرنا نبوت و رسالتؐ ہی کا امتیاز اور استحقاق ہوسکتا ہے۔
''علم اٹھا لیا جائے گا اور فتنے نمودار ہوں گے'' اب آپ کہیں گے کہ علم تو پہلے سے کہیں زیادہ وافر، بہ کثرت اور بہتات سے ہے۔ یقینا اس سے انکار اور مفر نہیں کہ معلومات کی دست یابی اور فراہمی ماضی کی نسبت بہت زیادہ اور عام سہی لیکن کیا یہ تعلیمی عمل اور تدریسی نظام انسانیت، اجتماع اور انسانی سماج کے لیے باعث نفع رسانی اور جامع فلاح و بہبود کا وسیلہ و ذریعہ بھی ہے یا پھر علم کو ایک ایسے آلے اور فن کے درجے پر لاکھڑا کردیا گیا ہے جس کے ذریعے محض ذاتی منفعت، کاروبار اور اختیار و اقتدار کی خاطر اپنے جیسے انسانوں کو اپنا غلام، مجبور اور محکوم بناکر ان کا استحصال کیا جاتا ہے اور پھر انسانیت کے لیے وہ مفید علم کہ جو انسانی کردار اور انسانی سماج کا جزو اور روح نہ بن سکے اور محض انسانی دماغوں میں مقید اور منجمد ہوکر رہ جائے۔ بھلا ایسی محدود اور مسدود معلومات سے ایک جیتی جاگتی اور متحرک زندگی کو کیا سروکار ہوسکتا ہے۔۔۔۔۔؟
اس تناظر میں یقینی طور پر علم کم یاب اور ناپید ہوچکا۔ اس لیے کہ جس قدر تعلیمی اداروں جامعات، اسکالرز، محققین، علماء اور دانش وروں کی کثرت اور زیادتی ہے اسی قدر سوسائٹی ابتر اور رو بہ زوال ہے اور اسی طرح فتنہ انگیزیوں کا بھی ایک طوفانِ بدتمیزی برپا ہے۔ علمی اجارہ داری سے انسانی معاشرے وحدت و ارتقا کی بہ جائے انتشار اور ارتجا کا شکار ہوتے ہیں۔
مذکورہ حدیث مبارکہ کے آخری حصے میں ارشاد نبویؐ ہے: '' انسانی طبیعتوں میں بخل ڈال دیا جائے گا اور ہرج ہوگا '' بخل اور کنجوسی، سخاوت کی ضد اور بارگاہ الٰہی میں سخت ناپسندیدہ صفت ہے۔ جب کہ سخاوت اس قدر محبوب خوبی ہے کہ سرکار دوجہاںؐ نے عرب کے معروف ترین سخی حاتم طائی کی بیٹی کے لیے اپنی مبارک کملی بچھانے کا حسین و جمیل اور قابل مثال اہتمام فرمایا۔ بخیل انسان کو دنیا و آخرت میں سب سے پیارا اس کا مال ہوتا ہے جس کو جمع کرنے کے لیے وہ دیگر انسانیت کا بے رحمانہ و ظالمانہ استحصال کرتا ہے اور بہ قول قرآن اس دھوکے میں پڑا رہتا ہے کہ یہ مال و دولت ہمیشہ اس کے پاس رہے گا اور کبھی بھی کھوٹے سکے کی طرح اسے دغا نہیں دے گا۔
قرآن حکیم میں ارشاد باری تعالی ہے، ترجمہ: '' گویا مال جمع کرنے اور گننے کے سوا اس کا کوئی مشغلہ، کام اور مقصود نہیں ہوتا۔''
اسی سرمایہ دارانہ نفسی و ذہنی کیفیت کی طرف آقائے نام دار صلی اﷲ علیہ و سلم نے ہماری توجہ مرکوز فرمائی جو عملی صورت میں ڈھلتے ہی ''ہرج'' کے برگ و بار لاتی ہے اور ''ہرج'' کیا ہے؟ آپؐ نے فرمایا: '' کشت و خون اور قتل و غارت '' یعنی اس کا لب لباب اور خلاصہ یہ ہوا کہ جیسے علمی اجارہ داری سے فتنے جنم لیتے ہیں، ویسے ہی مالی سرمایہ داری سے قتل و غارت اور خون خرابہ پیدا ہوتا ہے۔ اور جب تک بخل اور سرمایہ داری کے بت کو پاش پاش نہیں کیا جائے گا قتل و غارت اور دہشت گردی پر بھی قابو پانے کا خواب شرمندۂ تعبیر نہیں ہوسکتا۔
علم، انسانی روح کی غذا ہے اور سامان رزق، انسانی جسم کے لیے ذریعۂ بقا ہے اور قدرت کی منشا یہ ہے کہ عدل و مساوات کے اصولوں پر تمام انسانوں تک علم اور غذا کی ترسیل اور بہاؤ میں کوئی رکاوٹ برداشت نہ کی جائے۔ فتنوں کے خاتمے اور قتل و غارت کے انسداد کا یہی قرآنی و نبویؐ منہاج ہے۔
آج جو ہمارے چاروں طرف فتنوں اور خون خرابے کا بازار گرم ہے، بے سبب نہیں، مگر ہمارا کیا ہے۔۔۔۔ ؟ بے ضمیری اور لاشعوری کے باعث ابتر قومی و اجتماعی حالت زار کا تحلیل و تجزیہ تو دور کی بات ہمارے اندر معمولی سی کڑھن اور احساسِ زیاں تک موجود نہیں۔
وگرنہ مثبت یا منفی نتائج کے پسِ منظر میں فکر و عمل کی کارفرمائی ضرور دخیل ہوتی ہے اور یہی کچھ علت و معلول کا چکر اور قانون فطرت بھی ہے۔ فتنے کو قتل و غارت سے بھی بدتر اور مردود قرار دیا جاتا ہے اس لیے کہ کشت و خون اور قتل و غارت دراصل کسی نہ کسی فتنے کا نتیجہ، ثمر اور حاصل ہوتا ہے اور پھر آخر یہ فتنے ہی کیوں سر اٹھاتے ہیں۔۔۔؟
آئیے اس سوال کا اطمینان بخش جواب پانے اور اس پیچیدہ مسئلے کا شافی و کافی حل جاننے کے لیے بارگاہ رسالتِ مآب صلی اﷲ علیہ وسلم میں حاضری کا شرف و اجازت حاصل کرتے ہیں۔ بہ قول اقبال: تُو اے مولائے یثربؐ، آپ میری چارہ سازی کر صحیح بخاری و مسلم میں سیدنا ابوہریرہؓ روایت کرتے ہیں کہ دانائے سبل، ختم الرسل صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: '' ایک وقت آئے گا کہ زمانہ قریب قریب ہوجائے گا، علم اٹھا لیا جائے گا اور فتنے نمودار ہوں گے، انسانی طبیعتوں میں بخل ڈال دیا جائے گا اور بہت ہرج ہوگا، صحابہ کرامؓ نے عرض کیا، ہرج کا کیا مطلب ہے؟ آپؐ نے ارشاد فرمایا کشت و خون۔''
(متفق علیہ)
ذرا حدیث کے مبارک متن پر غور فرمائیے!
'' زمانہ قریب قریب ہوجائے گا '' کا واضح ترین مفہوم بھلا موجودہ مشینی دور کی برق رفتاری کے سوا اور کیا ہوسکتا ہے؟ واﷲ اعلم بالصواب
بہ ہرحال اوقات میں برکت کے اٹھ جانے کو ہم سبھی بہ خوبی محسوس کررہے ہیں، جس کی طرف ایک خاص اسلوب میں چودہ صدی قبل نشان دہی کرنا نبوت و رسالتؐ ہی کا امتیاز اور استحقاق ہوسکتا ہے۔
''علم اٹھا لیا جائے گا اور فتنے نمودار ہوں گے'' اب آپ کہیں گے کہ علم تو پہلے سے کہیں زیادہ وافر، بہ کثرت اور بہتات سے ہے۔ یقینا اس سے انکار اور مفر نہیں کہ معلومات کی دست یابی اور فراہمی ماضی کی نسبت بہت زیادہ اور عام سہی لیکن کیا یہ تعلیمی عمل اور تدریسی نظام انسانیت، اجتماع اور انسانی سماج کے لیے باعث نفع رسانی اور جامع فلاح و بہبود کا وسیلہ و ذریعہ بھی ہے یا پھر علم کو ایک ایسے آلے اور فن کے درجے پر لاکھڑا کردیا گیا ہے جس کے ذریعے محض ذاتی منفعت، کاروبار اور اختیار و اقتدار کی خاطر اپنے جیسے انسانوں کو اپنا غلام، مجبور اور محکوم بناکر ان کا استحصال کیا جاتا ہے اور پھر انسانیت کے لیے وہ مفید علم کہ جو انسانی کردار اور انسانی سماج کا جزو اور روح نہ بن سکے اور محض انسانی دماغوں میں مقید اور منجمد ہوکر رہ جائے۔ بھلا ایسی محدود اور مسدود معلومات سے ایک جیتی جاگتی اور متحرک زندگی کو کیا سروکار ہوسکتا ہے۔۔۔۔۔؟
اس تناظر میں یقینی طور پر علم کم یاب اور ناپید ہوچکا۔ اس لیے کہ جس قدر تعلیمی اداروں جامعات، اسکالرز، محققین، علماء اور دانش وروں کی کثرت اور زیادتی ہے اسی قدر سوسائٹی ابتر اور رو بہ زوال ہے اور اسی طرح فتنہ انگیزیوں کا بھی ایک طوفانِ بدتمیزی برپا ہے۔ علمی اجارہ داری سے انسانی معاشرے وحدت و ارتقا کی بہ جائے انتشار اور ارتجا کا شکار ہوتے ہیں۔
مذکورہ حدیث مبارکہ کے آخری حصے میں ارشاد نبویؐ ہے: '' انسانی طبیعتوں میں بخل ڈال دیا جائے گا اور ہرج ہوگا '' بخل اور کنجوسی، سخاوت کی ضد اور بارگاہ الٰہی میں سخت ناپسندیدہ صفت ہے۔ جب کہ سخاوت اس قدر محبوب خوبی ہے کہ سرکار دوجہاںؐ نے عرب کے معروف ترین سخی حاتم طائی کی بیٹی کے لیے اپنی مبارک کملی بچھانے کا حسین و جمیل اور قابل مثال اہتمام فرمایا۔ بخیل انسان کو دنیا و آخرت میں سب سے پیارا اس کا مال ہوتا ہے جس کو جمع کرنے کے لیے وہ دیگر انسانیت کا بے رحمانہ و ظالمانہ استحصال کرتا ہے اور بہ قول قرآن اس دھوکے میں پڑا رہتا ہے کہ یہ مال و دولت ہمیشہ اس کے پاس رہے گا اور کبھی بھی کھوٹے سکے کی طرح اسے دغا نہیں دے گا۔
قرآن حکیم میں ارشاد باری تعالی ہے، ترجمہ: '' گویا مال جمع کرنے اور گننے کے سوا اس کا کوئی مشغلہ، کام اور مقصود نہیں ہوتا۔''
اسی سرمایہ دارانہ نفسی و ذہنی کیفیت کی طرف آقائے نام دار صلی اﷲ علیہ و سلم نے ہماری توجہ مرکوز فرمائی جو عملی صورت میں ڈھلتے ہی ''ہرج'' کے برگ و بار لاتی ہے اور ''ہرج'' کیا ہے؟ آپؐ نے فرمایا: '' کشت و خون اور قتل و غارت '' یعنی اس کا لب لباب اور خلاصہ یہ ہوا کہ جیسے علمی اجارہ داری سے فتنے جنم لیتے ہیں، ویسے ہی مالی سرمایہ داری سے قتل و غارت اور خون خرابہ پیدا ہوتا ہے۔ اور جب تک بخل اور سرمایہ داری کے بت کو پاش پاش نہیں کیا جائے گا قتل و غارت اور دہشت گردی پر بھی قابو پانے کا خواب شرمندۂ تعبیر نہیں ہوسکتا۔
علم، انسانی روح کی غذا ہے اور سامان رزق، انسانی جسم کے لیے ذریعۂ بقا ہے اور قدرت کی منشا یہ ہے کہ عدل و مساوات کے اصولوں پر تمام انسانوں تک علم اور غذا کی ترسیل اور بہاؤ میں کوئی رکاوٹ برداشت نہ کی جائے۔ فتنوں کے خاتمے اور قتل و غارت کے انسداد کا یہی قرآنی و نبویؐ منہاج ہے۔