وزیراعظم ہائوس سے گیلانی کی رخصتی پرویز اشرف کی آمد

سوئس حکام کو خط لکھنے سے مسلسل انکار گیلانی سے چھٹکارا پاتے ہی اقرار میں بدل گیا.

فوٹو : فائل

یوسف رضا گیلانی اپنی ہٹ کے پکے نکلے۔سپریم کورٹ کے واضح احکامات کے باوجود وہ صدر آصف علی زرداری کے خلاف مقدمات کھولنے کے لیے سوئس حکام کوخط لکھنے سے انکاری رہے، اور انھیں این آر او پر عمل درآمد سے متعلق مقدمے میں عدالتی فیصلہ نہ ماننے پر توہین عدالت کے جرم میں سزاہوئی۔

یوسف رضا گیلانی عدالت عظمیٰ میںتین بار وزیر اعظم کی حیثیت سے پیش ہوئے اور اپنا موقف بیان کیا، مقدمہ چلتارہا، جس کا فیصلہ آخر کار سپریم کورٹ سے بطور رکن قومی اسمبلی اور وزیراعظم نااہلی کی صورت میںآیا اور یوں پاکستان کے اس سولہویں وزیر اعظم کو منصب سے الگ ہونا پڑا۔سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ'وزیر اعظم نے جان بوجھ کرحکم عدولی کی، جس سے انصاف کی فراہمی میں رکاوٹ پیدا ہونے کے ساتھ ساتھ عدلیہ کی تضحیک ہوئی،گیلانی پانچ سال کے لیے نااہل ہوگئے ہیں، اس لیے صدر نئے وزیر اعظم کا تقرر کریں۔19 جون کو اپنے فیصلے میں سپریم کورٹ نے بیان کیا کہ یوسف رضا گیلانی 26 اپریل سے وزیر اعظم نہیں رہے، یعنی اس دن سے جب انھیں سپریم کورٹ نے سزا سنائی تھی۔

یوسف رضا گیلانی نے سزا کے خلاف اپیل دائر نہیں کی اور سپیکر قومی اسمبلی کے ذریعے سے اپنا تحفظ کرنا چاہا، جو قانونی اعتبار سے ممکن نہ تھا، اس لیے 19 جون کو چیف جسٹس کو کہنا پڑاکہ ' سپیکر کو سپریم کورٹ کے فیصلے پر اپنا فیصلہ دینے کا اختیار نہیں، کیا سپیکرسات رکنی بینچ کے فیصلے کی سکروٹنی کریں گی؟اس بات کی اجازت دے دی گئی تو عدلیہ کی آزادی کہاں ہوگی؟سزا معطل ہوسکتی تھی مگر اپیل نہیں کی گئی، ایپلیٹ کورٹ کے علاوہ کوئی عدالتی فیصلہ ختم نہیں ہوسکتا''، یہ تو رہا سپریم کورٹ کا موقف، دوسری جانب یوسف رضا گیلانی یہ راگ الاپتے رہے کہ وہ عدلیہ کا احترام کرتے ہیں، نہ جانے ان کے نزدیک لفظ احترام سے کیا مراد تھی کیوں کہ ان کے دورحکومت میں عدلیہ کے فیصلوں کو خوش دلی سے کم کم ہی قبول کیا گیااور جان بوجھ کرایسا راستہ اختیار کیا گیا، جس سے محاذ آرائی کو ہوا ملتی۔ سپریم کورٹ کے فیصلے پر جناب صدر کا کہنا تھا ''ہمیں کبھی منصفانہ ٹرائل نہیں ملا''اور بقول گیلانی''سپریم کورٹ کو مجھے ہٹانے کا اختیار نہیں تھا۔''

