پاکستان میںسنیما انڈسٹری کی ترقی…
فلم سازوں پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ وہ اچھی اور معیاری فلمیں بنائیں تاکہ لوگ سنیما گھروں پر واپس آسکیں۔
سال2012پاکستان کی سنیما انڈسٹری کے لیے تباہ کن ثابت ہوا ' اس سال کراچی میں چھ سنیمائوں کو پرتشدد مظاہروں کے دروان جلا دیا،کرروڑوں روپے کی لاگت سے تیار ہونے والے یہ سنیما جس بیدردی سے جلائے گئے۔
اس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے ،کراچی میں ایم اے جناح روڈ پر واقع سنیما کیپری، پرنس، نشاط،گارڈن روڈ پر واقع سنیما بمبینوجبکہ نگار، گلستان سنیما بھی نہ بچ سکے،سنیما انڈسٹری کے لیے یہ ایک ایسا المیہ تھا کہ جس نے ان حالات میں جبکہ ملک بھر میں سنیما تیزی سے ختم ہورہے ہیں، یہ ایک بہت بڑا نقصان تھا۔
کراچی کے عوام کو تفریح فراہم کرنے والے ان سنیماؤں کو جلانے کے پیچھے مقاصد کیا تھے، اس کا علم تو بہت سے لوگوں کو ہے کہ صرف سنیما ہی کیوں جلائے گئے،کیا یہ کوئی منصوبہ بندی کا حصہ تھا، یااس کے مقاصد کچھ اور تھے؟ لیکن جن لوگوں نے سنیما جلائے وہ باقاعدہ ہتھیاروں سے لیس ہوکر آئے تھے،سنیما مالکان اپنے سنیمائوں کو اپنی سامنے جلتا دیکھتے رہے لیکن وہ بے بس تھے کیونکہ صورتحال ایسی تھی کہ وہ مزاحمت بھی نہیں کرسکتے تھے قانون نافذ کرنے والے اس موقع ایسے غائب ہوئے جیسے گدھے کے سر سے سینگ،بہر حال سنیمائوں کی تباہی کے اثرات تو ابھی تک موجود ہیں۔
کراچی کا نشاط اور پرنس سنیما تو اس قدر بری حالت ہے کہ اس کی تعمیر فی الحال ممکن نظر نہیں آتی بدقسمتی سے سنیماؤں کو ہونے والے اتنے بڑے نقصان کے باوجود حکومت نے اس کو اس طرح نظر انداز کردیا کہ جیسے کچھ ہوا ہی نہیں کسی حکومتی فرد یا وزیر نے یہ زحمت بھی گوارا نہیں کی کم از کم ان سنیماؤں کا دورہ کرکے جھوٹی تسلی ہی دے دیتے، ان تمام باتوں کو تذکرہ کرنے کا مقصد ان باتوں کو دہرانا نہیں کہ جو اس سے پہلے بھی ہم اپنے کالموں میں لکھ چکے ہیں۔
آج مقصد ان سنیما مالکان کو خراج تحسین پیش کرنا ہے کہ جنہوں نے اتنا بڑا نقصان اٹھانے کے بعد بھی ہمت اور جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے حکومت کی مدد کا انتظام کرنے کے بجائے اپنی مدد آپ کے تحت اپنے سنیمائوں کو تعمیر کیا اور اسے عوام کی تفریح کے لیے ایک بار کھول دیا، جس پر فلم انڈسٹری سے وابستہ افراد نے زبردست خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ جب تک ایسے باہمت لوگ موجود ہیں۔ فلم اندسٹری ختم نہیں ہوسکتی ،کراچی کے سنیما بمبینو کے مالک عدیل امیتاز شیخ نے سب سے پہلے عزم وہمت کے ساتھ اپنے سنیما کی از سر نو تعمیر کا آغاز کیا اور صرف چند دن میںدن رات محنت کے بعد اسے اس قابل بنادیا کہ جہاں آکر لوگ سکون سے فلم دیکھ سکیں، عید الضحیٰ کے دن سے اس سنیما کا باقاعدہ افتتاح ہوا۔ فلم بینوں نے سنیما کے آغاز پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جو لوگ سنیما جیسی تفریح سے محروم کرنا چاہتے ہیں وہ اس ملک کے خیر خواہ نہیں ہوسکتے۔
