مُلکی معیشت کی ڈگمگاتی کشتی

ہمارے سیاستدان لفّاظی، چرب زبانی اور جذباتی نعروں سے عوام کو گمراہ کرتے ہیں۔

فیصل آباد میں ٹیکسٹائل کے کارخانوں میں بجلی پیدا کرنے والے پلانٹ لگے ہوئے ہیں تاکہ ملک میں جاری بجلی کی بدترین لوڈ شیڈنگ سے ان کا کام متاثر نہ ہو، کارخانے چلتے رہیں اور برآمدی آرڈرز پورا کرنا ممکن ہو سکے۔ ٹیکسٹائل کی صنعت ہماری معیشت کی جان ہے کیونکہ ہماری ساٹھ فیصد برآمدات ٹیکسٹائل مصنوعات پر مشتمل ہیں۔ دسمبر کے موسم میں ڈیموں سے پانی کا نکاس کم ہو جاتا ہے اور ملک میں بجلی کا بحران شدید ہو جاتا ہے تو یہ کارخانے قدرتی گیس استعمال کر کے بجلی پیدا کرتے ہیں اور اپنا کام چلاتے رہتے ہیں۔

تاہم اس سال ایسا نہیں ہو سکا کیونکہ حکومت نے ٹیکسٹائل کے کارخانوں کو گیس کی سپلائی بند کر دی ہے اور اُس کا رُخ گھریلو صارفین کی طرف موڑ دیا ہے۔ چند ماہ بعد الیکشن ہونیوالے ہیں۔ حکومت ووٹرز کو ناراض نہیں کرنا چاہتی ، خواہ اس کے نتیجے میں ملکی معیشت کو کتنا بھاری نقصان ہی کیوں نہ اُٹھانا پڑے۔فیصل آباد میں بجلی اور گیس کی لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے سات لاکھ محنت کش پہلے سے بے روز گار ہیں۔ جو کسر باقی رہ گئی ہے وہ اب پوری ہو جائے گی کیونکہ ٹیکسٹائل انڈسٹری مکمل طور پر بند ہونے والی ہے۔ فیصل آباد کی صنعت بند ہوئی تو صرف صنعتکاروں کا نقصان نہیں ہو گا۔ لاکھوں مزدور بھی بے روز گار ہوں گے۔ مُلکی برآمدات کم ہوں گی۔ زرمبادلہ کم ہو گا اور ملک کے بینک بھی نقصان سے دُو چار ہوں گے کیونکہ اُنہوں نے اِس صنعت کو بھاری سرمایہ قرض پر دے رکھا ہے۔

گذشتہ پونے پانچ سال کے دوران میں ملکی معیشت سے بے اعتنائی موجودہ حکومت کا طرّہ امتیاز رہا ہے۔ ماہرین معاشیات پکار پکار کر کہہ رہے ہیں کہ حکومتی پالیسیوں کی بدولت معیشت کے تمام اشاریے منفی ہو چکے ہیں اور اگر معاشی اصلاحات کا عمل جلد شروع نہ کیا گیا تو پاکستان ایسے دیوالیہ ہو گا جیسے حال ہی میں یونان کا حال ہوا تھا۔ یونان کو بچانے کے لیے یورپ کے دولت مند ملکوں نے اسے سیکڑوں ارب ڈالر کی امداد دی لیکن پاکستان کی مدد کے لیے کون سامنے آئے گا۔؟ عالمی برادری انتہا پسندی اور ایٹمی پروگرام کی وجہ سے پاکستان سے ناخوش ہے۔

وہ اِس کی ڈوبتی کشتی کو کیوں بچائے گی؟سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اس وقت اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر آٹھ ارب ڈالر کی سطح تک گر چکے ہیں۔ 2013ء میں پاکستان نے عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کو پونے چار ارب ڈالر (تقریباً پونے چار سو ارب روپے) ادا کرنے ہیں اور تقریباً ساڑھے تین ارب ڈالر تجارتی خسارہ پورا کرنے کے لیے درکار ہوں گے ۔ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہ دونوں کام کرنے کے بعد ملک کے پاس مشکل سے ایک ارب ڈالر کا زرمبادلہ رہ جائے گا۔ اس کے بعد اللہ اللہ، خیر صلاّ ۔ مستقبل کی درآمدات اور دیگر ضرورتوں کے لیے کہاں سے زرمبادلہ آئے گا۔ کوئی نہیں جانتا۔ آنے والا مارچ کا مہینہ خاصا سخت ہو گا۔ اُس وقت تک ہمارے حکمران نگران حکومتیں بنا کر رفو چکر ہو جائیں گے اور خود کو ہر قسم کی ذمے داری سے مُبرّا قرار دیں گے۔


حکومت کی پانچ سالہ شاندار کارکردگی کے نتیجہ میں ایک ڈالر کے مقابلہ میں پاکستانی روپیہ کی قیمت 62 روپے سے 98 روپے ہو گئی ہے ۔ جوں جوں زرمبادلہ کا بحران بڑھے گا ۔ روپیہ کی قیمت مزید کم ہو گی۔ اس کے نتیجہ میں درآمدات مہنگی ہوں گی اور مہنگائی میں مزید بے تحاشا اضافہ ہو گا۔ پہلے ہی مسلسل پانچ سال سے افراط زر کی شرح دس فیصد سے زیادہ ہے۔ اس افراط زر کے ساتھ ساتھ اقتصادی مندی چل رہی ہے۔ ملک میں روزگار کی مارکیٹ میں ہر سال بائیس لاکھ افراد کا اضافہ ہوتا ہے جنھیں ملازمت فراہم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ قومی معیشت سالانہ سات فیصد کی شرح سے ترقی کرے۔

اس کے برعکس حقیقت یہ ہے کہ 2008ء سے لے کر آج تک معاشی ترقی کی سالانہ شرح تین فیصد سے کم رہی ہے۔ ملکی تاریخ میں مندی کا ایسا طویل دورانیہ اس سے پہلے کبھی نہیں آیا۔ اس عرصہ میں سب سے زیادہ نقصان بڑے پیمانے پر مصنوعات تیار کرنیوالے صنعتی شعبہ کو ہوا ہے جس کا مُلکی معیشت میں حصّہ 13.4فیصد سے کم ہو کر 11.9 فیصد پر آ گیا ہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ بجلی اور گیس کے بحران کے باعث نجی سرمایہ کاروں نے اپنا ہاتھ روک لیا ہے۔ پانچ برس پہلے ملک میں نجی سرمایہ کاری کا حجم 272ارب روپے تھا جو کم ہوتے ہوتے رواں سال میں177روپے رہ گیا ہے۔

سرمایہ کاری میں کمی کی ایک اور وجہ یہ ہے کہ حکومت بنکوں سے اتنے قرض لے چکی ہے کہ ان کے پاس نجی پارٹیوں کے لیے سرمایہ نہیں ہے ۔ حکومت کی شاہ خرچیوں کے لیے اسٹیٹ بینک کو حکومت کے تابع کر لیا گیا ہے۔ گزشتہ پانچ برسوں میں اس حکومت نے جتنا قرض لیا ہے اس سے پہلے ملکی تاریخ کے ساٹھ برسوں میں مجموعی طور پر اتنا قرض نہیں لیا گیا۔ سابق گورنر اسٹیٹ بینک ڈاکٹر محمد یعقوب کے مطابق وفاقی حکومت کا بجٹ خسارہ کُل مجموعی پیداوار کے دس فیصد سے بڑھ چکا ہے جب کہ بجٹ پیش کرتے ہوئے وعدہ کیا گیا تھا کہ اسے پانچ فیصد تک رکھا جائے گا۔

سیکڑوں ارب روپے بنکوں سے قرض لینے کے باوجود حکومت کے پاس اتنی رقم نہیں کہ بجلی پیدا کرنیوالی نجی کمپنیوں کو ادائیگیاں کر سکے۔ ملک میں بیس ہزار میگاواٹ سے زیادہ بجلی پیدا کرنے کی استعداد موجود ہے جب کہ پیداوار دس ہزار میگاواٹ سے کم ہے کیونکہ حکومت کمپنیوں کو بجلی کی قیمت ادا نہیں کر سکتی ۔ ماہر اقتصادیات شاہد کاردار کا کہنا ہے کہ حکومت ہر روز اوسطاً ایک سو چالیس کروڑ روپے بجلی اور گیس کی سب سڈی کے طور پر ادا کر رہی ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ بوجھ عوام کی جیبوں پر پڑ رہا ہے جب کہ اس کا فائدہ بجلی چور اور نادہندہ سرکاری ادارے اُٹھارہے ہیں۔ وزیر بجلی و پانی احمد مختار اعتراف کرتے ہیں کہ ملک میں چودہ سو میگاواٹ بجلی چوری کی جاتی ہے۔

یہ ابتر صورت حال ہمارے حکمران طبقہ کی بدعنوانی اور نا اہلی کا نتیجہ ہے خواہ وہ مرکز میں ہوں یا صوبوں میں۔ حکومت اپنے طبقہ کے دولت مند لوگوں سے ٹیکس نہیں لینا چاہتی جس کی وجہ سے حکومت کو ملنے والے ٹیکس کُل مُلکی پیداوار (جی ڈی پی) کے نو فیصد کے برابر ہیں۔ 2005ء میں یہ شرح تیرہ فیصد تھی۔ اگر اسی شرح کو برقرار رکھا جاتا تو ملک قرضوں اور مالی بحران کی دلدل میں نہ دھنستا۔ ہمارے سیاستدان لفّاظی، چرب زبانی اور جذباتی نعروں سے عوام کو گمراہ کرتے ہیں۔ اس وقت ایک مُہیب معاشی بحران آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر ہمیں دیکھ رہا ہے۔جذباتی نعروں سے یہ خطرہ ٹلنے والا نہیں۔فیصل آباد کی ٹیکسٹائل انڈسٹری کی بندش ایک بڑے طوفان کا پیش خیمہ ہے۔
Load Next Story