اور کب تک
جب گائوں کے گائوں جلائے جا رہے تھے تو انسان تو بھاگ گئے لیکن مویشی تو وہیں بندھے رہ گئے
یہ دو لاکھ لوگ جن کے گھروں کو آگ لگا دی گئی، سازو سامان لوٹ لیا گیا، جو سامنے ملا اسے تشدد کر کے مار دیا، بھاگنے پر مجبور کیا، خواتین کی اجتماعی آبروریزی کی گئی۔ یہ سب کے سب رنگ، نسل، زبان اور علاقے کی تمام تعریفوں کے مطابق ایک قوم ہیں، ان کے ہم زبان، ہم نسل اور ہم قوم لوگوں نے اسی بنیاد پر بنگلہ دیش بنایا تھا کہ دو قومی نظریہ نام کی چیز کی اہمیت نہیں اور ملت اسلامیہ نام کا تصور ایک خواب ہے۔
لیکن زمینی حقائق کی تلخی اس قدر کڑوا سچ ہے کہ کوئی آزاد خیال، سیکولر دانشور اسے قبول نہیں کرتا۔ سچ یہ ہے ایک زبان، رنگ اور نسل کا ہونے کے باوجود کوئی اپنا بھائی نہیں سمجھتا، اس لیے کہ یہ کلمۂ طیبہ پڑھتے ہوئے اپنے مسلمان ہونے کا اقرار کرتے ہیں۔ یہ آسام کے مسلمان ہیں۔ آسام کبھی بھی ہندوستان میں مسلمان بادشاہوں یا ہندو موریہ اور گپتا حکومتوں کا حصہ نہیں رہا۔ تھوڑے عرصے کے لیے اسے اورنگ زیب عالمگیر نے فتح کر کے اپنے اختیار میں رکھا لیکن قبضہ زیادہ دیر قائم نہ رکھ سکا۔ لیکن اس کے باوجود اس وقت آسام میں مسلمانوں کی تعداد ایک کروڑ ہے جو تین کروڑ کے اس صوبے کا 33 فیصد ہیں۔
یہاں تین فیصد عیسائی بھی آباد ہیں۔ مسلمان حکمرانوں کے زیر اثر نہ ہونے کے باوجود آسام میں اس قدر مسلمانوں کی تعداد ایک صوفی درویش آجن فقیر جنھیں شاہ میراں اور غیاث الدین اولیاء کہا جاتا ہے ان کی تعلیمات کا نتیجہ ہے۔ ان کی تعمیر کی گئی مسجد کو پائو مکہ یعنی مکہ کا چوتھا حصہ کہا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس کی بنیاد میں مکہ سے لائی گئی خاک شامل ہے۔ اس کے علاوہ پنج پیر درگاہ میں آسودۂ خاک پانچ درویشوں کو بھی یہاں اسلام پھیلانے کی وجہ سے مسلمان عزت و تکریم سے دیکھتے ہیں۔ یہاں آسامی اور بنگالی زبان بولی جاتی ہے کہ اکثر لوگ دونوں زبانیں جانتے ہیں۔
اس لیے جب صوبے کی حکومت نے آسامی کو سرکاری زبان قرار دیا تو سخت احتجاج کے بعد فیصلہ واپس لینا پڑا۔ آسام 1826ء میں پہلی دفعہ ہندوستان کا حصہ برطانوی دور میں بنا۔ انگریزوں نے اسے چائے کے باغات کی وجہ سے فتح کیا تھا۔ جب ہندوستان تقسیم ہو رہا تھا تو یہاں کے مسلمانوں نے اپنے اکثریتی اضلاع کی پاکستان میں شمولیت کے لیے تحریک بھی چلائی تھی لیکن انگریز یہاں مستقل فساد کا شاخسانہ چھوڑ کر جانا چاہتا تھا۔
آسام کے مسلمانوں پر اس وقت قیامت کا دسواں دن ہے۔ دو لاکھ سے زیادہ لوگ عارضی کیمپوں میں پناہ لیے ہوئے ہیں اور ہچکیوں سے اپنے پیاروں کے قتل اور گھروں کو جلائے جانے کی داستانیں سناتے ہیں۔ جب گائوں کے گائوں جلائے جا رہے تھے تو انسان تو بھاگ گئے لیکن مویشی تو وہیں بندھے رہ گئے۔ ان میں مقدس گائو ماتا بھی تھیں جنھیں مسملانوں کو ذبح کرنے کی اجازت نہیں لیکن انھیں مسلمانوں کی گائے سمجھ کر زندہ جلا دیا گیا۔
یہ قتل عام پہلی دفعہ نہیں ہوا۔ 18 فروری 1983ء کو صبح نو بجے مسلح ہجوم نیلی اور اردگرد کے دیہات پر ٹوٹ پڑا۔ چھ گھنٹے بعد پولیس اور نیم فوجی دستے وہاں پہنچے لیکن اس وقت تک پانچ ہزار افراد ذبح کیے جا چکے تھے۔ اس تشدد کی یاد اس ماہ جولائی میں تازہ ہوئی جب کھوکھر جھار کے علاقے میں سو کے قریب گائوں جلا کر راکھ بنا دیے گئے۔ مسلمانوں کے گھروں اور بستیوں کو جلانا روز کا معمول ہے۔ 1993ء میں سو کے قریب مسلمانوں کو قتل کیا گیا۔ 1994ء میں دو سو ہلاک ہوئے اور 1996ء میں تین سو مسلمان قتل ہوئے اور دو لاکھ افراد گھروں سے بے گھر کر دیے گئے۔
تجزیہ نگار، دانشور اور سیاسی رہنما اس سارے قتل عام کے بہت کمال کے محرکات بتاتے ہیں۔ آج کل ایک فیشن سا بن گیا ہے کہ جہاں کہیں مسلمانوں کا قتل عام ہو، اس کی وجوہات میں معیشت، اقتدار کی رسہ کشی اور باہر سے آئے ہوئے قابضین کی کوئی نہ کوئی منطق ڈھونڈ کر سارا کھیل اس کے نام کر دیا جائے۔ برما میں قتل عام ہوا، سب کے سب مسلمان تھے، کہا یہ گیا کہ یہ اصل میں باہر سے آ کر یہاں آباد ہونے والے لوگ تھے، نو صدیاں قبل آنے والے۔
آسام کی تجزیہ نگاری میں بھی کڑوی کافی اور مشروبات کی تلخ گھونٹ حلق میں اتار کر کہتے ہیں کہ یہ تو بنگالی ہیں جو وہاں سے باہر سے آ کر آباد ہوئے تھے۔ کوئی ان سے یہ نہیں پوچھتا کہ وہاں کوئی تین لاکھ کے قریب سکھ بھی تو آباد ہیں، دور سے پہچانے جاتے ہیں، زبان بھی علیحدہ بولتے ہیں، کوئی یہ سننا ہی نہیں چاہتا کہ چند الفاظ جنھیں کلمۂ طیبہ کہتے ہیں، انھیں ادا کرنے کے بعد کوئی فرد ایک ہی زبان بولتے ہوئے، ایک ہی جیسا کھانا کھانے، رقص کرنے، کپڑے پہننے کے باوجود اتنا واجب نفرت ہو جاتا کہ اس کے وجود سے زمین کو پاک کر دینا عین عبادت تصور کیا جانے لگے۔
یہ صرف ایک آسام کا قصہ نہیں ہے۔ بریلی اس وقت کرفیو کی زد میں ہے، کشمیر کا ذکر نہیں کرنا چاہتا کہ اس کے ذکر سے اس ملک کے ہزاروں انسانی حقوق کے رہنمائوں کو ابکائی آتی ہے۔ انھیں یہاں دراندازیوں کی کہانیاں سنانے میں لطف آتا ہے۔ لیکن شاید آسام کے بارے میں کوئی زمینی راستہ نہیں ملتا ورنہ وہ کب سے اس کا ملبہ مسلمان شدت پسندوں پر ڈال چکے ہوتے۔ لوگ کہتے ہیں اپنے گھر میں آگ لگی ہوئی ہے، قتل و غارت ہے اور تم دوسروں کے غم میں ہلکان ہوئے جا رہے ہو۔
اس سے زیادہ انسانیت سے گرا ہوا نظریہ کوئی نہیں ہوسکتا۔ جب چی گیویرا اپنے مظلوم ملک کو چھوڑ کر دوسرے مظلوموں کے لیے لڑنے نکلا تھا تو اس کے پوسٹر ان عظیم دانشوروں کے گھروں کی دیواروں پر تھے۔ جب ایک ملک کے مظلوم مزدور کیمونسٹ گوریلے دوسرے ملک میں جاکر لڑے تو پابلو نروادا سے لے کر فیض احمد فیض تک سب نظمیں تحریر کرتے۔ پاکستان کے آرمی ڈکٹیٹروں کی موجودگی میں انگولا اور ویت نام کے مظالم پر اشک بہاتے۔
لیکن شاید کلمۂ طیبہ وہ واحد رشتہ ہے کہ جس کا درد کسی کو محسوس نہیںکرنا چاہیے۔ لیکن کیا کریں، میرے نبی آقائے دوجہاں صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے کلمۂ طیبہ پڑھ کر مسلمان کہلانے والے کی ایک ہی پہچان بتائی ہے۔ فرمایا مسلمان ایک جسد واحد یعنی ایک جسم کی طرح ہوتے ہیں۔ یعنی اگر جسم کے ایک حصے کو تکلیف ہو تو پورا جسم درد میں تڑپتا ہے۔ میرا مسئلہ یہ ہے کہ پوری دنیا مجھے ایک جسم سمجھتی ہے، وہ پوری مسلم امت کو ایک جسم سمجھتے ہوئے اس کے ہر عضو پر حملہ آور ہوتی ہے۔ افغانستان، عراق، کشمیر، فلسطینی، چیچنیا۔ انھوں نے کبھی اس جسم سے باہر وار نہیں کیا۔
لیکن ہم کس قدر بے حس ہیں کہ ہم کسی بھی حصے پر ہونے والے وار پر ذرا سا چونکتے بھی نہیں۔ ہماری نیند تک نہیں ٹوٹتی۔ لیکن شاید وہ دن دور نہ ہو کہ جب پورے کے پورے جسم پر، پوری کی پوری امت مسلمہ کے جسد واحد پر چاروں جانب سے حملہ ہو۔ ایسے میں ٹی وی پر بیٹھ کر، اخبار میں قلم سیاہ کرنے اور قومی اسمبلی کے ایوانوں میں کس طرح کہہ سکو گے کہ یہ ہمارا مسئلہ نہیں، ہمیں پہلے اپنے گھر کو ٹھیک کرنا چاہیے۔