فخرو بھائی کی گراں قدر خواہش

جسٹس فخرالدین جی ابراہیم کے سامنے بلوچستان میں انتخابات کا انعقاد سب سے بڑا چیلنج ہوگا۔


Dr Tauseef Ahmed Khan July 28, 2012
[email protected]

عزت مآب جسٹس فخرالدین جی ابراہیم نے مستقل چیف الیکشن کمشنر کے فرائض سنبھال لیے۔ وہ ملک کے پہلے چیف الیکشن کمشنر ہیں جن پر ملک کی تمام سیاسی جماعتوں نے اتفاق کیا ہے اور آئین میں کی گئی 20 ویں ترمیم کے طریقہ کار کے تحت حکومت نے مسلم لیگ کی جانب سے اس عہدے کے لیے پیش کیے جانے والے پہلے نام پر اتفاق کر کے ایک نئے جمہوری کلچر کو تقویت دی ہے۔

فخرالدین جی ابراہیم جنھیں 1953ء میں کمیونسٹ رہنما حسن ناصر سے جیل میں ملاقات کے بعد ملک کی سیاست اور عام آدمی کے بارے میں گہری دلچسپی پیدا ہوئی تھی، ایک ایماندار اور شفاف شخصیت کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں۔ جسٹس فخرالدین جی ابراہیم کو بھٹو صاحب نے سندھ بلوچستان ہائی کورٹ کا جج مقرر کیا تھا مگر جسٹس صاحب نے معراج محمد خان جیسے بھٹو کے مخالف ہو جانے والے اولین ساتھی کو ریلیف دے کے اپنی غیر جانبدارانہ حیثیت کو برقرار رکھا تھا۔ اسی اصول کے تحت وہ جنرل ضیاء الحق کے عبوری آئینی حکم (P.C.O) کو ماننے سے انکاری بھی ہوئے اور اسلام آباد چھوڑ کر کراچی میں پریکٹس کرنے پر مجبور ہوگئے۔

اب سوال ملک میں شفاف انتخابات کرانے کا ہے۔ اگرچہ آئین میں کی گئی 20 ویں ترمیم کے تحت اسمبلیاں ٹوٹتے ہی موجودہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں ختم ہوجائیں گی اور نگراں حکومتیں قائم ہوں گی مگر الیکشن کمیشن کو اپنی کارکردگی سے انتخابات کو شفاف اور غیر جانبدارانہ بنانے کا فریضہ ہر صورت انجام دینا ہوگا۔ انتخابات کے انعقاد کے لیے سب سے پہلا مرحلہ ووٹر لسٹوں کا ہے۔

اگرچہ الیکشن کمیشن نے نادرا کی مدد سے انتخابی فہرستیں تیار کر لی ہیں اور ایس ایم ایس کے ذریعے ووٹر کے نام کی تصدیق کا طریقہ کار بھی شروع کر لیا گیا ہے مگر پھر بھی مارچ کے مہینے تک 20 ملین افراد کے نام ووٹر لسٹوں میں شامل ہونے سے رہ گئے تھے۔ ان میں اکثریت 18 سال کے افراد کی ہے جن میں خواتین کی تعداد زیادہ ہے۔ اب اگر الیکشن کمیشن عام انتخابات کے اعلان کے وقت تک ان میں سے بیشتر افراد کے نام انتخابی فہرستوں میں شامل کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو پہلے مرحلے کی تکمیل کے لیے یہ اہم پیش رفت ہو گی۔ اس کے ساتھ ووٹر لسٹوں سے جعلی ووٹوں کے اخراج کا معاملہ بھی انتہائی اہم ہے، اس کے لیے اخبارات، ریڈیو اور ٹیلی وژن چینلز اور ویب سائٹس کو بخوبی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ پھر مرحلہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی حلقہ بندیوں کا ہے۔

یہ معاملہ پیچیدہ اور حساس نوعیت کا ہوتا ہے اور ایسے علاقوں میں جہاں لسانی اور مذہبی تضادات ہوں معاملہ مزید پیچیدہ ہو جاتا ہے مگر آبادی کے بڑھنے اور نئے ووٹروں کے شامل ہونے سے حلقہ بندیوں کی ہیئت کی تبدیلی ضروری ہوتی ہے۔ الیکشن کمیشن کو قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی حلقہ بندی کا کام شروع کرنا چاہیے اور ان پر اعتراضات کے لیے شکایت کنندہ کو خاصا وقت ملنا چاہیے اور اعتراضات کی سماعت منصفانہ انداز میں ہونی چاہیے۔ اگر حلقہ بندیوں کا معاملہ دیر میں ہوا تو لوگوں کو اپنے اعتراض کے حق میں دلائل دینے کا وقت نہیں ملے گا۔ حلقہ بندیوں کا معاملہ اطمینان سے طے ہو جائے تو بہت سے حلقے مطمئن ہو سکتے ہیں۔ ایک اہم معاملہ پولنگ اسٹیشن بنانے کا ہے۔ انتخابات میں دھاندلی کے لیے پولنگ اسٹیشن کا محل وقوع خاصا اہم ہوتا ہے۔

