ٹریفک یا Terrific ۔
دن کے چوبیس گھنٹوں میں ہمارے اکثر برسرروزگار شہری دو سے چار گھنٹے بلاشبہ سفر میں یعنی سڑک پر سوار ہوتے ہیں
اکثر ایسا ہوتا ہے کہ کاروباری افراد، ملازمت پیشہ لوگ، اسکولوں کالجوں کے طلبہ اور دیگر شہری صبح اپنی اپنی منزل کی طرف روانہ ہوتے ہیں تو انھیں اچانک راستے بند ملتے ہیں اور اگر وہ متبادل راستہ تلاش کرنا چاہیں تو مختلف اطراف سے بھٹک کر آئے ہجوم کے ریلوں کے تھپیڑے کھاتے راستہ بھول کر مخالف سمتوں میں گم ہو کر کہیں سے کہیں نکل جاتے ہیں اور پھر اپنے ہی گھروں کا راستہ پوچھتے پائے جاتے ہیں۔ جب بھی کسی علاقے میں وی وی آئی پی حکمرانوں کے لیے بیریئر لگا کر رستے بند کیے جاتے یا کسی احتجاجی جلوس کو روکنے کے لیے کنٹینر کھڑے کر کے سڑکیں اور رستے بلاک کیے جاتے ہیں تو ٹریفک حشر کا منظر دکھا رہی ہوتی ہے۔
اگر روڈ بلاک کے متاثرین جن میں پیدل، سائیکل اور موٹربائیک سوار، رکشہ و کار سوار، ویگنوں کے مسافر اور بسوں میں بیٹھے لوگوں کی تعداد گنی جائے اور ہر فرد کے وقت کے ضیاع کا شمار کیا جا سکے تو بزبان شاعر یہی ردعمل دیا جا سکتا ہے کہ ''یا ہنس پڑو یا ہاتھ اٹھا کر دعا کرو''۔ ایک اندازے کے مطابق کئی ہزار سائیکلوں، موٹرسائیکلوں اور موٹرکاروں کے سوار جن کی تعداد دس سے بیس ہزار سے متجاوز ہو گی، مہینے میں کئی بار پولیس ناکوں کی زد میں آ کر لاکھوں منٹ تک وقت کے ضیاع اور ذہنی کوفت کے عذاب سے گزرتے ہیں۔
مذکورہ بالا نوحہ تو محض جملہ معترضہ تھا جو عذاب اور انتظار کی کئی لاکھ گھڑیوں کے ذکر سے طوالت پکڑ گیا۔ مجھے تو صوبائی دارالحکومت کی سڑکوں کا ذکر کرنا تھا جن پر دس بارہ اقسام کی ٹریفک ہمہ وقت رواں دواں رہتی ہے لیکن اسے Traffic کے بجائے Terrific کہنا زیادہ موزوں ہو گا۔
دن کے چوبیس گھنٹوں میں ہمارے اکثر برسرروزگار شہری دو سے چار گھنٹے بلاشبہ سفر میں یعنی سڑک پر سوار ہوتے ہیں۔ ان مصروف سڑک سوار افراد کو آتے جاتے دیکھئے تو معلوم ہو گا کہ اکثریت عجلت اور جلدبازی میں ہوتی ہے۔ پیدل شخص کو تو اتنی جلدی ہوتی ہے کہ سڑک کراس کرنے کے لیے وہ دن میں کتنی ہی بار جان ہتھیلی پر رکھ کر خطرناک اور تیزرفتار موٹروں کے بیچ میں سے تیر نہیں بگولے کی طرح نکل جاتا ہے اور موٹرسائیکل سوار اس طرح بل کھاتا ہوا نکلے گا کہ خود اپنی مہارت پر دم بخود ہو کر رہ جاتا ہو گا۔
