ہدایت کار نذرالاسلام اور ان کا ویژن
جرنیل جتنا زیرک اور جتنا دور اندیش ہوتا ہے جنگ کے نتائج اتنے ہی اس کے حق میں ہوتے ہیں
جنگ جرنیل اکیلا نہیں لڑتا، اس کے ساتھ پوری ایک فوج ہوتی ہے مگر جرنیل جتنا زیرک اور جتنا دور اندیش ہوتا ہے جنگ کے نتائج اتنے ہی اس کے حق میں ہوتے ہیں، اتنی ہی کامیابی اس کے قدم چومتی ہے۔ فلم میکنگ کے میدان میں بھی کامیابی کا دارومدار ایسے ہی ایک جرنیل پر ہوتا ہے جسے فلمی اصطلاح میں ہدایت کار (ڈائریکٹر) کہا جاتا ہے۔ ڈائریکٹر فلم سازی کی جملہ ٹیکنالوجی کا جتنا ماہر ہوتا ہے، اس کے تجربات و مشاہدات جتنے وسیع ہوتے ہیں، وہ اتنی ہی کامیاب فلمیں بناتا ہے۔
ہدایت کار نذرالاسلام ہماری فلمی صنعت کے اعلیٰ دماغ اور انتہائی تخلیقی صلاحیتوں کے حامل فلم میکر تھے۔ وہ کلکتہ میں پلے بڑھے، پاکستان کے قیام کے بعد ڈھاکا آگئے، وہ بنیادی طور پر فلم ایڈیٹر (تدوین کار) تھے مگر ان کے خیال کی رسائی اور فلمانے کا انداز، فلم کا ٹریٹمنٹ سب سے انوکھا، پاور فل اور قابل دید ہوتا تھا۔
ڈھاکا میں چند فلمیں بنانے کے بعد وہ لاہور آگئے اور ایسے آئے کہ لاہور کی خاک میں ہی دفن ہوئے۔ وہ بہت ہی کم گو، دھیمے لہجے اور بہت زیادہ سوچنے اور نپی تلی گفتگو کرنے والے انسان تھے۔ انھیں بنگال سے لے کر لاہور تک فلم ٹریڈ سے وابستہ لوگ پیار سے ''دادا'' کہتے تھے اور وہ اپنے ہنر اور بلند خیالی کے اعتبار سے بھی دادا کہلانے کے مستحق تھے۔
یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ وہ ایک عام سی فلم کو اپنے منظرنامے اور سیناریو کی تبدیلی سے ایک خاص فلم بنادیتے تھے۔ ان کے سوچنے کا انداز، ان کا طریقہ کار سبھی کچھ منفرد اور موثر تھا۔ آپ ان کی مشہور فلموں کو دیکھ لیجیے، موضوع اور کردار وہی ہیں لیکن اپنے انوکھے اور خوبصورت ٹریٹمنٹ (انداز) کی وجہ سے وہ اپنی فلم کو سجا دیتے تھے۔ فوٹوگرافی اور میوزک کو وہ بہت سمجھتے تھے، بالخصوص گانوں کی پکچرائزیشن اور اس کی کٹنگ میں انھیں کمال حاصل تھا۔
نذرالاسلام نے ''پاکستان سینما'' کے لیے بہت کم فلمیں بنائیں۔ اس لیے کہ وہ کم اور ستھرا کام کرنے کو اچھا سمجھتے تھے۔ وہ کہانی کو بہت سوچ کر فائنل کرتے اور اسے مکمل اور اپنے خیالات کے مطابق بنائے بغیر فلم شروع نہیں کرتے تھے۔ وہ بعض اوقات اسکرپٹ لکھوانے کے بعد بھی اس فلم کو بنانے کا ارادہ ترک کردیتے تھے، انھیں ایک مشکل پسند ہدایت کار بھی کہا جاسکتا ہے۔
