اب ڈھونڈ انھیں چراغ رخ زیبا لے کر
ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی نے اپنی 100 سالہ زندگی میں علم کیمیا کے شعبے میں 300 سے زائد علمی و تحقیقی مقالے قلمبند کیے
December 30, 2012
پاکستان کی 65 سالہ تاریخ میں شعبہ کیمیا نے صنعتی، زرعی، ادویاتی و تحقیقی میدان میں جو گراں قدر پیش رفت کی ہے اور ملکی ضروریات کے تحت جس حد تک بھی ماہرین و تحقیق کار پیدا کرسکی ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔ پاکستان میں شعبہ کیمیا کو فروغ دینے، اس کی ترقی وکامیابی کی راہیں ہموار کرنے کا سہرا جس عظیم سائنسدان کے سر جاتا ہے اس کو نہ صرف اہل پاکستان بلکہ جنوبی ایشیا اور مسلم امّہ کے علاوہ دنیا کے بڑے بڑے سائنسدان اور ماہر کیمیا'' ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی'' کے نام سے جانتے ہیں۔ ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی کا شمار ان چند عظیم پاکستانی سائنسدانوں میں ہوتا ہے کہ جنہوں نے اپنی زندگی سے زیادہ اپنے شعبے سے عشق کا اظہار کیا۔
ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی ہندوستان کے شہر لکھنو میں 19 اکتوبر 1897 کو پیدا ہوئے۔ لکھنو کے علمی خانوادے اور تعلیمی اداروں نے آپ کی ذہنی و علمی صلاحیتوں اور قابلیتوں کو مکمل طور سے نکھارا، ابتدائی تعلیم لکھنو ہی میں حاصل کی۔ اس کے بعد 1917 میں آپ نے سرسید کے قائم کردہ علی گڑھ مسلم کالج کا رخ کیا۔ ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی نے 19 سال کی کم عمری میں ہی 1917 میں گریجویشن کی سند حاصل کی۔ علی گڑھ کالج کے اساتذہ نے ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی کے اندر چھپی ہوئی اس گوہر نایاب اور ذہنی و علمی قابلیت وصلاحیت کو دیکھ لیا تھا لہٰذا انھوں نے آپ کی تعلیم پر خصوصی توجہ دی، اس کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی نے دل جمعی، لگن، محنت و مشقت سے خود کو زیور علم سے آراستہ کیا۔ تحقیق کا شوق وجستجو ان کے اندر کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔ 1921 میں آپ نے حصول علم اور اعلیٰ تعلیم کے لیے لندن کا رخت سفر اختیار کیا۔
یورپ کی دنیا کے جامعات سے آپ نے دل کھول کر اپنی علمی و ذہنی آبیاری فرمائی اور پھر جرمنی کے شہر فرینکفرٹ جا پہنچے جہاں جولیس وان براؤن نامی ایک استاد اپنے شاگردوں کی علمی تشنگی اور ذہنی آبیاری میں ہمہ تن مصروف تھے۔ آپ کی ملاقات اس یورپی استاد سے ہوئی۔ جس کے زیرنگرانی آپ نے ڈاکٹر آف فلاسفی (ڈی فل) کی اعلیٰ ترین سند حاصل کی۔ آپ 1927 تک یورپ کے مختلف ممالک میں اپنی علمی وتحقیقی تشنگی کو دور کرنے میں رات دن مصروف رہے۔ یورپ کے ممالک سے تعلیم کے مدارج کو کامیابی سے طے کرنے کے بعد آپ 1928 میں ہندوستان واپس تشریف لے آئے اور اپنی زندگی کو مشہور زمانہ حکیم اجمل خاں کے ساتھ منسلک کیا اس زمانے میں حکیم اجمل خاں طیبہ کالج دہلی کے سرپرست اعلیٰ تھے۔ آپ نے طیبہ کالج میں ڈرگ ریسرچ انسٹیٹیوٹ سے خود کو منسلک کیا۔ اور دس سال تک بحیثیت ڈائریکٹر اس ادارے کے فروغ اور انسانی فلاح و بہبود کے ضمن میں اپنی خدمات کا دائرہ کار بڑھاتے رہے۔
ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی نے مختلف پودوں کو دوا کے طور پر استعمال کرنے کے سلسلے میں تحقیق کی۔ آپ کی تیار کردہ دوا ''اجملین'' کو پوری دنیا میں پذیرائی اور شہرت ملی۔ 1940 میں آپ کی قابلیت اور خدمات کو مدنظر رکھتے ہوئے کونسل آف سائنٹیفک انڈسٹری ریسرچ (CSIR) نے حاصل کرلیں۔ یہ ادارہ ہندوستان میں دوسری جنگ عظیم (1945-1939)کے دوران قائم ہوا تھا۔ آپ وقت کے ساتھ ساتھ ترقی کے زینے طے کرتے رہے اور تحقیق و جستجو میں رات دن مصروف ہوتے چلے گئے، کامیابی آپ کے قدم چومتی رہی اور متواتر آپ کے لیے آسانیاں اور بلندیاں ملتی رہیں1947 کے ابتدائی ماہ میں آپ کو نیشنل کیمیکل لیبارٹری انڈیا کا ڈائریکٹر مقرر کیا گیا۔
