بان شان سے رخصت ہوئے
سینڈریلا کی کہانی ہم میں سے اکثر لوگوں کو یاد ہے
سینڈریلا کی کہانی ہم میں سے اکثر لوگوں کو یاد ہے۔ وہ خوش جمال لڑکی جو سوتیلے رشتوں میں گھری ہوئی تھی اور اپنی سوتیلی ماں اور بہنوں کے ستم سہہ رہی تھی۔ موسم سرما میں بھی ٹھنڈے فرش پر سونا، بچا کچا کھانا اس کا مقدر تھا اور سارے گھر کو محنت اور مشقت سے چمکائے رکھنا، کھانے پکانا، غرض ہر کام اس کی ذمے داری تھی۔
اس کہانی سے واقف لوگ جانتے ہیں کہ ایک پری نے جادو کی چھڑی گھما کر کس طرح چند گھنٹوں کے لیے اس کی زندگی بدل دی تھی اور اس کے بعد بھی کہانی میں کئی نشیب و فراز آتے ہیں لیکن پریوں کی کہانیوں کا اختتام تو اسی جملے پر ہوتا ہے کہ اور پھر کہانی کے کردار ہنسی خوشی زندگی گزارتے رہے۔
یہ کہانی بچپن سے ذہن پر نقش ہے، اسی لیے جب اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے دس برس کے نہایت مشکل اور تھکا دینے والے دنوں کے اختتام پر یہ کہا کہ مجھے اپنی زندگی پریوں کی کوئی کہانی لگتی ہے تو مجھے خوش گوار حیرت ہوئی۔ انھوں نے اپنے اسٹاف سے الوداعی ملاقات میں کہا کہ مجھے یوں محسوس ہورہا ہے جیسے میں سینڈریلا ہوں اور کل 12 بجے رات کو جب میں اپنے عہدے سے سبک دوش ہو جاؤں گا تو میری زندگی مکمل طور پر تبدیل ہوجائے گی۔
ہوسکتا ہے کہ ہم ان کے بیان سے اتفاق نہ کریں لیکن یہ بات تو ہم سب کو تسلیم کرنی ہوگی کہ انھوں نے ابتدا سے ایک مشقت طلب زندگی گزاری اور جب وہ دو مرتبہ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل منتخب ہوئے تو دنیا میں جتنے پیچیدہ مسائل تھے اور ان مسائل کو سلجھانے کے لیے دن رات ایک کردینے کی جدوجہد کچھ اس طرح تھی جیسے کوئی شخص گہری کھائی پر تنے ہوئے رسے پر اپنا توازن برقرار رکھتے ہوئے چل رہا ہو۔ اب سے ایک ہفتہ پہلے وہ اس صبر آزما مرحلے کو طے کرسکے۔
بان کی مون کی تصویروں پر نظر ڈالیے تو یہی محسوس ہوتا ہے کہ ہم کسی جاپانی کو دیکھ رہے ہیں لیکن بان کوریا کے باشندے ہیں۔ دوسری جنگ عظیم ختم ہورہی تھی تب وہ پیدا ہوئے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب کوریا پر جاپانیوں کا قبضہ تھا۔ ان کے والد کاروبار کرتے تھے لیکن جنگ عظیم اور جاپانیوں کے قبضے کی وجہ سے یہ ملک دیوالیہ ہوچکا تھا۔ جان بچانے کی خاطر یہ خاندان اپنے دیہاتی مکان سے بھاگ کر پہاڑوں میں پناہ لینے پر مجبور ہوا۔
آدھے درجن بھائی بہنوں کے درمیان بان اس وقت 6 برس کے تھے اور اس جنگ سے نفرت کرتے تھے جس نے ان سے ان کا گھر، آنگن میں پھرتی ہوئی مرغیاں اور بکریوں سے محروم کردیا تھا۔ یہ انڈوں، دودھ اور تازہ سبزیوں سے محرومی تھی۔ بان کا گھرانا 3 برس تک پہاڑوں میں چھپا رہا۔ یہاں شمالی یا جنوبی کوریا کے فوجی ان کے تعاقب میں نہیں پہنچ سکتے تھے لیکن بھوک سے ان کو نجات نہیں تھی۔ بان کو اسی بات کا بہت دنوں تک احساس رہا کہ جب آپ کو پیٹ بھر کر کھانا نہیں ملتا تو یہ بھوک ہوتی ہے جو آپ کو کھانے لگتی ہے۔ ایک بار بی بی سی کو انٹرویو دیتے ہوئے انھوں نے کہا تھا کہ ہم کوریا والوں نے واقعی جنگ کی راکھ سے نیا جنم لیا ہے۔
