ایران اورحماس تعلقات مسلح روڈ میپ آخری حصہ
غزہ پر حالیہ اسرائیلی حملے میں حماس کے جانب سے ’’فجر5‘‘ کے استعمال نے ایرانیوں کو بھی حیرت زدہ کر دیا
جب اسماعیل ہنیہ ایران کے پہلے دورے سے واپسی پر غزہ پہنچے تو وہ ایک نئے جوش وجذبے اور ولولے کے ساتھ ایران سے مالی حمایت بھی لے کر آئے تھے۔اس وقت ایک فوٹو گرافر نے اسماعیل ہنیہ کا رفح کراسنگ پر فوٹو بناتے ہوئے اس بڑے بیگ کا بھی فوٹو بنایا تھا جو ان کے ہمراہ تھا ،کہا جاتا ہے کہ اس میں ایران کی طرف سے دی جانے والی مالی امداد تھی جو ایران نے فلسطینی وزیر اعظم اسماعیل ہنیہ کو حکومتی معاملات چلانے کے لیے بطور امداد اور ناقابل واپسی کی شرط پر دی تھی۔
اس وقت بھی حماس ایران کے پہلو میں نہیں بیٹھی تھی اگرچہ عرب ممالک کی بے رخی اور تند رویے کے باعث حماس کے پاس کوئی دوسرا راستہ نہ تھا۔
ایران اورحماس کے درمیان ایسی کیا بات ہے جو ان کے تعلقات کو مضبوط کر رہی ہے اور پھر ایران عوامی سطح پر اس کا اعلان بھی کرتا ہے جب کہ دوسرے ممالک فلسطینیوں کی نہ صرف مدد کرنے سے خوف کھا رہے ہیں بلکہ اگر کر بھی رہے ہیں تو اعلان نہیں کر رہے۔اس بات کو جاننے کے لیے ملاحظہ کرتے ہیں حماس رہنمائوں کی وہ باتیں جو انھوں نے لبنان میں مختلف اوقات میں مختلف ذرایع ابلاغ کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے کی ہیں۔
حماس کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے لبنان میں ایک انٹرویو کے دوران بتایا تھا کہ جب ہمارے عرب ممالک نے ہمیں تنہا چھوڑ دیا تو ایران وہ واحد ملک ہے جس نے ہمیں ہر وہ مدد فراہم کی جس کی ہمیں ضرورت تھی اور اس کے بدلے حماس سے کچھ نہیں مانگا گیا۔ان تمام باتوں کے باوجود بھی ایران اور حماس کے درمیان وہ بہتر تعلقات جن کو ''سپر'' کہا جا سکتا ہو قائم نہیں ہوئے ہیں لیکن موجودہ تعلقات کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا اور اس کی پائیداری کی نفی بھی نہیں کی جا سکتی ۔
ایران اور حماس کے درمیان مضبوط اور پائیدار تعلقات کے لیے لبنان میں موجود اسلامی مزاحمتی تحریک حزب اللہ سنہ 1990ء سے کوشش کر رہی ہے جس وقت اسرائیل نے متعدد فلسطینی رہنمائوں کو ملک بدر کیا تھا جن میں بڑی تعداد حماس کے رہنمائوں کی تھی ۔جلا وطن کیے جانے والے بیسیوں فلسطینی رہنمائوں میں مرج الظہور بھی شامل تھے جو حماس کے اعلیٰ عہدیدار تھے کو لبنان میں پناہ دی گئی تھی۔حزب اللہ کو یہ پہلا موقع حاصل ہوا تھا کہ دونوں مزاحمتی تحریکوں کے ذمے داران ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھ کر گفت و شنید کریں اور غاصب اسرائیل کے خلاف مسلح جد وجہد کے حوالے سے مشترکہ لائحہ عمل طے کریں ۔اگرچہ دونوں مزاحمتی گروہوں کے نظریات جدا جدا ہیں لیکن اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ مشترکہ حکمت عملی وضع کی جائے۔اور یہی وجہ ہے کہ اس کے بعد حماس کے بڑے اور اعلیٰ عہدوں پر فائز رہنمائوں کو ایران جانے کا موقع ملا جہاں انھوں نے ایرانی سوچ اورفکر کے بارے میں نزدیک سے مشاہدہ کیا اور ساتھ ہی ساتھ اسلامی انقلاب کے ثمرات کو اپنی آنکھوں سے دیکھا۔
حماس رہنما نے لبنان میں انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ ایران اور حماس کے تعلقات پر سیاسی تبدیلیوں سے کوئی اثر نہیں پڑتا اگرچہ شام کے مسئلے پر ایران کا سیاسی موقف حماس کے موقف سے جدا ہے لیکن ایران اور حماس کے تعلقات اپنی جگہ قائم و دائم ہیں۔انھوں نے بڑے ذمے دارانہ لہجے میں بتایا کہ اس بات میں کوئی شک نہیں ہونا چاہیے کہ ایران کی اعلیٰ ترین افواج ''سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی '' کے کمانڈرز اور اعلیٰ عہدیداران غزہ کے دورے کرتے ہیں اور حماس کے مجاہدین کی جنگی مشقوں میں معاونت بھی فراہم کرتے ہیں۔
سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کے کمانڈرز کا غزہ آنا اور حماس کی القسام بریگیڈ کو جدید ٹیکنالوجی سمیت فوجی حربوں کی تربیت دینا حماس اور ایران کے تعلقات کا ایک انتہائی اور اہم باب ہے۔ایرانی ہمارے ساتھ ہر میدان میں عملی طور پر موجود ہیں اور غزہ میں ایسی فیکٹریاں بنانے کے منصوبے تیار کیے جا چکے ہیں جہاں مجاہدین کے لیے اسلحہ بنایا جائے اور رکھا جائے گا تا کہ اسمگلنگ کا مسئلہ بھی ختم ہو سکے اور غزہ میں اسرائیل سے مزاحمت کے لیے ہر وقت اسلحہ موجود ہو۔
حماس کے رہنما کے مطابق ایران کی جانب سے حماس کے لیے بھیجی جانے والی امداد شام سے سوڈان اور پھر سینا پہنچتی ہیں جہاں حزب اللہ اس کو حفاظت کے ساتھ غزہ میں حماس کے دفاتر تک پہنچانے میں مدد کرتی ہے۔اور اسی طرح غزہ پر ہونے والے حالیہ حملے کے بعد ایران کی سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی نے غزہ میں مجاہدین کو ''والفجر 5'' راکٹ پہنچائے جس کی مدد سے مجاہدین نے اسرائیل جیسے خونخوار درندے کو پسپا کر دیا۔اسی طرح ہم نے حالیہ آٹھ روزہ جنگ میں اسرائیل کے دارالحکومت تل ابیب پر ''ایم 75'' راکٹ برسائے اور پہلی مرتبہ ایرانی ساختہ ڈرون طیارہ ''سجیل'' بھی اسرائیلی فضائوں میں بھیج کر جاسوسی کا کام انجام دیا۔
حماس کے اعلیٰ عہدیدار کہتے ہیں کہ میں یہ سمجھتا ہوں کہ اب اگر ہم نے لمبے فاصلے اور کم فاصلے تک مار کرنے والے میزائل تیار کیے تو ایرانی ''والفجر 5'' راکٹ ٹیکنالوجی سے بھرپور فائدہ حاصل کر سکیں گے۔ہم اعتراف کرتے ہیں کہ غزہ پر حالیہ اسرائیلی حملے کے خلاف ہماری مدد کرتے ہوئے ''فجر 5'' راکٹس ہمیں ایران نے بھیجے تھے جن کو ہم نے اپنے مورچوں میں اپنی ضروریات کے مطابق نصب کیا اور پھر غاصب اسرائیل کے خلاف استعمال بھی کیا ۔
حماس کے ایک اور رہنما نے کہا ہے کہ غزہ پر حالیہ اسرائیلی حملے میں حماس کے جانب سے ''فجر5'' کے استعمال نے ایرانیوں کو بھی حیرت زدہ کر دیا کیونکہ غزہ میں ہر جگہ اسرائیلی فوجوں کے حملے جاری تھے اور یہ بات اذہان میں آ رہی تھی کہ شاید حماس کے اسلحہ ڈپو پر بھی اسرائیلیوں نے حملہ کر دیا ہے اور ایرانی ساختہ میزائل تباہ ہو گئے ہیں۔انھوں نے مزید بتایا کہ ایران اور حماس کے درمیان فوجی نوعیت کے تعلقات وسیع ہیں اور شام کے مسئلے پر دونوں کا نقطہ نظر علیحدہ ہے لیکن حماس اور ایران کے تعلقات میں کسی قسم کی دراڑ نہیں ہے۔تمام تر معاملات اور سیاسی نقطہ نظر کے جدا ہونے کے باوجود حماس اور ایران کا ایک واضح موقف ہے ،اور وہ موقف کیا ہے؟ وہ موقف دو ٹوک ہے کہ صرف مزاحمت اور جہاد۔
