پولیس عوام ساتھ ساتھ
لاہور میں جس دن ڈکیتی کی کوئی خبر سننے کو نہ ملے تو یوں لگتا ہے گویا پولیس نے ڈکیتوں کی میڈیا کوریج پر پابندی لگادی ہو
گزشتہ چند دنوں سے لاہور کی سڑکیں، ٹریفک سگنلز اور گلیاں خبروں کی زینت بنے ہوئے ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ لاہور میں ڈکیتی کی وارداتوں میں خطرناک حد تک اضافہ ہوا ہے۔ چند ہفتے قبل لگاتار بچوں کی گمشدگی کے حوالے سے خبریں سننے کو مل رہی تھیں، ابھی اُن خبروں میں کمی واقع ہوئی ہی تھی کہ لاہور میں مزید پریشان کن خبروں کا ملنا معمول بن گیا۔ جس دن کوئی خبر سننے کو نہ ملے تو یوں لگتا ہے گویا میڈیا اور ڈکیت گینگ کا خاموش معاہدہ ہوگیا ہے یا پولیس نے ڈکیتوں کی میڈیا کوریج پر پابندی لگا دی ہو۔
لاہور امن و امان کے حوالے سے ایک مثالی شہر شمار ہوتا ہے، رات کے کسی بھی پہر کسی بھی جگہ آپ بِناء کسی ڈر و خوف آزادانہ گھوم پھر سکتے ہیں، مگر شہرِ لاہور میں بڑھتی ہوئی وارداتیں اور اسٹریٹ کرائمز یہاں کے شہریوں کو خوفزدہ کر رہے ہیں۔ اِس وقت لاہور میں پولیس کے 6 ڈویژن قائم ہیں، جس میں کینٹ ڈویژن، سٹی ڈویژن، سِول لائنز ڈویژن، اقبال ٹاﺅن ڈویژن، ماڈل ٹاﺅن ڈویژن اور صدر ڈویژن شامل ہیں، جبکہ لاہور میں پولیس کے 35 کے قریب سرکلز ہیں۔ ایک کروڑ سے زائد آبادی والے لاہور میں 26 ہزار 6 سو کی پولیس نفری میں سے صرف 6 ہزار کی فورس لاء اینڈ آرڈر کی ڈیوٹی پر مامور ہے جبکہ باقی فورس وی آئی پیز سمیت آئی جی آفس سے لیکر بالحاظ عہدہ افسران کے دفاتر اور گھروں کی حفاظت پر لگی ہوئی ہے، جس کے بعد صورتحال یہ ہے کہ لاہور میں بڑھتے ہوئے کرائم کے باوجود اُسے 6 ہزار کی نفری کے رحم و کرم پر چھوڑا ہوا ہے۔
دوسری طرف میڈیا رپورٹس کے مطابق 2 ہزار 750 پولیس اہلکار صرف وزیراعلیٰ اور وزیراعظم کے خاندان کی حفاظت پر مامور ہیں۔ لاہور میں ترکی کی طرز پر جرائم کی روک تھام کے لئے ایک اور اہم فورس قائم کی گئی ہے جسے "ڈولفن فورس" کا نام دیا گیا ہے۔ اِس فورس میں 700 کے قریب جوان بھرتی کئے گئے ہیں۔ ابتدائی طور پر اِس فورس کو 500 سی سی کی 50 ہیوی بائیکس دی گئی ہیں لیکن اب اِس تعداد کو 300 تک بڑھانے کا فیصلہ بھی کیا گیا ہے۔ یہ بات یاد رہے کہ ایک ہیوی بائیک کی لاگت دس لاکھ روپے ہے۔ ان نوجوانوں کے لئے جو ہیلمٹ تیار کئے گئے ہیں ان کی لاگت 35 ہزار روپے ہے اور ان میں بلیو ٹوتھ کی سہولت موجود ہے ، جسے تاحال فعال نہیں کیا جاسکا۔ ایک اور اہم بات یہ کہ اِن کے زیرِ استعمال یونیفارم کی قیمت 50 ہزار روپے ہے، یعنی کہ مجموعی طور پر اب تک ڈولفن فورس پر ایک ارب سے زائد کی لاگت آچکی ہے۔