بشیر نیاز ان کے پسندیدہ مصنف (اسکرپٹ رائٹر) تھے، اور ان دونوں کی سوچ میں بہت گہرائی، ہم آہنگی بھی پائی جاتی تھی، یہی وجہ ہے کہ ان دونوں کی مشترکہ فلمیں تصویروں کی مانند ہوتی تھیں۔ ہماری دانست میں فلم وہی اچھی بنتی ہے جس میں دو دماغوں اور دو سوچوں کا ملاپ احسن طریقے سے ہو۔ مصنف اور ہدایت کار کی ذہنی ہم آہنگی کے بغیر اچھی فلم نہیں بن سکتی۔ نذرالاسلام خام فلم (فلم کا نیگیٹیو) خرچ کرنے میں بہت شاہ خرچ تھے۔ جو شاٹ پسند نہ ہوتا اس کو دوبارہ فلماتے تھے۔
یہی وجہ ہے کہ عام فلم میکرز کے تیس چالیس ہزار فٹ خام فلم کے مقابلے میں ان کی فلم 1000m, 80 فٹ پر مشتمل ہوتی تھی۔ اسی لیے انھیں فلموں کا ''مغل اعظم'' بھی کہا جاتا تھا۔ وہ فلم کے ایک ایک فریم پر توجہ دیتے تھے۔ وہ کہا کرتے تھے کہ میں اپنی فلم کا ہر شاٹ فلم کا آخری شاٹ سمجھ کر لیتا ہوں۔
نذرالاسلام ان معدودے چند ہدایت کاروں میں ہمیشہ سرفہرست رہے کہ جن کی فلم کا معیار ہی ان کی شناخت ہیں، فلم کا کاروبار بھی ان کا طرہ امتیاز تھا۔ سبھی ان کی عزت و احترام کرتے تھے۔ ان کی فلم خواہ کامیاب ہو یا ناکام، ان کی قدر و منزلت میں کبھی کمی نہیں آئی، ان کی ہدایت کاری کا اسلوب بہت دلچسپ، موثر اور نرالا تھا۔
ہدایت کار نذرالاسلام کے کام، ان کی فکر، ان کے اسکول آف تھاٹ یا ان کے ویژن یا پھر ان کے انداز تخلیق پر گہری نگاہ کی جائے تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ وہ ایک Gladiator ہوں، جو اپنے ساتھی ہدایت کاروں یا تخلیق کاروں کو ''روٹین ورک'' کے شکنجوں سے آزاد کرانے کے لیے ایک لمبی جنگ لڑ رہا ہے۔ بلاشبہ وہ پاکستانی سینما کے ایک ایسے جنگجو تھے جنھیں جب بھی کوئی اچھا پروڈیوسر یا فنانسر چاہتا کسی بہترین کری ایٹیو کام کے لیے استعمال کرسکتا تھا۔ مگر افسوس موت نے انھیں ایسا موقع فراہم نہ کیا۔
تاہم وہ ایک طرح کی مزاحمت کا نشان بن کر ''پاکستانی سینما'' پر ابھرے۔ وہ کبھی اخبار نویسوں سے ملتے تو یوں تاثر دیتے جیسے وہ ہر ایک کے خیالات کو بڑی اہمیت دیتے ہیں اور ان کی بات کو بڑی توجہ سے سنتے تھے۔ اس بات میں بھی کبھی دو رائے نہیں ہوسکتی بلکہ اسے کڑوی حقیقت کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ فلم ٹریڈ کے بے مہر لوگوں نے نذرالاسلام کی وہ دید، وہ پذیرائی نہیں کی جس کے وہ مستحق تھے۔
ظالم وقت نے آگے چل کر ان سے ہر چیز چھین لی حتیٰ کہ صحت بھی، لیکن نذرالاسلام نے اپنا بھرم، اپنا وقار اور سب سے بڑھ کر اپنے لبوں کی مسکراہٹ کسی کو چھیننے نہیں دی اور ان کی اسی مسکراہٹ سے لوگوں کو بالخصوص ان کے جاننے اور ماننے والوں کی ایک ہی پیغام ملتا تھا کہ ابھی نذرالاسلام (دادا) نے ہتھیار نہیں ڈالے ہیں۔ لیکن بالآخر 11 جنوری 1994ء کو وہ زندگی کی بازی ہار ہی بیٹھے۔