بمبینو سنیما کے مالک عدیل شیخ کا کہنا تھا کہ ہم نے تو بہت بڑے نقصان کا یہ صدمہ صرف اس لیے برداشت کرلیا کہ ہم کراچی کی رونقوں کو برقرا رکھنا چاہتے ہیں۔ ہماری خواہش ہے ان کے سنیما میں لوگوںاچھی تفریح ملے افسوس اس بات کا کہ حکومت نے کسی بھی قسم کو کوئی تعاون نہیں کیا حالانکہ ہم حکومت کو تفریحی ٹیکس کی صورت میں پیسے دیتے ہیں،آج کے دور میں تفریح سب سے اہم ضرورت بن گئی ہے اس سے عوام کو محروم کرنا ان کی مشکلات میں اضافہ کرنے مترادف ہے پاکستان کے اس یاد گارسنیما جس کا افتتاح سابق وزیر اعظم پاکستان ذوالفقار علی بھٹو(مرحوم) نے کیا تھا' ہم اس یاد کو برقرا رکھنا چاہتے ہیں۔
انہوں نے حکومت سے اپیل کی کہ وہ اگر کچھ نہیں کرسکتی تو کم از کم ہماری حفاظت کے تو انتظامات کرے کہ آنے والے دنوں میںہمیں پھر کوئی نقصان نہ پہنچا سکے،بمبینو سنیما کے ساتھ جلایا جانے والا سنیما کیپری بھی مکمل ہونے کے بعد دوبارہ فلموں کی نمائش کے لیے کھول دیا گیا۔ اس سنیما کی تعمیر میں دوماہ لگے لیکن جلائے جانے کے فوری بعد اس کی نئے سرے سے تعمیر کا کام شروع کردیا گیا تھا۔
کیپری سنیما کے مالک، چوہدری آصف نے اس کی تعمیر میں دلچسپی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسے جلد از جلد مکمل کرنے کا فیصلہ انہوں نے کہا کہ جس طرح ہماری پراپرٹی کو نقصان پہنچایا گیا وہ ناقابل تلافی نقصان ہے لیکن ہم اہل کراچی کو مایوس نہیں کریں اور ان کو تفریح کی مکمل سہولتیں فراہم کریں گے،انھوں نے اپنا وعدہ پورا کر دکھایا، گزشتہ دنوں کراچی کے اس خوبصورت سنیما کا افتتاح بھارتی اداکار سلمان خان کی فلم ''دبنگ ٹو'' سے ہوا۔ افتتاحی تقریب میں فلم اور سنیما انڈسٹری کی نامور شخصیات کے ساتھ ٹیلی ویژن کے فنکاروں نے بہت بڑی تعداد میںشرکت کی۔ اس موقع پر چوہدری آصف نے کہا کہ سنیما عوام کی تفریح کے لیے بنایا گیا ہے ہم نے ہمیشہ اپنے سنیما پر اچھی اور معیاری فلموں کی نمائش کی ہے۔ حکومت نے تو ہمارا ساتھ نہیںدیا لیکن ہم نے اپنے وعدہ کے مطابق سنیما کو عوام کے لیے شروع کردیا ہے۔
اس موقع پر نشاط سنیما کے مالک ندیم مانڈوی والا نے کہا خوشی کی بات ہے کہ بمبینو سنیما کے بعد اب کیپری سنیما بھی کھول دیا گیا ہے آج کے دور میں سنیما بہت ضروری ہیں کیونکہ سنیما ہی عوام کی تفریح کا سب سے بڑا ذریعہ ہے اور اسے ہم ختم نہیں ہونے دیں گے،نشاط سنیما کی تعمیر بہت مشکل مرحلہ ہے اس میں وقت درکار ہے۔ کوشش کررہے ہیں کہ اسے بھی جلد تعمیر کریں،اس تقریب میں نواب حسن صدیقی،عدیل امتیاز شیخ، اور دیگر افراد نے شرکت کی ٹیلی ویژن کے اداکار قیصر خان نظامانی' فضیلہ قاضی، محمد علی شہکی اور دیگر فنکاروں نے کیپری سنیما کے آغاز کا خیر مقدم کرتے ہوئے خوشی کا اظہار کیا۔
کراچی میں جلائے جانے والے چھ سنیمائوں میں سے چار سنیما ان دنوں فلموں کی نمائش میں مصروف ہیں 'جبکہ پرنس اور نشاط سنیما کی جلد تعمیر کے لیے فلم بین شدت سے منتظر ہیں خوشی کی بات ہے کہ کراچی میںان دنوں ایک درجن سے زائد سنیما گھر تعمیر کیے جارہے ہیں جو دور جدید کے مطابق بنائے جارہے ہیں ان میں سے تین سنیما گھر کلفٹن میں تعمیر کیے جا چکے ہیں جن کا افتتاح آئندہ سال کردیا جائے گا، کراچی کی خراب صورتحال میں جبکہ کسی بھی کاروبار کو تحفظ حاصل نہیں ہے' اگر ان حالات میں عوام کی تفریح کو مد نظر رکھ کر سنیما گھر تعمیر کیے جارہے ہیں۔
یہ قابل ستائش ہے یہ پاکستان کی فلم انڈسٹری کے لیے بھی نیک شگون ہے کہ کراچی میںتیزی سے سنیما گھر بن رہے ہیں انہیں سنیما مالکان سے جو شکایت ہے کہ انہیں پاکستانی فلمیں چلانے کے لیے سنیما نہیں ملتے۔ نئے سنیما گھروں کی تعمیر کے بعد ان کی اس شکایت کا کسی حد تک ازالہ ہوجائے گا، اب یہ ذمہ داری فلم سازوں پر عائد ہوتی ہے کہ وہ وہ اچھی اور معیاری فلمیں بنائیں تاکہ لوگ سنیما گھروں پر واپس آسکیں،سنیما مالکان نے تو فلم انڈسٹری کی راہ ہموار کرنے کے لیے اپنا فرض ادا کردیا ہے دیکھنا ہے پاکستانی فلم ساز اب کس حد تک اس سے فائدہ اٹھا تے ہیں نیا سال بہت سی امیدیں لیکر آرہا ہے ان امیدوں کو کس حد تک پورا کیا جاتا ہے یہ وقت ہی ثابت کرے گا۔
اس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے ،کراچی میں ایم اے جناح روڈ پر واقع سنیما کیپری، پرنس، نشاط،گارڈن روڈ پر واقع سنیما بمبینوجبکہ نگار، گلستان سنیما بھی نہ بچ سکے،سنیما انڈسٹری کے لیے یہ ایک ایسا المیہ تھا کہ جس نے ان حالات میں جبکہ ملک بھر میں سنیما تیزی سے ختم ہورہے ہیں، یہ ایک بہت بڑا نقصان تھا۔
کراچی کے عوام کو تفریح فراہم کرنے والے ان سنیماؤں کو جلانے کے پیچھے مقاصد کیا تھے، اس کا علم تو بہت سے لوگوں کو ہے کہ صرف سنیما ہی کیوں جلائے گئے،کیا یہ کوئی منصوبہ بندی کا حصہ تھا، یااس کے مقاصد کچھ اور تھے؟ لیکن جن لوگوں نے سنیما جلائے وہ باقاعدہ ہتھیاروں سے لیس ہوکر آئے تھے،سنیما مالکان اپنے سنیمائوں کو اپنی سامنے جلتا دیکھتے رہے لیکن وہ بے بس تھے کیونکہ صورتحال ایسی تھی کہ وہ مزاحمت بھی نہیں کرسکتے تھے قانون نافذ کرنے والے اس موقع ایسے غائب ہوئے جیسے گدھے کے سر سے سینگ،بہر حال سنیمائوں کی تباہی کے اثرات تو ابھی تک موجود ہیں۔
کراچی کا نشاط اور پرنس سنیما تو اس قدر بری حالت ہے کہ اس کی تعمیر فی الحال ممکن نظر نہیں آتی بدقسمتی سے سنیماؤں کو ہونے والے اتنے بڑے نقصان کے باوجود حکومت نے اس کو اس طرح نظر انداز کردیا کہ جیسے کچھ ہوا ہی نہیں کسی حکومتی فرد یا وزیر نے یہ زحمت بھی گوارا نہیں کی کم از کم ان سنیماؤں کا دورہ کرکے جھوٹی تسلی ہی دے دیتے، ان تمام باتوں کو تذکرہ کرنے کا مقصد ان باتوں کو دہرانا نہیں کہ جو اس سے پہلے بھی ہم اپنے کالموں میں لکھ چکے ہیں۔
آج مقصد ان سنیما مالکان کو خراج تحسین پیش کرنا ہے کہ جنہوں نے اتنا بڑا نقصان اٹھانے کے بعد بھی ہمت اور جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے حکومت کی مدد کا انتظام کرنے کے بجائے اپنی مدد آپ کے تحت اپنے سنیمائوں کو تعمیر کیا اور اسے عوام کی تفریح کے لیے ایک بار کھول دیا، جس پر فلم انڈسٹری سے وابستہ افراد نے زبردست خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ جب تک ایسے باہمت لوگ موجود ہیں۔ فلم اندسٹری ختم نہیں ہوسکتی ،کراچی کے سنیما بمبینو کے مالک عدیل امیتاز شیخ نے سب سے پہلے عزم وہمت کے ساتھ اپنے سنیما کی از سر نو تعمیر کا آغاز کیا اور صرف چند دن میںدن رات محنت کے بعد اسے اس قابل بنادیا کہ جہاں آکر لوگ سکون سے فلم دیکھ سکیں، عید الضحیٰ کے دن سے اس سنیما کا باقاعدہ افتتاح ہوا۔ فلم بینوں نے سنیما کے آغاز پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جو لوگ سنیما جیسی تفریح سے محروم کرنا چاہتے ہیں وہ اس ملک کے خیر خواہ نہیں ہوسکتے۔
بمبینو سنیما کے مالک عدیل شیخ کا کہنا تھا کہ ہم نے تو بہت بڑے نقصان کا یہ صدمہ صرف اس لیے برداشت کرلیا کہ ہم کراچی کی رونقوں کو برقرا رکھنا چاہتے ہیں۔ ہماری خواہش ہے ان کے سنیما میں لوگوںاچھی تفریح ملے افسوس اس بات کا کہ حکومت نے کسی بھی قسم کو کوئی تعاون نہیں کیا حالانکہ ہم حکومت کو تفریحی ٹیکس کی صورت میں پیسے دیتے ہیں،آج کے دور میں تفریح سب سے اہم ضرورت بن گئی ہے اس سے عوام کو محروم کرنا ان کی مشکلات میں اضافہ کرنے مترادف ہے پاکستان کے اس یاد گارسنیما جس کا افتتاح سابق وزیر اعظم پاکستان ذوالفقار علی بھٹو(مرحوم) نے کیا تھا' ہم اس یاد کو برقرا رکھنا چاہتے ہیں۔
انہوں نے حکومت سے اپیل کی کہ وہ اگر کچھ نہیں کرسکتی تو کم از کم ہماری حفاظت کے تو انتظامات کرے کہ آنے والے دنوں میںہمیں پھر کوئی نقصان نہ پہنچا سکے،بمبینو سنیما کے ساتھ جلایا جانے والا سنیما کیپری بھی مکمل ہونے کے بعد دوبارہ فلموں کی نمائش کے لیے کھول دیا گیا۔ اس سنیما کی تعمیر میں دوماہ لگے لیکن جلائے جانے کے فوری بعد اس کی نئے سرے سے تعمیر کا کام شروع کردیا گیا تھا۔
کیپری سنیما کے مالک، چوہدری آصف نے اس کی تعمیر میں دلچسپی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسے جلد از جلد مکمل کرنے کا فیصلہ انہوں نے کہا کہ جس طرح ہماری پراپرٹی کو نقصان پہنچایا گیا وہ ناقابل تلافی نقصان ہے لیکن ہم اہل کراچی کو مایوس نہیں کریں اور ان کو تفریح کی مکمل سہولتیں فراہم کریں گے،انھوں نے اپنا وعدہ پورا کر دکھایا، گزشتہ دنوں کراچی کے اس خوبصورت سنیما کا افتتاح بھارتی اداکار سلمان خان کی فلم ''دبنگ ٹو'' سے ہوا۔ افتتاحی تقریب میں فلم اور سنیما انڈسٹری کی نامور شخصیات کے ساتھ ٹیلی ویژن کے فنکاروں نے بہت بڑی تعداد میںشرکت کی۔ اس موقع پر چوہدری آصف نے کہا کہ سنیما عوام کی تفریح کے لیے بنایا گیا ہے ہم نے ہمیشہ اپنے سنیما پر اچھی اور معیاری فلموں کی نمائش کی ہے۔ حکومت نے تو ہمارا ساتھ نہیںدیا لیکن ہم نے اپنے وعدہ کے مطابق سنیما کو عوام کے لیے شروع کردیا ہے۔
اس موقع پر نشاط سنیما کے مالک ندیم مانڈوی والا نے کہا خوشی کی بات ہے کہ بمبینو سنیما کے بعد اب کیپری سنیما بھی کھول دیا گیا ہے آج کے دور میں سنیما بہت ضروری ہیں کیونکہ سنیما ہی عوام کی تفریح کا سب سے بڑا ذریعہ ہے اور اسے ہم ختم نہیں ہونے دیں گے،نشاط سنیما کی تعمیر بہت مشکل مرحلہ ہے اس میں وقت درکار ہے۔ کوشش کررہے ہیں کہ اسے بھی جلد تعمیر کریں،اس تقریب میں نواب حسن صدیقی،عدیل امتیاز شیخ، اور دیگر افراد نے شرکت کی ٹیلی ویژن کے اداکار قیصر خان نظامانی' فضیلہ قاضی، محمد علی شہکی اور دیگر فنکاروں نے کیپری سنیما کے آغاز کا خیر مقدم کرتے ہوئے خوشی کا اظہار کیا۔
کراچی میں جلائے جانے والے چھ سنیمائوں میں سے چار سنیما ان دنوں فلموں کی نمائش میں مصروف ہیں 'جبکہ پرنس اور نشاط سنیما کی جلد تعمیر کے لیے فلم بین شدت سے منتظر ہیں خوشی کی بات ہے کہ کراچی میںان دنوں ایک درجن سے زائد سنیما گھر تعمیر کیے جارہے ہیں جو دور جدید کے مطابق بنائے جارہے ہیں ان میں سے تین سنیما گھر کلفٹن میں تعمیر کیے جا چکے ہیں جن کا افتتاح آئندہ سال کردیا جائے گا، کراچی کی خراب صورتحال میں جبکہ کسی بھی کاروبار کو تحفظ حاصل نہیں ہے' اگر ان حالات میں عوام کی تفریح کو مد نظر رکھ کر سنیما گھر تعمیر کیے جارہے ہیں۔
یہ قابل ستائش ہے یہ پاکستان کی فلم انڈسٹری کے لیے بھی نیک شگون ہے کہ کراچی میںتیزی سے سنیما گھر بن رہے ہیں انہیں سنیما مالکان سے جو شکایت ہے کہ انہیں پاکستانی فلمیں چلانے کے لیے سنیما نہیں ملتے۔ نئے سنیما گھروں کی تعمیر کے بعد ان کی اس شکایت کا کسی حد تک ازالہ ہوجائے گا، اب یہ ذمہ داری فلم سازوں پر عائد ہوتی ہے کہ وہ وہ اچھی اور معیاری فلمیں بنائیں تاکہ لوگ سنیما گھروں پر واپس آسکیں،سنیما مالکان نے تو فلم انڈسٹری کی راہ ہموار کرنے کے لیے اپنا فرض ادا کردیا ہے دیکھنا ہے پاکستانی فلم ساز اب کس حد تک اس سے فائدہ اٹھا تے ہیں نیا سال بہت سی امیدیں لیکر آرہا ہے ان امیدوں کو کس حد تک پورا کیا جاتا ہے یہ وقت ہی ثابت کرے گا۔