ایک آواز ایک خوشبو

اسکول کے زمانے میں کسی دوست کو ڈاک کے ٹکٹ جمع کرنے کا شوق تھا


یونس ہمدم January 07, 2017
[email protected]

اسکول کے زمانے میں کسی دوست کو ڈاک کے ٹکٹ جمع کرنے کا شوق تھا، کسی کو مختلف ملکوں کے سکے جمع کرنے سے دلچسپی اور کچھ ایسے دوست بھی تھے ''نکی پور'' گیم کھیلنے کے لیے سگریٹوں کے خالی پیکٹ جمع کرتے تھے، مگر اس وقت میں ایک آنے میں بکنے والی فلمی کہانیوں کے خلاصے اور گانوں کی چھوٹی چھوٹی کتابیں (پمفلٹ) جمع کیا کرتا تھا۔ اس دور میں بندر روڈ پر پکچر ہاؤس کے نام سے ایک سینما تھا، اسی گلی میں ایک چھوٹی سی کتابوں کی دکان تھی جہاں فلمی گانوں کی چند صفحات پر مشتمل کتابیں ڈوری سے بندھی لٹکی رہتی تھیں، اس دکان پر بچوں کی کہانیاں اور لطیفوں کی کتابیں بھی خوب بکتی تھیں۔

میرے پاس پاکستانی اور ہندوستانی فلمی کہانیوں اور گانوں کی یہ پچاس سے زیادہ کتابیں جمع ہوگئی تھیں اور میں وقت نکال کر بڑے شوق سے پڑھا کرتا تھا اور کبھی کبھی اسکول میں بھی کلاس کے دوران کتاب میں چھپاکر پڑھ لیتا تھا۔ یہ کتابیں پڑھ کر مجھے یوں محسوس ہوتا تھا کہ جیسے میں نے بہت سی فلمیں دیکھ لی ہیں اور اس طرح فلمیں دیکھنے کا میرا شوق پورا ہو جاتا تھا، کیونکہ ہمارا بڑا ہی مذہبی گھرانہ تھا، فلم دیکھنا تو درکنار ریڈیو سے فلمی گانے سننے پر بھی والد صاحب کی طرف سے سخت پابندی تھی اور اس پابندی پر پورا گھرانہ عمل کیا کرتا تھا۔

فلموں کے گانے میں پڑوس کے گھروں میں جاکر ریڈیو سے سن لیا کرتا تھا اور اس طرح فلمی گانوں سے بھی میری دلچسپی بڑھنے لگی تھی اور پھر میں بڑی بے چینی کے ساتھ 14 اگست کے دن کا انتظار کیا کرتا تھا، کیونکہ اس زمانے میں 14 اگست کی بڑی ویلیو تھی، جشن آزادی کی خوشی میں شہر کے سارے سینماؤں میں 14 اگست کو مفت شو دکھائے جاتے تھے اور بے شمار بچے، بڑے اس دن ہر سینما میں فری شو دیکھا کرتے تھے۔ میں بھی اپنے اسکول کے دوستوں کے ساتھ بڑی شان اور آزادی کے ساتھ فلم شو دیکھنے جاتا تھا۔ اس فری فلم شو کی بھی میرے گھر والوں کو خبر نہیں ہوتی تھی۔

جب میں آٹھویں جماعت میں تھا، 13 اگست کی رات تھی، میں خوشی سے ساری رات جاگتا رہا، دوسرے دن سال بھر کے بعد مفت فلم شو دیکھنے کا دن آرہا تھا۔ میں نے فلم ''محل'' کی کہانی پڑھی تھی اور ان دنوں فلم ''محل'' بھی ایک سینما میں لگی ہوئی تھی اور فلم ''محل'' کا ایک گانا جس میں بار بار 'آئے گا، آئے گا، آئے گا' کی تکرار تھی، اسے سننے کی مجھے خواہش تھی۔ دوسرے دن جشن آزادی کا سورج طلوع ہوا اور میرا ذہن بھی روشن ہوگیا تھا، میں نے اپنے اسکول کے دو تین دوستوں کے ساتھ ایک سینما میں فلم محل کا مفت شو دیکھا۔ پورا ہال کھچاکھچ بھرا ہوا تھا۔

جب 'آئے گا' والا گیت آیا تو سارے سینما ہال میں سناٹا چھایا ہوا تھا۔ کیا گیت تھا، کیا موسیقی تھی اور کیا آواز تھی، جو دل میں اترتی چلی جارہی تھی، فلم کی کہانی تو میری سمجھ میں اس وقت زیادہ نہیں آئی مگر اس ایک گیت کی وجہ سے میں نے کالج میں آنے کے بعد بھی فلم محل کئی بار دیکھی تھی اور یہ اندازہ لگالیا تھا کہ اس گیت کے مکھڑے کی ایک لائن میں سات مرتبہ آئے گا کا لفظ ریپیٹ ہوا ہے اور یہ لفظ جب بھی ریپیٹ ہوتا تھا، ایک نیا ہی مزا دیتا تھا، ایک نیا سرور حاصل ہوتا تھا۔ وہ پورا گیت مجھے یاد ہوگیا تھا۔ نخشب جارچوی کا لکھا ہوا بہت ہی خوبصورت گیت ایک ایک لفظ موتیوں کی طرح جڑا ہوا تھا اور دلکشی بڑھاتا تھا۔ ایک انترہ قارئین کی بھی نذر کرتا ہوں۔

