کشمیر بھارت کے پاؤں کی زنجیر
بیجنگ بھی خطے میں طاقت کا توازن برقرار رکھنے کے لیے اسلام آباد کو ایسے میزائل کی تیاری میں مدد دے گا
وزیراعظم نوازشریف نے کہا ہے کہ کشمیر پاکستان کی شہ رگ ، شناخت کا لازمی جزو اور بھارت سے تنازع کی بنیادی وجہ ہے، بھارت مقبوضہ وادی میں ظلم وستم بند کرے، انھوں نے کہا کہ پاکستانی قوم ، پارلیمنٹ اور حکومت اپنے کشمیری بھائیوں کی حمایت جاری رکھے گی ،وطن عزیز سے دہشت گردی کا خاتمہ کر کے اسے امن آشتی کا گہوارہ بنائیں گے، اس سلسلہ میں سب سے کلیدی کردار ادیبوں، شاعروں اور اہل علم و دانش کا ہے، آپریشن ضرب عضب کے ساتھ ساتھ آپریشن ''ضرب ِقلم'' کی بھی اشد ضرورت ہے، ان خیالات کا اظہار انھوں نے جمعرات کو یہاں چار روزہ اکادمی ادبیات پاکستان کے زیراہتمام چوتھی بین الاقوامی اہل قلم کانفرنس اور کشمیر سمینار سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔
یہ ایک مستحسن پیش رفت ہے کہ کشمیری عوام کی پر زور حمایت کے لیے سیاسی و ادبی محاذ پر مشترکہ جدوجہد کی طرف اہل عساکر اور ادیبوں ، فکشن رائٹرز ، مفکروں ، مورخوں ، دانش وروں ، شعرا اور نقادوں کی ضرورت کا ادراک کیا گیا ہے۔ میڈیا نے کشمیر کاز کی حمایت اور بھارتی مظالم کو عالمی سطح پر اجاگر کرنے کی بہت مثبت اور مربوط کوشش کی ہے ۔
اب ادبی میدان کی طرف مراجعت ایک اہم اقدام ہے، بھارت خطے کے امن و استحکام اور پر امن بقائے باہمی کے آدرش کے لیے سنگین خطرات پیدا کررہا ہے اور اس کے جنگی جنون کی کوئی انتہا نہیں ۔اس لیے اس فورم پر ادبی دنیا کے اہل فکر ونظر کو اپنا تخلیقی کردار ادا کرنے کے لیے آگے آنا چاہیے تاکہ بھارت کے مذموم عزائم بے نقاب ہوں اور اس کی خرمستیوں کو محض بیان بازی سے ہٹ کر ٹھوس تاریخی تضادات کی نشاندہی کرتے ہوئے دنیا پر واضح کردینا چاہیے کہ بھارت کی پوری سیکولر سیاست خطے کو آتش فشاں بنانے اور چمتکاری کو شائستہ و نفیس سفارت کاری کے نام پر دھوکے بازی کے لیے استعمال کرنا ہے، چنانچہ اب وقت آگیا ہے کہ پاکستانی سول و عسکری اسٹیبلشمنٹ ، سیاسی جماعتوں ، سول سوسائٹی، ہمہ جہت فکری و دینی قوتوں کو یک مشت ہوکر کشمیر اور پاک بھارت تنازعات کے حل کے لیے مثالی اتحاد کا مظاہرہ کرنا چاہیے ۔
وزیراعظم کا یہ کہنا کہ اب بہت ہوچکی در اصل نئے ''کشمیر عزم'' کے سفر کی ابتدا ہے۔ اس موقع پر وزیراعظم کی جانب سے فنکاروں کی فلاح و بہبود کے لیے قومی تاریخ و ادبی ورثہ کے مشیر عرفان صدیقی کی سربراہی میں خصوصی کمیٹی کا اعلان اورعلم و ادب کے لیے 50 کروڑ کے فنڈ کا قیام مستحسن ہے۔یہ بات شک وشبہ سے بالاتر ہے کہ بھارت عالمی دباؤ کا شکار ہے۔
