پاکستان کی خاطر
پارٹی نے ملک کو نقصان پہنچانے والوں اور دشمن کے آلہ کاروں کے خلاف آواز بلند کی بلکہ انھیں للکارا
KARACHI:
پاک سرزمین پارٹی کا حیدرآباد کا جلسہ متاثرکن تھا۔ وہ لوگ جو اسے ایک چھوٹی اور غیرمقبول پارٹی کا طعنے دے رہے ہیں، اس جلسے نے یقیناً ان کے منہ بند کردیے ہوں گے۔ آزاد مبصرین بھی اس جلسے کو حوصلہ افزا قرار دے رہے ہیں۔ اس پارٹی کو ابھرے ابھی مشکل سے دس ماہ ہی گزرے ہیں اور اس کی گونج کراچی سے کشمیر تک پہنچ چکی ہے۔ مختصر سے عرصے میں اس نے ملک کے تمام طبقوں میں اپنی جگہ بنالی ہے۔
اس پارٹی کا یہ بھی کمال ہے کہ یہ تین مارچ 2016ء کو قائم ہوئی اور اس نے اپنے قیام کے صرف ایک ماہ بعد یعنی 25 اپریل کو اپنے پہلے جلسے کو منعقد کرنے کا اعلان کر ڈالا۔ سب ہی حیران تھے مگر دیکھنے والوں نے دیکھاکہ صرف ایک ماہ کی پارٹی نے کمال کردیا اور 25 اپریل کو باغ جناح میں مزار قائد کے سامنے ایک شاندار جلسہ منعقد کرڈالا۔ مبصرین اور تجزیہ کاروں کو نظر آنے لگا تھا کہ پارٹی جلد عروج حاصل کر لے گی۔ اس جلد مقبولیت حاصل کرنے کی ٹھوس وجوہات ہیں۔ اس نے اپنے منشور میں پاکستان اور پاکستانیوں کو اپنا محور قرار دیا ہے، لہٰذا اس کے نزدیک ملک کی سلامتی اور بقا اور امن سب سے مقدم ہے۔
کراچی میں انارکی کی صورتحال تھی۔ اس پارٹی نے ملک کو نقصان پہنچانے والوں اور دشمن کے آلہ کاروں کے خلاف آواز بلند کی بلکہ انھیں للکارا۔ اس وقت کراچی میں جان بوجھ کر جو دہشتگردی پھیلائی جا رہی تھی اور لوگوں کو یرغمال بناکر ایک مخصوص بیرونی ایجنڈے پر کام کیا جا رہا تھا، یہ پارٹی اسے ناکام بنانے کے لیے سینہ سپر ہوگئی۔ اس کے تمام رہنما پہلے متحدہ قومی موومنٹ میں تھے وہ اپنی جان جوکھم میں ڈال کر شہر کو اندھیرے سے نکال کر اجالے کی سمت لے جانے کے لیے یکجا ہوگئے تھے۔ انھوں نے کراچی کا امن تباہ کرنے والوں سے کھلی جنگ کی اور شہریوں کو متبادل قیادت فراہم کی۔
یہ شہرِ مہاجرین ہے۔ مہاجرین نے دوسروں کے ساتھ مل کر اسے ایک معمولی شہر سے بین الاقوامی سطح کا صنعتی اور کاروباری شہر بنا دیا ہے۔ آج اس کی آمدنی سے پورا ملک مستفید ہو رہا ہے۔ چند ماہ قبل تک روز روز کی فرمائشی ہڑتالوں نے اس کی معیشت کو گھن لگا دیا تھا۔ اس کے اکثر کارخانے اور معاشی ادارے بھتوں کی بھرمار، قتل و غارت گری اور ہڑتالوں کی وجہ سے بند ہوگئے تھے۔ بڑی تعداد میں سرمایہ دار کراچی ہی نہیں بلکہ ملک چھوڑ کر خلیجی اور بنگلہ دیش جیسے ممالک میں اپنا سرمایہ لگانے لگے۔ محنت کش بیروزگار ہوگئے۔ ہڑتالوں نے پتھارے داروں اور ریڑھی والوں کو بھی فاقوں پر مجبور کردیا۔
