دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے آرمی چیف نے اپنی ترجیحات کا تعین کرلیا سیکیورٹی عہدیدار
اپنے پیشروؤں سے مختلف حکمت عملیاں اپنائیں گے، مکمل امن نہیں ہوگا،سیکیورٹی عہدیدار
آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے اپنی ترجیحات کا تعین کرلیا ہے اوریہ دہشتگردی کے خلاف جنگ کو اس کے منطقی انجام تک پہنچانا ہے۔جب سے یہ جنگ جاری ہے پاکستانی فوج کے تین آرمی چیف تبدیل ہوچکے ہیں، ان میں سے مشرف کی توجہ القاعدہ اور اس سے ملحق تنظیمیں تھیں، کیانی کو سب سے پہلے داخلی عسکریت پسندگروہوں کے تعاقب کا کریڈٹ دیاجاتا ہے لیکن یہ جنرل راحیل شریف تھے جو اس جنگ کو شمالی وزیرستان لے گئے جو کہ ملکی و غیر ملکی دہشتگردوں کا مرکز تصور کیاجاتا تھا۔
عسکریت پسندی سے نمٹنے کیلیے ان تینوں آرمی چیفس نے اپنے اپنے راستے اپنائے۔ ابھی یہ واضح نہیں کہ جنرل باجوہ ان میں سے کسی کی پیروی کریں گے یا نہیں تاہم ایک سینئر عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا ہے کہ اگرچہ جنرل باجوہ کا حتمی مقصد تو اپنے پیشروؤں کی طرح دہشتگردی کا مکمل خاتمہ ہی ہوگا لیکن وہ سیکیورٹی چیلنجز سے نمٹنے کیلیے مختلف طریقہ کار اپنائیں گے۔
اس عہدیدار نے مزید بتایا کہ جنرل باجوہ کے منصب سنبھالنے کے بعد سے فوج جو پہلا کام کیا وہ سیکیورٹی کی صورتحال کا ایماندارانہ اور حقیقیت پسندانہ جائزہ لینا تھا اور اس جائزے کے نتیجے میں یہ پتہ چلا کہ ابھی بہت ساکام کرنا باقی ہے۔ دہشتگردی کے خلاف جنگ میں کامیابی کے حوالے سے اظہار خیال کرتے ہوئے مذکورہ عہدیدار کا کہنا تھا کہ'' مکمل امن نہیں ہوگا اوریہی صورتحال معمول کی صورتحال ہوگی۔ اپنی اس بات کی وضاحت کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ پاکستان کو اس نئی معمول کی صورتحال کو یوں تسلیم کرنا ہوگا کہ چند عناصر اپنی جانب سے تو سیکیورٹی کی صورتحال کو خراب کرنے کی کوشش کر تے رہیں گے اور حکومت و اس کے ادارے اپنے تئیں انھیں روکنے کیلیے کوشاں بھی رہیں گے تاکہ اس سے ریاست کا کاروبار متاثر نہ ہونے پائے۔
عہدیدار نے مزید کہا کہ ہم اس نئے معمول پر پہنچ تو چکے ہیں لیکن چیلنج یہ ہے کہ اسے برقرار کیسے رکھاجائے؟۔ جنرل راحیل شریف کے دور میں کہا جاتا تھا کہ فوجی اسٹیبلشمنٹ ملک کی انچارج ہے خواہ وہ سیکیورٹی کے معاملات ہوں یا فارن پالیسی ہو، مذکورہ سیکیورٹی عہدیدار نے اس بیانیے کو تسلیم کرنے سے تو انکار کر دیا تاہم ساتھ ہی ساتھ یہ بھی کہا کہ موجودہ صورتحال میں مسلح افواج کا مرکزی کردار ہوگا۔ حالیہ عشروں میں ہم نے دیکھا ہے کہ کمزور فوج یا بغیر فوج کے ممالک اپنی بقاکی جنگ میں ہار گئے اور اگر پاکستان کے پاس بھی مضبوط فوج نہ ہوتی تو پاکستان بھی اسی قسم کے انجام سے دوچار ہوچکا ہوتا۔
عہدیدار نے مزید کہا کہ صرف 1500دہشتگرد کسی بھی ملک میں گھسادیے جائیں تو وہ صفحہ ہستی سے مٹ جاتا ہے۔مذکورہ عہدیدار نے مزید بتایا کہ پاکستان کو کہیں بڑے خطرات کا سامنا ہے کیونکہ اسے نہ صرف داخلی نوعیت کے دہشت گردگروہوں سے خطرات لاحق ہیں بلکہ غیرملکی ایجنسیوں اور قوتوں کے حمایت یافتہ دہشتگردوں سے بھی نمٹنا ہوتا ہے۔
سیکیورٹی عہدیدار کے مطابق یہ محض حقیقی جنگ ہی نہیں یہ بیانیوں کی جنگ بھی ہے اور بیانیوں کی اسی جنگ کے حوالے سے یہ غلط تاثر دیاجارہا ہے کہ فوج ملک کی سیکیورٹی اور خارجہ پالیسی کو کنٹرول کر تی ہے۔ افسر کے مطابق جنرل باجوہ کی زیر قیادت فوج مزید مربوط حکمت عملی اپنائے گی جس میں تمام ادارے ملک کو مسائل سے نکالنے میں اپنااپنا متعلقہ کردار ادا کریں گے۔
عسکریت پسندی سے نمٹنے کیلیے ان تینوں آرمی چیفس نے اپنے اپنے راستے اپنائے۔ ابھی یہ واضح نہیں کہ جنرل باجوہ ان میں سے کسی کی پیروی کریں گے یا نہیں تاہم ایک سینئر عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا ہے کہ اگرچہ جنرل باجوہ کا حتمی مقصد تو اپنے پیشروؤں کی طرح دہشتگردی کا مکمل خاتمہ ہی ہوگا لیکن وہ سیکیورٹی چیلنجز سے نمٹنے کیلیے مختلف طریقہ کار اپنائیں گے۔
اس عہدیدار نے مزید بتایا کہ جنرل باجوہ کے منصب سنبھالنے کے بعد سے فوج جو پہلا کام کیا وہ سیکیورٹی کی صورتحال کا ایماندارانہ اور حقیقیت پسندانہ جائزہ لینا تھا اور اس جائزے کے نتیجے میں یہ پتہ چلا کہ ابھی بہت ساکام کرنا باقی ہے۔ دہشتگردی کے خلاف جنگ میں کامیابی کے حوالے سے اظہار خیال کرتے ہوئے مذکورہ عہدیدار کا کہنا تھا کہ'' مکمل امن نہیں ہوگا اوریہی صورتحال معمول کی صورتحال ہوگی۔ اپنی اس بات کی وضاحت کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ پاکستان کو اس نئی معمول کی صورتحال کو یوں تسلیم کرنا ہوگا کہ چند عناصر اپنی جانب سے تو سیکیورٹی کی صورتحال کو خراب کرنے کی کوشش کر تے رہیں گے اور حکومت و اس کے ادارے اپنے تئیں انھیں روکنے کیلیے کوشاں بھی رہیں گے تاکہ اس سے ریاست کا کاروبار متاثر نہ ہونے پائے۔
عہدیدار نے مزید کہا کہ ہم اس نئے معمول پر پہنچ تو چکے ہیں لیکن چیلنج یہ ہے کہ اسے برقرار کیسے رکھاجائے؟۔ جنرل راحیل شریف کے دور میں کہا جاتا تھا کہ فوجی اسٹیبلشمنٹ ملک کی انچارج ہے خواہ وہ سیکیورٹی کے معاملات ہوں یا فارن پالیسی ہو، مذکورہ سیکیورٹی عہدیدار نے اس بیانیے کو تسلیم کرنے سے تو انکار کر دیا تاہم ساتھ ہی ساتھ یہ بھی کہا کہ موجودہ صورتحال میں مسلح افواج کا مرکزی کردار ہوگا۔ حالیہ عشروں میں ہم نے دیکھا ہے کہ کمزور فوج یا بغیر فوج کے ممالک اپنی بقاکی جنگ میں ہار گئے اور اگر پاکستان کے پاس بھی مضبوط فوج نہ ہوتی تو پاکستان بھی اسی قسم کے انجام سے دوچار ہوچکا ہوتا۔
عہدیدار نے مزید کہا کہ صرف 1500دہشتگرد کسی بھی ملک میں گھسادیے جائیں تو وہ صفحہ ہستی سے مٹ جاتا ہے۔مذکورہ عہدیدار نے مزید بتایا کہ پاکستان کو کہیں بڑے خطرات کا سامنا ہے کیونکہ اسے نہ صرف داخلی نوعیت کے دہشت گردگروہوں سے خطرات لاحق ہیں بلکہ غیرملکی ایجنسیوں اور قوتوں کے حمایت یافتہ دہشتگردوں سے بھی نمٹنا ہوتا ہے۔
سیکیورٹی عہدیدار کے مطابق یہ محض حقیقی جنگ ہی نہیں یہ بیانیوں کی جنگ بھی ہے اور بیانیوں کی اسی جنگ کے حوالے سے یہ غلط تاثر دیاجارہا ہے کہ فوج ملک کی سیکیورٹی اور خارجہ پالیسی کو کنٹرول کر تی ہے۔ افسر کے مطابق جنرل باجوہ کی زیر قیادت فوج مزید مربوط حکمت عملی اپنائے گی جس میں تمام ادارے ملک کو مسائل سے نکالنے میں اپنااپنا متعلقہ کردار ادا کریں گے۔