جنرل صاحب کی آمد

جناب زرداری کو پتہ ہے کہ ان کی جماعت کا مستقبل کیا ہے، انھوں نے جماعت کو نیا چہرہ دینا مناسب سمجھا۔

Abdulqhasan@hotmail.com

آپ کو ایک خبر بتانے یا سنانے سے پہلے میں زندہ خبروں سے جدائی پر آنسو بہانا چاہتا ہوں۔ میں نے عمر بھر خبریں جمع کیں اور آپ کی خدمت میں پیش کیں۔ اخبار میں ایک رپورٹر کی حیثیت سے برسوں کام کیا پھر جب رپورٹنگ چھوڑی اور کالم نویسی شروع کر دی تو خبروں سے دوری کی وجہ سے خبروں کی پیاس جاگ اٹھی لیکن رپورٹنگ کی جگہ کالم نویسی نے لے لی تھی اور واپسی ذرا مشکل ہو گئی۔ اس صنف میں جدید سیاسی کالم نگاری شروع کرنے کا اعزاز مجھے حاصل ہے۔

اس میں میرا کوئی کمال نہیں تھا کیونکہ میں خوش قسمتی سے ایک ایسے اخبار میں ملازم تھا جس میں سیاسی معاملات پر خامہ فرسائی کو ترجیح دی جاتی تھی اور کالموں میں روزمرہ کی جاری سیاست پر کھل کر بات ممکن تھی چنانچہ سیاسی کالم نگاری چل نکلی۔ ہر کالم میں کچھ نہ کچھ خبریت بھی ہوتی، میں چونکہ بنیادی طور پر ایک رپورٹر تھا، اس لیے خبروں سے جدائی نہ ہو سکی مگر رفتہ رفتہ میں خبروں سے دور ہوتا گیا اور اخباری خبروں اور رپورٹروں پر انحصار بڑھتا گیا۔ سرفہرست نصرت جاوید رہا جس کے کالم میں تازہ ترین بلکہ خفیہ ترین خبروں کا تجزیہ اور حوالہ ملتا ہے۔

یوں میری خاصی تسکین ہو جاتی ہے لیکن یہ صورتحال میرے لیے ہمیشہ ناپسندیدہ رہی۔ میں جو خبریں دیا اور بانٹا کرتا تھا اور اس شعبے میں دولت مند اور مخیر تھا خود دوسروں کا محتاج ہو گیا لیکن اپنے ساتھی رپورٹروں کو آج ایک اعتماد کی بات بتاتا ہوں۔ ایک دن مجھے میرے سینئر رپورٹر صحافی میاں محمد شفیع (م ش) نے دفتر کی سیڑھیوں میں روک کر کہا، دیکھو خبر رپورٹر کے اندر یعنی اس کے دل و دماغ میں ہوتی ہے۔ اتنا کہہ کر وہ تو چلے گئے اور میں ان کی اس بات کو سمجھنے کی کوشش میں لگ گیا۔ کئی سینئر دوستوں سے اس کا مطلب سمجھنے کی کوشش کی' کچھ خود سوچا ،کچھ دوستوں نے بتایا کہ خبر صرف باہر سے نہیں آتی اندر سے بھی بنتی ہے چنانچہ ایک خبر میرے اندر بنتی رہی کہ جنرل مشرف اگر سیاست سے باز نہیں آتے تو وہ کیا کرینگے کیونکہ وہ کچھ کرینگے ضرور، پاکستان کے اندر ان کی ایک بڑی مضبوط لابی موجود ہے جس کے ساتھ انھوں نے اپنے اقتدار کے دوران کچھ نہ کچھ تعلق کا سلسلہ قائم رکھا چنانچہ چند دن ہوئے کہ ایک صاحب نے مجھے راستے میں روک کر کہا کہ ایک بات سنتے جاؤ بلکہ ایک خبر لیتے جاؤ جنرل پرویز مشرف ایم کیو ایم میں شامل ہو رہے ہیں ۔

حالات جس طرح اچانک بدل رہے ہیں، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ خبر عمل پذیر ہو سکتی ہے۔ میرے خیال میں جنرل مشرف کے طول طویل اقتدار کی بہت سی پالیسیاں ملک کے لیے نقصان دہ ثابت ہوئیں لیکن ان کے مطابق اور کوئی راستہ نہیں تھا البتہ میڈیا کو انھوں نے جو مادرپدر آزادی دی، اس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ ان کی اس میڈیا پالیسی نے نئے حکمرانوں کو پریشان کر رکھا ہے۔ میرا خیال ہے کہ مشرف بہرحال پاکستانی تھے۔ نہ دہری شہریت تھی نہ دہری شخصیت مگر بداعتمادی کی اس نامناسب فضا میں سمجھ میں نہیں آتا کہ کوئی کس کے بارے میں کیا کہے۔ سب اندازے ہیں اور اگر یہ غیر جانبدارانہ ہیں تو اطمینان کی بات ہے۔


پیپلزپارٹی نے بڑے سکون کے ساتھ اقتدار کی آئینی مدت پوری کی ہے۔ یہ اس کی خوش قسمتی اور اس کی اپوزیشن اگر کوئی تھی تو اس کی نالائقی یا فرض شناسی ہے کیونکہ اقتدار کے اس طویل دور میں اس حکومت نے خلق خدا کو بہت دکھ دیے ہیں۔ عوام کی اکثریت ہی نہیں بلکہ بھاری اکثریت شدید قسم کی غربت سے دو چار ہو چکی ہے۔ لاکھوں کی تنخواہ لینے والے بھی بمشکل پہلی تاریخ تک جیتے رہتے ہیں۔ اس ملک کی تاریخ میں پہلی بار ایک بڑی آبادی دو وقت کی روٹی نہیں کھا سکتی۔ ورنہ پاکستان میں کوئی بھوکا رہتا تھا اور نہ کوئی فٹ پاتھ پر سوتا تھا۔

چند برس ہوئے ہیں کہ کرنسی کے ایک بڑے تاجر اور معروف شخصیت سیٹھ عابد نے ایک مجلس میں کہا کہ پاکستان میں ڈالر سو روپے تک پہنچے گا تب ڈالر ساٹھ روپے کے قریب تھا اور اس کی قیمت میں تقریباً دگنے اضافے کا سوچا بھی نہیں جا سکتا تھا لیکن پیپلزپارٹی کی حکومت میں یہ دیکھ لیا، اب ڈالر سو روپے سے بھی بڑھ رہا ہے اور اس کے ساتھ گرانی بھی اسی رفتار سے' دوسری طرف لوگوں کی آمدن بھی اسی رفتار سے کم ہو رہی ہے۔ سخت مشکل اور آزمائش کا وقت ہے۔ وقت دعا سے بھی بات آگے بڑھ چکی ہے۔ اس پارٹی نے اپنے عوام کو جس قدر لاپروائی اور غیر سنجیدگی سے لیا ہے، اس کی تازہ ترین مثال ایک سیاسی نابالغ کو حکمران پارٹی کی قیادت سونپنی ہے۔

بلاول زرداری یا بلاول بھٹو عین ممکن ہے کل کلاں ایک کامیاب سیاستدان ثابت ہوں اور کسی پارٹی کو آگے لے چلیں لیکن اس وقت انھیں ان کی پہلی تقریر کا رٹا لگوا کر اور اس کی پیش کش کی ریہرسل کروا کر سامعین کو متاثر کیا گیا ہے، لوگوں کے لیے ان کی اردو کی صحیح ادائیگی اور الفاظ کے مطابق جسم کی حرکت سب بڑی حد تک حیران کن تھے، اس بچے نے زندگی بھر انگریزی بولی اور پڑھی۔ البتہ اس کی ماں اسے جمعہ کی نماز کے لیے لے جاتی تھی۔ میں سوچتا ہوں کہ ماں کی دعاؤں اور برکت سے یہ کامیاب زندگی گزارے گا لیکن اس وقت اسے وہ کام دے دیا گیا ہے جو ہر لحاظ سے اس سے بڑا ہے۔

میری ایک ناقص رائے یہ ہے کہ جناب زرداری کو پتہ ہے کہ ان کی جماعت کا مستقبل کیا ہے، انھوں نے جماعت کو نیا چہرہ دینا مناسب سمجھا، جناب زرداری کی سیاسی فراست کا نمونہ ان کا اقتدار ہے جسے انھوں نے بڑی ہی کامیابی کے ساتھ قائم رکھا ہے مگر ان کی معاشی پالیسیوں نے ان کو ناکام کر دیا ہے۔ عوام کی یہی بے چینی ہے کہ طالع آزما ملک کو لوٹ رہے ہیں۔ حیرت ہے کہ آدھے پاکستانی اور آدھے کینیڈین ہونے کے باوجود ایک مسلمان قوم کی قیادت کا دعویٰ رکھتے ہیں، وہ اصل میں ایک مشکوک آدمی ہیں۔ اللہ و رسول کے نام پر بنے ہوئے ملک کا کوئی شہری نہ جانے کس طرح کسی غیر مسلم ملک کا شہری بھی بن سکتا ہے۔ ایسے آدمی کی پاکستان کی سیاست یا ریاست میں کیا گنجائش ہے۔ اس وقت تو اس بھوکی قوم کو خریدا جا رہا ہے اور یہ بھوک کے مارے بک بھی رہے ہیں۔ حضور پاکﷺ نے فرمایا تھا، بھوک اور افلاس انسان کو کفر کے قریب لے جاتا ہے۔ کادالفقران یکون کفراً۔
Load Next Story