رکشہ ڈرائیور کو داد دینا ہی پڑتی ہے کہ جب تک آپ کو پتہ چلے کہ ہوا کیا ہے وہ جناب کی ٹانگوں میں سے نکل چکا ہوتا ہے۔ ویگنیں چونکہ پٹرول کے بجائے ہارن کی طاقت سے چلتی ہیں اور ان کے سٹیئرنگ میں لگا مقناطیس مسافر کی کشش ثقل پا کر یکلخت نوے ڈگری گھوم سکتا ہے اور اردگرد چلتے ہوئے راہگیروں کو خصوصی حفاظتی تدابیر اختیار کرنے کی ضرورت پڑتی ہے۔
مکرر آمدم برسر مطلب انگریز حاکموں کا چھوڑا ہوا اور ہمارا وقتاً فوقتاً ترمیم شدہ موٹر وہیکل سے متعلق قانون اتنا جامع ہے کہ اگر اس پر عمل درآمد ہو جائے تو سڑکوں پر ڈسپلن قائم ہونے کے نتیجے میں سڑک کے حادثات میں کمی کے علاوہ معاشرتی زندگی میں بھی بہتری آئے گی۔ یہ بالکل اسی طرح ہے جیسے ایک اچھا اسپورٹس مین کھیل کے میدان سے باہر بھی بااصول اور ایماندار شہری ہوتا ہے۔ ہمارا موٹر وہیکل آرڈیننس تو اتنا ظالم ہے کہ پاکستان میں اسمبلڈ شو روم سے نکلی نئی موٹر کار کا چالان تک کروا دے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہمارے ہاں قوانین کی تو بھرمار ہے، خرابی ان پر عمل کرنے اور کروانے والوں میں ہے۔
ریاستی بے منزلی اور لاقانونیت کا مشاہدہ کرنے کے لیے آج کل پاکستان بہترین ماڈل اور ورکشاپ ہے لیکن شکر خدا کہ ابھی مکمل ہنیر نہیں پڑا۔ کسی کسی جگہ دیے روشن ہیں اور عدلیہ نے اپنے چراغوں میں ان ہی دنوں تیل تبدیل کیا ہے جو ریاست کے باقی اداروں کو تقویت اور روشنی دے سکتا ہے۔ یہاں البتہ ''انتظار کرو اور دیکھو'' کی طوالت مدت بے یقینی کے بھنور میں ہے۔
ہر قسم کی لاقانونیت جس کا آج کے پاکستان میں ذکر کیے بغیر کوئی مضمون مکمل نہیں ہوتا، کافی حد تک طمع نفسانی سے اور ایک State of mind سے پیدا ہونی بیان کی جاتی ہے۔ کوئی ماتحت اور وہ شخص جسے عوام کہا جا سکتا ہے،اس وقت تک لا قانونیت کا مرتکب ہونے کی جرأت نہیں کر سکتا جب تک حاکم، مالک، افسر یا گھر کے سربراہ سے جرم سرزد نہ ہو، ہر فرد اپنے سے اوپر والے کو دیکھ کر تحریک پکڑتا یا عبرت حاصل کرتا ہے۔ ماں کی گود پہلی اور تعلیمی درسگاہ دوسری تربیت کی جگہ ہوتی ہے۔
اول الذکر کی حالت یہ ہے کہ کسی گھر میں کثرت اولاد تو کسی میں قلت اموال کے سبب بچے کی تربیت ناممکن ہو چکی ہے۔ مدرسوں کی جگہ اب دکانیں کھل گئی ہیں۔ کچھ میں تعلیم کا کاروبار ہوتا ہے تو کچھ میں روبوٹ بنائے جاتے ہیں۔ گھروں اور درس گاہوں سے باہر سڑکیں اور بازار ہیں جہاں پیدل اور سوار آتے جاتے اور ایک دوسرے کے پاس سے گزرتے ہیں۔ سڑک ملکوں، شہروں، محلوں، گلیوں اور مکانوں کو آپس میں ملانے کا ذریعہ ہے۔ کہتے ہیں کسی بھی سڑک، بازار یا چورستے پر گزرنے والوں کا نظارہ کر کے آپ ان لوگوں کے اخلاق، مزاج، نظم وضبط اور ان کی تہذیب وترقی، شرافت اور تربیت کے علاوہ معاشرتی رویوں کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔
حکومت کی بیشمار ذمے داریاں اور مصروفیتیں ہوتی ہیں۔ وہ اگر سڑک کے ڈسپلن کو ریگولیٹ کرنے ہی کی ذمے داری سنجیدگی سے لے لے تو اس کا اثر دوررس ہو سکتا ہے۔ ٹریفک کی بدنظمی کو کنٹرول کرنا حکومتی ترجیحات میں آ جائے تو اس میں شریک اور اس کے شاہد دونوں پر مثبت اثر پڑیگا۔ آج کل کا سروے بتاتا ہے کہ بغیر ڈرائیونگ لائسنس Automobiles چلانے والوں، غیر تربیت یافتہ اور کمسن ڈرائیوروں، بغیر ٹیسٹ اور جعلی لائسنس ہولڈروں کی وجہ سے سڑکیں غیرمحفوظ ہو چکی ہیں۔
نااہل ڈرائیور گاڑی کے ہارن اور ایکسیلیٹر کے علاوہ کسی دوسرے پرزے مثلاً سٹیئرنگ، بریک اور انڈیکیٹر کے استعمال سے واقف نہیں۔ شہروں کی بے ہنگم اور خطرناک ٹریفک پر کوئی کنٹرول یا چیک نہیں۔ پبلک سروس ٹرک، بس، رکشہ، ویگن کی ناقص مکینیکل حالت اور مخدوش باڈی کی پڑتال کا نظام کرپشن اور نااہلی پر قائم ہے۔ہر ضلعی ہیڈکوارٹر میں ڈرائیونگ ٹریننگ اسکول قائم کرنے کی تجویز مختلف سطح پر زیرغور آتی رہی ہے۔ ہر قسم کی موٹروں کی فٹنس کی تصدیق کی اسکیم بھی سوچی گئی ہے۔
پبلک سروس گاڑیوں یعنی رکشہ، ویگن، بس، ٹرک وغیرہ کی فٹنس کا موجودہ سرکاری سسٹم کرپشن کی بنیادوں پر چل رہا ہے جس کی وجہ سے ناقص اور خطرناک گاڑیاں سڑکوں پر عام ہیں۔ اپنے فرائض سے بیگانہ اور اخلاقی اصولوں سے ناواقف لوگ ڈرائیونگ کرتے ہوئے جنگل کا قانون اپناتے ہیں۔ اگر حکومت صرف سڑک سواروں پر موٹر وہیکل ضوابط کے ناقابل معافی عملدرآمد کا اطلاق کروا لے تو اس تربیت کے دوررس اور مثبت نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔ پولیس کی ڈیوٹیوں کا جائزہ لیا جائے تو انکشاف ہو گا کہ ان کی برین واشنگ ہو چکی ہے جس کے علاج کی ضرورت ہے۔
چند روز قبل سابق گورنر سلمان تاثیر کے یوم شہادت پر احتجاج کرنے والوں کو روکنے کے لیے انتظامیہ نے شہر لاہور کے مصروف ترین علاقوں سے گزرنے والی ٹریفک کو Divert کرنے کے لیے مختلف مقامات پر کنٹینر کھڑے کر کے لکھوکھ ہا شہریوں کے لیے پریشان کن صورت حال پیدا کر دی۔ صبح سے رات گئے تک ان رکاوٹوں نے لوگوں کو ایک ہیجان میں مبتلا رکھا۔ ابھی چند روز قبل صوبہ پنجاب میں انگریزی دور کا ڈپٹی کمشنر والا ضلعی نظام بحال کرنے کی خبر تھی لیکن کنٹینر سے رستے بلاک کر کے لاء اینڈ آرڈر قائم کرنے کا فارمولا تو ایک احمقانہ فعل تھا۔
معلوم ہوتا ہے حکومت وقت کو موجودہ ضلعی انتظامیہ کی ٹریننگ کے لیے سابق ڈپٹی کمشنروں کی خدمات حاصل کرنی پڑیں گی۔معلوم ہوتا ہے انتظامیہ کی وی آئی پی روٹ لگانے کی ٹریننگ نے ان کی ذہنی حالت پر شدید منفی اثرات پیدا کر دیے ہیں جس کا مناسب علاج کیے بغیر ٹریفک کی بدنظمی کا سدھار ممکن نہیں۔
اگر روڈ بلاک کے متاثرین جن میں پیدل، سائیکل اور موٹربائیک سوار، رکشہ و کار سوار، ویگنوں کے مسافر اور بسوں میں بیٹھے لوگوں کی تعداد گنی جائے اور ہر فرد کے وقت کے ضیاع کا شمار کیا جا سکے تو بزبان شاعر یہی ردعمل دیا جا سکتا ہے کہ ''یا ہنس پڑو یا ہاتھ اٹھا کر دعا کرو''۔ ایک اندازے کے مطابق کئی ہزار سائیکلوں، موٹرسائیکلوں اور موٹرکاروں کے سوار جن کی تعداد دس سے بیس ہزار سے متجاوز ہو گی، مہینے میں کئی بار پولیس ناکوں کی زد میں آ کر لاکھوں منٹ تک وقت کے ضیاع اور ذہنی کوفت کے عذاب سے گزرتے ہیں۔
مذکورہ بالا نوحہ تو محض جملہ معترضہ تھا جو عذاب اور انتظار کی کئی لاکھ گھڑیوں کے ذکر سے طوالت پکڑ گیا۔ مجھے تو صوبائی دارالحکومت کی سڑکوں کا ذکر کرنا تھا جن پر دس بارہ اقسام کی ٹریفک ہمہ وقت رواں دواں رہتی ہے لیکن اسے Traffic کے بجائے Terrific کہنا زیادہ موزوں ہو گا۔
دن کے چوبیس گھنٹوں میں ہمارے اکثر برسرروزگار شہری دو سے چار گھنٹے بلاشبہ سفر میں یعنی سڑک پر سوار ہوتے ہیں۔ ان مصروف سڑک سوار افراد کو آتے جاتے دیکھئے تو معلوم ہو گا کہ اکثریت عجلت اور جلدبازی میں ہوتی ہے۔ پیدل شخص کو تو اتنی جلدی ہوتی ہے کہ سڑک کراس کرنے کے لیے وہ دن میں کتنی ہی بار جان ہتھیلی پر رکھ کر خطرناک اور تیزرفتار موٹروں کے بیچ میں سے تیر نہیں بگولے کی طرح نکل جاتا ہے اور موٹرسائیکل سوار اس طرح بل کھاتا ہوا نکلے گا کہ خود اپنی مہارت پر دم بخود ہو کر رہ جاتا ہو گا۔
رکشہ ڈرائیور کو داد دینا ہی پڑتی ہے کہ جب تک آپ کو پتہ چلے کہ ہوا کیا ہے وہ جناب کی ٹانگوں میں سے نکل چکا ہوتا ہے۔ ویگنیں چونکہ پٹرول کے بجائے ہارن کی طاقت سے چلتی ہیں اور ان کے سٹیئرنگ میں لگا مقناطیس مسافر کی کشش ثقل پا کر یکلخت نوے ڈگری گھوم سکتا ہے اور اردگرد چلتے ہوئے راہگیروں کو خصوصی حفاظتی تدابیر اختیار کرنے کی ضرورت پڑتی ہے۔
مکرر آمدم برسر مطلب انگریز حاکموں کا چھوڑا ہوا اور ہمارا وقتاً فوقتاً ترمیم شدہ موٹر وہیکل سے متعلق قانون اتنا جامع ہے کہ اگر اس پر عمل درآمد ہو جائے تو سڑکوں پر ڈسپلن قائم ہونے کے نتیجے میں سڑک کے حادثات میں کمی کے علاوہ معاشرتی زندگی میں بھی بہتری آئے گی۔ یہ بالکل اسی طرح ہے جیسے ایک اچھا اسپورٹس مین کھیل کے میدان سے باہر بھی بااصول اور ایماندار شہری ہوتا ہے۔ ہمارا موٹر وہیکل آرڈیننس تو اتنا ظالم ہے کہ پاکستان میں اسمبلڈ شو روم سے نکلی نئی موٹر کار کا چالان تک کروا دے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہمارے ہاں قوانین کی تو بھرمار ہے، خرابی ان پر عمل کرنے اور کروانے والوں میں ہے۔
ریاستی بے منزلی اور لاقانونیت کا مشاہدہ کرنے کے لیے آج کل پاکستان بہترین ماڈل اور ورکشاپ ہے لیکن شکر خدا کہ ابھی مکمل ہنیر نہیں پڑا۔ کسی کسی جگہ دیے روشن ہیں اور عدلیہ نے اپنے چراغوں میں ان ہی دنوں تیل تبدیل کیا ہے جو ریاست کے باقی اداروں کو تقویت اور روشنی دے سکتا ہے۔ یہاں البتہ ''انتظار کرو اور دیکھو'' کی طوالت مدت بے یقینی کے بھنور میں ہے۔
ہر قسم کی لاقانونیت جس کا آج کے پاکستان میں ذکر کیے بغیر کوئی مضمون مکمل نہیں ہوتا، کافی حد تک طمع نفسانی سے اور ایک State of mind سے پیدا ہونی بیان کی جاتی ہے۔ کوئی ماتحت اور وہ شخص جسے عوام کہا جا سکتا ہے،اس وقت تک لا قانونیت کا مرتکب ہونے کی جرأت نہیں کر سکتا جب تک حاکم، مالک، افسر یا گھر کے سربراہ سے جرم سرزد نہ ہو، ہر فرد اپنے سے اوپر والے کو دیکھ کر تحریک پکڑتا یا عبرت حاصل کرتا ہے۔ ماں کی گود پہلی اور تعلیمی درسگاہ دوسری تربیت کی جگہ ہوتی ہے۔
اول الذکر کی حالت یہ ہے کہ کسی گھر میں کثرت اولاد تو کسی میں قلت اموال کے سبب بچے کی تربیت ناممکن ہو چکی ہے۔ مدرسوں کی جگہ اب دکانیں کھل گئی ہیں۔ کچھ میں تعلیم کا کاروبار ہوتا ہے تو کچھ میں روبوٹ بنائے جاتے ہیں۔ گھروں اور درس گاہوں سے باہر سڑکیں اور بازار ہیں جہاں پیدل اور سوار آتے جاتے اور ایک دوسرے کے پاس سے گزرتے ہیں۔ سڑک ملکوں، شہروں، محلوں، گلیوں اور مکانوں کو آپس میں ملانے کا ذریعہ ہے۔ کہتے ہیں کسی بھی سڑک، بازار یا چورستے پر گزرنے والوں کا نظارہ کر کے آپ ان لوگوں کے اخلاق، مزاج، نظم وضبط اور ان کی تہذیب وترقی، شرافت اور تربیت کے علاوہ معاشرتی رویوں کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔
حکومت کی بیشمار ذمے داریاں اور مصروفیتیں ہوتی ہیں۔ وہ اگر سڑک کے ڈسپلن کو ریگولیٹ کرنے ہی کی ذمے داری سنجیدگی سے لے لے تو اس کا اثر دوررس ہو سکتا ہے۔ ٹریفک کی بدنظمی کو کنٹرول کرنا حکومتی ترجیحات میں آ جائے تو اس میں شریک اور اس کے شاہد دونوں پر مثبت اثر پڑیگا۔ آج کل کا سروے بتاتا ہے کہ بغیر ڈرائیونگ لائسنس Automobiles چلانے والوں، غیر تربیت یافتہ اور کمسن ڈرائیوروں، بغیر ٹیسٹ اور جعلی لائسنس ہولڈروں کی وجہ سے سڑکیں غیرمحفوظ ہو چکی ہیں۔
نااہل ڈرائیور گاڑی کے ہارن اور ایکسیلیٹر کے علاوہ کسی دوسرے پرزے مثلاً سٹیئرنگ، بریک اور انڈیکیٹر کے استعمال سے واقف نہیں۔ شہروں کی بے ہنگم اور خطرناک ٹریفک پر کوئی کنٹرول یا چیک نہیں۔ پبلک سروس ٹرک، بس، رکشہ، ویگن کی ناقص مکینیکل حالت اور مخدوش باڈی کی پڑتال کا نظام کرپشن اور نااہلی پر قائم ہے۔ہر ضلعی ہیڈکوارٹر میں ڈرائیونگ ٹریننگ اسکول قائم کرنے کی تجویز مختلف سطح پر زیرغور آتی رہی ہے۔ ہر قسم کی موٹروں کی فٹنس کی تصدیق کی اسکیم بھی سوچی گئی ہے۔
پبلک سروس گاڑیوں یعنی رکشہ، ویگن، بس، ٹرک وغیرہ کی فٹنس کا موجودہ سرکاری سسٹم کرپشن کی بنیادوں پر چل رہا ہے جس کی وجہ سے ناقص اور خطرناک گاڑیاں سڑکوں پر عام ہیں۔ اپنے فرائض سے بیگانہ اور اخلاقی اصولوں سے ناواقف لوگ ڈرائیونگ کرتے ہوئے جنگل کا قانون اپناتے ہیں۔ اگر حکومت صرف سڑک سواروں پر موٹر وہیکل ضوابط کے ناقابل معافی عملدرآمد کا اطلاق کروا لے تو اس تربیت کے دوررس اور مثبت نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔ پولیس کی ڈیوٹیوں کا جائزہ لیا جائے تو انکشاف ہو گا کہ ان کی برین واشنگ ہو چکی ہے جس کے علاج کی ضرورت ہے۔
چند روز قبل سابق گورنر سلمان تاثیر کے یوم شہادت پر احتجاج کرنے والوں کو روکنے کے لیے انتظامیہ نے شہر لاہور کے مصروف ترین علاقوں سے گزرنے والی ٹریفک کو Divert کرنے کے لیے مختلف مقامات پر کنٹینر کھڑے کر کے لکھوکھ ہا شہریوں کے لیے پریشان کن صورت حال پیدا کر دی۔ صبح سے رات گئے تک ان رکاوٹوں نے لوگوں کو ایک ہیجان میں مبتلا رکھا۔ ابھی چند روز قبل صوبہ پنجاب میں انگریزی دور کا ڈپٹی کمشنر والا ضلعی نظام بحال کرنے کی خبر تھی لیکن کنٹینر سے رستے بلاک کر کے لاء اینڈ آرڈر قائم کرنے کا فارمولا تو ایک احمقانہ فعل تھا۔
معلوم ہوتا ہے حکومت وقت کو موجودہ ضلعی انتظامیہ کی ٹریننگ کے لیے سابق ڈپٹی کمشنروں کی خدمات حاصل کرنی پڑیں گی۔معلوم ہوتا ہے انتظامیہ کی وی آئی پی روٹ لگانے کی ٹریننگ نے ان کی ذہنی حالت پر شدید منفی اثرات پیدا کر دیے ہیں جس کا مناسب علاج کیے بغیر ٹریفک کی بدنظمی کا سدھار ممکن نہیں۔