2018 روشنیوں کا سال
یہ جنرل پرویز مشرف کی حکومت کے آخری برسوں کا معاملہ تھا
KARACHI:
یہ جنرل پرویز مشرف کی حکومت کے آخری برسوں کا معاملہ تھا، جب اچانک یہ بات سامنے آئی کہ ملک کو بجلی کے بدترین بحران کا سامنا ہے اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے ملک بھر میں بدترین لوڈشیڈنگ شروع ہوگئی۔ بجلی کی عدم فراہمی سے ایک طرف قوم کا براحال ہونے لگا تو دوسری جانب ملکی معیشت تباہ ہونے لگی اور سرمایہ داروں نے اپنا کاروبار بیرون ملک منتقل کرنا شروع کردیا۔ قوم کو اس عذاب میں مبتلا کرنے والے ایک دوسرے کو مورد الزام ٹھہراتے رہے۔ حکومت، وزرا، صدر مملکت، پلاننگ کمیشن اپنی نااہلی کو چھپانے کے لیے طرح طرح کے بہانے تراشتے رہے۔
لیکن حقیقت یہ تھی کہ طویل عرصے ملک پر حکومت کرنے کے باوجود جنرل پرویز مشرف نے ملک میں بجلی کی پیداوار اور پیداواری یونٹ لگانے پر قطعی کوئی توجہ نہیں دی۔ انھیں مستقبل میں بجلی کی کھپت کا بھی کوئی اندازہ نہیں تھا۔ جب یہ بحران سامنے آیا تو مختلف استدلال دیے گئے مگر سچ یہ ہے کہ جنرل پرویز مشرف کی حکومت بجلی بحران کی اصل ذمے دار تھی۔ توانائی کے بحران نے پاکستان کی معاشی ترقی اور قوم کی خوشحالی کی امیدوں پر پانی پھیر دیا لیکن ملک و قوم کو اس عذاب میں دھکیلنے والے اب بھی گلچھڑے اڑا رہے ہیں۔ جنرل پرویز مشرف کے دور میں بجلی بحران سامنے آنے کے بعد ان کی حکومت فوری طور پر کوئی موثر منصوبہ بندی بھی نہیں کی، یہاں تک کہ آخرکار ان کی حکومت رخصت ہوگئی اور وہ ملک کو اندھیروں میں دھکیل کر بیرون ملک چلے گئے۔
پیپلز پارٹی کی حکومت کو بجلی بحران پچھلی حکومت سے ورثے میں ملا تھا مگر افسوس انھوں نے بھی پاور سیکٹر میں کچھ ایسے کام نہیں کیے جس سے عوام کو لوڈشیڈنگ کے عذاب سے نجات مل جاتی۔ انھوں نے 5 سال اپنی مدت حکومت پوری کی مگر توانائی بحران کے حوالے سے قوم کو مایوسی کے سوا کچھ نہیں دیا۔ پی پی کے دور میں ملک میں 18، 18 گھنٹے لوڈشیڈنگ کی جارہی تھی۔ صنعتیں بتدریج بند ہوگئی تھیں بیروزگاری بڑھ رہی تھی۔ نئے پاور پلانٹ لگا کر بجلی بحران پر قابو پانے کے لیے کوئی خاص قابل ذکر کام نہیں کیا گیا۔
2013 میں عام انتخابات سر پر آگئے۔ جب مسلم لیگ (ن) کا منشور بن رہا تھا تو ان میٹنگز میں، میں بھی شریک تھا اور نوازشریف کی صدارت میں ہونے والے ان اجلاس میں لوڈشیڈنگ کے خاتمے کے لیے تجاویز اور پلاننگ کو حتمی شکل دی گئی تھی۔ مجھے ان اجلاسوں میں یقین ہوگیا تھا کہ (ن) لیگ کی اگر حکومت آئے گی تو یہ مسئلہ ہمیشہ کے لیے حل ہوجائے گا، کیوںکہ میں نے وہاں سنجیدگی اور دور اندیشی دیکھی تھی اور جب مسلم لیگ (ن) نے جو منشور دیا اور وزیراعظم محمد نوازشریف نے حکومت سنبھالنے کے بعد جو پہلی تقریر کی اس میں انھوں نے قوم سے وعدہ کیا کہ وہ ملک سے دہشتگردی ختم کردیں گے، بجلی کا بحران 2018 تک ختم کرکے دم لیں گے اور زبوں حال معیشت کو سنبھالا دیں گے۔
بلاشبہ حکومت سنبھالنے کے بعد وزیراعظم نوازشریف نے قوم سے خطاب کرتے ہوئے جو وعدے کیے، وہ تقریباً پورے کردیے ہیں۔ خوف و دہشت کا ماحول ختم ہوچکا ہے۔ دہشت گردوں کی کمر توڑ دی گئی ہے۔ مسلح گروہوں، فائرنگ اور بم دھماکے تقریباً ختم ہوچکے ہیں اور معیشت میں آنے والی بہتری کو پوری دنیا نے تسلیم کیا ہے۔ پاکستانی معیشت کو ابھرتی ہوئی معیشت قرار دیا جارہا ہے۔ جہاں تک توانائی بحران کا تعلق ہے تو اب ملک بھر میں پہلے جیسی صورتحال نہیں ہے اور قومی سطح پر اس بحران پر مسلسل کام ہورہا ہے، اٹھارہ، بیس گھنٹے لوڈشیڈنگ ماضی کا قصہ ہوگئی ہے اور اب صرف 4 گھنٹے لوڈشیڈنگ ہوتی ہے۔ ملک کے مختلف شہروں میں پاور پلانٹ لگائے جارہے ہیں۔ اس سلسلے میں پورٹ قاسم، کراچی پورٹ ٹرسٹ، تھر میں تھرکول، ٹھٹھہ کے بھمبیر میں ونڈ پاور، ساہیوال گوادر اور ملک کے دیگر حصوں میں نئے پاور پروجیکٹ پر تیزی سے کام جاری ہے۔
نیشنل گرڈ میں وقفے وقفے سے بجلی کی مزید پیداوار شامل کی جارہی ہے جس سے عوام اور خاص طور پر صنعت کاروں نے سکھ کا سانس لیا ہے اور اس پیشرفت کی وجہ سے بیروزگاری کی شرح میں بھی کمی آئی ہے۔ وزیراعظم نوازشریف کی دلی خواہش ہے کہ انھوں نے اب تک توانائی کے جن منصوبوں کا آغاز کیا ہے وہ سب 2018 تک بھرپور پیداوار شروع کردیں تاکہ وہ عوام سے کیے گئے وعدے سے سرخرو ہوسکیں۔ اس مقصد کے لیے وہ دن رات ان منصوبوں کی نگرانی کررہے ہیں اور ان ہی کوششوں کی بدولت اب لوڈشیڈنگ کا دورانیہ بھی بہت کم ہوگیا ہے۔ نواز حکومت نے بجلی بحران کے خاتمے کے لیے ملکی وسائل پر ہی انحصار نہیں کیا بلکہ بیرونی وسائل سے بھی استفادہ کیا ہے، خاص طور پر چین پاکستان میں توانائی کے متعدد منصوبوں پر کثیر سرمایہ کاری کررہا ہے۔ یقیناً مستقبل میں اس کے دورس نتائج برآمد ہوں گے۔
اس ضمن میں حالیہ ایک بڑی پیشرفت یہ ہوئی ہے کہ وزیراعظم نوازشریف نے 340 میگاواٹ کے چشمہ تھری جوہری بجلی گھر کا افتتاح کیا ہے۔ اس موقع پر وزیراعظم نے دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ دھرنے اور احتجاج ملکی ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہیں، ایسا کرنے والے ملک پر رحم کریں، وطن عزیز سے لوڈشیڈنگ کا خاتمہ ہماری اولین ترجیح ہے، 2018 تک ملک میں نہ صرف لوڈشیڈنگ نہیں ہوگی بلکہ بجلی بھی سستی ہوجائے گی۔
چشمہ تھری نیوکلیئر پاور پلانٹ کی تکمیل سے 340 میگاواٹ بجلی قومی گرڈ میں شامل ہوگی۔ یہ منصوبہ نیوکلیئر سائنس و ٹیکنالوجی کے میدان میں پاک چین تعاون کا منہ بولتا ثبوت ہے اور خطے میں ایک نئے دور کا آغاز بھی ہے۔ امید ہے کہ چشمہ فور نیوکلیئر پاور پلانٹ بھی مقررہ وقت سے قبل یعنی 2017 کے وسط سے پہلے بجلی کی پیداوار شروع کردے گا۔ اس کے علاوہ ٹو اور کے تھری پاور پلانٹس کی تعمیر سے جہاں توانائی کے حصول کی جانب اہم قدم ہوگا، وہیں یہ باہمی تعلقات کو بھی مستحکم کرے گا۔ چینی ساختہ پہلے پاور پلانٹ چشمہ یونٹ کی تعمیر کا معاہدہ بھی مسلم لیگ نواز کے پہلے دور حکومت میں ہی طے پایا تھا، جس کی بدولت دونوں ملکوں کے درمیان نیوکلیئر توانائی کے شعبے میں باہمی تعاون کی بنیاد رکھ دی گئی تھی۔
چین ہمارا قابل اعتماد دوست ہے، مگر موجودہ حکومت کے دور میں پاک چین تعلقات مزید مستحکم ہوئے ہیں۔ بلاشبہ پاک چین دوستی اپنی انتہاؤں کو پہنچ گئی ہے۔ چین پاکستان میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کررہا ہے اور موجودہ حکومت چین کی اس سرمایہ کاری کا خاطر خواہ فائدہ عوام کو منتقل کرنا چاہتی ہے، لیکن اس شعبے میں ابھی کام کی مزید گنجائش موجود ہے۔ اس لیے وزیراعظم نے افتتاحی تقریب کے موقع پر چینی کمپنیوں کو نیوکلیئر پاور پلانٹ کے شعبے میں سرمایہ کاری کی دعوت بھی دی ہے اور یہ یقین بھی دلایا ہے کہ حکومت اس سلسلے میں ہر ممکن تعاون اور بھرپور مدد بھی فراہم کرے گی۔
جوں جوں پاور سیکٹر کی صورتحال بہتر ہوتی جارہی ہے اور بجلی کی پیداوار بڑھ رہی ہے ملک میں پہلے کی نسبت اب بجلی بھی سستی ہوگئی ہے۔ نوازحکومت نے اپنے دور میں بجلی کی قیمتوں میں کئی بار کمی کرکے عوام کو زبردست ریلیف دیا ہے۔ نواز حکومت توانائی بحران کے خاتمے کے لیے جس طرح جنگی بنیادوں پر کام کررہی ہے، اسے دیکھتے ہوئے میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ وزیراعظم نوازشریف 2018 میں ملک کو اندھیروں سے مکمل طور پر نکال لیں گے، ملک سے اندھیروں کا خاتمہ اور روشن پاکستان کا خواب حقیقت میں بدل جائے گا۔