سپریم کورٹ نے انتخابی اصلاحات کے بارے میں ایک پٹیشن میں ضابطہ اخلاق کے حوالے سے ہدایات دی ہیں۔ ان ہدایات میں ووٹر کے گھر سے 3 کلومیٹر کے اندر پولنگ اسٹیشن قائم ہونا چاہیے۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کے تحت امیدواروں پر ووٹروں کو پولنگ اسٹیشن تک لانے کے لیے ٹرانسپورٹ کی فراہمی پر پابندی عائد کر دی گئی ہے اور اب یہ فریضہ الیکشن کمیشن کو انجام دینا ہے۔ اس صورتحال میں اگر پولنگ اسٹیشن آبادی کے انتہائی قریب ہوں گے تو ووٹر پیدل ہی ووٹ ڈالنے کے لیے چلے جائیں گے۔ ماضی میں ایک چھوٹے سے سرکاری اسکول میں کئی کئی پولنگ اسٹیشن قائم کیے گئے جس کی بنا پر بہت سے ووٹر ووٹ ڈالنے سے محروم رہ گئے۔

مگر کسی اسکول، کالج یا کوئی اور سرکاری عمارت بہت بڑی ہو اور اس کے دروازے مختلف سڑکوں پر کھلتے ہوں تو وہاں کئی اسٹیشن بنانے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے لیکن احتیاط پھربھی ضروری ہے۔ اس کے ساتھ ہی ضروری ہے کہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی حلقہ بندیوں کے اعلامیے کے ساتھ پولنگ اسٹیشن کے اعلامیے بھی جاری کیے جائیں اور اعلامیے جاری ہونے سے پہلے پولنگ اسٹیشن پر ہونے والے اعتراضات کی منصفانہ طور پر سماعت کی جائے۔

جب اعلامیے جاری ہوجائیں تو ان کی فہرست ذرایع ابلاغ پر شایع اور نشر کی جائے اور ویب سائٹس پر بھی بھیج دی جائے۔ اس کے علاوہ ووٹر کو ایس ایم ایس کے ذریعے بھی پولنگ اسٹیشن کی اطلاع دی جائے اور کسی صورت میں آخری وقت پولنگ اسٹیشن تبدیل نہ کیے جائیں۔ اگر کوئی ہنگامی صورتحال پیدا ہوجائے اور تبدیلی ناگزیر ہو تو تبدیلی کی خوب پبلسٹی کی جائے۔

اگلا مرحلہ پولنگ کے عملے کی تربیت کا آتا ہے۔ سپریم کورٹ کے ضابطہ کار کے تحت اب ایڈیشنل سیشن جج صاحبان قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے حلقوں کے ریٹرننگ افسر کے فرائض انجام نہیں دیں گے۔ کمشنر صاحب کو ان کے متبادل تلاس کرنا ہیں۔ اس معاملے میں ایک اہم بات یہ ہے کہ اگر گریڈ 20 کے اساتذہ کو ریٹرننگ افسر بنایا گیا تو پولیس اور امن و امان قائم کرنے والے ادارے ان کے احکامات کو سنجیدگی سے نہیں لیں گے۔

یہ ذمے داری سی ایس پی افسران خاص طور پر ڈی ایم جی گروپ کے افسران پر ڈالی جائے تو یہ افسران انتظامی معاملات زیادہ مؤثر انداز میں طے کر سکتے ہیں۔ اس کے ساتھ پولنگ افسروں کی تربیت کا معاملہ بھی خاصا اہم ہے۔ اقوامِ متحدہ کے ترقیاتی پروگرام UNDP نے 2002ء میں پولنگ افسروں کا ایک تربیتی پروگرام شروع کیا تھا۔ اس کے خاصے مفید نتائج برآمد ہوئے تھے۔ اس پروگرام میں سیاسی جماعتوں کے نامزد کردہ پولنگ ایجنٹ کو بھی شامل کرنا چاہیے۔

اگر پولنگ ایجنٹ انتخابی قوانین سے واقف ہوں گے تو وہ شفاف انتخابات میں اہم کردار ادا کر سکیں گے۔ انتخابات کو شفاف بنانے میں صرف الیکشن کمیشن اور اس کے عملے کا کردار ہی اہم نہیں بلکہ فوج، خفیہ ایجنسیوں، پولیس، بیوروکریسی، سیاسی جماعتوں اور عدلیہ کا کردار بھی خاصا اہم ہوتا ہے۔ اگر فوج، خفیہ ایجنسیاں اور بیوروکریسی شفاف انتخابات میں سنجیدہ ہوں گی تو معاملات آسان رہیں گے۔ جسٹس فخرالدین جی ابراہیم کے سامنے بلوچستان میں انتخابات کا انعقاد سب سے بڑا چیلنج ہوگا۔

جسٹس صاحب کو چاہیے کہ وفاقی حکومت سے اپیل کریں کہ بلوچستان میں عام معافی کا اعلان کیا جائے اور جلاوطن بلوچوں کو بلوچستان میں آنے کی اجازت دی جائے، اس کے ساتھ ساتھ ایجنسیاں بلوچستان میں اپنا کردار ختم کر دیں۔ اس طرح وہاں عوام اپنے حقیقی امیدواروں کو منتخب کرسکیں گے۔ اگر ملک کے تمام اسٹیک ہولڈرز نے چیف الیکشن کمشنر سے تعاون کیا تو انتخابات شفاف ہوں گے، دوسری صورت میں فخرالدین کی ناکامی صرف ان کی ناکامی ہی نہیں ہوگی بلکہ اس کا نقصان پورے ملک کو ہوگا۔ فخرو بھائی کی آخری گراں قدرخواہش شفاف انتخابات ہیں اور اس خواہش کی تکمیل میں ملک کا مستقبل ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں