فائر فائٹرز
فائر فائٹرز تو ملازم ہیں،مگر وہ لوگ جو بغیر کسی نفع، لالچ کے بے لوث خدمت خلق کرتے ہیں، ان سے زیادہ بہتر کون ہوسکتا ہے
جب ہر طرف سے مدد کی اپیلیں آئیں، خلق خدا مشکل میں گرفتار ہو اور ریاست اپنا ہاتھ بالکل ہی کھینچ لے تو کیا کیا جائے؟ خاموشی اختیار کی جائے یا پھر مصیبت میں گرفتار لوگوں کی مدد کے لیے فائر فائٹرز کی طرح پہنچا جائے۔آگ بجھانے والے فائٹر کا کردار جو ترجیحی بنیاد پر آگ بجھانے ، آگ میں پھنسے ہوئوں کو نکال کر محفوظ مقام پر پہنچاننے کا کام کرتا ہے۔ آگ کیسے لگی، کس نے لگائی، کیا وجوہات تھیں،کیسے ان سے بچا جائیں... ان سوالات سے انھیں غرض نہیں ہوتی۔ وہ نفع نقصان سے بالاتر ہو کر صرف اپنا فرض ادا کرتے ہیں، انسانی فرض ۔
ہر کسی کو حق حاصل ہے اپنی مرضی کا راستہ اختیار کرنے کا، میرے جیسے آدمی کو تو فائر فائٹرز بہت پسند ہیں۔ فائر فائٹرز تو پھر بھی ملازم ہیں، وہ مدد کرتے ہوئے اپنی ڈیوٹی بھی ادا کر رہے ہوتے ہیں،مگر وہ لوگ جو بغیر کسی نفع اور لالچ کے بے لوث خدمت خلق کرتے ہیں، ان سے زیادہ بہتر کون ہوسکتا ہے؟ اﷲ کے آخری رسولﷺ کو ایک بار کسی شخص کے بارے میں بتایا گیا کہ وہ بہت عبادت گزار ہے اور سال کے بیشتر دنوں میں روزے سے عبادت میں مشغول رہتا ہے۔
آپﷺ نے دریافت کیا کہ پھر اس کے کھانے پینے اور دوسرے معاملات کون پورے کرتا ہے؟ جواب ملا، اس کا ایک بھائی ہے جو محنت مزدوری کر کے اپنا اور اپنے بچوں کا بھی پیٹ پالتا ہے اور اس کو کھانا ، پہننے کے لیے لباس اور دیگر چیزیں بھی فراہم کرتا ہے۔ آپ نے فرمایا(جس کا مفہوم ہے )کہ اس کا بھائی اس پر بازی لے گیا۔''
میں خاصے عرصے تک اس شش وپنج میں رہا کہ قارئین جو مدد کی اپیلیں بھیجتے ہیں، ان کا کیا کیا جائے؟ اﷲ مغفرت کرے ،ہمارے سینئر کالم نگار حمید اختر مرحوم کی ، ان سے مجھ جیسے کئی لکھنے والوں کو رہنمائی ملی۔ حمید اختر صاحب بڑی فراخدلی سے کتابوں پر تبصرے کے ساتھ مدد کے لیے بھیجے جانے والے خطوط اور ای میلز کو اپنے کالم میں نقل کر دیتے تھے۔ وہ خیراتی اداروں پر بھی کھل کر لکھتے۔ مجھے بھی یہ طریقہ بھلا لگا۔
میرا شروع سے یہ خیال ہے کہ اداروں کو مضبوط بنایا جائے۔ اچھا کام کرنے والے سماجی اداروں کی مدد کرنا اس لیے ضروری ہے کہ اس سے نیکی کے ایک دائرے کا آغازہوجاتا ہے۔آدمی اگر ایک بار بھی مدد کرے تو صدقہ جاریہ کا ثواب ملتا رہتا ہے۔ میں نے یہ طریقہ بنایا کہ زیادہ سے زیادہ کوشش اچھے اور بے لوث کام کرنے والے سماجی اداروں کو پروموٹ کرنے میں صرف کرنی چاہیے۔
میںکسی انفرادی ایشو پر صرف اس وقت لکھتا ہوں، جب اس فرد کو ذاتی طور پر جانتا ہوں۔ ای میلز یا خطوط سے آنے والی اپیلوں کو کالم میں دینا میرے لیے ممکن نہیں ہوتا کہ میرے پاس ایسے وسائل نہیں کہ ان کی تصدیق کر سکوں۔ اسی طرح میں صرف انھی چند اداروں پر لکھتا ہوں ،جن کے بارے میں وثوق سے جانتا ہوں، جن کے کام کو آنکھوں سے دیکھا اور مختلف طریقوں سے مصیبت زدہ انھیں بھجوا کر انھیں آزما بھی لیا۔ ایسے ہی چند اداروں کا ہر سال میں تعارف کراتا ہوں، ان میں پی اوبی ( پریونشن آف بلائنڈنیس ٹرسٹ )، اخوت، الخدمت، غزالی ٹرسٹ اسکولز اور ہیلپ لائن وغیرہ شامل ہیں۔ ان اداروں کی اور ان میں کام کرنے والوں کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انھوں نے لوگوں میں امید پیدا کی ہے۔
تین سال ہوئے سرما کی ایک شام میں نے POB کے ڈائریکٹر ڈاکٹر انتظارحسین بٹ سے سوال پوچھا، ''آپ خود بتا رہے ہیں کہ پاکستان میں سولہ لاکھ افراد بینائی سے محروم ہیں، لاکھوں لوگ غربت کے باعث سفید موتیا کا آپریشن نہیں کرا پاتے، جس کے باعث وہ جزوی یا مکمل نابینا ہیں۔ ایسے برے حالات میں جب سرکاری اسپتالوں میں مریض دھکے کھا رہے ہیں، ریاست ان کی مدد کے لیے تیار نہیں، آپ چند ڈاکٹر اپنے محدود وسائل کے ساتھ کتنے مریضوں کی مدد کر سکیں گے، کتنے سفید موتیے کے آپریشن کر لیں گے؟''
نرم آنکھوں والے ڈاکٹر انتظار کی آنکھوں میں اداسی اتر آئی۔ نرمی لہجے میں کہنے لگے''ہمیں اندازہ ہے کہ کوئی فرد یا تنظیم ریاستی فنڈز یا ریاستی اداروں کے وسائل کی متبادل نہیں ہوسکتی۔ ہمیں یہ بھی اچھی طرح معلوم ہے کہ ہم ان لاکھوں مریضوں میں سے چند ہزار تک ہی پہنچ پائیں گے، مگر کم از کم ان چند ہزار کی مشکل تو آسان ہوجائے گی۔ وہ نادار مریض جو پیسے نہ ہونے یاعدم معلومات کے باعث عینک تک نہیں لگوا سکتے ،
جن کی زندگی کے جانے کتنے قیمتی ماہ وسال سفید موتیے کے باعث اندھیروں میں ڈوب گئے، ان میں سے جتنوں کو ہم بچا سکیں، بچا لیں۔ ہم یہ چاہتے ہیں کہ روز آخرت ہمارا شمار ان لوگوں میں نہ جو دور سے کھڑے جلتی آگ کا تماشا دیکھتے رہے، پانی پھینک کر بجھانے کی کوشش کرنے کے بجائے وہ اپنی بے ہمتی کا رونا روتے رہے۔ ''
سروسز اسپتال لاہور کے سینئرڈاکٹرانتظاربٹ (0321-4488124)سے میرا تعارف تین چار سال پہلے ماڈل ٹائون لائبریری میں ہونے والی ایک ادبی تقریب میں ہوا، ہمارے دوست طارق محمود احسن نے میرا ان سے تعارف کرایا اور بتایا کہ ڈاکٹر صاحب نے ایک تنظیم بنائی ہے جس نے پاکستان میں ہزاروں آنکھوں کے مریضوں کے مفت آپریشن کیے اور افریقہ کے کئی پسماندہ مسلمان ممالک میں جا کر بے شمار لوگوں کے فری آپریشن کیے۔
سچی بات تو یہ ہے کہ اس وقت میں کچھ زیادہ متاثر نہیں ہوا۔بعد میں سال ایک بعد بین الاقوامی تنظیم فیما(فیڈریشن آف اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن)کی جانب سے مجھے نائجریا میں منعقد ہونے والے فری آئی کیمپس کا وزٹ کرنے کی پیش کش کی۔ اسی دورے کے دوران مجھے ڈاکٹر انتظار بٹ اور ان کے پاکستانی ڈاکٹروں کو قریب سے دیکھنے کا موقعہ ملا۔ فیما کی دعوت پر اردن، سعودی عرب کے ڈاکٹروں کے علاوہ پانچ چھ پاکستانی ڈاکٹروں کی ٹیم ان کیمپس میں شامل ہوئی۔نائجریا کے دو شہروں میں یہ کیمپس ہوئے، ایک ہفتے تک صبح آٹھ سے رات گیارہ بجے تک کام کرنے والے ان ڈاکٹروں پر مجھے بے حد رشک آیا۔
وہاں جا کر معلوم ہوا کہ افریقہ کے کئی ممالک میں سرے سے کوئی آئی سرجن ہے ہی نہیں۔ سوڈان میں دس دس لاکھ افراد کے لیے ایک بھی ڈاکٹر نہیں، یہ حال نائجریا(کے شمالی مسلمان صوبوں )، صومالیہ، نائجر، برکینا فاسو، مالی ، چاڈ وغیرہ میں ہے۔ پی او بی پچھلے چند برسوں کے دوران پاکستان میںمختلف پسماندہ علاقوں میں فری آئی کیمپس میں ساڑھے چھ لاکھ افراد کا معانیہ، ستر ہزار کے قریب مفت مویتے کے آپریشن کرچکا ہے۔
پی اوبی نے اس سال رمضان میں ایک وائوچر اسکیم متعارف کرائی ہے۔ چار ہزار روپے میں اس کا ایک کوپن خریدنے سے ایک اور نادار مریض کی مفت سرجری کا انتظام ممکن ہو پائے گا۔ پی اوبی کا اکائونٹ نمبر01500060001591 ،فیصل بینک، ماڈل ٹائون، لاہوراور سوئفٹ کوڈ:fayspkkaxxx ہے۔پی او بی کا کام اس کی سب سے بڑی کریڈیبلٹی ہے۔
اسی طرح الخدمت ملک کی ایک مشہور سماجی تنظیم ہے۔ اکتوبر 2005 کا زلزلہ ہو یا پچھلے دو برسوں میں آنے والے سیلاب ، الخدمت امداد بہم پہنچانے والی سب سے نمایاں تنظیم تھی۔ الخدمت کے موجودہ سربراہ پروفیسر حفیظ الرحمن ایک نیک نام ڈاکٹر اور فیما کے سابق پاکستانی سربراہ رہے ہیں۔ الخدمت کے سیکریٹری جنرل عبدالشکور نے چند دن قبل اپنے ایک بڑے پراجیکٹ آرفن فیملی سپورٹ پروگرام (گھروں میں یتیم بچوں کی کفالت کا اہتمام) کا تفصیلی تعارف کرایا۔پاکستان میں اس وقت لاکھوں یتیم ہیں، زلزلے اور سیلاب نے ان بدنصیبوں کی تعداد میں اضافہ کردیا ہے۔
بدقسمتی سے بیت المال کے فنڈز ان کے لیے ناکافی ہیں، ان کے لیے ریاست کو اپنے وسائل کا خاصا بڑا حصہ وقف کرنا ہوگا، مگرایسا کرے گا کون؟ الخدمت نے اپنے محدود وسائل کے باوجود ان کی مدد کا بیڑا اٹھایا ہے۔ پہلے مرحلے پر دس ہزار یتیموں کی ان کے اپنے گھروں میں مالی کفالت کا انتظام کیا ہے۔
اہم بات یہ ہے کہ الخدمت بڑے منظم اور سائنٹفک انداز میں اس پراجیکٹ کو شروع کر رہی ہے۔الخدمت کے آرفن کئیر پراجیکٹ کا بینک اکائونٹ 0599681071007795، ایم سی بی ہے، سوئفٹ اکائونٹ:MUCBPKKA ہے۔بخاری شریف کی ایک حدیث مبارکہ کے مطابق رسول اﷲﷺ نے ایک بار فرمایا '' میں اور یتیم کی کفالت کرنے ولاجنت میں اس طرح (قریب)ساتھ ہوں گے، (اور آپ ﷺ نے اپنی شہادت اور بیچ والی انگلی کا اشارہ کیا)۔ کون ہے وہ خوش نصیب جو اﷲ کے آخری رسول ﷺ کا ساتھ حاصل کرنا چاہتا ہے۔