شریف خاندان ثبوت دے ورنہ عمران کی بات ماننا پڑے گی سپریم کورٹ

بظاہر لگتا ہے کہ لندن کے فلیٹس خاندانی سرمائے سے خریدے گئے، جسٹس آصف سعید کھوسہ کے ریمارکس

پاناما کیس کی مزید سماعت پیر کو ہوگی فوٹو: فائل

سپریم کورٹ میں پاناما کیس کی سماعت کرنے والے بینچ کے سربراہ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیئے ہیں کہ سچ تک پہنچنے کی ہر ممکن کوشش کریں گے۔



جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا لارجر بینچ پاناما کیس کی سماعت کررہا ہے، سماعت کے آغاز پر اسحاق ڈار اور مریم نواز کے وکیل شاہد حامد نے عدالت کے روبرو مریم نواز کی آمدنی، جائیداد اور ٹیکس کی تفصیلات جمع کروائیں۔ جس میں بتایا گیا ہے کہ 2013 میں ان کی 2 لاکھ 26 ہزار چالیس روپے، 2014 میں 12 لاکھ 59 ہزار 132 ، 2015 میں 9 لاکھ 73 ہزار 243 روپے جب کہ 2016 میں 4 لاکھ 89 ہزار 911 آمدنی تھی تاہم سال 2016 میں ان کی آمدنی ایک کروڑ 16 لاکھ 38 ہزار 867 روپے تھی۔ شاہد حامد نے موقف اختیار کیا کہ وزیر اعظم کے خلاف الیکشن کمیشن میں 4 ریفرنسز زیر سماعت ہیں، اس کے علاوہ الیکشن کمیشن میں اسحاق ڈار اور کیپٹن صفدر کے خلاف بھی درخواست زیر التوا ہے۔

جسٹس آصف سعید کھوسہ نے استفسار کیا کہ وزیر اعظم کےخلاف الیکشن کمیشن میں بھی یہی معاملہ زیر سماعت ہے اور الیکشن کمیشن میں درخواستیں سپریم کورٹ کے بعد میں دائر ہوئیں یا پہلے۔ جس پر شاہد حامد نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے روبرو بھی وزیراعظم کی نااہلی کا معاملہ ہے اور الیکشن کمیشن میں درخوستیں پہلےسے دائر تھیں۔



اس کے علاوہ عمران خان کی جانب سے شریف فیملی کے مالیاتی مشیر ہارون پاشا کا انٹرویو بطور ثبوت عدالت میں جمع کرایا گیا جو انہوں نے 6 دسمبر 2016 کو نجی ٹی وی کو دیا تھا۔ عمران خان نے عدالت سے استدعا کی کہ انٹرویو کو عدالتی ریکارڈ کا حصہ بنایا جائے۔



عمران خان کے وکیل نعیم بخاری نے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ مریم نواز کےنام سے1993 سے 1996 کے درمیان بے نامی فلیٹس خریدے گئے، جب فلیٹ خریدے گئےاس وقت مریم نواز کم عمر تھیں اور ان کا کوئی ذریعہ آمدن نہیں تھا، دنیا کو دکھانے کے لیے مریم صفدر کو بینیفشری ظاہر کیا گیا، ان کے اصل مالک نواز شریف ہیں، اسی طرح دبئی میں بھی بے نامی اسٹیل مل لگائی گئی۔ انہوں نے بتایا کہ مریم نواز آف شور کمپنیوں کی بینیفیشل مالک ہیں لیکن ان کے پاس جائیداد کے لئے رقم نہیں تھی، 2011 میں مریم نواز نے چوہدری شوگر مل سے 4 کروڑ 23لاکھ جب کہ 2012 میں اپنے بھائی حسن نواز سے 2 کروڑ 89 لاکھ روپے قرض لیا۔ 2013 میں پھر والد نے 3 کروڑ سے زائد کی رقم بطور تحفہ دی۔

اس خبر کو بھی پڑھیں : کسی بھی پہلو کو نظرانداز نہیں کریں گے




جسٹس اعجاز افضل نے استفسار کیا کہ آپ کی بات سے مریم کے زیر کفالت ہونے کا معاملہ واضح نہیں ہوتا،التوفیق کیس میں مریم نواز کا نام نہیں تھا، اس میاں شریف، عباس شریف اور شہباز شریف کا نام ہے۔ لندن فلیٹس مریم نواز کو کب اور کیسے منتقل ہوئے۔ کیا مریم کو جائیداد منتقلی کا کوئی دستاویزی ثبوت ہے،کوئی ایسی دستاویز ہے جس سے ثابت ہو کہ 2006 کی ٹرسٹ ڈیڈ غلط ہے۔



عمران خان کے وکیل نے کہا کہ جائیداد کی تفصیل سے متعلق کوئی دستاویز نہیں تاہم مریم نواز کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی فراہم کردہ دستاویز درست ثابت کریں، ایک دستاویز میں مریم نواز سامبا بنک اور منروا کمپنی سے تعلق ظاہر کرتی ہیں، تحقیقاتی ادارے نے موزیک فرم سے آف شور کمپنیوں کی تفصیلات مانگیں اور کمپنیوں کی ملکیت اور دیگر امور سے متعلق دریافت کیا، تحقیقاتی ادارے کو بتایا گیا کہ لندن فلیٹس کرائے پر نہیں دیئے گئے، ان میں مریم اور ان کی فیملی رہائش پذیر ہے۔

اس خبر کو بھی پڑھیں : سماعت روز ہوگی



جسٹس عظمت سعید نے استفسار کیا کہ بے نامی جائیدادوں سے متعلق قانون موجود ہے، کیا تحفے میں دی گئی رقم بے نامی ہو جاتی ہے، تنازع صرف ٹرسٹی اور بینیفیشل مالک کا ہے، مریم اور حسین نواز کے ٹرسٹ ڈیڈ پر دستخط ہیں اور دونوں ٹرسٹی اس ڈیڈ کو تسلیم بھی کرتے ہیں، فلیٹس کی آمدن نہیں تھی تو ٹرسٹ ڈیڈ کی کیا ضرورت تھی۔ موزیک فرم کو ٹرسٹ ڈیڈ کا نہیں بتایا گیا۔

اس خبر کو بھی پڑھیں : پاناما کیس کا نیا بینچ بن گیا



جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیئے کہ اصل سوال ریکارڈ کا ہے، بار ثبوت اس پر ہوتا ہے جس کے قبضے میں چیز ہوتی ہے، معلوماتی خط میں مریم نواز کے ذرائع آمدن فیملی بزنس لکھا ہے، اس بات سے کس حد تک خاندان کے دوسرے لوگوں سے تعلق بنتا ہے، دوسرا فریق بتائے کمپنیاں کب بنی ،کس نے بنائی اور پیسہ کہاں سے آیا، دوسرے فریق کا موقف سن کر حکم دے سکتے ہیں کہ دستاویز پیش کریں، عدالت کا اختیار ہے کہ دستاویز طلب کرے۔ سچ تک پہنچنے کی ہر ممکن کوشش کریں گے۔ کیس کی مزید سماعت پیر کو ہوگی۔

Load Next Story