ڈیموکریٹک پارٹی کو مزدوروں کی جماعت بناؤں گا برنی سینڈرز

امریکی سینٹیر برنی سینڈرز کا دولت مندوں اور اشرافیہ کے خلاف میدان میں آنے کا اعلان۔


Rizwan Tahir Mubeen January 08, 2017
برنی سینڈرز کو لگتا ہے کہ ریبپلکنز کے مقابلے میں ڈیموکریٹ زیادہ بہتر طریقے سے سینیٹ کو چلا سکتے تھے۔ فوٹو : فائل

امریکا کے حالیہ صدارتی چناؤ میں ڈیموکریٹک پارٹی نے سینیٹر برنی سینڈرز (BERNIE SANDERS) کے مقابلے میں ہیلری کلنٹن کو اپنا امیدوار نام نام زَد کیا۔ برنی سینڈرز ریاست ورمونٹ (Vermont) سے آزاد حیثیت سے منتخب ہوئے۔ ان کی خواہش تھی کہ وہ امریکا میں معاشی عدم مساوات کو اپنے چناؤ کا مرکزی نکتہ بنائیں کہ 99 فی صد آمدن ایک فی صد طبقے کی جیب میں جا رہی ہے۔

برنی سینڈرز سب سے طویل مدت 16 برس تک آزاد رہتے ہوئے امریکی ایوان نمائندگان کی رکنیت کا اعزاز رکھتے ہیں۔ بائیں بازو کے نظریات رکھنے والے برنی سینڈرز 2006ء میں پہلی بار سینیٹر منتخب ہوئے، تو ڈیموکریٹ پارٹی کے پارلیمانی گروپ کا حصہ بنے۔ وہ خود کو 'ڈیموکریٹک سوشلسٹ' قرار دیتے ہیں۔ 'ڈیموکریٹک پارٹی' میں وہ بائیں بازو کے نمائندہ تصور کیے جاتے ہیں، جو صاحب ثروت طبقے پر زیادہ ٹیکس لگانے اور مزدوروں کو حقوق دینے کے حامی ہیں۔

برنی سینڈرز 1981ء تا 1989ء Burlington شہر کے میئر بھی رہے۔ یہیں انہوں نے آزاد حیثیت میں سیاست شروع کی اور ڈیموکریٹک اور ری پبلکن پارٹی کو شکست دے کرآگے آئے۔ حالیہ صدارتی انتخابات میں ڈیموکریٹک پارٹی کی شکست کے بعد انہوں نے پارٹی کی تنظیم نو کی مہم شروع کرنے کا عندیہ دیا، ترقی پسندانہ سوچ کے تحت وہ نچلے طبقے کے لیے انقلاب برپا کرنا چاہتے ہیں۔

امریکی صدارتی انتخابات میں ریبپلکن امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ کی فتح کے بعد ایک ویب سائٹ ''ڈیموکریسی ناؤ'' کو انٹرویو میں انہوں نے بتایا کہ انتخابات کی رات جب ریاست 'انڈیانا' سے نتائج آنے لگے، تو وہ بہت مضطرب تھے۔ جب ڈونلڈ ٹرمپ فتح یاب ہوئے، تو یہ ان کے لیے حیران کُن تو تھا، لیکن اچنبھے کا سا نہیں تھا۔ تاہم اس شام وہ اس قدر پریشان ہوئے کہ صحافیوں کا سامنا بھی نہیں کیا۔ برنی سینڈرز کے بقول وہ انتخابات کے نتائج کے بعد ہی سے سوچ رہے تھے کہ کس طرح ہم آگے بڑھ کر اس صورت حال کا بہتر جواب دے سکتے ہیں۔

برنی سینڈرز کہتے ہیں کہ کچھ دن قبل Chuck Schumer (جو اب سینیٹ میں ڈیموکریٹک پارٹی کے راہ نما ہیں) نے مجھے اپنی اس حکمت عملی کے لیے میری خواہش کے مطابق مجھے اختیار دیا، تاکہ میں ڈیموکریٹک پارٹی میں اصلاحات پر کام کر سکوں۔ ہم مقامی امریکیوں کے تحفظ کے لیے بھی ہر ممکن اقدام کریں گے۔

برنی سینڈرز کہتے ہیں کہ 'جو پہلے ہی نیچے گرے ہوئے ہوں، ان پر قابو پانا بہت آسان ہوتا ہے، لیکن یہ میرا مقصد نہیں۔ شکست کے بعد ہیلری کلنٹن اور ان کے حامی دُکھے ہوئے ہیں، میں انہیں مزید پریشان نہیں کرنا چاہتا، لیکن یہ چاہتا ہوں کہ وہ صدارتی دوڑ میں بہتر ہو کر سامنے آئیں۔'

برنی سینڈرز کو لگتا ہے کہ ریبپلکنز کے مقابلے میں ڈیموکریٹ زیادہ بہتر طریقے سے سینیٹ کو چلا سکتے تھے، لیکن انہیں موقع نہ مل سکا، اب ڈونلڈ ٹرمپ اپنے اقتدار کی شروعات کرنے والے ہیں۔ برنی سینڈرز صرف حالیہ شکست پر ہی پریشان نہیں، بل کہ انہیں ڈیموکریٹک پارٹی کی مسلسل گرتی ہوئی ساکھ چین نہیں لینے دے رہی۔ وہ کہتے ہیں کہ ملک کی دو تہائی ریاستوں میں ری پبلکنز گورنر متعین ہیں اور گذشتہ تقریباً آٹھ برسوں میں ڈیموکریٹ ملک بھر کے ریاستی دارالحکومتوں میں 900 نشستیں کھو چکے ہیں۔

برنی سینڈرز کو ڈیموکریٹک پارٹی کی شکست تسلیم کرنے میں کوئی عار نہیں، وہ کہتے ہیں کہ کسی کو بھی دوش دیے بغیر یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہماری موجودہ حکمت عملی ناکام ہو چکی ہے۔ یہ بالکل واضح ہے کہ اب ہمیں نئی فکر اور سوچ کی ضرورت ہے۔ میرے خیال میں ہمیں ایک 50 ریاستی حکمت عملی ترتیب دینا ہوگی۔ یعنی اسی طریقۂ کار کو دوبارہ اختیار کرنا ہوگا، جو عشروں پہلے 'ڈیموکریٹس' نے اختیار کیا تھا۔

اس کے ساتھ برنی سینڈرز کہتے ہیں کہ اس سے بھی زیادہ اہم یہ ہوگا کہ ہم ڈیموکریٹک پارٹی کو نچلی سطح کی جماعت بنائیں، جہاں سب سے زیادہ اہم لوگ صرف دولت مند اور چندہ دینے والے نہ ہوں، بلکہ مزدور، نوجوان اور متوسط طبقہ آگے آئے، اپنے مسائل بتائے اور ہمیں نئے خیالات دے کہ ہم کس طرح آگے بڑھ سکتے ہیں۔



میں Minnesota سے رکن کانگریس کیتھ ایلی سن کی بھرپور حمایت کرتا ہوں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ میں انہیں کافی برسوں سے جانتا ہوں، ہمیں ڈیموکریٹک پارٹی میں جو بڑی اصلاحات کرنی ہیں، اسے عملی جامہ پہنانے کے حوالے سے کیتھ ایلی سن کے پاس بہت عمدہ خیالات ہیں۔ جب برنی سینڈرز سے یہ پوچھا گیا کہ کیتھ ایلی سن کی اہمیت یوں بھی زیادہ ہے کہ وہ پہلے مسلمان رکن کانگریس ہیں اور ایک ایسے وقت میں کہ جب نومنتخب صدر مسلمانوں کے حوالے سے سخت رائے کا اظہار کر رہا ہے، تو انہوں نے تائید کرتے ہوئے بتایا کہ 'میں ایمان داری سے بتاؤں تو میرے لیے وہ علیحدہ سیاسی شناخت کی بنا پر نہیں، بل کہ ان کے مضبوط ترقی پسندانہ خیالات کی وجہ سے اہمیت کے حامل ہیں۔

کیتھ ایلی سن ساری زندگی مزدور خاندانوں، متوسط اور کم آمدن والے خاندانوں کے ساتھ کھڑے رہے ہیں، لیکن اُن کے مسلمان ہونے والا نکتہ بھی نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ یہ پورے ملک کے لیے ایک پیغام بھی ہوگا کہ ڈیموکریٹک پارٹی کا راہ نما مسلمان بھی ہے، یہ ہماری پارٹی کا تنوع ہوگا، ہم ایک لمحے کے لیے بھی اس کٹر پن کو قبول نہیں کریں گے، جو ڈونلڈ ٹرمپ کی مہم کے دوران ہمیں دکھائی دیا۔

برنی سینڈرز یہ اعتراف کرتے ہیں کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم کے دوران لوگوں کی نبض پر ہاتھ رکھا۔ وہ کہتے ہیںکہ اس بات سے انکار کرنا غلط ہوگا، کچھ لوگ سوچ رہے ہیں کہ ٹرمپ کو ووٹ دینے والا ہر فرد نسل پرست اور گھٹیا ہے، ایسا سوچنا بھی سنگین غلطی ہوگی۔ ایسا نہیں ہے، بل کہ لوگ ملک کی نوکر شاہی سے متنفر اور برہم ہیں اور میرے خیال میں ڈیموکریٹک پارٹی بھی اس ردعمل کا شکار ہوئی۔

برنی سینڈرز علی الاعلان ڈیموکریٹ پارٹی کو مزدوروں کی جماعت بنانے کے لیے پرعزم ہیں، تاکہ یہ صرف ایک فی صد طبقے کی جماعت نہ رہے۔ وہ کہتے ہیں کہ بے شک ہمیں کارزار سیاست میں مزید خواتین، مزید لاطینی امریکی، افریقی نژاد امریکیوں کے متحرک ہونے کی ضرورت ہے، لیکن ہمیں ایسے لوگوں کی بھی ضرورت ہے، جو مزدوروں کے لیے کارپوریٹ اور کروڑ پتی طبقے سے لڑ سکیں۔

میں گذشتہ 25 سال سے Vermont ریاست سے کانگریس میں موجود ہوں اور آٹھ سال Burlington شہر کا میئر رہا۔ آپ امریکا کے دیہی علاقوں میں جائیں اور دیکھیں کہ ان کا مسئلہ ہم جنس پرستوں کی شادی یا موسمیاتی تبدیلیوں کی حقیقت ہونے کے بہ جائے دو، دو اور تین تین ملازمتیں کرکے اپنا پیٹ پالنا ہے، وہ اس قابل نہیں ہیں کہ اپنے بچوں کو کالج بھیج سکیں۔ میں Vermont سے چار سال پہلے 71 فی صد ووٹ لے کر منتخب ہوا۔ میں ایک لمحے کے لیے بھی یہ نہیں مان سکتا کہ Vermont باقی ملک سے مختلف ہے۔

برنی سینڈرز کہتے ہیں کہ سیاست دان ہمیشہ یہ کہتے ہیں کہ وہ لوگوں کے کہنے پر آگے آئے ہیں، حالاں کہ وہ خود اس کا فیصلہ کر چکے ہوتے ہیں، مجھ سے لوگوں نے کہا کہ وہ اسٹیبلشمنٹ سے تنگ آچکے ہیں اور حقیقی تبدیلی چاہتے ہیں۔ مختلف ریاستوں میں لوگ ہزاروں لوگ ہماری ریلیوں میں شریک ہوئے، جن میں بہت بڑی تعداد نوجوانوں کی تھی۔

برنی سینڈرز نے ہیلری کلنٹن کی بطور خاتون اول کردار پر تنقید پر نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا کہ لوگ سنجیدہ مسائل پر صحت مند گفتگو چاہتے ہیں۔ لوگ ہیلری کلنٹن کے ماضی سے نہیں، بل کہ طبی سہولیات، موسمی تغیرات، غربت اور بنیادی تعمیرات کے لیے فکرمند ہیں۔ ذرایع اِبلاغ اور ہم متوسط طبقے کے شکست وریخت، دولت کی غیرمنصفانہ تقسیم، تعلیم اور صحت کے حوالے سے بات کیوں نہیں کرتے؟ لوگوں نے ڈونلڈٹرمپ کو ووٹ اس لیے دیا کہ انہوں نے کہا کہ میں واحد ریپبلکن امیدوار ہوں، جو سوشل سیکیوریٹی، میڈی کیئر اور میڈی کیڈ میں کمی نہیں کروں گا، مگر اس کے برعکس یہ مخصوص دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے ایسے لوگوں کا تقرر شروع کر رہے ہیں، جو نج کاری کے ذریعے سوشل سیکیوریٹی اور ملازمتوں کو محدود کریں گے۔

ہم نے مہم کے دوران ڈونلڈ ٹرمپ کے ہر بیان کو سنبھال کر رکھا ہوا ہے، تاکہ ان سے جواب دہی کی جا سکے، ہر امریکی جان جائے گا کہ انہوں نے کیا کہا اور کیا کیا۔

منہگی طبی سہولیات پر شہریوں کے تحفظات کے حوالے سے برنی سینڈرز نے کہا کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم کے دوران فارماسیوٹیکل انڈسٹری اور دواؤں کی قیمتیں کم کرانے کے لیے اقدام کا اعلان کیا تھا کہ وہ ادویات کی کینیڈا اور دیگر ممالک سے درآمد کی اجازت دیں گے۔ یہی نہیں اب ہم لوگوں کو یہ بھی یاد کرائیں گے کہ اور دیگر مسائل کے حوالے سے انہوں نے اپنی مہم کے دوران اور کیا کیا کہا تھا۔

برنی سینڈرز سے جب یہ پوچھا گیا کہ باراک اوباما نے اپنی عہدے کے دوران ماورائے عدالت اقدام کے لیے اپنے اختیارات کا استعمال بھی کیا، تو انہوں نے کہا کہ وہ اس طرح کی چیزوں کو غلط سمجھتے ہیں۔ ہم پہلے ڈونلڈ ٹرمپ کو اُن کے وعدے یاد دلائیں گے، پھر لوگوں کو آگاہ کریں گے کہ وہ کس طرح کے لوگوں کا تقرر کر رہے ہیں۔

برنی سینڈرز کہتے ہیں کہ ہم دیوہیکل مقاصد کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں، ہم مستقبل کے لیے اور (موسمی تغیرات کے حوالے سے) زمین کا مستقبل بچانے کے لیے لڑ رہے ہیں۔ ہماری لڑائی امریکی جمہوریت کے مستقبل کے لیے ہے۔ ہم لوگوں کو متحرک کرکے انہیں یہ سوچنے پر راغب کریں گے کہ ان ہمارا سیاسی عمل میں کیا حصہ ہونا چاہیے۔ اس طرح لوگوں کی مدد سے ہم اس خوف ناک منصوبے کو شکست دیں گے اور مجھے یقین ہے کہ اگر لاکھوں لوگ کھڑے ہوگئے، تو ہم بھیانک چیزوں کو رونما ہونے سے روک لیں گے اور میں اب یہی کوشش کر رہا ہوں۔

آئندہ صدارتی امیدوار ہونے اور ڈیموکریٹک پارٹی میں رہنے سے متعلق ایک سوال پر برنی سینڈرز نے بتایا کہ چار سال ایک طویل مدت ہوتی ہے۔ ان کا اصل مقصد یہ ہے کہ امریکا کے لوگ بیدار ہوں۔ انتخابات اور صدارتی امیدوار ہونے کے بہ جائے وہ امریکا میں اصلاحات اور بہتری کے لیے کام کرنے پر زیادہ مرکوز ہیں۔ 2020ء کے صدارتی چناؤ کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ یہ تو بعد کی بات ہے، ابھی تو ہم 2017 اور 2018ء سے متعلق تشویش میں مبتلا ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں