ایک مسافر ایک مترجم اور حیدرآباد کا ادبی میلہ
گزشتہ برس کے آخر میں شہر قائد میں نویں عالمی اردو کانفرنس کی بازگشت تھی
سبزے پر سفید چادر تنی تھی۔ جھاڑیوں پر دھواں تیر رہا تھا۔ گاڑی کے شیشے میں ٹھہری ٹھنڈ باہر کے موسم کی خبر دیتی تھی، سورج زرد ہوا۔ کہرے کی ایک لہر تھی۔ ایک میل دور کا منظر سفیدے میں چھپ چھپ جاتا۔ یہ اس سرد صبح کا ذکر ہے، جب زیر تعمیر موٹر وے پر دوڑتی گاڑی کی منزل سرخ اینٹوں والا شہر تھا۔ شہر، جو یاد بن کر میرے دل کی راہداری میں چلتا پھرتا ہے، جہاں میری بچپن گزرا۔ جہاں ایک شام گھر کی سیڑھیوں سے گرا، تو ماتھے کو وہ زخم ملا، جو شناخی کارڈ پر شناختی علامت کے طور پر درج ہونے والا تھا۔۔۔ سبزے پر سفید چادر تنی تھی، اور ہم حیدرآباد لٹریچر فیسٹول کی اُور جا رہے تھے۔ جام شورو پل کے نیچے بہتا سندھو خشک ہوا۔
یہ ادبی میلوں کا موسم ہے۔ یوں ہے کہ جب ایک سال لگ بھگ گزر چکا ہو، دوسرا طلوع ہورہا ہو، تب یک دم ملک بھر میں ادبی کانفرنسوں اور فیسٹولز کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔ گزشتہ برس کے آخر میں شہر قائد میں نویں عالمی اردو کانفرنس کی بازگشت تھی۔ اس سے پہلے اِسی بکھرتے، پھیلتے شہر میں ماہ نومبر میں، پہلا سندھ لٹریچر فیسٹول منعقد ہوا۔ کراچی لٹریچر فیسٹول فروری میں ہونے کو ہے۔
ان ہی دنوں میں دوسرے حیدرآباد لٹریچر فیسٹول کا ڈول ڈالا گیا، جس کی تاریخیں اسلام آباد میں منعقدہ اکادمی ادبیات کی چوتھی بین الاقوامی کانفرنس کی تاریخوں سے براہ راست متصادم تھیں، مگر دونوں میں کوئی براہ راست تعلق نہ ہونے کی وجہ سے منتظمین کسی پریشانی کا شکار نہیں ہوئے۔ یہ تین روزہ فیسٹول تھا، مگر میں ادھر ٹھہر نہیں سکتا تھا، مجھے لوٹنا تھا۔ کسی سے کیا وعدہ نبھانا تھا۔ (جس وقت کراچی میں بیٹھا یہ سطریں لکھ رہا ہوں، حیدرآباد فیسٹول میں شاید مبشر علی زیدی کا سیشن جاری ہو، ضرور ادھر مسکراہٹیں گردش کرتی ہوں گی!)
تو یہ حیدرآباد لٹریچر فیسٹول کا ذکر ہے، جہاں ''اردو فکشن میں سندھی معاشرت'' کا موضوع ہمیں پکارتا تھا۔ سندھی معاشرت جس پر حادثوں، المیوں نے اَن مٹ نقوش چھوڑے۔ یہ ہجرت تھی، جس نے لاکھوں انسانوں کو بے جڑی کے کرب میں دھکیل دیا۔ مہاجرین خواب لیے لٹے پٹے اس زمین پر آن بسے جو کبھی گھوڑوں اور رتھوں سے مالامال تھی جس کے دریا پر دیوتاؤں کا تخت تھا۔ مگر ماضی کے آسیب نے نہ تو اُن کا پیچھا چھوڑا، جو اپنا سب کچھ چھوڑ آئے تھے، نہ ہی اُن کا جو یہاں آباد تھے۔ یوں ہجرت نے کروڑوں زندگیوں کو متاثر کیا۔ سب خس و خاشاک ہوا۔
اسی سے کہانیوں کا جنم ہوا۔ کراچی اور سندھ، تقسیم کے بعد ہی صحیح معنوں میں اردو فکشن کا موضوع بنے۔ شوکت صدیقی کا شہرہ آفاق ناول ''خدا کی بستی'' جو نچلے طبقے میں سرگرم مافیا کا قصہ، شاید حیدآبار ہی کی کہانی ہے، جہاں سے ریل کے ذریعے کردار کراچی پہنچتے ہیں۔ ایک حزنیہ قرۃ العین حیدر نے ''سیتا ہرن'' میں بیان کیا اور پھر ہم نے اجنبی زمینوں کی کہانیاں، ناقابل گرفت کے ساتھ منظر کرنیوالے حسن منظر کے افسانے پڑھے۔ ہمیں گرویدہ بنا لینے والے قلم کار، خالد اختر کا ایک سفرنامہ بھی ملتا ہے، تھر کا سفرنامہ، دھیرے دھیرے سر اٹھاتے بگاڑ، لسانی اور سیاسی تقسیم اور تشدد پر لکھا جانے لگا البتہ یہ اعتراض درست کہ سندھ کی دیہی زندگی کی اردو فکشن میں بھرپور عکاسی نہیں کی گئی۔
یہ کہنا بھی غلط نہیں ہوگا کہ شہری معاشرت بھی سیاسی تقسیم، جبر اور خوف کے باعث کاملیت کے ساتھ سامنے نہیں آسکی۔ تو ہمیں حیدرآباد جانا تھا۔ پونے آٹھ کی ٹرین تھی۔ گھر سے نکلے، تو شہر سویا ہوا تھا۔ سرد ہوائیں گلیوں میں سرپٹ دوڑتی تھیں۔ موذن پکارتا تھا۔ رکشے میں ٹھٹھرتے کینٹ اسٹیشن پہنچے، تو ریل کی سیٹی سنائی دی۔ ابتدائی کرنیں ظاہر ہونے کو تھیں۔ ابھی سات بجے تھے۔ اطمینان تھا کہ ہماری ٹرین پونے آٹھ کی تھی، مگر اسٹیشن پر ہمارے منتظر رفاقت حیات نے۔۔۔ سندھ کی دیہی زندگی کو مہارت سے منظر کرتے ناول ''میرواہ کی راتیں'' کے مصنف رفاقت حیات نے، یہ پریشان کن خبر سنائی کہ یہ ٹرین، جو دھواں چھوڑتی ہم سے دُور جاتی ہے، دراصل یہی ہمارا وسیلہ تھی۔ ہم نے وقت کا اندازہ غلط لگایا ۔۔۔ وہاںسعدیہ بلوچ بھی تھیں۔ سندھ کی روشن خیال ثقافت سے جڑی، نگری نگری گھوم کرسوشل ورک کا تجربہ کشید کرنیوالی، گہری اور کاٹ دار نظموں کی خالق سعدیہ بلوچ۔ ٹرین چھوٹ جانے پر کبیدہ خاطر۔ ہم بھی افسردہ تھے، اور ٹھٹھر رہے تھے۔
ریل کا آخری سفر گیارہ برس قبل کیا تھا۔ تب منزل سکھر تھا۔ پھر منظر میں سید کاشف رضا کی آمد ہوئی، نثری نظم کے قابل توجہ شاعر، مترجم، مسافر۔ فکشن پر اُن کی گہری نظر ۔ خود بھی ایک ناول پر کام کر رہے ہیں۔ اب سہراب گوٹھ منزل تھی (80 کی دہائی میں شہر کی سیاسی کروٹوں میں اِس علاقے کا جو کردار، اُس پر پھر کبھی بات ہوگی) وہاں سے ٹیکسی کی، اور زیرتعمیر سڑک سے ہوتے ہوئے، جہاں بار بار دھول سے اٹے کچے راستے میں اترنا پڑتا، ہیبت ناک ٹریلرز کے درمیان سے گزرنا پڑتا، حیدرآباد پہنچے۔ ادھر جمیل عباسی ہمارا منتظر تھا۔ محبت سے لبریز، انکساری کا پیکر، مہمان نوازی کی قدیم روایات سے جڑا ایک مسکراتا چہرہ۔ ایک مسافر۔ اُس کی تحریروں کے مانند اُس کی شخصیت میں بھی دل کش تسلسل اور دھیما پن ہے۔ سندھ میوزیم میں فیسٹول تھا۔ خاصی بڑی اور معقول جگہ تھی، چہل پہل بھی تھی مگر منتظمین شاید افتتاحی سیشن میں الجھے تھے جہاں ہمارا سیشن ہوا، وہ عمارتوں کے عقب میں چھپا ایک خاموش سبزہ زار تھا۔ ہم بھی ڈھونڈتے ڈھونڈتے پہنچے، حاضرین خاصے کم تھے، ہاں سیشن اچھا ہوا۔ ہم ماڈریٹر تھے۔
سید کاشف رضا اور رفاقت حیات نے گفتگو کی۔ کاشف نے اپنے ناول ''چار درویش اور ایک کچھوا'' کا ایک حصہ بھی پڑھا۔ چند سوالات بھی ہوئے۔ سندھی کے ابھرتے شاعر، علی زاہد نے، جن کا اصرار تھا کہ ہم آج رات اُن ہی کے ہاں ٹھہر جائیں، جب سوال کیا، تو جہاں سندھ کے کٹھن سیاسی دور کی عکاسی کرتے انور سن رائے کے ناول ''چیخ'' کا تذکرہ تھا، وہیں یہ شکوہ بھی تھا کہ علی بابا جیسے جید سندھی فکشن نگار اور اسکالر کے انتقال پر الیکٹرانک میڈیا خاموش رہا۔ (اُن کا شکوہ بجا۔ ہم منقسم ہیں، لاعلم ہیں، اور محدود ہیں!) امر سندھو کا ''خانہ بدوش کیفے'' وہ آخری جگہ تھی، جہاں سے ہوتے ہوئے ہم سندھ میوزیم سے باہر آئے۔ جمیل کی محبت سے بھیگے ہوئے، حیدرآباد کی ٹھنڈ سے محظوظ ہوتے، گہری پڑتی رات میں مسافر کراچی لوٹ رہے تھے۔ ٹیکسی ڈرائیور بلوچ تھا، جو خلاف توقع پرویز مشرف کا مداح نکلا۔ وہ وفاق کے بجائے صوبائی نمایندوں سے شاکی تھا۔
اُس کی کہانی نے ہماری توجہ اپنی جانب مبذول کروالی۔ اسی دوران فیس بک پر نظر ڈالی، تو جنرل راحیل شریف کے اسلامی فوج کے سربراہ بننے کی خبر ملی۔ ہفتے کا دن چٹخا، تو ایک خوش گوار خبر منتظر تھی۔ وکٹر ہوگیو، گنترگراس اور ہرٹا مولر کے ناولوں کو اردو روپ دینے والے مترجم، باقر نقوی لندن سے کراچی پہنچ چکے تھے۔
لوگ انھیں اردو کا پہلا ماہر نوبیلیات کہتے ہیں، تو اس کا سبب ہے۔ چار کیٹیگریز (ادب، امن، حیایات، طبیعیات) میں نوبیل سے نوازے جانے والی بیسویں صدی کی تمام شخصیات کے خطبات کو اردو روپ دے چکے ہیں۔ ایک نقاد کا دعویٰ ہے کہ ایسی مثال کسی اور زبان میں نہیں ملتی۔ 80 برس کی عمر میں بھی وہ متحرک، مطمئن اور مسرور۔ ایک کثیرالمنزلہ عمارت میں ان سے ملاقات ہوئی، جس کے سولہویں مالے کی کھڑکی کے باہر ایک بکھرا، پھیلتا بے رنگ شہر تھا، جس کے آسمان پر دھواں تیر رہا تھا، مگر یہ وہ دھند نہیں تھی، جو حیدرآباد جاتے سمے سبزے پر تنی تھی۔ یہ دخانی کہرا تھا۔ گرد کا طوفان تھا۔ یہ وہ شہر تھا، جس کی سیکڑوں کہانیاں ابھی ان سنی ہیں۔