خراب حالات میں جانے کس طرح یہ بات ان کی سمجھ میں آگئی کہ انگریزی زبان کو سیکھنا انھیں تمام مشکلوں سے نجات دلائے گا۔ یہ سوچ کر وہ دیوانوں کی طرح انگریزی سیکھنے کی اور انگریزی میں لکھنے کی کوشش کرنے لگے۔ اسے محض اتفاق کہیے کہ جب وہ نو عمر تھے تو ان کی کلاس سے کہا گیا کہ وہ اس وقت اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل ڈیگ ہیمر شولڈ کے نام ایک خط لکھے جس میں یہ لکھا جائے کہ وہ ہنگری پر سوویت یونین کے قبضے کو ختم کرانے کی کوشش کریں۔
اس وقت ان کے استاد یا خود بان یہ نہیں جانتے تھے کہ کچھ دن جاتے ہیں جب وہ خود اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل ہوں گے اور دنیا کے مختلف ملکوں کے درمیان ایسے ہی پیچیدہ تنازعات کو حل کرانے اور ثالثی کرانے کی ذمے داری ان کی ہوگی۔ وہ نوجوانی کے دور میں قدم رکھ رہے تھے جب امریکی ریڈ کراس کی طرف سے ایک تحریری مقابلہ انھوں نے جیتا اور وہ امریکا بھیجے گئے۔ وہاں ان کی ملاقات اس وقت کے امریکی صدر جان ایف کینیڈی سے کرائی گئی۔
وائٹ ہاؤس اور اس کا اوول آفس جہاں وہ دنیا کی عظیم عالمی طاقت امریکا کے صدر کے سامنے کھڑے تھے، وہ اس سے ہاتھ ملا رہے تھے اور کینیڈی ان کی پشت تھپتھپاتے ہوئے انھیں زندگی میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے کہہ رہے تھے۔ تین برس تک جان کے خوف سے پہاڑوں میں زندگی گزارنے اور بھوک سے مقابلہ کرنے والے بچے کے لیے یہ ایک ناقابل یقین لمحہ تھا۔ یہی لمحہ تھا جب انھوں نے طے کیا کہ وہ اپنی آئندہ زندگی میں ایک ڈپلومیٹ کا کیریئر اختیار کریں گے۔
یہی عزم تھا جسے اپنے سینے میں پرورش کرتے ہوئے انھوں نے کوریائی فارن سروس کا امتحان پاس کیا۔ 1972ء سے 1978ء تک وہ کوریائی فارن سروس کی طرف سے ہندوستان میں مختلف عہدوں پر کام کرتے رہے۔ اسی دوران 1985ء میں انھوں نے ہارورڈ یونیورسٹی سے پبلک ایڈمنسٹریشن میں ایم اے کیا اور اس کے بعد وہ جنوبی کوریا کی فارن سروس میں کام کرتے رہے۔ وہ جنوبی کوریا کے وزیر خارجہ کی حیثیت سے چین، جاپان، روس، امریکا کے علاوہ شمالی اور جنوبی کوریا سے ایٹمی ہتھیاروں کے پھیلاؤ جیسے نازک اور اہم مسئلے پر بات چیت میں شریک رہے تھے۔ ایک کامیاب اور نیک نام ڈپلومیٹ کی زندگی گزار کر وہ اکتوبر 2006ء میں دنیا کے اہم ترین عہدے تک پہنچے اور چند دنوں پہلے دو مدتیں گزار کر عزت و احترام کے ساتھ اپنے عہدے سے رخصت ہوئے ہیں۔