اس بات میں قطعی دو رائے نہیں ہوسکتی کہ نذرالاسلام ایک شریف النفس اور مروت بھرے انسان تھے۔ ان میں چاپلوسی یا حاشیہ برداری کا عنصر سرے سے موجود نہیں تھا۔ شوبز کی چالوں اور گروپ بندی سے بھی انھیں کبھی واقفیت نہیں رہی۔ انھیں اگر کوئی کام آتا تھا تو بس اپنا کام (ڈائریکشن) اس سے زیادہ کی توقعات پر وہ کبھی پورے نہ اترے۔
ایک بار فلم ٹریڈ کی مقتدر شخصیات نے انھیں پاکستان فلم ڈائریکٹر ایسوسی ایشن کا چیئرمین بنانا چاہا تو انھوں نے برملا کہا کہ میرے پاس اتنی ذہانت نہیں جتنی اس وقت پاکستان فلم انڈسٹری کو اپنے گورننس کے مسائل سے نکلنے کے لیے ضروری ہے اور نہ ہی وہ فلم والوں کی آپس کی گتھیاں سلجھانے کی صلاحیت رکھتے ہیں، اور اس وقت انڈسٹری کو جو مسائل درپیش ہیں وہ ان سے نبرد آزما ہونے کی صلاحیتوں سے محروم ہیں۔
نذرالاسلام کو اپنی صاف گوئی اور ''اس قسم کی تمام تر کمزوریوں'' کے باوجود بھی پرنٹ میڈیا اور عوامی حلقوں میں ہمیشہ پسند کیا جاتا تھا، بہت سراہا جاتا تھا اور فلمی ناقدین کے تو وہ ہمیشہ فیوریٹ فلم میکر رہے، شاید ان کے کام کے علاوہ ان کی روایتی مسکراہٹ، خلوص اور نیک نیتی کے باعث وہ لوگوں کو بے حد بھاتے تھے۔
شرافت، امبر، آئینہ، بندش، زندگی، لو اسٹوری، نہیں ابھی نہیں، آنگن، کالے چور، آندھی اور خواہش جیسی فلمیں لوگوں کے حافظوں میں ہمیشہ رچی بسی رہیں گی۔ افسوس بعد میں نذرالاسلام کو ہمارے فنانسرز اور پروڈیوسرز نے نظرانداز کردیا۔ لیکن یہ نذرالاسلام ہی کا المیہ نہیں ملک کے مختلف شعبہ حیات میں کیسے کیسے قیمتی ہیرے وطن عزیز میں پتھر کے ٹکڑے سمجھ کر ٹھکرا دیے گئے۔
نذرالاسلام کے دو بڑے اور اہم ترین پروجیکٹ پاکستانی سینما پر ''سیاست رشوت اور مہنگائی'' اور ''کرسی'' کے ناموں سے تھے اور یہ دونوں فلمیں اپنے موضوع، مقصد اور اسکرپٹ و ڈائریکشن کے حوالے سے فن پارے کی حیثیت اختیار کرجاتیں لیکن افسوس ان کے افتتاح بہت طمطراق سے ہونے کے باوجود یہ فلمیں بوجوہ تکمیل کے مراحل طے نہ کراس کیں۔
