مقدمے یا دشمنیاں

میں اس سائیکل کا نقشہ نہیں کھینچ سکتا جو لڑکیوں کی سہولت کے لیے تیار کی جاتی تھی

Abdulqhasan@hotmail.com

SUKKUR:
میں سخت سردی سے گھبرا کر وادی سون سے بھاگ کر لاہور پہنچا کہ یہاں سردی قابل برداشت ہو گی اور جسم کے آر پار گزرنے والی ٹھنڈ وہ نہیں ہو گی جو میری پہاڑی وادی سون میں آزادانہ اڑتی پھرتی ہے۔ لاہور میرا دوسرا گھر ہے کہ عمر کا بڑا حصہ اور بہترین حصہ لاہور کے گلی کوچوں اور بازاروں میں گزرا ہے۔ سائیکل چلاتے ہوئے لاہور کے مدرسوں اور تعلیمی اداروں میں جوانی گزر گئی۔ تب یہاں ہندو اور سکھ لڑکیاں سائیکل چلایا کرتی تھیں۔ خواتین کی سائیکل کی ساخت ذرا مختلف ہوتی تھی کہ لڑکیاں آرام سے سائیکل چلا سکیں۔

میں اس سائیکل کا نقشہ نہیں کھینچ سکتا جو لڑکیوں کی سہولت کے لیے تیار کی جاتی تھی۔ اس کی کاٹھی اور ہینڈل کے درمیان ڈنڈا نہیں تھا جو لڑکیوں کے لیے سہولت بن کر سائیکل چلانے میں ان کی مدد کرتا تھا۔ بہرکیف پاکستان کی تحریک شروع ہوئی اور سائیکل کی ساخت بھی بدل گئی۔ یعنی جیسی سائیکل سکھ اور ہندو لڑکیاں استعمال کرتی تھیں وہ بدل گئی جیسے پاکستان کی آمد آمد کے ساتھ وہ بھی مسلمان ہو گئی ہو۔ غیر مسلم اور غیر پاکستانی لڑکیاں جو سائیکل استعمال کرتی تھیں اس کی ساخت صرف اتنی بدل گئی کہ جو ڈنڈا سیدھا ہینڈل تک جاتا تھا وہ جھک گیا۔

اس کی جگہ خواتین کے لیے ایک اور راڈ لگا دیا گیا۔ یوں یہ سائیکل بھی پاکستانی بن گئی۔ میں جس زمانے کی بات کر رہا ہوں تب لڑکیاں آمدورفت کے لیے سائیکل چلاتی تھیں اور سواری کے لیے اسے استعمال کرتی تھیں۔ مسلم اور غیر مسلم لڑکیوں کے لیے سائیکل کی ساخت ذرا مختلف ہوتی تھی اور خواتین آمدورفت کے لیے مردوں کی محتاج نہیں ہوتی تھیں۔ ایک ہی سڑک اور ایک ہی راستے پر مسلم اور غیر مسلم سائیکل بلاتکلف چلتی تھی جس سے ٹریفک کا مسئلہ حل ہو گیا تھا اور خواتین خصوصاً لڑکیاں مردوں کی محتاج نہیں رہی تھیں وہ اپنی مرضی سے آزادانہ گھومتی پھرتی تھیں۔ ان سائیکل سوار لڑکیوں کو مسلمان بخوشی برداشت کرتے تھے اور ایک ہی راستے پر لڑکیاں اور مرد سائیکل سواری کرتے تھے۔

یہ وہ زمانہ تھا جس میں مسلمان ہندو سکھ سبھی ایک ساتھ زندگی بسر کرتے تھے اور مل جل کر زندگی کا سفر طے کرتے تھے۔ مسجد مندر گرجے سبھی موجود تھے۔ اچھے وقتوں میں سبھی اپنی اپنی جگہ آباد تھے اور ان میں مذہبی رسومات ادا ہوا کرتی تھیں۔کسی عبادت گاہ میں جانے والے کسی دوسری عبادت گاہ سے کوئی تعرض نہیں کرتے تھے بلکہ احترام کرتے تھے۔ اکثر انگریزی اسکول گرجوں میں تھے جن میں مسلمان طلبہ کی اکثریت ہوا کرتی تھی۔ چھٹی کے وقت ان طلبہ کو لینے کے لیے ان کے سرپرست ایک ساتھ ان کی چھٹی کے وقت انتظار کرتے تھے۔ اور انتظار کا یہ وقت باہمی گپ شپ میں گزارتے تھے اور چھٹی پر بچوں کو لے کر گھر چلے جاتے تھے۔


ہر مذہب اور نسل کے بچے ایک ساتھ پڑھتے تھے اور ان کو گھر لے جانے والے بھی مختلف نظریات کے لوگ ہوتے جو سبھی مل کر ان کی چھٹی کا انتظار کرتے تھے اور ان کے درمیان کبھی کسی تلخی کی خبر نہیں ملی لیکن وہ شرفاء کا زمانہ تھا، اگر آج کا زمانہ ہوتا تو اسکولوں میں یہ ماحول نہ ملتا۔ اس کے باوجود کہ اس زمانے کا ایک بڑا حصہ گزر گیا لیکن اس کی مروت اور باہمی تعلق کی روایت باقی رہی میں نے خود دیکھا ہے کہ ملک معراج خالد اپنے پڑوسی لڑکوں کو اپنی سائیکل پر بٹھا کر ان کے گھر پہنچا آتے۔ شدید گرمی میں ان کے گھروں سے پانی بھی پی لیتے تھے۔ جیسا کہ عرض کیا ہے یہ زمانہ مل جل کر زندگی بسر کرنے کا زمانہ تھا جس میں بھائی چارے کا راج تھا اور زندگی بہت ہی آسان تھی اس میں تنازع نہیں تھے بلکہ تعاون تھا اور زندگی کو آسان بنانے کا رواج تھا۔ اس آسانی کے لیے قربانی بھی کی جاتی تھی جسے ایک اعزاز سمجھا جاتا تھا۔

میں جس آسان زندگی کی بات کر رہا ہوں وہ میری دیکھی بھالی یا یوں کہوں کہ یہ میری ذاتی زندگی تھی اس زندگی میں تنازعے بھی تھے اور مقدمہ بازی بھی لیکن یہ لطیفہ بھی مشہور ہے کہ مخالف فریق تاریخ بھگتنے کے لیے کسی دور کے مقام پر گئے اور وہاں کھانے کے وقت پر کھانا ایک ساتھ کھا لیا اور دونوں فریق گھر سے جو پکوا کر لے گئے تھے اسے ایک ساتھ رکھا اور کھایا۔ یہ زندگی کی روایت تھی اور اس کی کئی ایسی مثالیں ملتی ہیں کہ سن کر لوگ حیران رہ جاتے ہیں۔

ہمارے ہاں شاہ پور شہر میں کچہریاں تھیں لیکن خوشاب اور ان کے درمیان ایک دریا تھا دریائے جہلم اسے عبور کر کے دوسری طرف عدالت میں لوگ جاتے تھے لیکن اگر کسی دن دریا میں چلنے والی بیڑی دستیاب نہ ہوتی تو فریق مخالف اپنی بیڑی میں مخالف کے لیے جگہ بنا دیتا اور یوں دونوں متحارب فریق ایک ہی کشتی میں سوار عدالت میں پہنچتے اور وہاں سے کوئی بھی فیصلہ لے کر گاؤں لوٹ آتے اور اس فیصلے پر عملدرآمد میں جو تنازعے ہوتے وہ گاؤں میں ہی نپٹا لیے جاتے یا پھر عدالت کا دروازہ تو تھا ہی جس تک پہنچنے کے لیے بیچ میں صرف ایک دریا حائل تھا۔

ان لوگوں کی زندگی اسی طرح گزر گئی مقدمہ بازی بھی جاری رہی اور صلح صفائی بھی۔ خطرناک صورت حال بھی پیدا ہوتی رہی اور صلح بھی رہی لیکن یہ وقت خیریت سے گزر گیا تاآنکہ کسی فریق کی بدقسمتی نے کسی مقدمے کو باہمی دشمنی بنا دیا۔
Load Next Story