14 اگست 1947 کو مسلمانان ہند کی امیدوں کا مرکز ارض پاکستان معرض وجود میں آیا۔ آپ کے بھائی چوہدری خلیق الزماں (1973-1889) جو تحریک پاکستان کے ہراول دستے میں قائد اعظم اور ان کے رفقاء کار کے ساتھ ساتھ تھے اور جنہوں نے 1940 کی قرارداد لاہور کو سب سے پہلے تائید کا شرف بخشا تھا ان کے ہمراہ دیگر خاندانوں کی طرح ہجرت کرکے سرزمین پاکستان پر قدم رکھا۔ نوزائیدہ مملکت پاکستان نے آپ کی علمی صلاحیت و قابلیت اور آپ کی پیشہ ورانہ خدمات کے طفیل آپ کی خدمات سے مکمل طور پر استفادہ حاصل کرنے کا پروگرام بنایا اور آپ کو پاکستان کونسل آف سائنٹیفک اینڈ انڈسٹریل ریسرچ (PCSIR) کی بنیاد رکھنے کا شرف حاصل ہوا۔
1961 میں جب سائنس کی ترقی اور اس کے اہداف و مقاصد کا تعین کیا گیا اور پاکستان نیشنل سائنس کونسل کا قیام عمل میں آیاتو ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی کو اس ادارے کا پہلا چیئرمین ہونے کا شرف حاصل ہوا جو آپ کی صلاحیتوں اور قابلیتوں کا متقاضی تھا۔ جب آپ ملازمت سے سبکدوش ہوئے تو اس کے بعد پاکستان کی سب سے بڑی جامعہ ''جامعہ کراچی'' نے آپ کی خدمات سے استفادہ کا پروگرام بنایا۔
جامعہ کراچی سے منسلک ہوکر ''شعبہ علم کیمیا'' میں بحیثیت کیمسٹری کے پروفیسر ریسرچ ڈائریکٹر کے منصب کو سنبھالا۔ آپ جامعہ کراچی میں ایک اعلیٰ تحقیقی ادارہ قائم کرنے کے خواہش مند تھے۔ آپ نے اس نیک مقصد کے لیے اپنی کوشش سے حسین ابراہیم جال (HEJ) کی بنیاد 50 لاکھ روپے کے عطیے سے رکھی جس کو آج پاکستان میں علم کیمیا کے طالب علم اور سائنسدان ایچ ای جے ریسرچ انسٹیٹیوٹ آف کیمسٹری کے نام سے جانتے ہیں جو نہ صرف پاکستان میں بلکہ عالم اسلام میں ایک بلند تحقیقی ادارہ کے طور پر اپنا ایک بلند مقام بنانے میں کامیاب ہوچکا ہے۔
آپ کی شعبہ کیمیا سے تحقیقی دلچسپیوں اور کاوشوں کو دیکھتے ہوئے جرمنی کی حکومت نے 48 لاکھ جرمن مارکس اس منصوبے کے لیے فراہم کیے جو نہ صرف آپ کی ذہانت و لیاقت بلکہ ایمانداری و فرض شناسی کا انعام تھا کہ آپ کے قائم کیے ہوئے ادارے کو غیر ملک نے اتنی بڑی خطیر رقم امداد کے طور پر شعبہ کیمیا کی ترقی کے لیے فراہم کی۔ ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی کا لگایا ہوا پودا آج دنیا بھر میں ایک معیاری، علمی و تحقیقی ادارے کی حیثیت سے اپنا ایک منفرد اور اعلیٰ مقام حاصل کرچکا ہے۔ آپ کی سائنسی اور علمی خدمات کے تناظر میں ملکی اور غیرملکی ہر طرف سے آپ کو متعدد اعزازات اور انعامات سے نوازاگیا۔سوویت یونین نے آپ کی سائنسی میدان میں ترقی اور کامیابی کے پیش نظر آپ کو پہلا طلائی تمغہ عطا کیا جب کہ جرمنی کی فرینکفرٹ یونیورسٹی نے آپ کو اعزازی طور پر ''ڈاکٹر آف سائنس'' کی ڈگری عطا کی۔ اس کے علاوہ آپ ہندوستان و پاکستان کی اکیڈمی آف سائنسز کے دو سال کے لیے ممبر منتخب ہوئے۔
ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی نے اپنی 100 سالہ زندگی میں علم کیمیا کے شعبے میں 300 سے زائد علمی و تحقیقی مقالے قلمبند کیے اس کے علاوہ آپ نے 50 سے زائد ادویات کے فارمولوں کو اپنے نام کا حصہ بنایا۔ کہا جاتا ہے کہ آپ نے 1920 کے عشرے میں علم کیمیا کے میدان سے اپنے جس سفر کا آغاز کیا تھا وہ عمر بھر اسی کی ترقی اور کامیابی کے لیے رات دن محنت و جستجو کرتے رہے۔ ایک طویل عمر پانے کے بعد آخر کار آپ 14 اپریل 1997 کو کراچی میں وفات پاگئے۔