اس وقت بھی حماس ایران کے پہلو میں نہیں بیٹھی تھی اگرچہ عرب ممالک کی بے رخی اور تند رویے کے باعث حماس کے پاس کوئی دوسرا راستہ نہ تھا۔
ایران اورحماس کے درمیان ایسی کیا بات ہے جو ان کے تعلقات کو مضبوط کر رہی ہے اور پھر ایران عوامی سطح پر اس کا اعلان بھی کرتا ہے جب کہ دوسرے ممالک فلسطینیوں کی نہ صرف مدد کرنے سے خوف کھا رہے ہیں بلکہ اگر کر بھی رہے ہیں تو اعلان نہیں کر رہے۔اس بات کو جاننے کے لیے ملاحظہ کرتے ہیں حماس رہنمائوں کی وہ باتیں جو انھوں نے لبنان میں مختلف اوقات میں مختلف ذرایع ابلاغ کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے کی ہیں۔
حماس کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے لبنان میں ایک انٹرویو کے دوران بتایا تھا کہ جب ہمارے عرب ممالک نے ہمیں تنہا چھوڑ دیا تو ایران وہ واحد ملک ہے جس نے ہمیں ہر وہ مدد فراہم کی جس کی ہمیں ضرورت تھی اور اس کے بدلے حماس سے کچھ نہیں مانگا گیا۔ان تمام باتوں کے باوجود بھی ایران اور حماس کے درمیان وہ بہتر تعلقات جن کو ''سپر'' کہا جا سکتا ہو قائم نہیں ہوئے ہیں لیکن موجودہ تعلقات کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا اور اس کی پائیداری کی نفی بھی نہیں کی جا سکتی ۔
ایران اور حماس کے درمیان مضبوط اور پائیدار تعلقات کے لیے لبنان میں موجود اسلامی مزاحمتی تحریک حزب اللہ سنہ 1990ء سے کوشش کر رہی ہے جس وقت اسرائیل نے متعدد فلسطینی رہنمائوں کو ملک بدر کیا تھا جن میں بڑی تعداد حماس کے رہنمائوں کی تھی ۔جلا وطن کیے جانے والے بیسیوں فلسطینی رہنمائوں میں مرج الظہور بھی شامل تھے جو حماس کے اعلیٰ عہدیدار تھے کو لبنان میں پناہ دی گئی تھی۔حزب اللہ کو یہ پہلا موقع حاصل ہوا تھا کہ دونوں مزاحمتی تحریکوں کے ذمے داران ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھ کر گفت و شنید کریں اور غاصب اسرائیل کے خلاف مسلح جد وجہد کے حوالے سے مشترکہ لائحہ عمل طے کریں ۔اگرچہ دونوں مزاحمتی گروہوں کے نظریات جدا جدا ہیں لیکن اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ مشترکہ حکمت عملی وضع کی جائے۔اور یہی وجہ ہے کہ اس کے بعد حماس کے بڑے اور اعلیٰ عہدوں پر فائز رہنمائوں کو ایران جانے کا موقع ملا جہاں انھوں نے ایرانی سوچ اورفکر کے بارے میں نزدیک سے مشاہدہ کیا اور ساتھ ہی ساتھ اسلامی انقلاب کے ثمرات کو اپنی آنکھوں سے دیکھا۔
حماس رہنما نے لبنان میں انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ ایران اور حماس کے تعلقات پر سیاسی تبدیلیوں سے کوئی اثر نہیں پڑتا اگرچہ شام کے مسئلے پر ایران کا سیاسی موقف حماس کے موقف سے جدا ہے لیکن ایران اور حماس کے تعلقات اپنی جگہ قائم و دائم ہیں۔انھوں نے بڑے ذمے دارانہ لہجے میں بتایا کہ اس بات میں کوئی شک نہیں ہونا چاہیے کہ ایران کی اعلیٰ ترین افواج ''سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی '' کے کمانڈرز اور اعلیٰ عہدیداران غزہ کے دورے کرتے ہیں اور حماس کے مجاہدین کی جنگی مشقوں میں معاونت بھی فراہم کرتے ہیں۔
سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کے کمانڈرز کا غزہ آنا اور حماس کی القسام بریگیڈ کو جدید ٹیکنالوجی سمیت فوجی حربوں کی تربیت دینا حماس اور ایران کے تعلقات کا ایک انتہائی اور اہم باب ہے۔ایرانی ہمارے ساتھ ہر میدان میں عملی طور پر موجود ہیں اور غزہ میں ایسی فیکٹریاں بنانے کے منصوبے تیار کیے جا چکے ہیں جہاں مجاہدین کے لیے اسلحہ بنایا جائے اور رکھا جائے گا تا کہ اسمگلنگ کا مسئلہ بھی ختم ہو سکے اور غزہ میں اسرائیل سے مزاحمت کے لیے ہر وقت اسلحہ موجود ہو۔
حماس کے رہنما کے مطابق ایران کی جانب سے حماس کے لیے بھیجی جانے والی امداد شام سے سوڈان اور پھر سینا پہنچتی ہیں جہاں حزب اللہ اس کو حفاظت کے ساتھ غزہ میں حماس کے دفاتر تک پہنچانے میں مدد کرتی ہے۔اور اسی طرح غزہ پر ہونے والے حالیہ حملے کے بعد ایران کی سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی نے غزہ میں مجاہدین کو ''والفجر 5'' راکٹ پہنچائے جس کی مدد سے مجاہدین نے اسرائیل جیسے خونخوار درندے کو پسپا کر دیا۔اسی طرح ہم نے حالیہ آٹھ روزہ جنگ میں اسرائیل کے دارالحکومت تل ابیب پر ''ایم 75'' راکٹ برسائے اور پہلی مرتبہ ایرانی ساختہ ڈرون طیارہ ''سجیل'' بھی اسرائیلی فضائوں میں بھیج کر جاسوسی کا کام انجام دیا۔
حماس کے اعلیٰ عہدیدار کہتے ہیں کہ میں یہ سمجھتا ہوں کہ اب اگر ہم نے لمبے فاصلے اور کم فاصلے تک مار کرنے والے میزائل تیار کیے تو ایرانی ''والفجر 5'' راکٹ ٹیکنالوجی سے بھرپور فائدہ حاصل کر سکیں گے۔ہم اعتراف کرتے ہیں کہ غزہ پر حالیہ اسرائیلی حملے کے خلاف ہماری مدد کرتے ہوئے ''فجر 5'' راکٹس ہمیں ایران نے بھیجے تھے جن کو ہم نے اپنے مورچوں میں اپنی ضروریات کے مطابق نصب کیا اور پھر غاصب اسرائیل کے خلاف استعمال بھی کیا ۔
حماس کے ایک اور رہنما نے کہا ہے کہ غزہ پر حالیہ اسرائیلی حملے میں حماس کے جانب سے ''فجر5'' کے استعمال نے ایرانیوں کو بھی حیرت زدہ کر دیا کیونکہ غزہ میں ہر جگہ اسرائیلی فوجوں کے حملے جاری تھے اور یہ بات اذہان میں آ رہی تھی کہ شاید حماس کے اسلحہ ڈپو پر بھی اسرائیلیوں نے حملہ کر دیا ہے اور ایرانی ساختہ میزائل تباہ ہو گئے ہیں۔انھوں نے مزید بتایا کہ ایران اور حماس کے درمیان فوجی نوعیت کے تعلقات وسیع ہیں اور شام کے مسئلے پر دونوں کا نقطہ نظر علیحدہ ہے لیکن حماس اور ایران کے تعلقات میں کسی قسم کی دراڑ نہیں ہے۔تمام تر معاملات اور سیاسی نقطہ نظر کے جدا ہونے کے باوجود حماس اور ایران کا ایک واضح موقف ہے ،اور وہ موقف کیا ہے؟ وہ موقف دو ٹوک ہے کہ صرف مزاحمت اور جہاد۔