دُنیا پر منڈلاتے خطرات کے سائے

جنوب مشرقی نائیجیریا کا ساحلی شہر اونیٹشا دنیا کا آلودہ ترین شہر قرار دیا گیا ہے۔

اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق اس وقت 748ملین سے زائد افراد صاف پانی کی سہولت سے محروم ہیں۔ فوٹو : فائل

PARACHINAR:
2016ء بہت پرتشدد سال گزرا جس میں انسانیت کو بے شمار خطرات کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ تسلسل آگے بڑھ رہا ہے کیونکہ ان مسائل اور مشکلات پر قابو نہیں پایا جا سکا اسی لئے دنیا کو اس سال بھی بہت سے خطرات اور چیلنجز کا سامنا رہے گا۔

موت بانٹتی آلودہ فضا
آلودگی دنیا بھر کے لئے بہت حساس اور خطرناک مسئلہ بن چکا ہے۔ پانچ سالوں میں فضائی آلودگی میں آٹھ فیصد اضافہ ہوا ہے۔ ڈبلیو ایچ او کی رپورٹ کے مطابق فضائی آلودگی سے اربوں افراد متاثر ہو رہے ہیں۔ مشرق وسطٰی، جنوب مشرقی ایشیا، اور بحرالکاہل کے مغربی ساحل کے ساتھ واقع شہروں میں فضائی آلودگی کا لیول ڈبلیو ایچ او کے معیار سے پانچ سے دس گنا زیادہ ہے۔ دنیا کے تیس آلودہ ترین شہروں میں بھارت کے سولہ شہر شامل ہیں، پاکستان کا ایک شہر ان آلودہ شہروں میں شامل ہے۔ چین میں ماحولیات کے حوالے سے بہتری آئی ہے اب اس کے پانچ شہر پہلے تیس آلودہ شہروں میں شامل ہیں۔

جنوب مشرقی نائیجیریا کا ساحلی شہر اونیٹشا دنیا کا آلودہ ترین شہر قرار دیا گیا ہے جو ڈبلیو ایچ او کے معیار سے تیس گنا زیادہ آلودہ ہے۔ دنیا بھر میں جنگوں اورنیوکلیر ہتھیاروں سے پھیلنے والی تباہی پر بہت فوکس کیا جاتا ہے مگر ایک بہت بڑی حقیقت کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے کہ فضائی آلودگی سے ہر سال تیس لاکھ سے زیادہ افراد موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں، ملیریا، ایڈز اور ایسی ہی دیگر بیماریوں سے مرنے والوں کی تعداد اس کے علاوہ ہے۔

فضائی آلودگی کا ایک بہت بڑا اثر موسم پر ہو رہا ہے جس سے موسم گرما طویل اور موسم سرما کا دورانیہ کم ہوتا جا رہا ہے جس کی وجہ سے آب و ہوا میں تبدیلی ہو رہی ہے اور سرد خطوں میں جانداروں کی زندگی کو بھی خطرات لاحق ہو گئے ہیں، گلیشیئرز پگھلنے سے سمندروں میں پانی کی سطح بلند ہو رہی ہے جس سے بہت سے ساحلی ممالک کے شہروں کا وجود مٹ جانے کا خطرہ ہے۔ فضائی آلودگی میں کمی کے لئے عالمی سطح کی کانفرنسیں ہوتی رہی ہیں مگر ان میں تجویز کئے گئے اقدامات پر مکمل طور پر عمل نہیں ہو سکا۔ یوں اس سال فضائی آلودگی دنیا بھر کے لئے ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔

بڑھتی غربت اور چند ہاتھوں میں مرتکز ہوتی دولت
دنیا کے دولت مند افراد کی فہرست دن بدن لمبی ہوتی جا رہی ہے تو اس سے یہ مت سمجھیں کہ انسانیت دولت مند ہوتی جا رہی ہے اور بھوک و افلاس کا خاتمہ ہو رہا ہے بلکہ صورتحال بالکل اس کے برعکس ہے۔ اس وقت دنیا کی آدھی آبادی یعنی3.6 بلین افراد غربت کی سطح سے بھی نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں جبکہ جتنی دولت ان ساڑے تین ارب سے زائد افراد کے پاس ہے اتنی دنیا کے صرف 62 افراد اپنے قبضے میں کئے ہوئے ہیں۔ گویا وہ ساڑھے تین ارب افراد کے برابر وسائل پر پنجے جمائے بیٹھے ہیں اور یہ اربوں افراد ایک وقت کی روٹی کھا کر گزارہ کر رہے ہیں۔