پاک سرزمین پارٹی کو یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ اس نے سندھ اور بالخصوص کراچی میں امن و امان کے قیام میں انتظامیہ کی بھرپور ہمت افزائی کی۔ اس نے نفرتوں کو ختم کرکے پیار و محبت اور وطن پرستی کا وہ جذبہ پیدا کیا، اس پارٹی نے اندھیرے کو اجالے میں تبدیل کرنے کے لیے جس جدوجہد کا آغاز کیا تھا، 22 اگست کو اس کی انتہا ہوگئی۔ وطن پرستی کی فتح ہوئی اور غیر ملکی ایجنڈا اپنی موت آپ مر گیا۔
مصطفیٰ کمال صرف کراچی والوں کے لیے ہی نہیں بلکہ تمام پاکستانیوں کے لیے جانی پہچانی شخصیت ہیں۔ وہ پرویز مشرف کے دور میں کراچی کے میئر کی حیثیت سے کراچی میں جو کارہائے نمایاں انجام دے چکے ہیں انھیں کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ جن دنوں وہ کراچی میں تعمیراتی کام انجام دے رہے تھے اس وقت لاہور کے عوامی بہبود کے تعمیراتی منصوبوں سے محروم تھا۔
پنجاب کے سابق گورنر سلمان تاثیر نے ایک پریس کانفرنس میں مصطفیٰ کمال کی دل کھول کر تعریف کی تھی۔ انھوں نے یہ بھی خواہش ظاہر کی تھی کہ کاش لاہور میں بھی کوئی مصطفیٰ کمال ہوتا تو لاہور کے دن بھی پھر جاتے۔ راقم نے اس وقت اپنے ایک کالم میں تاثیر کو مشورہ دیا تھا کہ وہ پرویز مشرف سے درخواست کر کے مصطفیٰ کمال کو لاہور کی بھی میئر شپ دلوا دیں تو لاہور کے دن بھی پھر سکتے ہیں۔
مصطفیٰ کمال کا یہ وصف بھی قابل ذکر ہے کہ انھوں نے کراچی میں جتنے بھی پروجیکٹ مکمل کیے ان کا کام اپنے سامنے مکمل کرایا۔ حقیقت یہ ہے کہ انھوں نے فرض شناسی اور عوامی خدمت کا پرخلوص کردار ادا کیا۔ ان کے بنائے ہوئے پلوں اور سڑکوں پر آج بھی ٹریفک رواں دواں ہے۔ ان پر اب ان پروجیکٹس کی تعمیر میں کمیشن لینے کا الزام لگایا جا رہا ہے مگر انھوں نے قسم کھا کر کہا ہے کہ انھوں نے ایک پیسہ بھی نہیں لیا، جو کچھ کیا خدمت خلق کے جذبے کے تحت کیا اور اگر کسی کو شک ہے تو وہ عدالت سے رجوع کر سکتا ہے۔ ان کی پارٹی پر یہ بھی الزام لگایا جا رہا ہے کہ اس نے کئی دہشتگردوں کو اپنے دامن میں پناہ دے رکھی ہے، یہ عسکری ونگ کے لوگ ہیں جو کراچی میں قتل و غارت گرمی میں مصروف رہے ہیں۔
مصطفیٰ کمال کا کہنا ہے کہ میں انھیں مجرم نہیں مانتا، اصل مجرم وہ ہیں جنھوں نے انھیں اپنے مذموم مقاصد کے لیے استعمال کیا ہے۔ وہ لاپتہ کارکنان کو بازیاب کرانا بھی ضروری سمجھتے ہیں۔ جہاں تک عسکری ونگ کے لوگوں کو پناہ دینے کا معاملہ ہے، مبصرین کے مطابق پاک سرزمین پارٹی کو ان معاملات سے گریز کرنا چاہیے کیونکہ اس سے اس کا اپنا دامن بھی داغ دار ہو سکتا ہے۔ جہاں تک اس پارٹی کے نظریات کا تعلق ہے وہ بہت واضح اور قابل توجہ ہیں۔
یہ ملک کو جھوٹ فریب اور منافقت کی سیاست سے باہر نکالنا چاہتی ہے۔ مہاجروں کو اور ان کی نسلوں کو گندم نما جو فروشوں سے محفوظ بناکر نوجوانوں کے ہاتھوں میں ہتھیار کے بجائے قلم اور کتاب دیکھنا چاہتی ہے۔ یہ ملک میں مختلف قومیتوں کی سیاست کو ختم کرکے صرف ایک پاکستانی قوم کی سیاست کو پروان چڑھانا چاہتی ہے۔ اس پارٹی کے ان نظریات نے کراچی سے کشمیر تک تمام پاکستانیوں کو اپنی جانب متوجہ کرلیا ہے۔
اس میں اس وقت کوئی منتخب ممبر نہیں ہے مگر اس کے تمام ہی لیڈر قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی اپنی رکنیت قربان کرکے اس کے دائرے میں داخل ہوئے ہیں، چونکہ یہ ایک نئی پارٹی ہے اور اسے دوسری بڑی قومی سیاسی پارٹیوں کے مقابلے پر آنے کے لیے ابھی بہت محنت کرنا ہے اور لمبا سفر بھی طے کرنا ہے، چنانچہ اسے اپنی صفوں میں بدعنوان اور گھٹیا شہرت کے حامل لوگوں کے داخلے سے ہوشیار رہنا چاہیے، ورنہ اس کا حشر تحریک انصاف جیسا ہوسکتا ہے۔ اگلے سال منعقد ہونے والے انتخابات میں کامیابی کے لیے مہاجروں سے منسلک دوسری محب وطن پارٹیوں سے انتخابی اتحاد کرنے سے گریز نہ کیا جائے، یہ اس لیے ضروری ہے تاکہ مہاجر ووٹ نہ بٹنے پائے۔
پاک سرزمین پارٹی کا حیدرآباد کا جلسہ متاثرکن تھا۔ وہ لوگ جو اسے ایک چھوٹی اور غیرمقبول پارٹی کا طعنے دے رہے ہیں، اس جلسے نے یقیناً ان کے منہ بند کردیے ہوں گے۔ آزاد مبصرین بھی اس جلسے کو حوصلہ افزا قرار دے رہے ہیں۔ اس پارٹی کو ابھرے ابھی مشکل سے دس ماہ ہی گزرے ہیں اور اس کی گونج کراچی سے کشمیر تک پہنچ چکی ہے۔ مختصر سے عرصے میں اس نے ملک کے تمام طبقوں میں اپنی جگہ بنالی ہے۔
اس پارٹی کا یہ بھی کمال ہے کہ یہ تین مارچ 2016ء کو قائم ہوئی اور اس نے اپنے قیام کے صرف ایک ماہ بعد یعنی 25 اپریل کو اپنے پہلے جلسے کو منعقد کرنے کا اعلان کر ڈالا۔ سب ہی حیران تھے مگر دیکھنے والوں نے دیکھاکہ صرف ایک ماہ کی پارٹی نے کمال کردیا اور 25 اپریل کو باغ جناح میں مزار قائد کے سامنے ایک شاندار جلسہ منعقد کرڈالا۔ مبصرین اور تجزیہ کاروں کو نظر آنے لگا تھا کہ پارٹی جلد عروج حاصل کر لے گی۔ اس جلد مقبولیت حاصل کرنے کی ٹھوس وجوہات ہیں۔ اس نے اپنے منشور میں پاکستان اور پاکستانیوں کو اپنا محور قرار دیا ہے، لہٰذا اس کے نزدیک ملک کی سلامتی اور بقا اور امن سب سے مقدم ہے۔