دیپک بغیر کیسے پروانے جل رہے ہیں

کوئی نہیں چلاتا اور تیر چل رہے ہیں

تڑپے گا کوئی کب تک بے آس بے سہارے

لیکن یہ کہہ رہے ہیں دل کے مرے اشارے

آئے گا، آئے گا، آنے والا آئے گا

فلم محل کے ہیرو اور فلمساز بھی اداکار اشوک کمار تھے اور ان کی ہیروئن اس دور کی بیوٹی کوئن اداکارہ مدھو بالا تھی، جب کہ فلم کے مصنف اور ہدایت کار کمال امروہوی تھے، موسیقار کھیم چند پرکاش تھے، جن کی لازوال موسیقی سے فلم ''محل'' کو کامیابی حاصل ہوئی تھی۔ یہ 1949ء کی فلم تھی، فلم کے جس سپرہٹ گیت سے لتا منگیشکر کو شہرت ملی تھی، اس کے بارے میں بھی بتاتا چلوں کہ موسیقار کھیم چند پرکاش سے پہلے بھی چند موسیقاروں نے جب لتا کو پہلی بار سنا تھا تو ان کی آواز کے بارے میں کہا تھا کہ لتا کی آواز بہت باریک ہے، یہ آواز پلے بیک سنگنگ کے لیے موزوں نہیں ہے۔

جب کہ کئی موسیقاروں نے لتا منگیشکر کو اپنے گیتوں کے لیے منع کرد یا تھا، مگر جب موسیقار کھیم چند پرکاش نے لتا کو سنا تو کہا، یہ آواز جب آگے چل کر اور کھلے گی تو بڑی بڑی آوازوں کو مات کر دے گی، اس آواز میں قدرتی سر ہے، گلے میں رچاؤ ہے، سوز و گداز ہے۔ اور پھر اسی موسیقار نے اپنی فلم محل کا اہم گیت لتا منگیشکر سے گوایا اور وہ گیت امر ہو گیا۔

اس گیت کی ریکارڈنگ کا بھی ایک دلچسپ قصہ ہے، جب یہ گیت اس دور میں ریکارڈ کیا گیا تو 'آئے گا، آئے گا' کے تاثر کو حقیقت کا رنگ دینے کے لیے لتا نے اس گیت کو چل چل کر ریکارڈ کرایا۔ یوں دھیمے سروں سے گیت آگے بڑھتا چلا جاتا ہے اور ریکارڈسٹ مائیک ساتھ لیے لیے لتا منگیشکر کے قدموں کو فالو کرتا ہے۔ بڑی محنت کے بعد یہ گیت OK ہوتا ہے اور پھر اس گیت کی سارے برصغیر میں دھوم مچ جاتی تھی اور اپنے وقت کے مشہور کلاسیکل سنگر دینا ناتھ کی بیٹی ایک دن انڈین فلم انڈسٹری کی لیجنڈ گلوکارہ بن جاتی ہے اور اس کی آواز خوشبو بن کر پھیلتی چلی جاتی ہے۔

اس میلوڈی کوئن نے اپنے کیریئر کا آغاز 1942ء میں کیا تھا۔ لتا کیسے سنگر بنی، اس کا بھی ایک دلچسپ قصہ ہے۔ لتا کے والد دینا ناتھ کی ایک میوزک تھیٹریکل کمپنی تھی۔ دینا ناتھ کے بے شمار لڑکے اور لڑکیاں شاگرد تھے۔ ایک دن دینا ناتھ کی ایک شاگرد لڑکی استاد کی غیر موجودگی میں گیت کی ریہرسل کر رہی تھی اور وہ صحیح جگہ نہیں لگا پا رہی تھی۔ لتا اس وقت بچی تھی۔

اس نے جب یہ دیکھا تو وہ اس شاگرد کے قریب آ کر بیٹھ گئی اور پھر اسے وہ گیت خود گا کر سنایا اور صحیح جگہ لگا کر بتائی۔ اسی دوران دینا ناتھ کمرے میں داخل ہوئے اور لتا کو گاتے ہوئے دیکھ کر دروازے ہی پر رک گئے۔ دینا ناتھ نے اپنی بچی کو اتنا اچھا گاتے ہوئے سنا تو آگے بڑھ کر اسے گلے لگا لیا اور کہا مجھے تو یہ پتہ ہی نہیں تھا کہ میری چھوٹی سی یہ بٹیا اتنی کم عمر میں اتنی گُنی ہے۔

اس دن کے بعد دینا ناتھ نے لتا کو باقاعدہ موسیقی کی تعلیم دینا شروع کی اور ایک دن کہا بیٹی تم بڑی گنی ہو، قدرت نے تمہارے گلے میں بڑے سر دیے ہیں، تم بڑی ہوکر سارے ہندوستان میں اپنی آواز کا جادو جگاؤ گی۔ اور پھر یہی ہوا۔ باپ کی پیش گوئی حقیقت کا روپ دھارگئی۔ لتا منگیشکر ایک لیجنڈ گلوکارہ بن کر ابھری اور یہ ایک ایسی گلوکارہ بنی، جس نے سب سے زیادہ فلموں کے سپر ہٹ گیت گائے اور اس نے نہ صرف برصغیر میں اپنا بلکہ اپنے باپ دینا ناتھ کا بھی نام روشن کیا۔ اب لتا منگیشکر ایک آواز ہی نہیں، ایک خوشبو کا نام ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