یہ ایک مسلمہ امر ہے کہ مذہب، سیاست، تعلیم، صحت، معیشت، کھیل اور فنون لطیفہ سمیت دیگر شعبہ ہائے زندگی میں نمایاں مقام حاصل کرنے والی شخصیات اہل ذوق بلکہ ہر خاص و عام کی توجہ کا مرکز ہر دور میں رہی ہیں اور رہیں گی اور یہ بھی بجا، یہ بھی درست ہے کہ ہر روز ہزاروں جنم لینے والے افراد میں کتنی تعداد صحیح معنوں میں بھرپور انسان کہلانے کے لائق ہوتی ہے، کوئی نہیں بتا سکتا۔ عمر بھر خاک کے پتلے کو مادیت پرستی کسی اور جانب کھلنے والی کھڑکی سے جھانکنے کی اجازت ہی نہیں دیتی، اس کے باوجود ہاں اس کے باوجود دادا نذرالاسلام ہمارے دل و ذہن کے آنگن میں کھڑے نظر آتے ہیں۔
ہدایت کار نذرالاسلام ہماری فلمی صنعت کے اعلیٰ دماغ اور انتہائی تخلیقی صلاحیتوں کے حامل فلم میکر تھے۔ وہ کلکتہ میں پلے بڑھے، پاکستان کے قیام کے بعد ڈھاکا آگئے، وہ بنیادی طور پر فلم ایڈیٹر (تدوین کار) تھے مگر ان کے خیال کی رسائی اور فلمانے کا انداز، فلم کا ٹریٹمنٹ سب سے انوکھا، پاور فل اور قابل دید ہوتا تھا۔
ڈھاکا میں چند فلمیں بنانے کے بعد وہ لاہور آگئے اور ایسے آئے کہ لاہور کی خاک میں ہی دفن ہوئے۔ وہ بہت ہی کم گو، دھیمے لہجے اور بہت زیادہ سوچنے اور نپی تلی گفتگو کرنے والے انسان تھے۔ انھیں بنگال سے لے کر لاہور تک فلم ٹریڈ سے وابستہ لوگ پیار سے ''دادا'' کہتے تھے اور وہ اپنے ہنر اور بلند خیالی کے اعتبار سے بھی دادا کہلانے کے مستحق تھے۔
یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ وہ ایک عام سی فلم کو اپنے منظرنامے اور سیناریو کی تبدیلی سے ایک خاص فلم بنادیتے تھے۔ ان کے سوچنے کا انداز، ان کا طریقہ کار سبھی کچھ منفرد اور موثر تھا۔ آپ ان کی مشہور فلموں کو دیکھ لیجیے، موضوع اور کردار وہی ہیں لیکن اپنے انوکھے اور خوبصورت ٹریٹمنٹ (انداز) کی وجہ سے وہ اپنی فلم کو سجا دیتے تھے۔ فوٹوگرافی اور میوزک کو وہ بہت سمجھتے تھے، بالخصوص گانوں کی پکچرائزیشن اور اس کی کٹنگ میں انھیں کمال حاصل تھا۔
نذرالاسلام نے ''پاکستان سینما'' کے لیے بہت کم فلمیں بنائیں۔ اس لیے کہ وہ کم اور ستھرا کام کرنے کو اچھا سمجھتے تھے۔ وہ کہانی کو بہت سوچ کر فائنل کرتے اور اسے مکمل اور اپنے خیالات کے مطابق بنائے بغیر فلم شروع نہیں کرتے تھے۔ وہ بعض اوقات اسکرپٹ لکھوانے کے بعد بھی اس فلم کو بنانے کا ارادہ ترک کردیتے تھے، انھیں ایک مشکل پسند ہدایت کار بھی کہا جاسکتا ہے۔
بشیر نیاز ان کے پسندیدہ مصنف (اسکرپٹ رائٹر) تھے، اور ان دونوں کی سوچ میں بہت گہرائی، ہم آہنگی بھی پائی جاتی تھی، یہی وجہ ہے کہ ان دونوں کی مشترکہ فلمیں تصویروں کی مانند ہوتی تھیں۔ ہماری دانست میں فلم وہی اچھی بنتی ہے جس میں دو دماغوں اور دو سوچوں کا ملاپ احسن طریقے سے ہو۔ مصنف اور ہدایت کار کی ذہنی ہم آہنگی کے بغیر اچھی فلم نہیں بن سکتی۔ نذرالاسلام خام فلم (فلم کا نیگیٹیو) خرچ کرنے میں بہت شاہ خرچ تھے۔ جو شاٹ پسند نہ ہوتا اس کو دوبارہ فلماتے تھے۔