ان کے اقتدار سے ہٹنے کا اپوزیشن جماعتوں نے تو خیر مقدم کیا لیکن ان کی رخصتی کے بعد پیپلز پارٹی کی طرف سے بھی کچھ خاص احتجاج دیکھنے میں نہیں آیا، جس سے ان کی عدم مقبولیت کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ بعض سیاسی مبصرین کے مطابق ، یوسف رضا گیلانی پارٹی پر بوجھ بن چکے تھے، اور آصف علی زرداری بھی اندر سے انھیں منصب پر فائز دیکھنا نہیں چاہتے تھے۔ اور یہ خیال کچھ ایسا غلط بھی ثابت نہیں ہوا کیونکہ بعد ازاں راجہ پرویز اشرف نے وہ کام کر ہی دیا، جس کو پارٹی کے کہنے پر یوسف رضا گیلانی نے کرنے کی ہامی نہیں بھری اور نتیجے کے طور پر انھیں وزیر اعظم ہائوس سے نکلنا پڑا۔ یوسف رضا گیلانی اپنے منصب سے ہٹے توکچھ بیانات ایسے آئے، جن سے پتا چلتا تھا کہ عہدے سے ہٹنے سے وہ کس قدر ملول ہیں،کبھی تو انھوں نے یہ فرمایا کہ انھیں سرائیکی صوبہ بنانے کی بات کرنے کی سزا ملی ہے،اور کبھی ان کا کہنا رہاکہ ملک میں بنگلہ دیش ماڈل نافذ ہوچکا ہے،عوام نے دونوں بیانات کو اہمیت نہیں دی کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ اصل میں گیلانی کو اپنے کئے کی سزا ملی۔دنیا بھر میں ملک کی اعلیٰ عدالتیں ہی حتمی فیصلہ کرتی ہیں کہ کیاآئین کے مطابق ہے اور کیا نہیں لیکن ادھر عدالت جو کچھ کہہ رہی تھی ، وزیر اعظم اس کو آئین کی خلاف ورزی قرار دے کر یہی کہتے رہے کہ وہ سوئس حکام کو کسی صورت خط نہیں لکھیں گے کیونکہ صدر آصف علی زرداری کو استثنیٰ حاصل ہے۔



توہین عدالت کے مقدمے میں وزیر اعظم کے وکیل چودھری اعتزاز احسن نے عدالت کے سامنے اپنے موکل کو بے گناہ ثابت کرنے کے لیے دلائل کے انبار لگادیے مگر وہ عدالت کو قائل کرنے میں ناکام رہے ۔جولائی 2010ء میں آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی کی مدت ملازمت میں تین سال کی توسیع کرنے کے بعد یوسف رضا گیلانی نے بیان دیا تھاکہ چاروں بڑوں: صدر ، چیف جسٹس، آرمی چیف، اور وزیر اعظم کی پوزیشن2013ء تک محفوظ ہوگئی ہے لیکن ان کی بات پوری نہیں ہوئی، اول الذکرتینوں شخصیات کی پوزیشن تومحفوظ رہی لیکن گیلانی خود کو نہ بچاسکے۔ یوسف رضا گیلانی کا چار سالہ دورذاتی اعتبار سے ان کے لیے بھلے بہت زیادہ سود مند رہا لیکن ملک اس عرصے میں خسارے میں رہا۔کرپشن حکومت کی پہچان رہی، قومی ادارے تباہ ہوگئے،امن و امان کی ابتر صورتحال ، معیشت ڈانواں ڈول،اور لوڈشیڈنگ کا ایسا عذاب، جس نے لوگوں کی نیندیںحرام کردیں۔

وکی لیکس اور میمو گیٹ اسکینڈل نے ان کی حکومت کی ساکھ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔ یوسف رضاگیلانی اور ان کے بیٹوں پر لگنے والے کرپشن کے الزمات سے بھی ان کی سیاسی پوزیشن کمزور ہوئی۔ ان کے دور میں کوئی موثر خارجہ پالیسی تشکیل نہ پاسکی۔ ن لیگ کے ساتھ تعلقات پہلے پہل تو نہایت خوشگوار رہے لیکن دھیرے دھیرے ان میں بگاڑ آتا گیا، سب سے زیادہ تنائو کی صورت حال اس وقت پیدا ہوئی، جب میمو گیٹ کے معاملے میںنواز شریف خود سپریم کورٹ پہنچ گئے، میمو گیٹ کے مسئلے پر ہی یوسف رضا گیلانی نے اسٹیبلشمنٹ کے بارے میں سخت رویہ اپنایا اور اپنے ایک خطاب میں کہا کہ وہ ریاست کے اندر ریاست کو تسلیم نہیں کرتے۔


26اپریل کو سپریم کورٹ نے انھیں نااہل قرار دیا تو نواز شریف کی طرف سے انھیں وزیر اعظم نہ ماننے کی بات نے یوسف رضا گیلانی کا چراغ پا کر دیا اور انھوں نے جل بھن کر کہا کہ عجب بات ہے ، ایک بھائی صدر کو صدر نہیں مانتا، اور دوسرا وزیر اعظم کو وزیر اعظم تسلیم کرنے سے انکار کرتا ہے۔این ایف سی ایوارڈ، آغاز حقوق بلوچستان، سوات میں قیام امن،سلالہ چیک پوسٹ پر امریکی حملے کے بعد نیٹو سپلائی لائن بند کرنا،اپوزیشن کے ساتھ مل کر آئینی ترامیم ، یہ وہ چند معاملات ہیں، جنھیں گیلانی حکومت کی کامیابیوں میں شمار کیاجاسکتا ہے۔ قصہ مختصر، وہ ایسے حکمران ہرگز نہیں تھے ، جن کے اقتدار سے ہٹنے کے بعد عوام یہ کہنے پر مجبور ہوں''تیری یاد آئی تیرے جانے کے بعد''وہ ہماری تاریخ میں جلد فراموش کردیے جانے والے حکمرانوں کی فہرست میں اضافہ ثابت ہوں گے۔

2008ء کے الیکشن میں پیپلزپارٹی نے اکثریت حاصل کی تو وزیراعظم کے لیے کئی نام گردش میں رہے۔صدر آصف علی زرداری نے کہیں کوئی ایسا بیان دیا تھا، جس سے عندیہ ملتا تھا کہ مخدوم امین فہیم یہ منصب حاصل کرلیں گے مگر بوجوہ ایسا ہوا نہیں اور یوسف رضا گیلانی وزیراعظم بن گئے۔شاہ محمود قریشی نے بھی اس اعلیٰ عہدے کو پانے کے لیے خاصی دوڑ دھوپ کی لیکن وہ اپنے لیے راہ ہموار نہ کرسکے اور انھیں وزیر خارجہ بننے پر اکتفا کرنا پڑا۔تین سال وہ بڑے زور شور سے حکومتی پالیسیوں کا دفاع کرتے رہے لیکن ریمنڈ ڈیوس کے معاملے ان کے حکومت سے اختلافات ہوئے جو آخر کار پیپلز پارٹی سے ان کی رخصتی پر منتج ہوئے۔صدر کے بقول 'ان سے اصل میں یوسف رضا گیلانی کا وزیر اعظم بننا ہضم نہیں ہوا۔' تھوڑے عرصے وہ ادھر ادھر پھرتے رہے ، مسلم لیگ ن میں ان کے جانے کی خبریںچلتی ر ہیں، نواز شریف سے ملنے وہ رائے ونڈ بھی پہنچے مگرانھوں نے اپنے سیاسی مستقبل کو ابھرتی ہوئی تحریک انصاف سے نتھی کرنا زیادہ مناسب جانا۔عمران خان سے ان کے اختلافات کی خبریں چلتی رہتی ہیں لیکن آخری خبریں آنے تک وہ اس پارٹی میں ہی موجود ہیں۔

وزیراعظم کا تقرر کرتے وقت اہلیت سے زیادہ اس بات کا دھیان رکھا گیا کہ کہیں وزیراعظم باغی نہ نکل آئے، اور پارٹی کے حکم پر جو ہمارے ہاں پارٹی کے سربراہ کا ہوتا ہے، اس کی بے چون وچرا بجاآوری کرتا رہے، اس اعتبار سے صدر کو داد دینا پڑے گی، جنھوں نے ایسا دانا چنا ، جس میں اور کمیاں کوتاہیاں ہوں گی لیکن پارٹی سے وفاداری کے معاملے میں اس کے قدم ڈگمگائے نہیں، اقتدار کے ابتدائی زمانوں میں کچھ لوگوں کو خوش فہمی رہی کہ شاید انھیں فاروق لغاری بنایا جا سکتا ہے لیکن ایسا ہوا نہیں۔اسٹیبلشمنٹ اور اپوزیشن دونوں انھیں اپنی پارٹی کے خلاف استعمال نہ کرسکے۔ صدر آصف علی زرداری بھی ان کی حکومت کی کارکردگی سے خوش رہے، اس لیے جب ان سے ٹی وی انٹرویو میں پوچھا گیا کہ وہ آئندہ الیکشن میںعوام سے کس بنیاد پر ووٹ مانگنے جائیں گے تو انھوں نے فوراً جواب دیا ''کارکردگی کی بنیاد پر'' اور جب یہ بات کہی گئی تو یوسف رضا گیلانی ہی وزیراعظم تھے۔ وزیراعظم کے منصب سے ہٹنے کے بعد یوسف رضا گیلانی کو پارٹی نے نظر انداز کردیا، جس پر وہ ناراض ہوگئے، اور انھیں منانے کے لیے صدر آصف علی زرداری کو گزشتہ ماہ ملتان جانا پڑا۔اس دورے کے مثبت اثرات مرتب ہوئے اور اب وہ پارٹی معاملات میں دوبارہ سے دلچسپی لینے لگے ہیں، جس کا ثبوت مخدوم احمد محمود کو گورنر پنجاب بنوانے کے لیے ان کی کوششوں سے ملتا ہے۔ کہتے ہیں، مخدوم احمد محمود کو یہ عہدہ یوسف رضا گیلانی کی سفارش سے ہی ملا ہے۔

سپریم کورٹ کی جانب سے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کو پانچ سال کے لیے نااہل قراردینے کی صورت میں بعض مبصرین کا خیال تھا کہ پیپلز پارٹی اس فیصلے کو آسانی سے قبول نہیں کرے گی لیکن پیپلزپارٹی نے تھوڑی بہت بیان بازی کے بعد عدالتی فیصلے کو تسلیم کرلیا۔ نیا وزیر اعظم بننے کی باری آئی تو مخدوم شہاب الدین کا نام ممکنہ امیدواروں میں سب سے اوپر تھا ، اوروہ اپنی نامزدگی پر پھولے نہیں سمارہے تھے کہ بیچ میں کھنڈت یہ آن پڑی کہ ان کے وارنٹ گرفتاری جاری ہوگئے ، وہ ضمانت کرانے عدالت پہنچے ، لیکن وزارت عظمیٰ ان کے ہاتھوں سے نکل گئی ، پیپلز پارٹی کو پیغام مل گیا کہ مخدوم شہاب الدین کو وزیراعظم بنانا بعض حلقوں کو قبول نہیں تو اس نے اس معاملے میں زیادہ تردد کرنے کے بجائے راجہ پرویز اشرف کو وزیر اعظم نامزد کردیا۔ قمرزمان کائرہ اور احمد مختار کا نام بھی وزیر اعظم کے عہدے کے واسطے لیا جاتا رہا مگر کہتے ہیں کہ دونوں کا گجرات سے تعلق ان کی راہ میں رکاوٹ بن گیا، کیونکہ چودھری برادران نہیں چاہتے تھے کہ وہ وزیر اعظم بنیں، اور شاید اس وقت سیاسی ڈیل میں طے ہوا ہو کہ چودھری پرویز الٰہی نائب وزیر اعظم بنیں گے ، اس لیے وزیر اعظم کا بھی اسی علاقے سے تعلق ہونا سیاسی اعتبار سے مناسب نہ ہوتا۔

نئے وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف سے پاکستانی عوام جس حوالے سے واقف تھے وہ کوئی زیادہ معتبر نہیں۔پانی و بجلی کے وزیر کی حیثیت سے ان کے لوڈ شیڈنگ ختم کرنے کے دعوے دھرے کے دھرے رہ گئے۔اس اعتبار سے انھیں عوام میں کچھ زیادہ پسندیدگی کی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا تھا۔رینٹل پاور منصوبوں میں مبینہ طور پر ہونے والی کرپشن میں ان کانام آتا رہا ، جس کی وجہ سے انھیں راجا رینٹل بھی کہا جاتا۔ بہرحال وہ 22 جون2012ء کو وزیراعظم پاکستان بن گئے۔شروع شروع میں یہ گمان رہا کہ پیپلز پارٹی کی قیادت سوئس حکام کو خط لکھنے کے معاملے میں اپنی پرانی روش پر قائم رہے گی اور جلد راجہ پرویز اشرف بھی اپنے منصب سے ہٹ جائیں گے ، اس لیے بعض لوگوں نے یہ بھی کہا کہ انھیں قربانی کا بکرا بنایا گیا ہے لیکن اب کہ حکومت نے نئی حکمت عملی بنائی، اور وہ سپریم کورٹ سے تعاون پر آمادہ ہوگئی اور وہ کام جس کو یوسف رضا گیلانی نے اس لیے نہ کیا کہ وہ ان کے نزدیک غیرآئینی تھا، اس کو راجہ پرویز اشرف نے کردیا اور عدلیہ اور عوام کی نظروں میں سرخرو ہوگئے۔

سپریم کورٹ اور حکومت کے درمیان محاذ آرائی کم کرنے میںفاروق نائیک کا کردار بھی کسی طور فراموش نہیں کیا جاسکتا، جو اب چیرمین سینٹ کا عہدہ چھوڑنے کے بعد وزیر قانون کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے تھے۔ یوسف رضا گیلانی کی طرح راجہ پرویز اشرف بھی اپنے محسن صدر کا دم بھرنے کا موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے، مثلاً چند روز قبل انھوں نے عوام کو باور کرایا کہ ان کے صدر نے اپنی جوانی جیل میں گزاری۔سابقہ حکمرانوں کی طرح انھیں بھی اپنی حکومت میں خوبیاں ہی نظر آتی ہیں، جس کا اظہار اس بیان سے ہوسکتا ہے، جس میں وزیراعظم نے کہا کہ پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں عوام کا معیار زندگی بلند ہوا ہے۔

راجہ پرویز کے دور میں جو سب سے بہتر کام ہوا ہے ، وہ صدر کی جانب سے فخرالدین ابراہیم جیسے دیانت دار شخص کی بطور چیف الیکشن کمشنر تقرری ہے، جس کا حکومت کی شدید ناقد جماعتوں نے بھی خیر مقدم کیا ہے۔اب اس حکومت کا اگلا امتحان ایسی غیر جانبدار نگران قومی اور صوبائی حکومتوں کا قیا م ہے، جو ملک میں شفاف الیکشن کراسکیں۔دیکھیے، یہ حکومت اس نازک مرحلے کو کیسے طے کرتی ہے۔حکومت کی ذمہ داری ایسے ماحول میں اور بھی زیادہ بڑھ جاتی ہیں، جب میدان میں ایسی قوتیں بھی موجود ہیں، جو الیکشن ملتوی کرانا چاہتی ہیں، اس معاملے میں راجہ پرویز اشرف کو چاہیے کہ وہ اتحادی اور اپوزیشن جماعتوں کو اس ایک نکتے پر اکٹھا کریں کہ حالات کتنے ہی دگرگوں کیوں نہ ہوجائیں الیکشن بروقت منعقد ہوں گے۔

اور ہاں! اس برس چودھری پرویز الٰہی بھی نائب وزیراعظم بن گئے، یہ بات اس اعتبارسے اہم ہے کہ یوسف رضا گیلانی کے مقابلے میں وہ وزیراعظم کے امیدوار کے طور پر سامنے آئے، اور 42ووٹ حاصل کئے، لیکن راجہ پرویز اشرف کے وزیراعظم بننے تک ق لیگ اور پیپلز پارٹی کی قربتوں میں اتنا اضافہ ہوگیا کہ چودھری پرویز الٰہی کو نائب وزیراعظم بناتے ہی بنی۔
Load Next Story