کراچی میں انارکی کی صورتحال تھی۔ اس پارٹی نے ملک کو نقصان پہنچانے والوں اور دشمن کے آلہ کاروں کے خلاف آواز بلند کی بلکہ انھیں للکارا۔ اس وقت کراچی میں جان بوجھ کر جو دہشتگردی پھیلائی جا رہی تھی اور لوگوں کو یرغمال بناکر ایک مخصوص بیرونی ایجنڈے پر کام کیا جا رہا تھا، یہ پارٹی اسے ناکام بنانے کے لیے سینہ سپر ہوگئی۔ اس کے تمام رہنما پہلے متحدہ قومی موومنٹ میں تھے وہ اپنی جان جوکھم میں ڈال کر شہر کو اندھیرے سے نکال کر اجالے کی سمت لے جانے کے لیے یکجا ہوگئے تھے۔ انھوں نے کراچی کا امن تباہ کرنے والوں سے کھلی جنگ کی اور شہریوں کو متبادل قیادت فراہم کی۔
یہ شہرِ مہاجرین ہے۔ مہاجرین نے دوسروں کے ساتھ مل کر اسے ایک معمولی شہر سے بین الاقوامی سطح کا صنعتی اور کاروباری شہر بنا دیا ہے۔ آج اس کی آمدنی سے پورا ملک مستفید ہو رہا ہے۔ چند ماہ قبل تک روز روز کی فرمائشی ہڑتالوں نے اس کی معیشت کو گھن لگا دیا تھا۔ اس کے اکثر کارخانے اور معاشی ادارے بھتوں کی بھرمار، قتل و غارت گری اور ہڑتالوں کی وجہ سے بند ہوگئے تھے۔ بڑی تعداد میں سرمایہ دار کراچی ہی نہیں بلکہ ملک چھوڑ کر خلیجی اور بنگلہ دیش جیسے ممالک میں اپنا سرمایہ لگانے لگے۔ محنت کش بیروزگار ہوگئے۔ ہڑتالوں نے پتھارے داروں اور ریڑھی والوں کو بھی فاقوں پر مجبور کردیا۔
پاک سرزمین پارٹی کو یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ اس نے سندھ اور بالخصوص کراچی میں امن و امان کے قیام میں انتظامیہ کی بھرپور ہمت افزائی کی۔ اس نے نفرتوں کو ختم کرکے پیار و محبت اور وطن پرستی کا وہ جذبہ پیدا کیا، اس پارٹی نے اندھیرے کو اجالے میں تبدیل کرنے کے لیے جس جدوجہد کا آغاز کیا تھا، 22 اگست کو اس کی انتہا ہوگئی۔ وطن پرستی کی فتح ہوئی اور غیر ملکی ایجنڈا اپنی موت آپ مر گیا۔
مصطفیٰ کمال صرف کراچی والوں کے لیے ہی نہیں بلکہ تمام پاکستانیوں کے لیے جانی پہچانی شخصیت ہیں۔ وہ پرویز مشرف کے دور میں کراچی کے میئر کی حیثیت سے کراچی میں جو کارہائے نمایاں انجام دے چکے ہیں انھیں کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ جن دنوں وہ کراچی میں تعمیراتی کام انجام دے رہے تھے اس وقت لاہور کے عوامی بہبود کے تعمیراتی منصوبوں سے محروم تھا۔
پنجاب کے سابق گورنر سلمان تاثیر نے ایک پریس کانفرنس میں مصطفیٰ کمال کی دل کھول کر تعریف کی تھی۔ انھوں نے یہ بھی خواہش ظاہر کی تھی کہ کاش لاہور میں بھی کوئی مصطفیٰ کمال ہوتا تو لاہور کے دن بھی پھر جاتے۔ راقم نے اس وقت اپنے ایک کالم میں تاثیر کو مشورہ دیا تھا کہ وہ پرویز مشرف سے درخواست کر کے مصطفیٰ کمال کو لاہور کی بھی میئر شپ دلوا دیں تو لاہور کے دن بھی پھر سکتے ہیں۔
مصطفیٰ کمال کا یہ وصف بھی قابل ذکر ہے کہ انھوں نے کراچی میں جتنے بھی پروجیکٹ مکمل کیے ان کا کام اپنے سامنے مکمل کرایا۔ حقیقت یہ ہے کہ انھوں نے فرض شناسی اور عوامی خدمت کا پرخلوص کردار ادا کیا۔ ان کے بنائے ہوئے پلوں اور سڑکوں پر آج بھی ٹریفک رواں دواں ہے۔ ان پر اب ان پروجیکٹس کی تعمیر میں کمیشن لینے کا الزام لگایا جا رہا ہے مگر انھوں نے قسم کھا کر کہا ہے کہ انھوں نے ایک پیسہ بھی نہیں لیا، جو کچھ کیا خدمت خلق کے جذبے کے تحت کیا اور اگر کسی کو شک ہے تو وہ عدالت سے رجوع کر سکتا ہے۔ ان کی پارٹی پر یہ بھی الزام لگایا جا رہا ہے کہ اس نے کئی دہشتگردوں کو اپنے دامن میں پناہ دے رکھی ہے، یہ عسکری ونگ کے لوگ ہیں جو کراچی میں قتل و غارت گرمی میں مصروف رہے ہیں۔
مصطفیٰ کمال کا کہنا ہے کہ میں انھیں مجرم نہیں مانتا، اصل مجرم وہ ہیں جنھوں نے انھیں اپنے مذموم مقاصد کے لیے استعمال کیا ہے۔ وہ لاپتہ کارکنان کو بازیاب کرانا بھی ضروری سمجھتے ہیں۔ جہاں تک عسکری ونگ کے لوگوں کو پناہ دینے کا معاملہ ہے، مبصرین کے مطابق پاک سرزمین پارٹی کو ان معاملات سے گریز کرنا چاہیے کیونکہ اس سے اس کا اپنا دامن بھی داغ دار ہو سکتا ہے۔ جہاں تک اس پارٹی کے نظریات کا تعلق ہے وہ بہت واضح اور قابل توجہ ہیں۔
یہ ملک کو جھوٹ فریب اور منافقت کی سیاست سے باہر نکالنا چاہتی ہے۔ مہاجروں کو اور ان کی نسلوں کو گندم نما جو فروشوں سے محفوظ بناکر نوجوانوں کے ہاتھوں میں ہتھیار کے بجائے قلم اور کتاب دیکھنا چاہتی ہے۔ یہ ملک میں مختلف قومیتوں کی سیاست کو ختم کرکے صرف ایک پاکستانی قوم کی سیاست کو پروان چڑھانا چاہتی ہے۔ اس پارٹی کے ان نظریات نے کراچی سے کشمیر تک تمام پاکستانیوں کو اپنی جانب متوجہ کرلیا ہے۔
اس میں اس وقت کوئی منتخب ممبر نہیں ہے مگر اس کے تمام ہی لیڈر قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی اپنی رکنیت قربان کرکے اس کے دائرے میں داخل ہوئے ہیں، چونکہ یہ ایک نئی پارٹی ہے اور اسے دوسری بڑی قومی سیاسی پارٹیوں کے مقابلے پر آنے کے لیے ابھی بہت محنت کرنا ہے اور لمبا سفر بھی طے کرنا ہے، چنانچہ اسے اپنی صفوں میں بدعنوان اور گھٹیا شہرت کے حامل لوگوں کے داخلے سے ہوشیار رہنا چاہیے، ورنہ اس کا حشر تحریک انصاف جیسا ہوسکتا ہے۔ اگلے سال منعقد ہونے والے انتخابات میں کامیابی کے لیے مہاجروں سے منسلک دوسری محب وطن پارٹیوں سے انتخابی اتحاد کرنے سے گریز نہ کیا جائے، یہ اس لیے ضروری ہے تاکہ مہاجر ووٹ نہ بٹنے پائے۔