طیبہ تشدد ازخود نوٹس 3 دن میں تحقیقاتی رپورٹ طلب
بچی کے اصل والدین تک پہنچنے کے لیے دعویداروں کے ٹیسٹ کروائے جائیں، چیف جسٹس
SEOUL:
سپریم کورٹ نے ڈی آئی جی اسلام آباد پولیس کو طیبہ تشدد کیس کی تحقیقات کے لیے کمیٹی بنانے کا حکم دیتے ہوئے 3 روزمیں رپورٹ طلب کرلی۔
چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثارکی سربراہی میں سپریم کورٹ کے دورکنی بینچ نے ایڈیشنل سیشن جج کے گھر ملازمہ پرتشدد کے ازخود نوٹس کیس کی سماعت کی۔ عدالت نے ڈی آئی جی پولیس کو ہدایت کی کہ تحقیقات کے لیے کمیٹی بنائی جائے اور3 روزمیں رپورٹ پیش کی جائے، جس پرپولیس کی جانب سے رپورٹ کی تیاری کے لیے 2 ہفتوں کی مہلت کی استدعا کی گئی جسے عدالت نے مسترد کردیا۔
اس خبر کو بھی پڑھیں: چیف جسٹس آف پاکستان کا طیبہ تشدد کیس کھلی عدالت میں سننے کا فیصلہ
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ہم چاہتے ہیں کہ بچی کا جلد طبی معائنہ کرایا جائے تا کہ ثبوت ضائع نہ ہوں اور پولیس صرف سچ کوسامنے لائے۔ انہوں نے استفسار کیا کہ بنیادی انسانی حقوق کے معاملات پرراضی نامے نہیں ہو سکتے، والدین بھی بچوں کو بنیادی حقوق سے محروم نہیں رکھ سکتے پھر یہ راضی نامہ کیسے ہوگیا۔
اس خبرکوبھی پڑھیں: بچی کے والدین کا سیشن جج سے راضی نامہ
عدالت کے روبروطیبہ کی والدہ نے موقف اختیار کیا کہ وہ فیصل آباد کی رہائشی ہے اور طیبہ اس کی بیٹی ہے جو 2014 میں لاپتہ ہوگئی تھی۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ بچی آپ کی ہے یہ آپ کو کیسے معلوم ہوا، جس پر کوثر بی بی نے کہا کہ اس نے میڈیا پر بچی کی تصاویردیکھی تھیں اس سے انہیں پتہ چلا کہ یہ بچی اس کی لاپتہ بیٹی ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ بچی کے والدین ہونے کے دعویداروں کے ٹیسٹ کروائے جائیں، اس کے علاوہ میڈیا پر چلنے والی تصاویرکا بھی فرانزک ٹیسٹ کروایا جائے۔
اس خبرکوبھی پڑھیں: چیف جسٹس پاکستان کا کمسن ملازمہ پر تشدد کے واقعے کا از خود نوٹس
سپریم کورٹ نے کیس کی مزید سماعت 11 جنوری تک ملتوی کرتے ہوئے بچی اوراسسٹنٹ کمشنرپوٹھوہارکو ہرصورت پیش ہونے کا حکم دے دیا۔
سپریم کورٹ نے ڈی آئی جی اسلام آباد پولیس کو طیبہ تشدد کیس کی تحقیقات کے لیے کمیٹی بنانے کا حکم دیتے ہوئے 3 روزمیں رپورٹ طلب کرلی۔
چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثارکی سربراہی میں سپریم کورٹ کے دورکنی بینچ نے ایڈیشنل سیشن جج کے گھر ملازمہ پرتشدد کے ازخود نوٹس کیس کی سماعت کی۔ عدالت نے ڈی آئی جی پولیس کو ہدایت کی کہ تحقیقات کے لیے کمیٹی بنائی جائے اور3 روزمیں رپورٹ پیش کی جائے، جس پرپولیس کی جانب سے رپورٹ کی تیاری کے لیے 2 ہفتوں کی مہلت کی استدعا کی گئی جسے عدالت نے مسترد کردیا۔
اس خبر کو بھی پڑھیں: چیف جسٹس آف پاکستان کا طیبہ تشدد کیس کھلی عدالت میں سننے کا فیصلہ
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ہم چاہتے ہیں کہ بچی کا جلد طبی معائنہ کرایا جائے تا کہ ثبوت ضائع نہ ہوں اور پولیس صرف سچ کوسامنے لائے۔ انہوں نے استفسار کیا کہ بنیادی انسانی حقوق کے معاملات پرراضی نامے نہیں ہو سکتے، والدین بھی بچوں کو بنیادی حقوق سے محروم نہیں رکھ سکتے پھر یہ راضی نامہ کیسے ہوگیا۔
اس خبرکوبھی پڑھیں: بچی کے والدین کا سیشن جج سے راضی نامہ
عدالت کے روبروطیبہ کی والدہ نے موقف اختیار کیا کہ وہ فیصل آباد کی رہائشی ہے اور طیبہ اس کی بیٹی ہے جو 2014 میں لاپتہ ہوگئی تھی۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ بچی آپ کی ہے یہ آپ کو کیسے معلوم ہوا، جس پر کوثر بی بی نے کہا کہ اس نے میڈیا پر بچی کی تصاویردیکھی تھیں اس سے انہیں پتہ چلا کہ یہ بچی اس کی لاپتہ بیٹی ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ بچی کے والدین ہونے کے دعویداروں کے ٹیسٹ کروائے جائیں، اس کے علاوہ میڈیا پر چلنے والی تصاویرکا بھی فرانزک ٹیسٹ کروایا جائے۔
اس خبرکوبھی پڑھیں: چیف جسٹس پاکستان کا کمسن ملازمہ پر تشدد کے واقعے کا از خود نوٹس
سپریم کورٹ نے کیس کی مزید سماعت 11 جنوری تک ملتوی کرتے ہوئے بچی اوراسسٹنٹ کمشنرپوٹھوہارکو ہرصورت پیش ہونے کا حکم دے دیا۔