دس برس کی مدت پر مشتمل عہدے کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ یہ مدت نہ ختم ہونے والے امتحان کی طرح تھی۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ قوموں کی اجتماعی کوششوں سے لاکھوں لوگوں کی زندگیاں بہتر ہوئیں لیکن انھیں سب سے زیادہ صدمہ اس بات کا تھا کہ شام کی جنگ چھٹے برس میں داخل ہوچکی ہے۔ اسی طرح وہ جنوبی سوڈان، یمن، سینٹرل افریقن ری پبلک اور کونگو کے حالات کی وجہ سے بھی دل گرفتہ تھے۔ انھوں نے دنیا کے مختلف صدور، وزرائے اعظم اور بادشاہوں پر کھل کر تنقید کی کہ دنیا کے بہت سے علاقے ان کی وجہ سے شدید تناؤ اور لڑائیوں کا شکار ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جنھیں اپنے لوگوں کی زندگیوں اور فلاح و بہبود سے کہیں زیادہ اپنا اقتدار عزیز ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اپنے عہدے سے سبک دوش ہونے کے باوجود وہ دنیا کے ان حکمرانوں پر زور ڈالتے رہیں گے اور یہی کہیں گے کہ اگر وہ اکیسویں صدی کے حقائق کو سمجھیں اور اپنے اقتدار کا خیال کرنے کے بجائے اپنے لوگوں کی فلاح و بہبود کو سامنے رکھیں تو دنیا ایک بہت بہتر جگہ ہوسکتی ہے۔
اس دوران جب وہ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل تھے، انھوں نے موسمیاتی تبدیلی کو نہایت اہمیت دی۔ وہ جانتے تھے کہ یہ دوچار ملکوں کا نہیں ساری دنیا کا مسئلہ ہے اور اگر ہم نے سنجیدگی سے اس مسئلے کو حل کرنے کی کوشش نہ کی تو ہم اپنے ہاتھوں سے دنیا کی تباہی کا منظرنامہ لکھیں گے جو نہایت بھیانک ہوگا۔ اسی طرح انھوں نے صنفی مساوات کے لیے بھی ان تھک کام کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ دنیا کی نصف آبادی کو حقوق سے محروم رکھ کر ہم ایک خوش حال اور خوب صورت دنیا کیسے تعمیر کرسکتے ہیں۔
اپنے دوسرے دور میں بھی انھوں نے عالمی موسمیاتی معاہدے کو منظور کرانے کے لیے شب و روز محنت کی۔ یہ معاہدہ دسمبر 2015ء میں پیرس ایگریمنٹ کے نام سے سامنے آیا۔
ان کی جہاں بہت تعریف و توصیف ہوئی وہیں انھیں چین اور روس میں انسانی حقوق کی صورت حال پر سخت موقف اختیار نہ کرنے کے حوالے سے کڑی تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ اب جب کہ وہ دس برس کا نہایت مشکل عرصہ گزار کر اپنی ذمے داریوں سے سبک دوش ہوگئے ہیں، ان کے بارے میں یہ خیال عام ہے کہ وہ جنوبی کوریا واپس چلے جائیں گے اور اس بات کا بھی قوی امکان موجود ہے کہ وہ اپنے ملک کے اگلے صدر منتخب ہوجائیں گے۔
ان کی آئندہ زندگی کیا رخ اختیار کرتی ہے، اس سے قطع نظر لوگ انھیں ایک ایسے شخص کے طور پر یاد کریں گے جو مختلف ملکوں اور قوموں کے درمیان پل تعمیر کرتا رہا، انھوں نے 6 برس کی عمر سے خود غربت اور بھوک جھیلی تھی، اسی لیے وہ امیروں اور غریبوں کے درمیان تفاوت کو کم سے کم کرنے کے خواہاں رہے۔ وہ بھوک کے دشمن جانی ہیں، ان کا کہنا ہے کہ جنگ، بھوک اور نابرابری تمام خرابیوں کی جڑ ہے۔ ان مسائل کے خاتمے تک دنیا میں امن اور استحکام کا قیام ممکن نہیں۔