افسوسناک پہلو یہ ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ امیر اور غریب کے درمیان فرق میں اضافہ ہو رہا ہے۔2015ء میں دنیا کی آدھی غریب ترین آبادی کے برابر دولت 80 افراد کے یہاں مرتکز تھی جو اگلے سال 62 افراد کے پاس مرتکز ہو چکی تھی، سرمایہ دارانہ نظام کا ایک گھن چکر ہے جو امیر کو امیر تر کرتا جا رہا ہے۔ دوسری طرف جب ورکروں اور افسروں کی آمدن کا جائزہ لیں تو وہاں بھی صورتحال بہت خراب ہے، سی ای او لیول کے افسروں کی تنخواہوں میں اضافہ ورکروں سے کہیں زیادہ ہے اور ورکر معمولی اضافے اور مہنگائی بڑھنے سے دن بدن معاشی طور پر کمزور ہو رہا ہے۔ دنیا بھر کے لئے یہ لمحہ فکریہ ہے کیونکہ دنیا میں بڑھتی ہوئی غربت کا نتیجہ کبھی نہ کبھی امیر اور غریب کے ٹکراؤ کی صورت میں نکل سکتا ہے۔

امن مٹانے پر تل گئی دہشت گردی
دنیا کے امن کو سب سے زیادہ خطرہ بڑھتی ہوئی دہشت گردی سے ہے جو تمام تر کوششوں کے باوجود بڑھتی جا رہی ہے۔ داعش، القاعدہ اور بوکوحرام جیسے گروپ پوری دنیا میں متحرک ہیں۔ یہ گروپ دنیا کے کسی بھی ملک میں دہشت گردی کی کاروائیاں کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ داعش عراق اور شام کے ساتھ ایک بہت بڑے علاقے پر قابض ہو چکی ہے، اسی طرح یہ دونوں گروپ شام کی جنگ میں بھی متحرک ہیں اور افسوسناک پہلو یہ ہے کہ امریکا وہاں اپنے مخصوص مفادات کے تحت تمام جنگجو گروپوں کی حمایت کر رہا ہے۔

دہشت گردی پھیلانے والے گروہ نہ صرف وسائل مہیا کرنے کے ماہر ہیں بلکہ گاہے بگاہے نئے افراد بھی ان میں شامل ہوتے رہتے ہیں جس کی وجہ وہ نظریات ہیں جو انھیں دنیا پر غلبہ پانے والی طاقتوں کے خلاف لڑنے پر اکستاتے ہیں۔ سوشل میڈیا کے جہاں بہت سے فوائد ہیں وہیں دہشت گردوں کا پیغام پھیلانے میں نمایاں کردار ادا کر رہا ہے۔ دنیا کی واحد سپر پاور کہلانے والے امریکا کے لئے ایک بہت بڑا خطرہ اس کے اپنے اندر پنپنے والی انتہا پسندی ہے جس کی وجہ سے گاہے بگاہے سان برناڈینو اور چٹانوگا جیسے فائرنگ کے واقعات پیش آتے رہتے ہیں جن میں درجنوں افراد مارے گئے، ایسے واقعات کے پیچھے بھی دہشت گرد گروپوں کا ہاتھ بتایا جاتا ہے، جبکہ کچھ واقعات میں ثابت ہوا کہ فائرنگ کرنے والے افراد نے ایسا مخصوص نظریات کی وجہ پر کیا۔


ایک آدم کی اولاد پھر بھی نسلی منافرت
دنیا کے بہت سے ممالک میں ایسے افراد برسراقتدار آ رہے ہیں یا اقتدار میں آنے کا امکان ہے جو قوم پرستانہ رجحان رکھتے ہیں اور اس بنیاد پر نفرت پھیلانے کا باعث بن رہے ہیں، ان میں نمایاں ترین بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی ہیں گو وہ 2016ء سے پہلے اقتدار میں آئے مگر ان کا تذکرہ اس لئے ضروری ہے کہ بھارت میں انتہا پسندانہ رحجانات کو عروج تک پہنچانے میں ان کا غیر معمولی کردار ہے۔ وہ انتہاپسندانہ تنظیموں سے تعلق کی وجہ سے دوسرے ممالک کو دھمکیاں دینا گویا اپنا فرض سمجھتے ہیں۔