جرائم کے کنٹرول کے لئے کبھی مجاہد اسکواڈ متعارف ہوئی تو کبھی ٹائیگر فورس کا بھی نام سُنا گیا، بلکہ جرائم کی روک تھام کیلئے 1998ء میں ایلیٹ فورس بھی تشکیل دی گئی، لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ٹائیگر فورس ختم ہوگئی تو مجاہد اسکواڈ بھی فنڈز کی کمی کی وجہ سے غیر فعال ہوگیا، باقی بچی ایلیٹ فورس، تو وہ وی وی آئی پیز کی سیکیورٹی کی نذر ہوگئی۔ ان سب کے بعد بھی تشفی نہ ہوسکی اور نتیجہ وہی رہا تو باری آگئی پیرو اور ڈولفن فورس کی، ان دونوں فورِسز کا مقصد موثر پٹرولنگ اور جرائم کیخلاف اقدامات کرنا ہے۔ اتنے وسائل اور جدید ٹیکنالوجی کے باجود جرائم اور اسٹریٹ کرائمز میں اضافہ ہونا یقیناً تشویشناک عمل ہے اور حکومتی اداروں کی کارکردگی پر ایک سوالیہ نشان بھی ہے۔
مجھے اپنی زندگی میں ایک ہی ڈکیتی کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا، لاہور پریس کلب کے قریب ہی حبیب اللہ روڈ پر واقع ایک گھر میں ہم کچھ دوست بیٹھے ہوئے تھے، اتفاق یہ ہوا کہ اُس بیٹھک میں تمام ہی دوستوں کا تعلق صحافت سے تھا۔ حالاتِ حاضرہ پر تبصرہ جاری ہی تھا کہ گلی میں عورتوں اور بچوں کے چیخنے اور چِلانے کی آواز سنائی دی۔ ہم فوراً گلی میں پہنچے تو معلوم ہوا کہ دو موٹر سائیکل سواروں نے 3 افراد سے گن پوائنٹ پر موبائل اور نقدی چھین لی اور باآسانی فرار ہوگئے۔ واقعہ کے فوراً بعد پولیس ہیلپ لائن پر فون کیا گیا اور دوسری جانب سے فوری مدد بھیجنے کا کہا گیا۔ اِس دوران ایک نجی ٹی وی چینل سے وابستہ کرائم رپورٹر نے متعلقہ تھانے کو ایس ایچ او کو بھی فون گُھمایا، مگر تمام تر کوششوں کے باوجود مددگار پارٹی 1 گھنٹے اور 44 منٹ میں مذکورہ گلی میں پہنچی۔
یہاں یہ بات انتہائی غور طلب ہے کہ جس گلی میں واقع پیش آیا وہاں سے متعلقہ تھانہ جائے وقوعہ سے صرف 6 منٹ کی ڈرائیو پر تھا۔ اُس وقت ہمیں اندازہ ہوا کہ اگر 6 صحافیوں کے بار بار فون کرنے کے بعد بھی پونے 2 گھنٹے بعد مددگار فورس جائے وقوعہ پر پہنچے گی تو شہر میں ایسی وارداتوں پر قابو پانا اِس قدر مشکل کام کیوں بنتا جارہا ہے۔ ڈولفن فورس جہاں وسائل کی کمی اور مناسب منصوبہ بندی نہ ہونے کے سبب اپنے نتائج دکھانے میں ناکام ہے، وہیں دوسری جانب اِس فورس کی جانب سے رشوت لینے اور شہریوں پر دست درازی کی خبریں بھی سننے کو مل رہی ہیں۔ باقی ماندہ فورس جو جگہ جگہ پولیس ناکوں پر کھڑی کی گئی ہے وہ بھی بس دیہاڑی کے چکروں میں ہوتی ہے۔
لاہور کے مضافاتی علاقوں میں تو گاڑی، موٹر سائیکل کے کاغذات نہ ہونے پر 20 روپے دے کر آپ خُلاصی حاصل کرسکتے ہیں لیکن لاہور شہر میں علاقوں کے مطابق پولیس اہلکار فیصلہ کرتے ہیں۔
اِن سارے مسائل کے حل کے لئے مناسب منصوبہ بندی وقت کی اہم ضرورت ہے۔ حکومت کے لئے اب یہ لازم ہوچکا ہے کہ وہ پولیس کے مسائل فوری طور پر حل کرے، سیاسی بنیادوں پر تقرریوں کی بجائے میرٹ کو بحال کرکے پولیس میں موجود کرپٹ عناصر کو بے نقاب کیا جائے اور پولیس کی نفری کو وی وی آئی پیز کے بجائے شہرِ لاہور کے باشندوں کے جان و مال کے تحفظ کے لئے تعینات کیا جائے، کیونکہ انہیں تنخواہیں شہریوں کی حفاظت کے لئے ہی ملتی ہے بلکہ شہریوں کی جانب سے دیئے جانے والے ٹیکس سے ہی ان کی تنخواہوں کا بندوبست کیا جاتا ہے۔ اگر یہ سارے کام کئے جائیں گے تبھی زبانی نعرہ "پولیس عوام ساتھ ساتھ" کو عملی شکل دی جاسکتی ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
لاہور امن و امان کے حوالے سے ایک مثالی شہر شمار ہوتا ہے، رات کے کسی بھی پہر کسی بھی جگہ آپ بِناء کسی ڈر و خوف آزادانہ گھوم پھر سکتے ہیں، مگر شہرِ لاہور میں بڑھتی ہوئی وارداتیں اور اسٹریٹ کرائمز یہاں کے شہریوں کو خوفزدہ کر رہے ہیں۔ اِس وقت لاہور میں پولیس کے 6 ڈویژن قائم ہیں، جس میں کینٹ ڈویژن، سٹی ڈویژن، سِول لائنز ڈویژن، اقبال ٹاﺅن ڈویژن، ماڈل ٹاﺅن ڈویژن اور صدر ڈویژن شامل ہیں، جبکہ لاہور میں پولیس کے 35 کے قریب سرکلز ہیں۔ ایک کروڑ سے زائد آبادی والے لاہور میں 26 ہزار 6 سو کی پولیس نفری میں سے صرف 6 ہزار کی فورس لاء اینڈ آرڈر کی ڈیوٹی پر مامور ہے جبکہ باقی فورس وی آئی پیز سمیت آئی جی آفس سے لیکر بالحاظ عہدہ افسران کے دفاتر اور گھروں کی حفاظت پر لگی ہوئی ہے، جس کے بعد صورتحال یہ ہے کہ لاہور میں بڑھتے ہوئے کرائم کے باوجود اُسے 6 ہزار کی نفری کے رحم و کرم پر چھوڑا ہوا ہے۔
دوسری طرف میڈیا رپورٹس کے مطابق 2 ہزار 750 پولیس اہلکار صرف وزیراعلیٰ اور وزیراعظم کے خاندان کی حفاظت پر مامور ہیں۔ لاہور میں ترکی کی طرز پر جرائم کی روک تھام کے لئے ایک اور اہم فورس قائم کی گئی ہے جسے "ڈولفن فورس" کا نام دیا گیا ہے۔ اِس فورس میں 700 کے قریب جوان بھرتی کئے گئے ہیں۔ ابتدائی طور پر اِس فورس کو 500 سی سی کی 50 ہیوی بائیکس دی گئی ہیں لیکن اب اِس تعداد کو 300 تک بڑھانے کا فیصلہ بھی کیا گیا ہے۔ یہ بات یاد رہے کہ ایک ہیوی بائیک کی لاگت دس لاکھ روپے ہے۔ ان نوجوانوں کے لئے جو ہیلمٹ تیار کئے گئے ہیں ان کی لاگت 35 ہزار روپے ہے اور ان میں بلیو ٹوتھ کی سہولت موجود ہے ، جسے تاحال فعال نہیں کیا جاسکا۔ ایک اور اہم بات یہ کہ اِن کے زیرِ استعمال یونیفارم کی قیمت 50 ہزار روپے ہے، یعنی کہ مجموعی طور پر اب تک ڈولفن فورس پر ایک ارب سے زائد کی لاگت آچکی ہے۔
جرائم کے کنٹرول کے لئے کبھی مجاہد اسکواڈ متعارف ہوئی تو کبھی ٹائیگر فورس کا بھی نام سُنا گیا، بلکہ جرائم کی روک تھام کیلئے 1998ء میں ایلیٹ فورس بھی تشکیل دی گئی، لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ٹائیگر فورس ختم ہوگئی تو مجاہد اسکواڈ بھی فنڈز کی کمی کی وجہ سے غیر فعال ہوگیا، باقی بچی ایلیٹ فورس، تو وہ وی وی آئی پیز کی سیکیورٹی کی نذر ہوگئی۔ ان سب کے بعد بھی تشفی نہ ہوسکی اور نتیجہ وہی رہا تو باری آگئی پیرو اور ڈولفن فورس کی، ان دونوں فورِسز کا مقصد موثر پٹرولنگ اور جرائم کیخلاف اقدامات کرنا ہے۔ اتنے وسائل اور جدید ٹیکنالوجی کے باجود جرائم اور اسٹریٹ کرائمز میں اضافہ ہونا یقیناً تشویشناک عمل ہے اور حکومتی اداروں کی کارکردگی پر ایک سوالیہ نشان بھی ہے۔
مجھے اپنی زندگی میں ایک ہی ڈکیتی کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا، لاہور پریس کلب کے قریب ہی حبیب اللہ روڈ پر واقع ایک گھر میں ہم کچھ دوست بیٹھے ہوئے تھے، اتفاق یہ ہوا کہ اُس بیٹھک میں تمام ہی دوستوں کا تعلق صحافت سے تھا۔ حالاتِ حاضرہ پر تبصرہ جاری ہی تھا کہ گلی میں عورتوں اور بچوں کے چیخنے اور چِلانے کی آواز سنائی دی۔ ہم فوراً گلی میں پہنچے تو معلوم ہوا کہ دو موٹر سائیکل سواروں نے 3 افراد سے گن پوائنٹ پر موبائل اور نقدی چھین لی اور باآسانی فرار ہوگئے۔ واقعہ کے فوراً بعد پولیس ہیلپ لائن پر فون کیا گیا اور دوسری جانب سے فوری مدد بھیجنے کا کہا گیا۔ اِس دوران ایک نجی ٹی وی چینل سے وابستہ کرائم رپورٹر نے متعلقہ تھانے کو ایس ایچ او کو بھی فون گُھمایا، مگر تمام تر کوششوں کے باوجود مددگار پارٹی 1 گھنٹے اور 44 منٹ میں مذکورہ گلی میں پہنچی۔
یہاں یہ بات انتہائی غور طلب ہے کہ جس گلی میں واقع پیش آیا وہاں سے متعلقہ تھانہ جائے وقوعہ سے صرف 6 منٹ کی ڈرائیو پر تھا۔ اُس وقت ہمیں اندازہ ہوا کہ اگر 6 صحافیوں کے بار بار فون کرنے کے بعد بھی پونے 2 گھنٹے بعد مددگار فورس جائے وقوعہ پر پہنچے گی تو شہر میں ایسی وارداتوں پر قابو پانا اِس قدر مشکل کام کیوں بنتا جارہا ہے۔ ڈولفن فورس جہاں وسائل کی کمی اور مناسب منصوبہ بندی نہ ہونے کے سبب اپنے نتائج دکھانے میں ناکام ہے، وہیں دوسری جانب اِس فورس کی جانب سے رشوت لینے اور شہریوں پر دست درازی کی خبریں بھی سننے کو مل رہی ہیں۔ باقی ماندہ فورس جو جگہ جگہ پولیس ناکوں پر کھڑی کی گئی ہے وہ بھی بس دیہاڑی کے چکروں میں ہوتی ہے۔
لاہور کے مضافاتی علاقوں میں تو گاڑی، موٹر سائیکل کے کاغذات نہ ہونے پر 20 روپے دے کر آپ خُلاصی حاصل کرسکتے ہیں لیکن لاہور شہر میں علاقوں کے مطابق پولیس اہلکار فیصلہ کرتے ہیں۔
اِن سارے مسائل کے حل کے لئے مناسب منصوبہ بندی وقت کی اہم ضرورت ہے۔ حکومت کے لئے اب یہ لازم ہوچکا ہے کہ وہ پولیس کے مسائل فوری طور پر حل کرے، سیاسی بنیادوں پر تقرریوں کی بجائے میرٹ کو بحال کرکے پولیس میں موجود کرپٹ عناصر کو بے نقاب کیا جائے اور پولیس کی نفری کو وی وی آئی پیز کے بجائے شہرِ لاہور کے باشندوں کے جان و مال کے تحفظ کے لئے تعینات کیا جائے، کیونکہ انہیں تنخواہیں شہریوں کی حفاظت کے لئے ہی ملتی ہے بلکہ شہریوں کی جانب سے دیئے جانے والے ٹیکس سے ہی ان کی تنخواہوں کا بندوبست کیا جاتا ہے۔ اگر یہ سارے کام کئے جائیں گے تبھی زبانی نعرہ "پولیس عوام ساتھ ساتھ" کو عملی شکل دی جاسکتی ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لئے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کےساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