اس کہانی سے واقف لوگ جانتے ہیں کہ ایک پری نے جادو کی چھڑی گھما کر کس طرح چند گھنٹوں کے لیے اس کی زندگی بدل دی تھی اور اس کے بعد بھی کہانی میں کئی نشیب و فراز آتے ہیں لیکن پریوں کی کہانیوں کا اختتام تو اسی جملے پر ہوتا ہے کہ اور پھر کہانی کے کردار ہنسی خوشی زندگی گزارتے رہے۔
یہ کہانی بچپن سے ذہن پر نقش ہے، اسی لیے جب اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے دس برس کے نہایت مشکل اور تھکا دینے والے دنوں کے اختتام پر یہ کہا کہ مجھے اپنی زندگی پریوں کی کوئی کہانی لگتی ہے تو مجھے خوش گوار حیرت ہوئی۔ انھوں نے اپنے اسٹاف سے الوداعی ملاقات میں کہا کہ مجھے یوں محسوس ہورہا ہے جیسے میں سینڈریلا ہوں اور کل 12 بجے رات کو جب میں اپنے عہدے سے سبک دوش ہو جاؤں گا تو میری زندگی مکمل طور پر تبدیل ہوجائے گی۔
ہوسکتا ہے کہ ہم ان کے بیان سے اتفاق نہ کریں لیکن یہ بات تو ہم سب کو تسلیم کرنی ہوگی کہ انھوں نے ابتدا سے ایک مشقت طلب زندگی گزاری اور جب وہ دو مرتبہ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل منتخب ہوئے تو دنیا میں جتنے پیچیدہ مسائل تھے اور ان مسائل کو سلجھانے کے لیے دن رات ایک کردینے کی جدوجہد کچھ اس طرح تھی جیسے کوئی شخص گہری کھائی پر تنے ہوئے رسے پر اپنا توازن برقرار رکھتے ہوئے چل رہا ہو۔ اب سے ایک ہفتہ پہلے وہ اس صبر آزما مرحلے کو طے کرسکے۔
بان کی مون کی تصویروں پر نظر ڈالیے تو یہی محسوس ہوتا ہے کہ ہم کسی جاپانی کو دیکھ رہے ہیں لیکن بان کوریا کے باشندے ہیں۔ دوسری جنگ عظیم ختم ہورہی تھی تب وہ پیدا ہوئے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب کوریا پر جاپانیوں کا قبضہ تھا۔ ان کے والد کاروبار کرتے تھے لیکن جنگ عظیم اور جاپانیوں کے قبضے کی وجہ سے یہ ملک دیوالیہ ہوچکا تھا۔ جان بچانے کی خاطر یہ خاندان اپنے دیہاتی مکان سے بھاگ کر پہاڑوں میں پناہ لینے پر مجبور ہوا۔
آدھے درجن بھائی بہنوں کے درمیان بان اس وقت 6 برس کے تھے اور اس جنگ سے نفرت کرتے تھے جس نے ان سے ان کا گھر، آنگن میں پھرتی ہوئی مرغیاں اور بکریوں سے محروم کردیا تھا۔ یہ انڈوں، دودھ اور تازہ سبزیوں سے محرومی تھی۔ بان کا گھرانا 3 برس تک پہاڑوں میں چھپا رہا۔ یہاں شمالی یا جنوبی کوریا کے فوجی ان کے تعاقب میں نہیں پہنچ سکتے تھے لیکن بھوک سے ان کو نجات نہیں تھی۔ بان کو اسی بات کا بہت دنوں تک احساس رہا کہ جب آپ کو پیٹ بھر کر کھانا نہیں ملتا تو یہ بھوک ہوتی ہے جو آپ کو کھانے لگتی ہے۔ ایک بار بی بی سی کو انٹرویو دیتے ہوئے انھوں نے کہا تھا کہ ہم کوریا والوں نے واقعی جنگ کی راکھ سے نیا جنم لیا ہے۔