اس کے سیاسی دانشور پریشانی میں مبتلا ہیں کہ آئندہ ٹرمپ انتظامیہ میں مودی سرکار کی کم تر حیثیت کیا قیامت ڈھائے گی،ادھر جنیوا میں اختتام پزیر ایک عالمی کانفرنس میں قرارداد پیش ہوئی جس میں تجویز کیا گیا کہ گروپ آف گورنمنٹل ایکسپرٹ(جی جی ای) کے رسمی پروسیس کے تحت جنگ کے مستقبل اور لیتھل آٹونومس ویپن سسٹم کی تیاری پر مذاکرات ہوں اور اس اجلاس کی سربراہی بھارت کرے۔ اس سے بھارتی عزائم کی جھلک ملتی ہے تاہم آرمی چیف جنرل قمرجاوید باجوہ کے حالیہ بیان نے بھارت کے ہوش ٹھکانے لگا دیے ہیں، جنرل باجوہ نے بھارتی سرجیکل اسٹرائیک کا دعویٰ مسترد کرتے ہوئے کہا کہ پاک فوج کسی بھی جارحیت کا جواب دینے کے لیے ہر وقت تیار ہے۔ آئی ایس پی آر کے مطابق آرمی چیف نے بھارت کے دوبارہ ممکنہ سرجیکل اسٹرائیک کو بھی مُسترد کردیا اور کہا ہے بھارتی آرمی چیف دعویٰ کر کے خود کو دھوکا دے رہے ہیں۔
واضح رہے بھارت کے نئے آرمی چیف جنرل بپن راوت نے گیدڑبھبکی دیتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان کے خلاف سرجیکل اسٹرائیک ایک ضروری پیغام تھا اور مستقبل میں ایسی کارروائیوں کے امکان کو مسترد نہیں کیا جا سکتا،ادھر چین نے خبردار کیا ہے کہ بھارت نے بین البراعظمی بیلسٹک میزائل بنانے کا سلسلہ بند نہ کیا تو بیجنگ بھی اسلام آباد کی ایسے میزائلوں کی تیاری میں مدد کرے گا۔ بھارتی میڈیا کو خدشہ ہے کہ چین کا یہ بیان واضح اشارہ ہے کہ اگر بھارت نے بین البراعظمی میزائل بنانے کا سلسلہ جاری رکھا تو بیجنگ بھی خطے میں طاقت کا توازن برقرار رکھنے کے لیے اسلام آباد کو ایسے میزائل کی تیاری میں مدد دے گا۔ واضح رہے چین نے اقوام متحدہ میں کالعدم تنظیم جیش محمد کے سربراہ مولانا مسعود اظہر کو دہشت گرد قرار دلوانے کے معاملے میں دہرے معیار کے حوالے سے بھارتی الزامات کو بھی سختی سے مسترد کر دیا، چینی وزارت خارجہ کے ترجمان کینگ شوانگ نے جمعرات کو معمول کی پریس بریفنگ میں کہا کہ دونوں ممالک کے انسداد دہشت گردی کے اہداف مشترکہ ہیں اور اس شعبے میں اکٹھے کام کر رہے ہیں، ہم دہشتگردی سے لڑنے اور مشترکہ طور پر علاقائی امن و سیکیورٹی کو قائم رکھنے کے لیے بھارت کے ساتھ تعاون کو وسیع کرنے کے خواہشمند ہیں ۔
چین کا یہ موقف لائق تعریف ہے کہ ایٹمی ترقی کے لیے جیسی مراعات بھارت کو دی جا سکتی ہیں ویسی ہی مراعات پاکستان کو بھی ملنی چاہییں ، اگر اس منطقی استدلال کی پزیرائی ہوئی تو مغرب پر امتیازی پالیسی کا الزام بھی دھل سکے گا ۔ حقیقت میں مودی سرکار پر چاروں طرف سے ملامتی افتاد پڑی ہے، کشمیر مودی کے پاؤں کی زنجیر ہے۔