مسلم لیگ کا 107 واں یوم تاسیس

ایک صدی سے زائد کا عرصہ گزرنے کے باوجود مسلم لیگ (ن) کے پلیٹ فارم سے اسی سبز ہلالی پرچم تلے جاری ہے۔


Nasir Alauddin Mehmood December 29, 2012

1757 کی جنگ پلاسی اور 1857 میں ہونے والی آخری جنگ آزادی کی ناکامی کے بعد انگریزوں کی جانب سے مسلمانوں کے حوالے سے جو سفاک اور ظالمانہ سلوک روا رکھا گیا اور انھیں بدترین امتیازی سلوک اور رویوں کا شکار بنایا گیا۔ ان تمام سنگین عوامل کو پیش نظر رکھتے ہوئے برصغیر کے مسلمان اکابرین نے بجا طور پر یہ فیصلہ کیا کہ مسلمانان ہند کو امتیازی سلوک اور ناانصافیوں سے بچانے کے لیے ایک پلیٹ فارم پر منظم اور متحد کیا جائے۔ یہ وہ پس منظر تھا جس کے تحت برصغیر کے مسلمان اکابرین نے 30 دسمبر 1906ء کو نواب سلیم اﷲ خان کی رہائش گاہ واقع ڈھاکا میں ایک اجلاس منعقد کیا۔ اجلاس میں مسلمانان ہند کے مذہبی و سیاسی، سماجی و معاشرتی، ثقافتی اور معاشی حقوق کے حصول اور ان کے تحفظ کے لیے ایک نئی سیاسی جماعت ''آل انڈیا مسلم لیگ'' کے قیام کا اعلان کیا گیا، جس کا پہلا صدر سر سلطان محمد شاہ آغا خان کو منتخب کیا گیا۔

مسلم لیگ نے انتہائی کٹھن اور نامساعد حالات میں اپنی جدوجہد کا آغاز کیا اور کامیابی کے حصول تک اپنی جدوجہد کو جاری رکھا یہاں تک کہ 1940ء میں لاہور میں مسلم لیگ کے اجلاس میں مسلمانان ہند کے لیے ایک علیحدہ مملکت کے قیام کا مطالبہ کیا گیا، اس اجلاس میں ایک قرارداد بھی منظور کی گئی جسے تاریخ میں ''قرارداد پاکستان'' کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔

مسلم لیگ نے پاکستان حاصل کرلیا، اب اس کے سامنے اگلا ہدف اس نوزائیدہ آزاد اور خود مختار ریاست کے امور مملکت چلانے کے لیے دستور سازی کا تھا تاکہ اس پر عمل کرکے قوم کو قیام پاکستان کے حقیقی ثمرات اور فوائد سے بہرہ مند کیا جاسکے لیکن افسوس کہ قائداعظم جلد ہی وفات پاگئے اور بعد ازاں مسلم لیگ پر جاگیردار اشرافیہ نے مکمل بالادستی حاصل کرلی۔ جس نے سول بیوروکریسی کے ساتھ مل کر اپنے اقتدار کو مستحکم کرنے کی سازشیں شروع کردیں اور اسی کے نتیجے میں نوزائیدہ ملک جمہوریت کی راہ سے دور ہوتا چلا گیا۔ اس امر کے باوجود اس وقت کی سیاسی قوتوں بالخصوص مشرقی پاکستان کے سیاسی اکابرین کی جدوجہد کے نتیجے میں 1956 کے آئین کی تشکیل ممکن ہوسکی۔ اس آئین کے تحت انتخابات کی تاریخ کا اعلان بھی کردیا گیا لیکن جمہوریت کی جانب اس فیصلہ کن عمل کو روکنے کے لیے حکمران جاگیردار اشرافیہ اور سول بیوروکریسی نے فوجی اشرافیہ کو اقتدار پر قبضہ کرنے کی دعوت دی یوں 27 اکتوبر 1958 میں فوج نے براہ راست اقتدار پر قبضہ کرلیا اور 1956 کے آئین کو منسوخ کردیا۔

مسلم لیگ ہر آمر کی سیاسی ضرورتوں کو پورا کرتی رہی اور اقتدار پر قبضے کا یہ کھیل جاری رہا یہاں تک کہ 1993 میں قائداعظم کے حقیقی سیاسی جانشین، اس وقت کے منتخب وزیراعظم پاکستان، مسلم لیگ کے سربراہ میاں محمد نواز شریف نے اسٹیبلشمنٹ کی مضبوط گرفت سے آزادی حاصل کرنے کے لیے جرأت اور بہادری کا مظاہرہ کیا اور پوری قوم کو گواہ بناتے ہوئے واشگاف الفاظ میں ملک کے طاقتور اسٹیبلشمنٹ سے ''ڈکٹیشن'' لینے سے انکار کردیا اور بطور وزیراعظم اپنے منصب سے مستعفی ہونے کا اعلان کیا۔ 1997ء کے قومی انتخابات میں مسلم لیگ نے پارلیمنٹ میں دو تہائی اکثریت سے کامیابی حاصل کرکے ایک نئی تاریخ رقم کی۔