ان کے برسر اقتدار آتے ہی بھارت میں آباد اقلیتوں کا جینا دوبھر ہو گیا ہے اور مقبوضہ کشمیر کی صورتحال سب کے سامنے ہے۔ امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے نسل پرستی کی بنیاد پر اپنا الیکشن کامیاب بنایا، انھوں نے انتخابی مہم کے دوران تمام غیر ملکیوں کے خلاف زہر اگلا اور انھیں امریکا کے لئے بہت بڑا بوجھ اور تمام مسائل کی جڑ قرار دیا اور کہا کہ وہ اقتدار میں آنے کے بعد غیر ملکیوں کو یہاں سے نکال باہر پھینکیں گے اور اسے امریکا کے وسیع تر مفاد میں قرار دیا۔ وہ امریکا جہاں دنیا بھر سے آئے ہوئے افراد بستے ہیں جس کی بنیاد پر اسے ایک چھوٹی سی دنیا قرار دیا جا سکتا ہے وہاں اب نسل پرستانہ رحجانات کا فروغ ہو رہا ہے جو ڈونلڈ ٹرمپ کی کامیابی سے ثابت ہو گیا ہے۔

برطانیہ میں یوکے انڈی پینڈینس پارٹی کا قوم پرست رہنما نیل فراج بھی نسل پرستانہ نظریات کا مالک ہے۔ اسی کی پروپیگنڈا مہم اور تقریروں نے ''برایگزٹ'' (Brexit) کو جنم دیا، یوں برطانیہ نے یورپی یونین کو خیرباد کہہ دیا۔ نیل نے ٹرمپ کی فتح پر مسّرت کا اظہار کیا۔ ہنگری کے وزیراعظم وکٹر اوربان بھی کٹر قوم پرست ہیں۔ یہ پہلے یورپی لیڈر ہیں جنھوں نے ٹرمپ کو بطور صدارتی امیدوار سراہا اور اس کی جیت کو عیسائی سفید فاموں کے لیے نئی امید قرار دیا۔ فرانس میں مارین لی پن مقبول ہیں جو ایک قوم پرست اور قدامت پسند پارٹی، فرنٹ نیشنل کی لیڈر ہیں۔ فرانس میں صدارتی الیکشن اسی سال ہو رہے ہیں۔ ماہرین سیاسیات کے مطابق وہ یہ الیکشن جیت سکتی ہیں۔ مارین بھی مسلم مہاجرین کی آمد روکنا چاہتی ہیں۔

یورپی یونین کو بھی خیر باد کہنا چاہتی ہیں تاکہ فرانس کو ''دوبارہ عظیم'' بنایا جاسکے۔ جرمنی میں الیکشن ہونے والے ہیں۔ انجیلا مرکل نے چوتھی بار وفاقی الیکشن لڑنے کا اعلان کردیا ہے۔ یورپ میں قوم پرستی کی لہر چل رہی ہے جو ان کی شکست کا باعث بھی بن سکتی ہے۔جرمن قوم پرست لیڈر مسلسل پروپیگنڈا کر رہے ہیں کہ ملک میں مسلمانوں کی بڑھتی تعداد کے باعث ان کا مذہب، تہذیب و ثقافت اور اقدار خطرے میں ہیں اور مسلمان ایک نہ ایک دن جرمنوں کو خود ان کے وطن میں اقلیت بنادیں گے۔ اٹلی میں ریفرنڈم میں وزیر اعظم ماتیور نزی کی شکست سے قوم پرست جماعتوں کی فتح ہوئی۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگلے الیکشن میں اطالوی قوم پرست جیت سکتے ہیں۔ہالینڈ میں قوم پرست، خیرت ویلدرس (Geert Wilders) کی مقبولیت کا گراف کافی بلند ہے۔ وہ پارٹی آف فریڈم کے سربراہ ہیں۔

خیال ہے کہ اگلے سال کے پارلیمانی انتخابات میں یہ پارٹی برسراقتدار آسکتی ہے۔ یہ شخص ہالینڈ میں مساجد اور اسلامی علامات ہی نہیں قرآن پاک پڑھنے پر بھی پابندی لگانا چاہتا ہے۔ پارٹی یورپی یونین کو بھی خیرباد کہہ کر ہر قسم کی غیر ملکی امداد روک دینا چاہتی ہے۔آسٹریا میں آسٹریائی ڈونلڈ ٹرمپ کہلانے والے قوم پرست نوربرت ہومز کا شہرہ ہے۔ یہ قوم پرست اور قدامت پسند جماعت، فریڈم پارٹی کے صدر ہیں۔ وہ یہ اعلان کر چکے ہیں کہ اگر ترکی یورپی یونین میں شامل ہوا تو آسٹریا یہ اتحاد چھوڑ دے گا۔ دنیا بھر میں نسل پرست لیڈروں کے عروج سے نسلی منافرت بڑھ رہی ہے جس سے قتل و غارت کا خطرہ رہے گا۔

داخلی ریاستی انتشار اور ٹکراؤ، امن تہہ وبالا کر دے گا
ریاستوں کا ٹکراؤ اور وہاں مسلح گروہوں کا عروج دنیا بھر کے لئے بہت بڑا خطرہ ہے، ان ریاستوں میں شام، یمن، افغانستان، یوکرین، سنٹرل افریقن ری پبلک اور سوڈان شامل ہے۔ شام میں ہونے والی لڑائی دنیا کی سب سے خونی لڑائی شمار کی جا رہی ہے جس میں 210000 سے زائد افراد جاں بحق ہو چکے ہیں۔ داخلی انتشار اور خانہ جنگی کی شکار ریاستوں کی وجہ سے ہمسایہ ممالک بھی بری طرح متاثر ہو رہے ہیں، گویا ان ممالک میں لگی ہوئی آگ انھیں بھی جھلسانے لگی ہے اور اپنے دفاع میں اٹھائے ہوئے ہتھیاروں نے انھیں بھی اس لڑائی کا حصہ بنا دیا ہے، جیسے یمن اور شام کی لڑائی کی وجہ سے سعودی عرب بری طرح متاثر ہوا اور وہ لڑائی میں حصہ لینے پر مجبور ہو گیا۔

سب سے خطرناک پہلو عالمی طاقتوں کی مداخلت ہے جو ایسی لڑائیوں کو اپنے مخصوص مقاصد کی وجہ سے ہوا دے رہے ہیں، بظاہر امن قائم کرنے کی باتیں کی جاتی ہیں۔ ان ریاستوں میں داخلی لڑائیوں کی وجہ سے چالیس لاکھ سے زائد افراد کو نقل مکانی کرنا پڑی، نقل مکانی کے دوران ہزاروں لوگ اپنی جان سے گئے۔ جبکہ پڑوسی ممالک ان مہاجرین کو مجبوراً قبول کر رہے ہیں، بہت سے ممالک نے ان مہاجرین کو اپنی سلامتی کے لئے خطرہ قرار دے کر داخلے کی اجازت نہ دی اور وہ بے رحم سمندر کی لہروں کی نذر ہو گئے۔ اس سال بھی ان ریاستوں کا داخلی انتشار اور امن و امان کی صورتحال دنیا کے لئے بہت بڑا چیلنج ہو گی۔

کمیاب ہوتا صاف پانی
آبادی میں اضافہ اور صنعتی ترقی سے جہاں دیگر بہت سے مسائل پیدا ہو ئے ہیں وہیں صاف پانی میں بھی دن بدن کمی ہوتی جا رہی ہے۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق اس وقت 748ملین سے زائد افراد صاف پانی کی سہولت سے محروم ہیں۔ صرف بھارت کی اسی فیصد آبادی زیر زمین آلودہ پانی پینے پر مجبور ہے۔ اگر مختلف ممالک نے صاف پانی کی کمی کو دور کرنے کے لئے بھرپور اقدامات نہ کئے گئے تو اگلے پندرہ برسوں میں پانی میں چالیس فیصد کمی ہو جائے گی۔

جس سے خاص طور پر مڈل ایسٹ، سنٹرل ایشیا اور افریقہ بری طرح متاثر ہوں گے،رپورٹ کے مطابق اگر رواں صدی کے نصف تک اگر مسائل کنٹرول کرنے میں کامیابی نہ ہوئی تو بارشوں اور پانی کے دیگر ذرائع کم ہونے سے صورتحال بہت خطرناک صورتحال اختیار کر لے گی جس سے بیماریاں پھیلیں گی اور خوراک میں کمی ہو جائے گی اس لئے واٹر پالیسی پر سختی سے عمل کی ضرورت ہے۔
Load Next Story