تحریک طالبان کی مذاکرات کی پیشکش

حکیم اللہ محسود نےکہا ہے کہ وہ القاعدہ کو اپنا ساتھی سمجھتے اور اس کے لیے سر کٹوانے کو بھی تیار ہیں.


Editorial December 29, 2012
اے این پی کے رہنما، طالبان کے نشانے پر رہیں گے، حکیم اللہ محسود، اے ایف پی/ فائل

کالعدم تحریک طالبان پاکستان نے حکومت پاکستان کو مذاکرات کی پیش کش کی ہے۔ ٹی وی رپورٹس کے مطابق یہ پیش کش برطانوی خبررساں ادارے رائٹرز کو بھیجی گئی ایک ویڈیو پیغام کے ذریعے سامنے آئی ہے۔ اس ویڈیو میں تحریک طالبان پاکستان کے سربراہ حکیم اللہ محسود' ان کے قریبی معتمد ولی الرحمان اور تحریک طالبان کے ترجمان احسان اللہ احسان نظر آ رہے ہیں۔ میڈیا کی اطلاعات کے مطابق تحریک طالبان پاکستان کے سربراہ حکیم اللہ محسود کی جانب سے مذاکرات کی غیرمشروط پیش کش کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ وہ کسی قیمت پر ہتھیار نہیں ڈالیں گے۔

انھوں نے یہ بھی تسلیم کیا ہے کہ تحریک طالبان پاکستان' افغانستان کے طالبان اور القاعدہ ایک ہیں۔ حکیم اللہ محسود نے القاعدہ کے ساتھ اپنی گہری وابستگی کا اظہار کرتے ہوئے یہاں تک کہا ہے کہ وہ القاعدہ کو اپنا ساتھی سمجھتے اور اس کے لیے سر کٹوانے کو بھی تیار ہیں۔ انھوں نے اپنے سیاسی نظریات واضح کرتے ہوئے کہا کہ جمہوریت خلاف اسلام ہے۔ انھوں نے خیبر پختونخوا کے سینئر وزیر بشیر احمد بلور کے قتل کا اعتراف کرتے ہوئے دھمکی دی کہ مستقبل میں بھی اے این پی اور اس کے رہنما، طالبان کے نشانے پر رہیں گے، ان کی دشمنی کسی سیاسی تنظیم سے نہیں بلکہ جمہوری نظام سے ہے' جو بھی شخص یا جماعت جمہوریت کی حمایت کریگی، طالبان اس کے خلاف کارروائی کریں گے۔

تحریک طالبان نے دہشت گردی کے حوالے سے اپنا آیندہ کا لائحہ عمل بھی واضح کر دیا ہے کہ وہ اے این پی کے رہنماؤں پر مستقبل میں بھی حملے جاری رکھے گی۔ یہ امر تحریک طالبان کی طرف سے واضح دھمکی ہے جس سے عیاں ہوتا ہے کہ سیاست دانوں خاص طور پر اے این پی کے رہنماؤں کی زندگیاں ہر وقت خطرے میں ہیں اور کسی بھی وقت ان پر دہشت گردانہ حملہ ہو سکتا ہے۔ گہرائی سے جائزہ لیا جائے تو یہ تاثر بھی پیدا ہوتا ہے کہ تحریک طالبان کی طرف سے مذاکرات کی پیشکش کے پردے میں جنگ جاری رکھنے کا پیغام دیا گیا ہے ۔ اس ویڈیو پیغام کے بعد اے این پی کے بعض رہنماؤںکی جانب سے یہ ردعمل سامنے آیا ہے کہ ان کی پارٹی چاہتی ہے کہ دہشت گردوں کے خلاف فوجی آپریشن کیا جائے جب کہ وفاقی حکومت نے ابھی تک اس پیشکش پر اپنا موقف نہیں دیا ہے۔

اخباری اطلاعات کے مطابق اے این پی کے سینیٹر حاجی عدیل نے تصدیق کی ہے کہ اے این پی کی قیادت نے رواں ہفتے ایک اجلاس کے بعد دہشت گردوں کے ٹھکانوں کے خلاف فوجی آپریشن کے لیے قومی اتفاق رائے کا مطالبہ کیا تھا۔ انھوں نے واضح کرتے ہوئے کہا کہ وہ ان عناصر کو کھلی چھٹی نہیں دے سکتے جو حکومت کی رٹ چیلنج کر رہے ہیں۔دوسری جانب خیبرپختونخوا کے وزیر اطلاعات میاں افتخار حسین نے حکیم اللہ محسود کی جانب سے مذاکرات کی پیشکش کو مثبت قدم قرار دے کر اپنا مؤقف واضح کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ طالبان سے ہتھیار ڈالنے کا نہیں تشدد ترک کرنے کا مطالبہ کرتے چلے آ رہے ہیں، طالبان کو مذاکرات کے لیے بااختیار کمیٹی تشکیل دینی چاہیے۔ تحریک طالبان کی پیشکش کو حقائق کے تناظر میں دیکھا جانا چاہیے۔ دنیا میں جہاں کہیں بھی جنگجو تنظیموں کے حکومت سے مذاکرات ہوتے ہیں، اس میں حکومت کی جانب سے پہلی شرط یہ ہوتی ہے کہ مخالف فریق کی جانب سے پہلے ہتھیار ڈالے جائیں پھر مذاکرات ہوں گے۔