میاں محمد نواز شریف نے دوسری مرتبہ وزراتِ عظمیٰ کا حلف لینے کے بعد ہی قائداعظم کے پاکستان کی تعمیر کے ادھورے خواب کی تکمیل کی جدوجہد پوری متانت سے شروع کردی۔ اب ان کی پوری توجہ اس امر کی جانب مرکوز تھی کہ ملک کا انفرا اسٹرکچر جدید طرز کے مطابق تعمیر کیا جائے تاکہ بڑے پیمانے پر بیرونی سرمایہ کاری ہوسکے اور روزگار کے نئے مواقعے پیدا ہوں۔ ملک میں جاری غیر پیداواری اور غیر ترقیاتی اخراجات میں واضح کمی کی جائے اور قومی وسائل کو سماجی بہبود، صحت اور تعلیم جیسی بنیادی ضرورتوں کے شعبوں میں خرچ کیا جائے۔

ملک ترقی اور قوم خوشحالی کی جانب رواں دواں تھی کہ بھارت نے مئی 1998ء میں ایٹمی دھماکے کرکے جنوبی ایشیا میں طاقت کے توازن کو بری طرح متاثر کردیا۔ اب ان کے سامنے دو راستے تھے، ایک تو یہ کہ امریکا سمیت ساری دنیا کے دبائو اور پرکشش پیشکشوں کو منظور کرکے علاقے میں بھارتی بالادستی کو تسلیم کرلیا جائے جبکہ دوسرا راستہ ہر قسم کے دبائو اور پیشکش کو ٹھکراتے اور نتائج کی پرواہ کیے بغیر ملک کی سلامتی اور استحکام کی خاطر ایٹمی دھماکا کیا جائے۔ چنانچہ میاں محمد نواز شریف نے ایک مرتبہ پھرقوم کی امنگوں کے عین مطابق انتہائی جرأت، بہادری اور دلیری کے ساتھ امریکی صدر بل کلنٹن کے پانچ ٹیلیفون کالز جو دھمکی اور پرکشش پیشکشوں سے لبریز تھیں کو رد کردیا اور بھارتی ایٹمی دھماکے کے جواب میں 28 مئی 1998ء کو ایٹمی دھماکا کرکے برصغیر میں بھارتی ایٹمی دھماکوں کے نتیجے میں پیدا ہوجانے والے طاقت کے عدم توازن کو ختم کردیا۔ ان کے اس جرأتمندانہ اقدام نے پاکستان کو ناقابل تسخیر اور ہماری آنے والی نسلوں کے مستقبل کو ہمیشہ کے لیے محفوظ بنادیا۔ ہماری سلامتی اور خود مختاری کو لاحق خطرات کا ہمیشہ ہمیشہ کے لیے خاتمہ کردیا اور دنیا پر یہ بھی واضح کردیا کہ ہم نے ایٹمی طاقت کسی دوسرے ملک پر جارحیت کے لیے نہیں بلکہ اپنے دفاع کے لیے حاصل کی ہے ۔

ترقی اور سربلندی کا یہ سفر جاری تھا کہ 12 اکتوبر 1999ء کو ایک مرتبہ پھر پاکستانی فوج کے سربراہ نے آئین کی حکمرانی اور پارلیمنٹ کی بالادستی کے اصول کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ہوس اقتدار کی خاطر حکومت پر قبضہ کرلیا اور آئین کو معطل کردیا۔ قوم کے منتخب وزیراعظم کو غیر قانونی طور پر گرفتار کرلیا اور انھیں مستعفی ہونے پر دبائو ڈالا لیکن وزیراعظم نواز شریف نے ''ڈکٹیشن'' نہ لینے کا عہد کر رکھا ہے لہٰذا انھوں نے انکار کردیا۔ اس انکار کی پاداش میں ان پر جعلی مقدمہ قائم کرکے عمر قید کی سزا سنائی گئی اور بعدازاں انھیں پورے خاندان کے ہمراہ ملک بدر ہونے پر مجبور کردیا گیا۔

اقتدار پر قابض آمر نے وزیر اعظم نواز شریف کے ساتھیوں پر زبردست دبائو ڈالا کہ وہ اپنے قائد سے غداری کرکے اس کا ساتھ دیں لیکن ان کے ساتھیوں کی ایک بڑی تعداد نے ایسا کرنے سے نہ صرف انکار کردیا بلکہ وہ غیر آئینی و غیر قانونی آمرانہ حکومت کے سامنے سینہ سپر ہوگئے۔ آمر کی جانب سے قائداعظم کی مسلم لیگ کو یرغمال بنانے کی تمام کوششیں رائیگاں گئیں اور قائداعظم کی مسلم لیگ ان کے حقیقی جمہوریت پسند سیاسی جانشین میاں محمد نواز شریف کی قیادت میں آج بھی پوری طرح متحد، منظم اور فعال ہے۔ آل انڈیا مسلم لیگ کے قیام سے جس سبز ہلالی پرچم تلے جدوجہد کا آغاز ہوا تھا آج ایک صدی سے زائد کا عرصہ گزرنے جانے کے باوجود بھی مسلم لیگ (ن) کے پلیٹ فارم سے اسی سبز ہلالی پرچم تلے جاری ہے۔ آج 107 ویں یوم تاسیس کے موقعے پر اس عہد کی تجدید کرتے ہیں کہ ہم تمام تر مشکلات اور سازشوں کے باوجود پاکستان کو ایک اسلامی، فلاحی، جمہوری ریاست بنا کر دم لیں گے۔ (انشا اﷲ تعالی)

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں