لاوارث بچوں کا وارث پاکستان
جب پالیسیاںتشکیل دی جاتی ہیں تو انھیں آبادی کے ایک بڑے حصے کا احاطہ کرنے کیلیے عام حالت میں رکھا جاتا ہے۔
جب کبھی پالیسیاںتشکیل دی جاتی ہیں، تو انھیں آبادی کے ایک بڑے حصے کا احاطہ کرنے کے لیے زیادہ سے زیادہ عام حالت میں رکھا جاتا ہے۔ ایک اچھی پالیسی کی خصوصیات یہ ہیں کہ وہ معیاری ہو اور اس میں معاشرے کے تمام شعبوں کے ساتھ یکساں سلوک کیا گیا ہو۔ تاہم، ایسی کوششوں کے باوجود، بہت سی پالیسیاں معاشرے کے کچھ طبقات کو پسماندہ بنا دیتی ہیں جنھیں ان کی اپنی آبادیاتی نوعیت کی وجہ سے برادری سے باہر کر دیا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ اگر پالیسیاں کچھ حد تک ذاتی نوعیت کی ہوں، تو ان کا اختتام تفریق کو مزید ہوا دیتے ہوئے دور رہنے والوں اور باقی ماندہ عوام کے درمیان بنیادی فرق کو نمایاں کرنے پر ہوتا ہے۔
یتیم بچوں کے اندراج کے لیے ایک نئی پالیسی تیار کرنا ان بہت سے چیلنجوں میں سے ایک تھا جن سے مجھے نادرا میں چارج لینے کے بعد واسطہ پڑا اور اس سلسلے میں مجھے اس پالیسی پر سماجی اور مذہبی اثرات کو بھی ذہن میں رکھنا پڑا۔ صدر پاکستان آصف علی زرداری نے بہت سے اجلاسوں کے دوران بڑی شدت سے یتیم؍لاوارث بچوں کے اندراج کے کیس کی وکالت کی۔ ان کی بہن ڈاکٹر عذرا فضل پیچوہو نے اس حوالے سے کچھ کرنے کی بار بار یاد دہانی کروائی اور انھوں نے اس سلسلے میں پارلیمنٹ میں ایک بل بھی پیش کیا ۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ اس ملک کے سماجی، معاشی ماحول کے لیے،یہ مسئلہ ان بنیادی مسائل میں سے ایک ہے جنھیں ترجیحی بنیاد پر حل کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔
یہ مسئلہ 2008میں میرے ایدھی فاؤنڈیشن کے دورے کے دوران سامنے آیا جہاں میں فاؤنڈیشن کی جانب سے ملنے والی لاشوں کی پہچان سے متعلق مسائل پر تبادلہ خیال کرنے کے لیے گیا تھا۔ میں نے اس وقت یتیم؍لاوارث بچوں کی رجسٹریشن کی اہمیت اور مسئلے کی سنگینی کو محسوس کیا جو ہماری آبادی کا ایک بڑا حصہ ہیں، اس سے قطع نظر کہ ان کے والدین پاکستانی ہیں، وہ درکار ڈیٹا کے نامکمل ہونے کی وجہ سے شہریت حاصل کرنے کے اہل نہیں ہیں۔
اس مسئلے کو اچھی طرح سمجھنے کے لیے، شہریوں کی رجسٹریشن کے لیے نادرا کی جانب سے ابتدائی طور پر ڈرافٹ کی گئی پالیسی کا ایک مختصر معائنہ ضروری تھا۔ اس وقت اہم شقوں میں سے ایک موزوںنظر آنے والی شق کسی دیگر پاکستانی کے ساتھ رشتہ داری کے دستاویز کی ضرورت تھی۔اس نے نہ صرف پالیسی کو مضبوط بنانے میں مدد دی بلکہ اس بات کو بھی یقینی بنایا کہ غیر قانونی مہاجرین اور غیرملکیوں کو بھی پاکستانی آبادی کے طور پر رجسٹر نہیں کیا گیا۔ اس حکمت عملی میں، تاہم یہ فرض کیا جاتا ہے کہ ہر وہ فرد جو CNIC حاصل کرلیتا ہے وہ کسی نہ کسی انداز میں کسی اور پاکستانی کا رشتہ دار ہے اور اس حقیقت کو منوانے کے لیے اس نے تمام ضروری دستاویزات ثبوت کے طور پر پیش کی ہیں۔یہ صرف میرے ایدھی فاؤنڈیشن کے دورے کے بعد ہی ممکن ہو سکا کہ اس مفروضہ کے خلاف مثالیں سامنے آنی شروع ہوئیں۔
اس کے بعد، ہم نے حکمت عملی اپنائی جس کے نتیجے میں اس معاملے کو کامیابی سے سلجھا لیا گیا۔ پہلے،لاوارث بچوں کی رجسٹریشن کا کوئی طریقہ کار طے نہیں تھا جس کے نتیجے میں انھیں سرکاری طور پر اس ملک کے قانونی شہری تسلیم کرنے کے بنیادی حق سے محروم کیا جا رہا تھا۔اس حق کا مطالبہ ملک کے قانون اور نادرا کی آرڈیننس 2000کی دفعہ 9 کے تحت کیا گیا ہے۔رجسٹریشن اتھارٹی کا سربراہ ہونے کے ناطے ، میں نے اس مسئلے کو ترجیحی بنیاد پر حل کرنے کے لیے اپنی اہم ذمے داری تصورکیا، کیوںکہ ہمارے بچے، بھائی، بہنیں، اسی زمین پر بستے ہیں جس پر ہم رہتے ہیں اس سے قطع نظر وہ اپنی پہچان کو مکمل طور پر منوانے کا انتظار کر رہے تھے۔
وہ ان ہی حقوق کے مستحق ہیں جس کے ہم ہیں، جن میں معاشرے میں مساوی مقام اور مواقع، عبادت کرنے کی آزادی، اور قوم کے سیاسی، سماجی اور معاشی معاملات میں اپنا کردار ادا کرنے کی آزادی شامل ہیں۔جہاں تک مذہبی مضمرات کا معاملہ ہے، یہ سب جانتے ہیں کہ شریعت کے مطابق گود لیے گئے کسی بچے کا خاندان گود لینے والے والدین کے ساتھ قائم نہیں ہوتا۔ چنانچہ بچے کو اس کے قدرتی والدین کی اولاد ہی تصور کیا جاتا ہے نہ کہ سرپرستوں یا گود لینے والے والدین کی۔
یہ قرآن میںتحریر کردہ بنیادی اصول ہے۔ تاہم، نادرا کے پالیسی قواعد کے مطابق، کسی بچے کے شناختی کارڈ کی درخواست کی اہلیت قائم کرنے کے لیے اس کے باپ کا نام ہونالازمی ہے۔ درخواست کی اہلیت کے طریقہ کار کے علاوہ، باپ کا نام شناخت کی دستاویزات کا بھی ایک لازمی جز ہے ، اسے کارڈ پر تحریر کیا جاتا ہے جس کے بغیر یہ کارڈ کارآمد نہیں ہوتا۔اس تنازعاتی صورت حال کا تقاضہ یہ تھا کہ پالیسی میں تبدیلی لائی جائے اور اس سوچ کے تحت پالیسی کا نئے سرے سے جائزہ لینے کا آغاز کر دیا گیا۔ اس کے ساتھ ساتھ، ہم اس بات کو یقینی بنانا چاہتے تھے کہ یہ شناختی دستاویزات رشتہ داری کی کسی کمی کا مظہر نہیں ہونی چاہیئں، جن کی وجہ سے کچھ سماجی بدنامی جیسے بہت سے پرائیویسی کے خدشات پیدا ہو سکتے تھے۔
سلطنت سعودی عرب،ایران اور اسلامی نظریاتی کونسل سے بہت سے علماء کو اعتماد میں لیا گیا اور اس مسئلے پر قانونی نکات بھی معلوم کیے گئے۔ آخر کاراس کارروائی کی وجہ سے ہم والدین سے محروم، لاوارث بچوں کی رجسٹریشن کے لیے ایک طریقہ کار طے کرنے کے قابل ہوگئے جس کے نتیجے میں مزید کسی تاخیر کے ایسے بچوں کی رجسٹریشن کا آغاز کر دیا گیا۔ نادرا آرڈیننس کی دفعہ 9میں کہا گیا ہے کہ: ''پاکستان کے اندر یا باہر کوئی بھی ایسا شہری جو18سال کی عمرکو پہنچ گیا ہے وہ خود ہر شہری کے والدین یا سرپرست میں سے کوئی ایک جوایسے کسی شہری کی پیدائش کے ایک ماہ سے زائد عرصے تک اس عمرکو نہ پہنچا ہو، اس آرڈیننس کی شقوں کی روشنی میں رجسٹریشن کروا سکتا ہے''۔
درج ذیل شق کا اطلاق کرنے کے لیے، متعلقہ قواعد اورعدالتی احکامات پر عمل در آمد کرتے ہوئے، ہم نے ایک ایسا طریقہ کار تشکیل دیا ہے جس میں تمام یتیم خانوں کی ان کے پاس ماضی میں رکھے گئے بچوں کے مکمل ریکارڈ کے ساتھ نادرا رجسٹریشن درکار ہے۔ اس کے لیے یہ لازم ہے کہ یتیم خانے کی رجسٹریشن کرائی گئی ہو اور قانون کے تحت اس مقصد کے لیے مجاز صوبائی اتھارٹی اس کی تصدیق کرتی ہو۔
18سال سے زائد عمر کے لاوارث بچوں کی رجسٹریشن کے لیے، ہمیں یتیم خانے سے اس فرد کی وہ تمام تصدیق شدہ دستاویزات درکار ہوں گی جو اس کے یتیم خانے میں رہنے کے دوران اس سے متعلق ہیںاور اگر ایسے بچے کی ولدیت معلوم نہیں ہے، تو یتیم خانے کی جانب سے والدین کے طور پر ریکارڈ کیا گیا کوئی نام ڈیٹابیس میں ڈال دیا جائے گا۔ یتیم خانے کی یہ ذمے داری ہوگی کہ وہ بچے کے والدین کے طور پر کوئی بھی فرضی نام دیدے، لیکن یہ نام فکسڈ نام جیسے ایدھی، عبداللہ، آدم یا حوا نہیں ہونے چاہیئں ۔سرپرست کے نام کے ساتھ CNIC /CRC/NICOPکے اجراء کے لیے، ڈیٹا بیس میں والد کے نام کے علاوہ،اضافی طور پر سرپرست کا ایک کالم متعارف کروایا جائے گا۔ مزید برآں، ہر یتیم خانے کے لیے یہ بھی لازم ہو گا کہ نادرا کو تمام نئے آنے والے بچوں کے بارے میں معلومات دیتا رہے تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ کوئی بھی بچہ غیر رجسٹرڈ نہیں رہا۔ ہم نے اب ملک بھر میں یتیم خانوںکی رجسٹریشن کا کام شروع کر دیا ہے جس کے نتیجے میں ہم نے یتیم بچوں کی رجسٹریشن کا عمل بھی شروع کر دیا ہے۔ یہ حکومت کا ایک اور سنہرے لفظوں میں لکھا جانے والا کارنامہ ہے جو اس بات پر یقین رکھتی ہے کہ ''کوئی بچہ پیچھے نہ رہ جائے''۔
پہلے دن ہی سے ہم نے اس انوکھے چیلنج کو کامیابی سے ہمکنار کر دیا ہے۔ ہم اب ملک کے ہر یتیم خانے سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ اس موقع سے فائدہ اٹھائیں اور نادرا سے اپنی رجسٹریشن کروائیں کیوں کہ ان کی مدد کے بغیر ہم ان اہداف کو حاصل نہیں کر پائیں گے جنھیں حاصل کرنے کی ہم نے ٹھان رکھی ہے۔ ان میں ایک ہدف کہ 'ہر فرد کا شمار ضروری ہے '' مجھے دل سے بہت عزیز ہے اور اپنی اہمیت منوانے کے لیے، ہمیں ہر شہری کو شمار کرنا ہوگا !