کسی ریاست کے خلاف کوئی گروپ سیاسی جدوجہد بھی کررہا ہو تو مذاکرات کرتے وقت اس سے بھی آئینی حدود کی پاسداری کا مطالبہ کیا جاتا اور کوئی ایسی تجویز یا مطالبہ تسلیم نہیں کیا جاتا جو ملکی آئین اور قانون سے بالاتر ہو یا ریاست کے اقتدار اعلیٰ کو متاثر کرتا ہو۔ تحریک طالبان پاکستان سیاسی جماعت نہیں بلکہ ایک گوریلا تنظیم ہے جسے حکومتی سطح پر کالعدم قرار دیا جا چکا ہے۔ پھر یہ تنظیم دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث چلی آ رہی ہے جس میں اب تک سیکڑوں بے گناہ افراد جاں بحق ہو چکے ہیں۔ ان کی جو حالیہ ویڈیو منظرعام پر آئی ہے اس میں بھی انھوں نے کسی قسم کی لچک کا مظاہرہ نہیں کیا اور نہ دہشت گردی کی کارروائیاں ترک کرنے کا کوئی اشارہ دیا ہے بلکہ مستقبل میں بھی سیاست دانوں کو نشانہ بنانے کی دھمکی دی ہے۔ تحریک طالبان نے افغانستان کے طالبان اور القاعدہ سے اپنی گہری وابستگی کا اظہار کرتے ہوئے صاف صاف کہہ دیا ہے کہ 2014ء میں افغانستان سے نیٹو فورسز کے انخلاء کے بعد افغان طالبان قیادت کا جو فیصلہ ہو گا وہ اس پر عمل کریں گے۔

افغان طالبان اور القاعدہ وہ تنظیمیں ہیں جن کے خلاف افغانستان میں امریکا اور نیٹو فورسز جنگ لڑ رہی ہیں جس کے باعث پاکستان کو بھی شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ تحریک طالبان ایک جانب مذاکرات کی پیش کش کر رہی ہے تو دوسری جانب وہ ہتھیار ڈالنے پر بھی تیار نہیں اور حکومت پر دباؤ بڑھانے کے لیے اپنی مرضی کے مطالبات منوانا چاہتی ہے۔ وہ اس بات کا مطالبہ کر رہی ہے کہ حکومت پاکستان جنگ بندی سے پہلے امریکا سے تعلقات ختم کرے۔ تحریک طالبان پاکستان کو یہ بات نہیں بھولنا چاہیے کہ وہ عالمی سطح پر کوئی تسلیم شدہ حکومت نہیں بلکہ ایک گوریلا تنظیم ہے اور کوئی بھی حکومت گوریلا تنظیم سے مذاکرات کرتے وقت پہلے اپنی رٹ منواتی ہے اور مخالف فریق کی کوئی بھی ایسی شرط تسلیم نہیں کرتی جو ملکی آئین اور قانون سے بالاتر ہویا اس کے اقتدار اعلیٰ سے متصادم ہو۔ اگر تحریک طالبان کے رہنما اپنے مؤقف پر ڈٹے رہے تو ان کے حکومت سے مذاکرات کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکیں گے جس کا اعتراف حکیم اللہ محسود نے اپنی اس جاری ہونے والی 40منٹ کی ویڈیو میں بھی کیا ہے کہ اس سے پہلے بھی کئی بار تحریک طالبان کے حکومت پاکستان کے ساتھ مذاکرات ہوئے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ تحریک طالبان اپنے رویے میں کسی قسم کی لچک کا مظاہرہ نہیں کر رہی جس کے باعث مذاکرات ناکام چلے آ رہے ہیں۔

اگر تحریک طالبان نے اپنے مؤقف میں نرمی کا رویہ ظاہر نہ کیا اور دہشت گردی کی کارروائیاں جاری رکھتے ہوئے حکومتی ارکان اور سیاست دانوں کو نشانہ بنایا تو پھر عوامی حلقوں کی جانب سے ان کے خلاف فوجی آپریشن کا مطالبہ شدت اختیار کرتا چلا جائے گا جیسا کہ اخباری خبر کے مطابق سابق سیکریٹری فاٹا بریگیڈیئر (ر) محمود شاہ سمیت عسکری تجزیہ نگاروں نے بھی یہ مؤقف اختیار کیا ہے کہ آپریشن جلد ازجلد کیا جائے۔ متعدد حلقوں کی جانب سے ایک طویل عرصے سے شمالی وزیرستان میں آپریشن کا مطالبہ کیا جا رہا اور امریکا بھی اس سلسلے میں دباؤ ڈالتا رہا ہے۔ اس سے قبل کہ تحریک طالبان کے خلاف آپریشن کا مطالبہ شدت اختیار کر جائے انھیں چاہیے کہ وہ ہٹ دھرمی چھوڑ کر ہتھیار ڈالنے کا اعلان کرکے حکومت سے پرامن مذاکرات کا راستہ اپنائیں۔بہرحال تحریک طالبان پاکستان کی جانب سے مذاکرات کی بات کرنا، ایک مثبت علامت سمجھی جاسکتی ہے بشرطیکہ آنے والے دنوں میں اس کے رویے میں مزید مثبت تبدیلی آئے۔ایسا ہونا بھی چاہیے۔حکومت پاکستان اپنے ملک میں امن چاہتی ہے، تحریک طالبان اگر خود کو پاکستانی کہلاتے ہیں تو انھیں اس ملک کے مفادات کا ادراک ہوناچاہیے، تحریک طالبان کی قیادت کو کسی دوسرے کے ساتھ وفاداری کے بجائے اپنے وطن سے وفاداری اور محبت کا ثبوت دینا چاہیے، اس طریقے ہی سے معاملات کو آگے بڑھایا جاسکتا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں