’یونیسکو‘ کی پہلی خاتون سربراہ ارینا بوکووا

ارینا بوکووا 15 نومبر 2009ء کو یونیسکو کی ڈائریکٹر جنرل نام زد ہوئیں۔

بوکووا نے ناخواندگی کے خلاف موثر طریقے نمٹنے کے لیے نمایاں طور پر خدمات انجام دیں ہیں۔ فوٹو: فائل

حوّا کی بیٹی نے ایک خاتون خانہ سے لے کر بڑے بڑے سیاسی و انتظامی عہدوں تک اپنا کردار نہایت خوبی سے نبھایا ہے۔

اس وقت برطانیہ کی وزیراعظم اور وزیرداخلہ کے عہدے خواتین کے پاس ہیں۔ اسی طرح جرمنی میں خاتون سربراہ مملکت انجیلا مرکل ہیں اور ان کی وزیردفاع بھی ایک خاتون ارُوسلا ونڈرلیئن ہیں۔ اس کے علاوہ دنیا کے دو بڑے اداروں کی سربراہان بھی خواتین ہیں۔ ان میں سے ایک انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ(IMF)ہے، جس کی ایم ڈی فرانس کی خاتون مادام کرسٹین لیگارڈ ہیں، جوکہ جولائی 2011 ء سے اس عہدے پر کام کررہی ہیں اور ادارے کی پہلی خاتون ایم ڈی ہیں جب کہ دوسرا اقوام متحدہ کا مشہور معروف ذیلی ادارہ ''یونیسکو ''ہے، جس کی پہلی خاتون سربراہ ارینا بوکووا ہیں اور سات سال سے بطور ڈی جی یونیسکو اپنے فرائض احسن طریقے انجام دے رہی ہیں۔

1946ء میں قائم ہونے والے اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یونیسکو سائنس، ثقافت اور تعلیمی مقاصد کو فروغ دینے کے لیے کام کرتا ہے۔ یونیسکو کے ڈائریکٹر جنرل کا عہدہ چار سال کے لیے ہوتا ہے، جس کا صدر دفتر پیرس میںہے۔ اس اہم ترین عہدے پر پہلی بار ایک خاتون ارینا بوکووا (Irina Bokova) براجمان ہیں، ان کا تعلق بلغاریہ سے ہے۔ مجموعی طور پر وہ یونیسکو کی دسویں ڈائریکٹر جنرل ہیں، جو کہ 2009ء سے اس عہدے پر فائز ہیں۔ وہ 2013ء میں اپنی غیرمعمولی کارکردگی کے باعث اس عہدے کی دوسری مدت (2013-2017) کے لیے بھی اپنی خدمات کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔

ارینا بوکووا 12 جولائی 1952ء کو پیدا ہوئیں۔ وہ 15 نومبر 2009ء کو یونیسکو کی ڈائریکٹر جنرل نام زد ہوئیں۔ بطور یونیسکو کی سربراہ وہ نہایت مستعدی سے مردو زن کے لیے یک ساں تعلیم کی فراہمی کے لیے عالمی کاوشوں کا حصّہ بنی رہی ہیں۔ یونیسکو کی سرگرمیوں کا نقطۂ خاص اور ہراول دستے ''تعلیم'' کی وہ قائد ہیں۔ بطور ڈی جی یونیسکو زندگی اور موت والے'' تعلیم'' جیسے معاملے کی وہ ''خصوصی سفیر '' بھی ہیں۔ ارینا بوکووا نے نمایاں طور پر معیار تعلیم میں مساوات کی وکالت کی پیروی کی ہے۔ ذاتی حیثیت میں بھی خواتین سے امتیازی سلوک کے خلاف آواز بلند کی ہے۔ انہوں نے تعلیم کے علاوہ دوسرے اہم شعبوں کو بھی بااختیار بنانے کے لیے قابل ذکر کردار ادا کیا ہے۔

