پاکستان کا ریٹائرمنٹ کلچر
صورتحال یہ ہے کہ اس ملک میں کوئی بھی ریٹائر ہونے کو تیار نہیں
ISLAMABAD:
میں اب پریشان ہوں کہ راحیل شریف کو ریٹائرڈ جنرل لکھوں یا نہیں۔ اخباری خبر کے مطابق وہ تو دوبارہ جنرل بن گئے ہیں۔ اس لیے اب کیا انھیں ریٹائرڈ لکھا جا سکتا ہے۔ یہ بھی کوئی اہم بات نہیں کہ انھوں نے نئی ذمے داری قبول کر لی ہے۔ تقریباً تمام ریٹائرڈ جنرلز کچھ نہ کچھ کر رہے ہیں' جو لوگ ان کی نئی ذمے داری پر اعتراض کر رہے ہیں ' کیا ان کے سامنے تمام ریٹائرڈ جنرلزکی موجودہ ذمے داریوں کی فہرست نہیں ہے۔ کتنے سیاست میں ہیں' کتنے میڈیا میں ہیں' کتنے رئیل اسٹیٹ ٹائیکونز کے ساتھ ہیں۔
صورتحال یہ ہے کہ اس ملک میں کوئی بھی ریٹائر ہونے کو تیار نہیں۔ یہ صورتحال صرف ریٹائر فوجی افسران کے ساتھ نہیں بلکہ سیاستدان 'جج 'وکیل 'ڈاکٹر سمیت کوئی بھی ریٹائر ہونے کے لیے تیار نہیں۔ اب سابق صدر آصف زرداری کی مثال ہی لے لیں 'وہ اس ملک کے صدر رہے ہیں لیکن اب ایک عام رکن اسمبلی بننے کے لیے بیتاب ہیں۔ اس سے پہلے سابق صدر فاروق لغا ری بھی ایسا کر چکے ہیں۔ حالانکہ جناب آصف زرداری کو فاروق لغاری کی مثال سامنے رکھنی چاہیے تھی کہ صدر بننے کے بعد ایک عام رکن اسمبلی بننے سے ان کی عزت و وقار میں کوئی اضافہ نہیں ہوا تھا۔ اسی طرح وزارت عظمیٰ کے عہدہ پر فائز رہنے کے بعد بھی عام رکن کے طور پر اسمبلی پہنچنے والوں کی لمبی لائن ہے۔ ان میں سے کوئی بھی ریٹائر ہونے کے لیے تیار نہیں۔
اسی طرح جج بھی ریٹائر ہونے کے لیے تیار نہیں۔ جج کے منصب سے ریٹائر ہونے کے بعد دوبارہ نوکری کی تلاش میں رہتے ہیں۔ ٹربینولز اور کئی جگہ ریٹائرڈ ججز نظر آتے ہیں۔ اسی طرح ریٹائرڈ ججز کی پرائیوٹ پریکٹس کس حد تک جائز ہے' یہ بھی اپنی جگہ ایک سوال ہے۔
ججز کا منصف سے وکیل بننے کا عمل بھی اس بات کا ثبوت ہے کہ جج بھی ریٹائرمنٹ کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں۔ وکلا اور ڈاکٹر تو ریٹائرمنٹ پر مکمل طور پر یقین نہیں رکھتے بلکہ جب تک نبض چلتی ہے کام چلتا ہے کے مصداق یہ کام کرتے ہیں۔ بیورو کریٹس کی صورتحال نسبتاً مختلف ہے۔ ان کے لیے سیاست میں آنے کے راستے تو کھلے ہیں لیکن شاید ریٹائرمنٹ کے بعد کسی خود مختار ادارے میں کنٹریکٹ ان کی واحد منزل سمجھی جاتی ہے۔
جہانگیر کرامت ایک امریکی تھنک ٹینک میں کوئی ذمے داری نبھا رہے ہیں۔ پرویز مشرف بھی اس کا اقرار کر چکے ہیں کہ ریٹائرمنٹ کے بعد انھیں سعودی حکومت سے رقم ملی ہے۔ ہم یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ دنیا میں کوئی فری لنچ نہیںدیتا۔ مرزا اسلم بیگ بھی ایک این جی او چلاتے رہے ہیں۔ جنرل (ر) پاشا بھی ریٹائرمنٹ کے بعد متحدہ عرب امارات کی حکومت کی ملازمت کرتے رہے ہیں۔ بیسیوں اور مثالیں بھی ہیں۔
ایسی صورتحال میں راحیل شریف اعتراض درست نہیں ہے۔ لیکن پھر بھی اس کے کئی ایسے پہلو ہیں۔ جس پر بات ہو سکتی ہے مثلاً اگر آج ہمارے ایک ریٹائرڈ سپہ سالار مسلم فوجی اتحاد کے سربراہ بن سکتے ہیں تو کیا دیگر ریٹائرڈ جنرلز اور فوجی افسران کو دیگر ممالک کے حوالے سے ایسی اجازت دی جا سکتی ہے۔
سوال یہ بھی ہے کہ کیا راحیل شریف نے اپنی عزت و وقار میں اضافہ کیا ہے یا کمی۔ سوال یہ بھی ہے کہ راحیل شریف کی نئی ذمے داری سے پاکستان کو کیا فائدہ ہو گا۔ صرف ان کا عہدہ سنبھالنا پاکستان کے لیے بظاہر کوئی بڑے خسارے کی بات نہیں ۔ البتہ یہ ان کی ذ اتی کامیابی ہو سکتی ہے۔ اس ضمن میں ایک دوست کا کہنا ہے کہ یہ تو دوسری جنگ عظیم والی بات ہو گئی جب انگریز نے ہندوستان سے فوج بھرتی کی تھی۔ جس نے سلطنت برطانیہ کی جنگ لڑی تھی۔ لیکن اس کا ہندوستان کا کوئی فائدہ نہیں تھا۔ کیا راحیل شریف کے عہدہ سنبھالنے سے سعودی عرب میں پاکستانیوں کے لیے ویزوں میں آسانی ہو گی۔ کیا پاکستانیوں کو بھارتیوں پر ترجیح دی جائے گی۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان میں ریٹائرمنٹ کے حوالہ سے سخت قانون سازی کی جائے۔ تا کہ اعلیٰ مقام پر پہنچ کر ریٹائر ہونے والے افراد کو کسی قواعد و ضوابط کا پابند بنایا جائے کہ وہ ریٹائرمنٹ کے بعد کونسا کام کر سکتے ہیں اور کونسا نہیں۔ یہ طے ہونا چاہیے۔ ریٹائرڈ جج کیسے بطور وکیل پریکٹس کر سکتا ہے۔ صدر اور وزیر اعظم کے عہدہ پر پہنچ جانے والے سیاستدانوں کے لیے بھی ریٹائرمنٹ کے اصول ہونے چاہیے۔
پاکستان میں اس وقت کوئی بھی کسی بھی عہدہ یا معراج پر پہنچ جانے کے بعد بھی ریٹائر ہونے کے لیے تیار نہیں۔ ایسا لگتا کوئی منزل پر پہنچ کر کے بھی آرام کرنے کو تیار نہیں۔ کوئی نئی نسل کے لیے راستہ چھوڑنے کے لیے تیار نہیں۔ دنیا بھر میں ریٹائرمنٹ کے حوالہ سے قواعد و ضوابط موجود ہیں۔ مغربی ممالک میں ایک دفعہ سربراہ مملکت بن جانے کے بعد ریٹائرمنٹ کا تصور ہے۔
امریکا میں صدر بن جانے کے بعد گھر بیٹھنے کا تصور ہے۔ لوگ فلاحی کام کرتے ہیں۔ دوبارہ منفعت بخش عہدوں کی تلاش میں نہیں پھرتے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم بھی بڑے بڑے عہدوں سے ریٹائر ہونے والوں کو یہ سمجھائیں کہ وہ نوکریوں کی تلاش کے بجائے فلاحی کاموں پر توجہ دیں۔ لوگوںکو یہ بات سمجھانی ہو گی کہ وہ واقعی ریٹائر ہو گئے ہیں۔ مصیبت یہی ہے کہ یہاں کوئی یہ ماننے کے لیے تیار نہیں کہ وہ ریٹائر ہو گیا ہے۔