خراب حالات میں جانے کس طرح یہ بات ان کی سمجھ میں آگئی کہ انگریزی زبان کو سیکھنا انھیں تمام مشکلوں سے نجات دلائے گا۔ یہ سوچ کر وہ دیوانوں کی طرح انگریزی سیکھنے کی اور انگریزی میں لکھنے کی کوشش کرنے لگے۔ اسے محض اتفاق کہیے کہ جب وہ نو عمر تھے تو ان کی کلاس سے کہا گیا کہ وہ اس وقت اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل ڈیگ ہیمر شولڈ کے نام ایک خط لکھے جس میں یہ لکھا جائے کہ وہ ہنگری پر سوویت یونین کے قبضے کو ختم کرانے کی کوشش کریں۔
اس وقت ان کے استاد یا خود بان یہ نہیں جانتے تھے کہ کچھ دن جاتے ہیں جب وہ خود اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل ہوں گے اور دنیا کے مختلف ملکوں کے درمیان ایسے ہی پیچیدہ تنازعات کو حل کرانے اور ثالثی کرانے کی ذمے داری ان کی ہوگی۔ وہ نوجوانی کے دور میں قدم رکھ رہے تھے جب امریکی ریڈ کراس کی طرف سے ایک تحریری مقابلہ انھوں نے جیتا اور وہ امریکا بھیجے گئے۔ وہاں ان کی ملاقات اس وقت کے امریکی صدر جان ایف کینیڈی سے کرائی گئی۔
وائٹ ہاؤس اور اس کا اوول آفس جہاں وہ دنیا کی عظیم عالمی طاقت امریکا کے صدر کے سامنے کھڑے تھے، وہ اس سے ہاتھ ملا رہے تھے اور کینیڈی ان کی پشت تھپتھپاتے ہوئے انھیں زندگی میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے کہہ رہے تھے۔ تین برس تک جان کے خوف سے پہاڑوں میں زندگی گزارنے اور بھوک سے مقابلہ کرنے والے بچے کے لیے یہ ایک ناقابل یقین لمحہ تھا۔ یہی لمحہ تھا جب انھوں نے طے کیا کہ وہ اپنی آئندہ زندگی میں ایک ڈپلومیٹ کا کیریئر اختیار کریں گے۔
یہی عزم تھا جسے اپنے سینے میں پرورش کرتے ہوئے انھوں نے کوریائی فارن سروس کا امتحان پاس کیا۔ 1972ء سے 1978ء تک وہ کوریائی فارن سروس کی طرف سے ہندوستان میں مختلف عہدوں پر کام کرتے رہے۔ اسی دوران 1985ء میں انھوں نے ہارورڈ یونیورسٹی سے پبلک ایڈمنسٹریشن میں ایم اے کیا اور اس کے بعد وہ جنوبی کوریا کی فارن سروس میں کام کرتے رہے۔ وہ جنوبی کوریا کے وزیر خارجہ کی حیثیت سے چین، جاپان، روس، امریکا کے علاوہ شمالی اور جنوبی کوریا سے ایٹمی ہتھیاروں کے پھیلاؤ جیسے نازک اور اہم مسئلے پر بات چیت میں شریک رہے تھے۔ ایک کامیاب اور نیک نام ڈپلومیٹ کی زندگی گزار کر وہ اکتوبر 2006ء میں دنیا کے اہم ترین عہدے تک پہنچے اور چند دنوں پہلے دو مدتیں گزار کر عزت و احترام کے ساتھ اپنے عہدے سے رخصت ہوئے ہیں۔
دس برس کی مدت پر مشتمل عہدے کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ یہ مدت نہ ختم ہونے والے امتحان کی طرح تھی۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ قوموں کی اجتماعی کوششوں سے لاکھوں لوگوں کی زندگیاں بہتر ہوئیں لیکن انھیں سب سے زیادہ صدمہ اس بات کا تھا کہ شام کی جنگ چھٹے برس میں داخل ہوچکی ہے۔ اسی طرح وہ جنوبی سوڈان، یمن، سینٹرل افریقن ری پبلک اور کونگو کے حالات کی وجہ سے بھی دل گرفتہ تھے۔ انھوں نے دنیا کے مختلف صدور، وزرائے اعظم اور بادشاہوں پر کھل کر تنقید کی کہ دنیا کے بہت سے علاقے ان کی وجہ سے شدید تناؤ اور لڑائیوں کا شکار ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جنھیں اپنے لوگوں کی زندگیوں اور فلاح و بہبود سے کہیں زیادہ اپنا اقتدار عزیز ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اپنے عہدے سے سبک دوش ہونے کے باوجود وہ دنیا کے ان حکمرانوں پر زور ڈالتے رہیں گے اور یہی کہیں گے کہ اگر وہ اکیسویں صدی کے حقائق کو سمجھیں اور اپنے اقتدار کا خیال کرنے کے بجائے اپنے لوگوں کی فلاح و بہبود کو سامنے رکھیں تو دنیا ایک بہت بہتر جگہ ہوسکتی ہے۔
اس دوران جب وہ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل تھے، انھوں نے موسمیاتی تبدیلی کو نہایت اہمیت دی۔ وہ جانتے تھے کہ یہ دوچار ملکوں کا نہیں ساری دنیا کا مسئلہ ہے اور اگر ہم نے سنجیدگی سے اس مسئلے کو حل کرنے کی کوشش نہ کی تو ہم اپنے ہاتھوں سے دنیا کی تباہی کا منظرنامہ لکھیں گے جو نہایت بھیانک ہوگا۔ اسی طرح انھوں نے صنفی مساوات کے لیے بھی ان تھک کام کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ دنیا کی نصف آبادی کو حقوق سے محروم رکھ کر ہم ایک خوش حال اور خوب صورت دنیا کیسے تعمیر کرسکتے ہیں۔
اپنے دوسرے دور میں بھی انھوں نے عالمی موسمیاتی معاہدے کو منظور کرانے کے لیے شب و روز محنت کی۔ یہ معاہدہ دسمبر 2015ء میں پیرس ایگریمنٹ کے نام سے سامنے آیا۔
ان کی جہاں بہت تعریف و توصیف ہوئی وہیں انھیں چین اور روس میں انسانی حقوق کی صورت حال پر سخت موقف اختیار نہ کرنے کے حوالے سے کڑی تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ اب جب کہ وہ دس برس کا نہایت مشکل عرصہ گزار کر اپنی ذمے داریوں سے سبک دوش ہوگئے ہیں، ان کے بارے میں یہ خیال عام ہے کہ وہ جنوبی کوریا واپس چلے جائیں گے اور اس بات کا بھی قوی امکان موجود ہے کہ وہ اپنے ملک کے اگلے صدر منتخب ہوجائیں گے۔
ان کی آئندہ زندگی کیا رخ اختیار کرتی ہے، اس سے قطع نظر لوگ انھیں ایک ایسے شخص کے طور پر یاد کریں گے جو مختلف ملکوں اور قوموں کے درمیان پل تعمیر کرتا رہا، انھوں نے 6 برس کی عمر سے خود غربت اور بھوک جھیلی تھی، اسی لیے وہ امیروں اور غریبوں کے درمیان تفاوت کو کم سے کم کرنے کے خواہاں رہے۔ وہ بھوک کے دشمن جانی ہیں، ان کا کہنا ہے کہ جنگ، بھوک اور نابرابری تمام خرابیوں کی جڑ ہے۔ ان مسائل کے خاتمے تک دنیا میں امن اور استحکام کا قیام ممکن نہیں۔