یہی وجہ ہے کہ عام فلم میکرز کے تیس چالیس ہزار فٹ خام فلم کے مقابلے میں ان کی فلم 1000m, 80 فٹ پر مشتمل ہوتی تھی۔ اسی لیے انھیں فلموں کا ''مغل اعظم'' بھی کہا جاتا تھا۔ وہ فلم کے ایک ایک فریم پر توجہ دیتے تھے۔ وہ کہا کرتے تھے کہ میں اپنی فلم کا ہر شاٹ فلم کا آخری شاٹ سمجھ کر لیتا ہوں۔
نذرالاسلام ان معدودے چند ہدایت کاروں میں ہمیشہ سرفہرست رہے کہ جن کی فلم کا معیار ہی ان کی شناخت ہیں، فلم کا کاروبار بھی ان کا طرہ امتیاز تھا۔ سبھی ان کی عزت و احترام کرتے تھے۔ ان کی فلم خواہ کامیاب ہو یا ناکام، ان کی قدر و منزلت میں کبھی کمی نہیں آئی، ان کی ہدایت کاری کا اسلوب بہت دلچسپ، موثر اور نرالا تھا۔
ہدایت کار نذرالاسلام کے کام، ان کی فکر، ان کے اسکول آف تھاٹ یا ان کے ویژن یا پھر ان کے انداز تخلیق پر گہری نگاہ کی جائے تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ وہ ایک Gladiator ہوں، جو اپنے ساتھی ہدایت کاروں یا تخلیق کاروں کو ''روٹین ورک'' کے شکنجوں سے آزاد کرانے کے لیے ایک لمبی جنگ لڑ رہا ہے۔ بلاشبہ وہ پاکستانی سینما کے ایک ایسے جنگجو تھے جنھیں جب بھی کوئی اچھا پروڈیوسر یا فنانسر چاہتا کسی بہترین کری ایٹیو کام کے لیے استعمال کرسکتا تھا۔ مگر افسوس موت نے انھیں ایسا موقع فراہم نہ کیا۔
تاہم وہ ایک طرح کی مزاحمت کا نشان بن کر ''پاکستانی سینما'' پر ابھرے۔ وہ کبھی اخبار نویسوں سے ملتے تو یوں تاثر دیتے جیسے وہ ہر ایک کے خیالات کو بڑی اہمیت دیتے ہیں اور ان کی بات کو بڑی توجہ سے سنتے تھے۔ اس بات میں بھی کبھی دو رائے نہیں ہوسکتی بلکہ اسے کڑوی حقیقت کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ فلم ٹریڈ کے بے مہر لوگوں نے نذرالاسلام کی وہ دید، وہ پذیرائی نہیں کی جس کے وہ مستحق تھے۔
ظالم وقت نے آگے چل کر ان سے ہر چیز چھین لی حتیٰ کہ صحت بھی، لیکن نذرالاسلام نے اپنا بھرم، اپنا وقار اور سب سے بڑھ کر اپنے لبوں کی مسکراہٹ کسی کو چھیننے نہیں دی اور ان کی اسی مسکراہٹ سے لوگوں کو بالخصوص ان کے جاننے اور ماننے والوں کی ایک ہی پیغام ملتا تھا کہ ابھی نذرالاسلام (دادا) نے ہتھیار نہیں ڈالے ہیں۔ لیکن بالآخر 11 جنوری 1994ء کو وہ زندگی کی بازی ہار ہی بیٹھے۔
