سرجوڑ کر بیٹھنے کی مشروط ضرورت
خطے سے دہشت گردی ختم کرنے میں اخلاص کا مظاہرہ کیا جائے تو امریکا کی جارحیت اور دنیا بھر کی ناراضگی کا خطرہ ٹل سکتا ہے
پاکستان اس وقت جن شش جہت مسائل کا شکار ہے۔ ان کی نوعیت اور سنگینی دیکھ کر پہلی بار وثوق کے ساتھ یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ ملک اپنی تاریخ کے خطرناک ترین دور سے گزر رہا ہے۔
ہم نے ''سرجوڑ کر بیٹھو'' کے عنوان سے ایک کالم اسی تناظر میں لکھا تھا، اسے ہم ایکسپریس بھیجنے ہی والے تھے کہ متحدہ کی طرف سے اسی حوالے سے ایک وفد ملک کی سیاسی اور مذہبی جماعتوں سے چینلوں پر ملاقاتیں کرتا دِکھایا جانے لگا۔ جس کا مقصد بھی موجودہ اندرونی اور بیرونی سنگین خطرات کے پیش نظر تمام جماعتوں کو اپنے ذاتی اور جماعتی اختلافات کو ایک طرف رکھ کر موجودہ مسائل کے تناظر میں ایک قومی ایجنڈا ترتیب دینا ہے۔ اب حکومت نے خود اے پی سی بلانے کا اعلان کیا ہے۔
متحدہ کے ڈاکٹر فاروق ستار نے امریکا کے بحری بیڑوں کی پاکستانی ساحلوں کے قریب اور مشرق وسطیٰ کے سمندروں میں آمد کو اس خطے کے لیے ایک زبردست خطرہ قرار دیا۔ پاکستان اور افغانستان میں دہشت گردی، بلوچستان کی انتہائی سنگین صورت حال، کراچی کی ٹارگٹ کلنگ، مہنگائی، بے روزگاری، بجلی، گیس کی لوڈشیڈنگ کی نشان دہی کرتے ہوئے فاروق ستار نے کہا کہ یہ مسائل ایسی سنگینی اختیار کرچکے ہیں کہ اگر انھیں حل کرنے کی فوری کوشش نہ کی گئی تو ملک کی بقا اور سالمیت خطرے میں پڑ سکتی ہے۔
ہم ان ہی کالموں میں بار بار ہمارے حکمرانوں اور اپوزیشن کو توجہ دلاتے رہے ہیں کہ دنیا بھر کے ملکوں میں یہ دستور ہے کہ سیاسی جماعتیں ملک کے اہم ترین مسائل کا تعیّن کرتی ہیں، ان مسائل کی ان کی اہمیت کے اعتبار سے ترجیحات کا تعیّن کرتی ہیں اور انھیں عوام کے سامنے ایک ایجنڈے کی شکل میں پیش کرتی ہیں، لیکن یہ کام ان ملکوں میں ہوتا ہے جہاں سیاسی جماعتیں ملک و قوم سے مخلص ہوتی ہیں،
بدقسمتی سے ہمارے ملک میں 65 برسوں سے سیاسی جماعتوں کے سامنے ملک و قوم کے مفادات کا سرے سے کوئی تصور ہی نہیں رہا اور ان کی توجہ کا مرکز حفاظتِ اقتدار، حصولِ اقتدار اور قومی دولت کی لوٹ مار ہی رہا ہے، لہٰذا قومی مسائل اس مقام پر پہنچ گئے جہاں ہر شخص کی زبان پر یہ سوال آرہا ہے کہ کیا یہ ملک باقی رہے گا؟ سوال یہ ہے کہ اس سوال تک ملک کو پہنچانے والے کون ہیں؟
ویسے تو دہشت گردی کے حوالے سے امریکا مسلسل پاکستان پر یہ الزام لگاتا آرہا ہے کہ پاکستانی حکومت دہشت گردی کے خاتمے میں مخلص نہیں اور وزیرستان میں دہشت گردوں کے محفوظ ٹھکانے موجود ہیں، جن کی وجہ سے افغانستان سمیت یہ پورا خطہ اور پوری دنیا دہشت گردی کے خطرے سے دوچار ہے۔ اس حوالے سے یہ تشویش بھی ظاہر کی جارہی ہے کہ دہشت گردوں کی رسائی کہیں ایٹمی ہتھیاروں تک نہ ہوجائے۔
امریکی میڈیا پاکستانی حکومت پر دہشت گردوں کی پشت پناہی کا الزام لگاتے ہوئے اسامہ کی ایبٹ آباد میں برسوں تک محفوظ رہایش اور حقانی نیٹ ورک کی سرگرمیوں کو مثال کے طور پر پیش کرتا آرہا ہے اور اسی تناظر میں ڈرون حملوں کو جاری رکھنے پر اصرار کررہا ہے۔
پاکستان کے عوام کے مسائل میں مہنگائی، بے روزگاری، گیس، بجلی کی لوڈشیڈنگ شامل ہیں۔ ان کے علاوہ دہشت گردی کراچی میں جاری ٹارگٹ کلنگ، جرائم کی بھرمار، کرپشن کی انتہا نے عوام کو اس حد تک مشتعل کردیا ہے کہ کسی بھی وقت 1968 اور 1977 کی تاریخ ہمارے سامنے آسکتی ہے۔ ہمارے سیاسی اوتاروں کو یہ اندازہ ہے کہ اس بار عوام سڑکوں پر آجاتے ہیں تو محض 1968 اور 1977 تک نہیں رکیں گے بلکہ مشرق وسطیٰ کی تحریکوں کے نقشِ قدم پر چل پڑیں گے۔
اسی خطرے کو بھانپ کر وہ عوام کا غصّہ ٹھنڈا کرنے، اپنے ممکنہ حشر نشر سے بچنے کے لیے موجودہ حکمرانوں کو ان سارے مسائل کا ذمے دار ٹھہرا کر ان کا واحد حل انتخابات بتارہے ہیں، جو ایک فریب کے علاوہ کچھ نہیں، کیونکہ حکومت اور اپوزیشن کی کوئی جماعت نہ ان مسائل کو حل کرنے کی اہلیت رکھتی ہے نہ قوم و ملک سے مخلص ہے۔ ان سنگین مسائل کے حل کے لیے ایک قومی ایجنڈا ترتیب دینے کے لیے گول میز کانفرنس بلانی چاہیے تھی لیکن ہم حیران ہیں کہ جن سیاسی اوتاروں نے ملک کو تباہی کے کنارے لاکھڑا کیا ہے،
وہ بھلا ملک کو اس سنگین صورت حال سے کس طرح نکال سکتے ہیں۔ ہم نے ''سر جوڑ کر بیٹھنے کی ضرورت'' کے عنوان سے جو کالم لکھا تھا، اس میں اس بات کی وضاحت کی تھی کہ ان سرجوڑ کر بیٹھنے والوں میں موجودہ یا سابقہ حکمران شامل نہ ہوں بلکہ وہ سیاست دان، اہل علم، اہلِ دانش، ڈاکٹروں، انجینئروں، وکلاء، ٹریڈ یونین، کسانوں، صحافیوں، ادیبوں، شاعروں کی منتخب تنظیموں کے رہنما شامل ہوں اور ملک کی موجودہ سنگین صورت حال کا جائزہ لے کر ایک قومی ایجنڈا ترتیب دیں اور اس پر عمل درآمد کے لیے ان ہی طبقات پر مشتمل ایک عبوری حکومت قائم کریں جو ملک کو موجودہ سنگین صورت حال سے نکالنے کے ساتھ ساتھ 65 سالہ لوٹ مار کے نظام کے خاتمے کے لیے پہلے قدم کے طور پرملک میں زرعی اصلاحات کے ذریعے جاگیردارانہ نظام کو ختم کردے اور دوسرے قدم کے طور پر فوری بلدیاتی انتخابات کرادے۔ اعلیٰ سطح کی کرپشن کے مجرموں کو انصاف کے کٹہرے میں لاکھڑا کرے اور سرسری سماعت کی عدالتوں کے ذریعے دہشت گردوں، ٹارگٹ کلروں، اغوا برائے تاوان جیسے جرائم کا ارتکاب کرنے والوں کو چوراہوں پر لٹکائے۔
بیرونی خطرات کے حوالے سے امریکا کی ممکنہ جارحیت ایک سنگین خطرہ بنی ہوئی ہے۔ اس حوالے سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آج کے منظرنامے میں دہشت گردی کیا صرف امریکا کا مسئلہ ہے یا ساری دنیا دہشت گردی کے خلاف ہے۔ افغانستان کی جنگِ آزادی کا پاکستان میں ہونے والی ہمہ گیر دہشت گردی سے کیا تعلق ہے؟ کراچی کی ٹارگٹ کلنگ کیا تفریحاً کی جارہی ہے، کیا اس میں چند جرائم پیشہ یا سیاسی، لسانی و فقہی گروہ ہی شامل ہیں یا اس کے ڈانڈے دہشت گردوں کی ان تنظیموں سے ملتے ہیں جو پاکستان، افغانستان، عراق، صومالیہ سمیت کئی مسلم ملکوں میں سرگرم عمل ہیں؟ کیا بلوچستان میں ہونے والی دہشت گردی اور ٹارگٹ کلنگ صرف بلوچستان کے حقوق کی جنگ ہے یا یہاں بھی وہی نیٹ ورک ملوث ہے جس کا ہم نے اوپر ذکر کیا ہے؟
مہنگائی، بجلی، گیس کی لوڈشیڈنگ کو ختم کرنے کے لیے مختصر اور طویل مدتی منصوبے بنانے کی ضرورت ہے۔ یہ سارے کام ماضی اور حال کے حکمران ہرگز نہیں کرسکتے۔ اس کے لیے ایسی عبوری حکومت ہی ضروری ہے جس کا ہم نے اوپر ذکر کیا ہے۔ ہمارا خیال ہے کہ اگر اس خطے سے دہشت گردی ختم کرنے میں اخلاص کا مظاہرہ کیا جائے تو امریکا کی جارحیت اور دنیا بھر کی ناراضگی کا خطرہ ٹل سکتا ہے۔ اور یہ کام وہی عبوری حکومت کرسکتی ہے جس کا ذکر ہم نے اوپر کیا ہے، جس میں جاگیردارانہ نظام کے خاتمے کے لیے مخلص جماعتوں کو بھی شامل کیا جاسکتا ہے۔ ایسی عبوری حکومت ملک کو اقتصادی بحران سے بھی نکال سکتی ہے۔ محض انتخابات کا پرانا نظام کوئی مسئلہ حل نہیں کرسکتا۔