احساسِ ندامت

آج صبح ہی سے گھر میں خاصی چہل پہل تھی۔

احساسِ ندامت

آج صبح ہی سے گھر میں خاصی چہل پہل تھی۔ روبینہ بیگم کی تو خوشی کا کوئی ٹھکانا نہ تھا۔ یاسرمیاں بھی کافی مسحور دکھائی دے رہے تھے۔ دادی اماں اپنے کمرے میں شُکرانے کے نوافل ادا کررہی تھیں۔ دراصل آج فرخ کا پہلا روزہ تھا۔ فرخ شہزاد، یاسر اور روبینہ کا اکلوتا بیٹا تھا۔ اسی وجہ سے گھر بھر کا لاڈلا اور دادی کی تو آنکھ کا تارا تھا۔

بے شک فرخ منہ میں سونے کا چمچہ لے کر پیدا نہیں ہوا تھا، اس کے باوجود یاسر اور روبینہ نے کبھی اس کی کسی خواہش کو رَد نہیں کیا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ فرخ زندگی کی دھوپ چھائوں سے بالکل ناواقف تھا۔

''یاسر! جلدی سے بازار سے پھل لے آئیں۔ آج افطاری میں خاص اہتمام ہوگا۔ آخر میرے بیٹے کا پہلا روزہ ہے۔'' روبینہ بیگم مسکراتے ہوئے بولیں۔

''ابوجی۔۔۔۔ ابوجی!'' فرخ بھاگتا ہوا یاسرمیاں کے پاس آیا۔ ''ابوجی! آپ تو جانتے ہیں، مجھے امرتیاں کتنی پسند ہیں۔ ابوجی! امرتیاں تو ہر حال میں آنی چاہیئں۔'' فرخ نے اپنے دونوں ہاتھ بغل میں دباتے ہوئے کہا۔

''ہاں ہاں، کیوں نہیں۔۔۔۔ امرتیاں بھی لے آئیں گے۔ آخر میرے شیر کا پہلا روزہ ہے۔'' یاسر نے سر فخر سے بلند کرتے ہوئے کہا۔
ۘ٭٭٭٭٭
''روبینہ۔۔۔۔!'' یاسر نے گھر میں داخل ہوتے ہی حسب عادت بیوی کو پکارا۔
''جی، آگئے آپ۔'' روبینہ نے کمرے سے نکلتے ہوئے کہا۔

''ہاں، یہ لو سامان اور یہ خاص طور پر فرخ کی فرمایش پر منگوائی گئی امرتیاں ہیں، انہیں فریج میں رکھ دو۔'' یاسر نے سامان دیتے ہوئے کہا۔

آہا۔۔۔۔ میری امرتیاں!'' فرخ بھاگتے ہوئے روبینہ کے پاس آیا اور اُن سے شاپر چھین لیا۔
''نہیں بیٹا! یہ اپنی ماما کو دے دو، جب افطار کا وقت ہوگا تب کھانا۔'' یاسر نے فرخ کو سمجھایا۔


''جی ابا جان!'' فرخ نے منہ بسورتے ہوئے جواب دیا۔
فرخ کی امی امرتیاں فریج میں رکھ کر افطاری کی تیاری کرنے لگیں۔ ابھی صرف چار بجے تھے اور روزہ افطار ہونے میں پورے ساڑھے تین گھنٹے باقی تھے۔ مگر فرخ امرتیوں کو دیکھ کر بے چین ہوگیا۔ تازہ تازہ مزے دار امرتیاں دیکھ کر اس کا دل بے اختیار انہیں کھانے کو چاہا مگر روزے کی وجہ سے صبر کیا۔

ایک گھنٹہ بھی نہ گذرا تھا کہ فرخ اپنے کمرے سے نکل کر ٹیرس میں آیا۔ وہاں کوئی نہیں تھا۔ اچانک اس کے دل میں خیال آیا کہ کیوں نہ امرتیاں کھائی جائیں، کون سا اسے کوئی دیکھ رہا ہے۔ ایسا سوچتے ہی اس نے کچن سے ایک پلیٹ اٹھائی اور اس میں جلدی جلدی امرتیاں بھرنے لگاٰ۔ اتنے میں اُس کی امی آگئیں۔ انہیں فرخ سے ہرگز یہ امید نہ تھی۔

''فرخ بیٹا! یہ کیا ہورہا ہے؟'' امی نے پوچھا تو فرخ کے تو پائوں کے نیچے سے جیسے زمین ہی نکل گئی۔ ''و۔۔۔ و۔۔۔ وہ۔۔۔ ج۔۔۔ جی امی! کچھ نہیں۔'' وہ بوکھلا گیا۔
''یہ امرتیاں کہاں لے جارہے ہو؟ اُنہوں نے لہجے میں ذرا سختی پیدا کرتے ہوئے کہا۔

''و۔۔۔۔ وہ۔۔۔۔ امی! بس ویسے ہی۔'' گھبراہٹ میں اس سے کوئی جواب نہیں بن پا رہا تھا۔ امی اس کے نزدیک آئیں اور ''کمرے میں آئو۔۔۔۔ اسی وقت۔''کہتی ہوئی اپنے کی طرف چل دیں۔ فرخ چپ چاپ اُن کے پیچھے چل دیا۔
''بیٹا! روزے کا مطلب سمجھتے ہو؟''
''نہیں امی!'' فرخ نے مختصر جواب دیا۔

''دیکھو بیٹا! تم یہ امرتیاں صرف اس وجہ سے کھارہے تھے کہ کون سا کوئی تمہیں دیکھ رہا ہے۔ مگر بیٹا! اس باری تعالیٰ کی ذات تو تمہیں دیکھ رہی ہے۔ تم سمجھتے ہوکہ یہ امرتیاں کھا لوگے اور کسی کو پتا بھی نہیں چلے گا؟ اور سب سمجھیں گے کہ تمہارا روزہ ہے۔ وہ تمہاری عزت افزائی کریں گے اور پیار کریں گے۔ لیکن بیٹا! جواب صرف انسانوں کو نہیں دیا جاتا، منہ صرف لوگوں کو نہیں دکھایا جاتا۔ آخرت کے دن اس باری تعالیٰ کو بھی جواب دینا ہوگا کہ بتائو! تم نے کس وجہ سے روزہ توڑا؟ تو کیا جواب دوگے؟'' امی نے سوالیہ نظروں سے فرخ کو دیکھا جو زمین میں نہ جانے کیا دیکھ رہا تھا۔

''دیکھو بیٹا! جھوٹ بول کر تم سب سے داد تو وصول کرسکتے ہو لیکن تمہارا ضمیر تمہیں کبھی سکون وچین سے نہیں رہنے دے گا۔ تم خود پر ایک بوجھ محسوس کروگے۔'' وہ اتنا کہہ کر خاموش ہوگئیں۔ پھر کچھ دیر بعد سلسلہ کلام جوڑتے ہوئے بولیں؛ ''بیٹا! روزہ رکھنے والا ہمیشہ اپنے آپ کو مطمئن اور ہلکا پھلکا محسوس کرتا ہے۔ اس کا دماغ ہر قسم کے شیطانی خیالات اور وسوسوں سے پاک ہوتا ہے بشرط یہ کہ وہ سچے دل سے روزہ رکھے۔'' یہ کہتے ہوئے انہوں نے فرخ کی طرف دیکھا جو اب زاروقطار رو رہا تھا۔

''امی! مجھے معاف کردیں۔'' وہ اب باقاعدہ ہچکیاں لے رہا تھا۔
''بیٹا! معافی مجھ سے نہیں، اپنے اور میرے رب سے مانگو جو یقیناً بڑا رحیم وکریم اور معاف کرنے والا ہے۔'' انہوں نے کہا۔
''یا الٰہی! میں بہت برا ہوں۔ مجھے معاف کردے۔ میں وعدہ کرتا ہوںکہ آیندہ کبھی ایسی حرکت نہیں کروںگا۔'' فرخ نے آسمان کی طرف ہاتھ اٹھا کے بلند آواز میں کہا تو روبینہ بیگم اطمینان سے مسکرا دیں کیوںکہ انہوں نے فرخ کے چہرے پر چھائے احساسِ ندامت کو دیکھ لیا تھا۔
Load Next Story