اس بات میں قطعی دو رائے نہیں ہوسکتی کہ نذرالاسلام ایک شریف النفس اور مروت بھرے انسان تھے۔ ان میں چاپلوسی یا حاشیہ برداری کا عنصر سرے سے موجود نہیں تھا۔ شوبز کی چالوں اور گروپ بندی سے بھی انھیں کبھی واقفیت نہیں رہی۔ انھیں اگر کوئی کام آتا تھا تو بس اپنا کام (ڈائریکشن) اس سے زیادہ کی توقعات پر وہ کبھی پورے نہ اترے۔
ایک بار فلم ٹریڈ کی مقتدر شخصیات نے انھیں پاکستان فلم ڈائریکٹر ایسوسی ایشن کا چیئرمین بنانا چاہا تو انھوں نے برملا کہا کہ میرے پاس اتنی ذہانت نہیں جتنی اس وقت پاکستان فلم انڈسٹری کو اپنے گورننس کے مسائل سے نکلنے کے لیے ضروری ہے اور نہ ہی وہ فلم والوں کی آپس کی گتھیاں سلجھانے کی صلاحیت رکھتے ہیں، اور اس وقت انڈسٹری کو جو مسائل درپیش ہیں وہ ان سے نبرد آزما ہونے کی صلاحیتوں سے محروم ہیں۔
نذرالاسلام کو اپنی صاف گوئی اور ''اس قسم کی تمام تر کمزوریوں'' کے باوجود بھی پرنٹ میڈیا اور عوامی حلقوں میں ہمیشہ پسند کیا جاتا تھا، بہت سراہا جاتا تھا اور فلمی ناقدین کے تو وہ ہمیشہ فیوریٹ فلم میکر رہے، شاید ان کے کام کے علاوہ ان کی روایتی مسکراہٹ، خلوص اور نیک نیتی کے باعث وہ لوگوں کو بے حد بھاتے تھے۔
شرافت، امبر، آئینہ، بندش، زندگی، لو اسٹوری، نہیں ابھی نہیں، آنگن، کالے چور، آندھی اور خواہش جیسی فلمیں لوگوں کے حافظوں میں ہمیشہ رچی بسی رہیں گی۔ افسوس بعد میں نذرالاسلام کو ہمارے فنانسرز اور پروڈیوسرز نے نظرانداز کردیا۔ لیکن یہ نذرالاسلام ہی کا المیہ نہیں ملک کے مختلف شعبہ حیات میں کیسے کیسے قیمتی ہیرے وطن عزیز میں پتھر کے ٹکڑے سمجھ کر ٹھکرا دیے گئے۔
نذرالاسلام کے دو بڑے اور اہم ترین پروجیکٹ پاکستانی سینما پر ''سیاست رشوت اور مہنگائی'' اور ''کرسی'' کے ناموں سے تھے اور یہ دونوں فلمیں اپنے موضوع، مقصد اور اسکرپٹ و ڈائریکشن کے حوالے سے فن پارے کی حیثیت اختیار کرجاتیں لیکن افسوس ان کے افتتاح بہت طمطراق سے ہونے کے باوجود یہ فلمیں بوجوہ تکمیل کے مراحل طے نہ کراس کیں۔
یہ ایک مسلمہ امر ہے کہ مذہب، سیاست، تعلیم، صحت، معیشت، کھیل اور فنون لطیفہ سمیت دیگر شعبہ ہائے زندگی میں نمایاں مقام حاصل کرنے والی شخصیات اہل ذوق بلکہ ہر خاص و عام کی توجہ کا مرکز ہر دور میں رہی ہیں اور رہیں گی اور یہ بھی بجا، یہ بھی درست ہے کہ ہر روز ہزاروں جنم لینے والے افراد میں کتنی تعداد صحیح معنوں میں بھرپور انسان کہلانے کے لائق ہوتی ہے، کوئی نہیں بتا سکتا۔ عمر بھر خاک کے پتلے کو مادیت پرستی کسی اور جانب کھلنے والی کھڑکی سے جھانکنے کی اجازت ہی نہیں دیتی، اس کے باوجود ہاں اس کے باوجود دادا نذرالاسلام ہمارے دل و ذہن کے آنگن میں کھڑے نظر آتے ہیں۔