سائنسی تعاون برائے قابل تحسین ترقیات، وارننگ سسٹم برائے ''سونامی''، آب پاشی کے بہتر انتظامی معاہدے اور صحافیوں کا عالمی سطح پر تحفظ و اظہاررائے کی آزادی کے لیے ان کی کاوشیں نمایاں ہیں۔ یونیسکو نے اکتوبر 2016ء میں مسلمانوں کے حق میں ایک تاریخی قرارداد منظور کی، جو انہی کی زیرنگرانی کام یابی سے ہم کنا رہوئی ہے۔ اس تاریخی قرارداد نے بیت المقدس اور اس کے تاریخی مقامات کا تعین کر دیا ہے۔

یونیسکو نے عرب ممالک کی جانب سے پیش کردہ قرارداد پر رائے شماری کروائی۔ دوسری رائے شماری میں حتمی طور پر قبلہ اوّل کو مسلمانوں کا مذہبی مقام قرار دے دیا گیا ہے۔ 26 ممالک رائے شماری میں غیرجانب دار رہے، جب کہ چھے ممالک نے اس کی مخالفت کی، جن میں امریکا، برطانیہ لیٹویا، ہالینڈ، اسٹونیا اور جرمنی شامل ہیں۔ دو رکن غیرحاضر تھے۔ عالم اسلام میں اسے غیر معمولی فتح قرار دیا جا رہا ہے۔

ارینا بوکووا نے ماسکو اسٹیٹ یونیورسٹی سے ''بین الاقوامی تعلقات''میں گریجویشن کے بعد واشنگٹن کی میری لینڈ یونیورسٹی اور ہارورڈ یونیورسٹی کے جان ایف کینیڈی اسکول آف گوررنمنٹ میں تعلیم کا سلسلہ جاری رکھا۔ 1977ء میں وہ اقوام متحدہ سے وابستہ ہوگئیں، جہاں وہ خارجہ امور کی وزارت میں کام کرتی تھیں۔ اسی وزارت میں انہیں سیاسی اور قانونی معاملات کے لیے قائم ''بلغاریہ مشن''کا انچارج بنادیا گیا۔ وہ 1991 ء سے 1990 ء اور 2001 ء سے 2005 ء تک بلغاریہ کی پارلیمنٹ کی رکن رہ چکی ہیں۔ انہوں نے بلغاریہ کے نئے آئین کی تیاری میں بھی حصّہ لیا۔


بلغاریہ اور یورپی یونین کے تعلقات کے مابین ارینا نے خارجہ امور کی وزیر کے طور پر رابطہ کار کارول ادا کیا ہے۔ وہ فرانس، مناکو اور یونیسکو میں بلغاریہ کی سفیر کے طورپر خدمات انجام دے چکی ہیں۔ وہ صدرِ جمہوریہ بلغاریہ کی ذاتی نمائندے کی حیثیت میں "Organisation Internationale de la Francophonie" (OIF)کے لیے فرائض ادا کر چکی ہیں۔ ارینا نے یورپین یونین میں باہمی تعاون کے لیے قائم وزیروں کی کونسل کی سیکریٹری اور خارجہ امور کی وزیر رہتے ہوئے ہمیشہ یورپی اقوام میں ہم آہنگی اور بھائی چارے کی حمایت کی۔

اس مقصد کے لیے وہ ایک یورپی پالیسی فورم کی بانی اور چیئرپرسن ہیں اور ایک این جی او کی بھی تخلیق کار ہیں جوکہ یورپی اقوام کو ان کی شناخت کو تقویت پہنچانے اور آگے پروان چڑھانے کے لیے قائم کی گئی ہے، تاکہ یورپ کی قوموں کے مابین گفتگو و مکالمے کی بہتر فضاء قائم رہے۔ یہ فورم ارینا کے وژن کی بہترین مثال کہی جا سکتی ہے، جس نے انسانی عظمت اور حقوق کی پہچان کو نیا رنگ ڈھنگ دیا ہے۔ ارینا اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کے Global Education First Initiative(GEFI)کی خصوصی اسٹیئرنگ کمیٹی کی ایگزیکٹیو سیکریٹری اور براڈبینڈ کمیشن کی مشترکہ چیئرپرسن بھی ہیں۔

اپنی مادری زبان کے علاوہ ارینا دنیا کی چار بڑی زبانیں انگریزی، فرانسیسی، ہسپانوی اور روسی بہ خوبی بولتی ہیں اور شاید یہ ان کی سب سے اہم صلاحیت ہے جس نے بین الاقوامی برادری میں انہیں مقبول اور پسندیدہ خاتون کے طور پر روشنا س کروایا ہے۔ اریناکی ایک بیٹے اور ایک بیٹی کی ماں ہیں، جو امریکا میں مقیم ہیں۔

بوکووا نے ناخواندگی کے خلاف موثر طریقے نمٹنے کے لیے نمایاں طور پر خدمات انجام دیں ہیں، جس کا اظہار 8 ستمبر 2016ء کو خواندگی کے عالمی دن کے پیغام سے ہوتا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ گزشتہ 50 برسوں سے خواندگی کا عالمی دن 1965ء کے اعلان کے ساتھ ہی اگلے برس سے منایا جاتا ہے۔ ہم نے دنیا کے تمام معاشروں میں اس عظیم پیش رفعت کو بڑھتے ہوئے دیکھا ہے، جس میں مردوخواتین دونوں کو بااختیار بنانے کے لئے انجام دیں گئیں ۔اصل میں آج دنیا کی آبادی کہیں بڑھ چکی ہے لیکن بالغوں میں خواندگی 25 فی صد کم ہوگئی ہے۔

بوکووا کہتی ہیں کہ دنیا کے 43 ممالک نے کام یابی سے مردوعورت کی برابری کے ساتھ عالم گیری تعلیم کو آگے بڑھایا ہے، جو اپنی مثبت پیش رفت کے ساتھ خواندگی کی تمام تحریک کے لیے یونیسکو کا ہراول دستہ رہاہے، مگر یہ ابھی ناکافی ہے۔ آ ج بھی یہاں 758 ملین بالغ ایسے ہیں جو پڑھ سکتے ہیں اور نہ ہی لکھ سکتے ہیں، ان میں دو تہائی تعداد خواتین کی ہے۔ ہمیںخواندگی کی مدد سے اسی غربت اور تنگ دستی کو لازمی بدلنا ہے۔

2030ء کے یونیسکو کے ایجنڈے کے مطابق مستقبل کی پائیدار ترقی و خوش حالی کے لیے نئے گلوبل وژن کو استوار کرنا ہے، جس سے لوگوں کی دست گیری ہو اور امن کو سہارا مل سکے۔ پائیدار ترقیاتی مقاصد میں مخصوص منصفانہ میعاری تعلیم اورزندگی میں سیکھنے اور کام یابی کے بہترین مواقع ہر سطح پر میسر ہوں، خواندگی ایک لازمی ضرورت ہے اور اس کے لیے سب کو ساتھ ملانا ہے۔

خواندگی زندگی کی بقا اور مفلسی ختم کرنے کے لیے ضروری ہے اور یہ انسانی عظمت اور حقوق کی اساس ہے۔ یہ ہی وہ راستہ ہے آج ہم گلو بلی اتحاد کے تعلق کو خواندگی کے لیے متعارف کر رہے ہیں جس میں سرمایہ کاروں کو حرکت میں لانا اور نئے خیالا ت و نظریات کی ابتدا کو آگے پروان چڑھانا ہے۔ اب دنیا 1966سے یک سر بدل چکی ہے اور اب ہمیں نئی حدوں کا تعین کرنا ہے ، ہمارا ارداہ ہے کہ ہرایک مرد وعورت کی قابلیتوں ہنرمندیوں کو ابھارنے کے لیے زیادہ سے زیادہ مواقع پیدا کیے جائیں، جو کہ ان کی عزت و عظمت کا سبب بن سکیں اور ٹھوس پائیداری قائم ہو۔
Load Next Story