کیا ہوتا رہا تجربہ گاہوں میں

سائنس اور ٹیکنالوجی کی دنیا میں گزرے سال ہونے والی پیش رفت.


Nadeem Subhan December 30, 2012
فوٹو : فائل

'' گاڈ پارٹیکل'' کا وجود ثابت ہوگیا!

ایک سائنسی مفروضے کے مطابق ''ہگز بوسون'' وہ ذرّہ ہے جو دیگر تمام ذرّات کو کمیت دیتا ہے۔ اس لیے اسے ''گاڈ پارٹیکل'' بھی کہا جاتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں ''گاڈ پارٹیکل'' وہ ذرّہ ہے، کائنات میں موجود ہر ٹھوس شے اپنے وجود کے لیے جس کی مرہون منّت ہے۔ اس ذرّے کے وجود کی تصدیق کے لیے 1994ء میں یورپین آرگنائزیشن فار نیوکلیئر ریسرچ (سرن ) نے ایک منصوبے کی منظوری دی۔ چار سال کے بعد اس منصوبے پر عملی کام کا آغاز ہوا۔ آٹھ برس کی مسلسل محنت کے بعد 100 سے زاید مملک کے 10000سے زیادہ سائنس داں اور انجنیئرز سائنسی تاریخ کی سب سے بڑی اور اسب سے منہگی مشین تیار کرنے میں کام یاب ہوگئے۔

27 کلومیٹر لمبی اور 9 ارب ڈالر کی کثیر لاگت سے تیار ہونے والی یہ مشین سویڈن اور فرانس کی سرحد پر زیرزمین575 فٹ کی گہرائی میں بنائی گئی۔ ایک تجربہ گاہ میں نصب کی گئی۔ ذرّات کے ٹکراؤ کے لیے بنائی جانے والی اس مشین (پارٹیکل ایکسلیریٹر) کو لارج ہیڈرن کولائیڈر ( ایل ایچ سی) کا نام دیا گیا۔ لارج ہیڈرن کولائیڈر میں تقریباً روشنی کی رفتار سے سفر کرتی پروٹان کی دو مخالف شعاعوں کو ٹکرایا جانا تھا۔ اس ٹکراؤ کے نتیجے میں بگ بینگ کے فوری بعد جیسے حالات پیدا ہوتے۔

نومبر 2009 ء سے لے کر اپریل 2012ء تک ایل ایچ سی میں مختلف شدت کی پروٹان شعاعیں آپس میں ٹکرا کر ڈیٹا حاصل کیا گیا۔ آخری بار پروٹان شعاعیں رواں برس 5 اپریل کو ٹکرائی گئی تھیں اور 4 جولائی کو سرن کے ڈائریکٹر جنرل رالف ہیور نے سرن کے ہیڈکوارٹر میں منعقدہ پریس کانفرنس میں '' گاڈ پارٹیکل'' کی دریافت کا اعلان کیا۔ سائنس دانوں کا کہنا تھا کہ کہ گاڈ پارٹیکل کا وجود ثابت ہونے کے بعد سائنس بالخصوص طبیعیات میں ایک نئے باب کی ابتدا ہوگئی ہے۔ انھیں امید ہے کہ اس کام یابی سے ڈارک میٹر اور بلیک ہولز سمیت کائنات کے بہت سے سربستہ رازوں سے پردہ اٹھانے میں مدد ملے گی۔

تحقیقی روبوٹ خلائی جہاز Curiosity مریخ کی سطح پر اُتر گیا
امریکی خلائی ایجنسی ناسا نے 26 نومبر 2011ء کو مریخ کی جانب جدید ترین تحقیقی آلات سے لیس خلائی جہازCuriosity روانہ کیا تھا۔ 6 اگست 2012ء کو یہ جہاز کام یابی سے سرخ سیارے کی سرزمین پر اترگیا۔ Curiosity کا مقصد یہ کھوج لگانا ہے کہ مریخ کے طبعی حالات حیات کی نمو کے لیے موزوں ہیں یا نہیں۔ Curiosity مریخ کی سرزمین پر اترنے والی روبوٹ خلائی گاڑیوں میں سب سے جدید ہے۔ اس گاڑی نے سرخ سیارے کی نادر تصاویر زمین پر ارسال کی ہیں۔ ان میں سے کچھ تصاویر سے یہ اندازہ ہوتا تھا کہ اس سیارے کی سطح پر کبھی پانی رواں رہتا تھا۔

صد سالہ اسپیس شپ پروجیکٹ
ڈیفینس ایڈوانسڈ ریسرچ پروجیکٹس ایجنسی ( DARPA ) نے ایک نئے پروجیکٹ کے لیے فنڈز فراہم کیے ہیں جسے '' صد سالہ اسپیس شپ پروجیکٹ'' کا نام دیا گیا ہے۔ اس منصوبے کا مقصد آئندہ سو برس کے دوران ہمارے نظام شمسی سے باہر کسی دوسرے نظام شمسی میں خلابازوں کو پہنچانا ہے۔ اس وقت تک ایسی ٹیکنالوجی تیار نہیں کی جاسکی، جس کی بنیاد پر انسان مریخ کی سرزمین پر اترسکیں۔ تاہم سائنس دانوں کو امید ہے کہ آنے والے برسوں میں وہ مریخ کی جانب ایسا خلائی جہاز روانہ کرنے میں کام یاب ہوجائیں گے، جسے زمین پر قائم کنٹرول روم سے نہیں بلکہ اسی میں بیٹھے ہوئے انسان کنٹرول کررہے ہوں گے۔

DARPA نے '' صد سالہ اسپیس شپ پروجیکٹ'' کا سربراہ مے جیمیسن کو بنایا ہے۔ جیمیسن خلاء میں پہنچنے والی پہلی سیاہ فام خاتون ہیں۔ وہ 1992ء میں اسپیس شٹل Endeavour کے ذریعے زمین کے مدار میں پہنچی تھیں۔

4

نئے سیارے دریافت ہوئے
2012 ء میں ماہرین فلکیات نے کئی سیارے دریافت کیے جن میں سے کچھ منفرد خصوصیات کے حامل تھے۔
Alpha Centauri ہمارے نظام شمسی سے قریب ترین سولر سسٹم ہے۔ ماہرین فلکیات نے اسی سولر سسٹم میں ایک نیا سیارہ دریافت کیا جسے Alpha Centauri B کا نام دیا گیا۔ اس سیارے کی سطح پر درجۂ حرارت 1500ڈگری سیلسیس ہے۔ یہ سیارہ جس نظام شمسی کا حصہ ہے وہاں مزید سیاروں کی موجودگی خارج از امکان نہیں جو زندگی کی نمو کے لیے موزوں ہوں۔ اس سیارے کی جسامت زمین کی جسامت کے تقریباً مساوی ہے اور یہ ہمارے سورج سے 4.3ملین نوری سال کے فاصلے پر ہے۔ اس کے علاوہ سائنس دانوں نے مختلف جسامت کے تین چٹانی سیارے بھی دریافت کیے۔

روبوٹوں سے کھیتوں میں کام لینے کا رجحان بڑھنے لگا
زرعی پیداوار بڑھانے کے لیے جہاں سائنس داں غذائی فصلوں کی نت نئی قسمیں تیار کررہے ہیں وہیں کھیتوں میں مزدوروں کے بجائے روبوٹوں سے کام لینے پر بھی توجہ دی جانے لگی ہے۔ اس سلسلے میں مختلف قسم کے روبوٹ تیار کیے گئے ہیں جن سے کام بھی لیا جارہا ہے۔ جدید ترین سینسرز، ویڈیو کیمروں، اسپرے اور گلوبل پوزیشننگ سسٹم اور دیگر آلات سے لیس ان مشینوں کا استعمال ابھی ترقی یافتہ ممالک تک محدود ہے۔

سولر پینلز کی کارکردگی بڑھانے پر تحقیق جاری رہی
برقی توانائی کے حصول کے لیے دنیا بھر میں بڑے پیمانے پر سولر پینلز کا استعمال کیا جارہا ہے۔ شہروں کے علاوہ دور دراز دیہات میں رہنے والے بھی ان سے استفادہ کررہے ہیں۔ سائنس داں سولر پینلز کی کارکردگی بڑھانے کے لیے مسلسل کوشاں ہیں، تاکہ ان سے زیادہ سے زیادہ بجلی حاصل کی جاسکے۔ اس مقصد کے لیے سولر پینلز بنانے والی ایک امریکی کمپنی نے ایک ٹریکنگ سسٹم ڈیزائن کیا جس کے تحت تمام اس نظام سے منسلک تمام سولر پینلز ہر 40 منٹ کے بعد اپنا رخ سورج کی طرف پھیر لیتے ہیں تاکہ سورج کی پہلی کرن سے لے کر آخری کرن تک بجلی کی پیداوار جاری رہے۔ اسی طرح ایک اسرائیلی کمپنی نے ایک ایسا طریقۂ کار ڈیولپ کیا، جس کے ذریعے نہ صرف سولرپینلز کی تیار پر آنے والی لاگت نصف تک کم ہوگئی، بلکہ ان کی کارکردگی میں بھی نمایاں اضافہ ہوا۔

کمپیوٹر کی رفتار اور ہارڈ ڈرائیو کی گنجائش میں اضافے کی جستجو
ماضی کے مقابلے میں کمپیوٹر کا استعمال بے حد وسیع ہوگیا ہے۔ اس لیے کمپیوٹر کی تیز رفتاری ایک ناگزیر ضرورت بن گئی ہے۔ موجودہ مائیکرو پروسیسر جس مادّے سے بنائے جاتے ہیں اسے سلیکون کہا جاتا ہے۔ سلیکون سے بنی ہوئی چپ پر ننھّے ننھّے ٹرانسسٹرز نصب کیے جاتے ہیں چِپ پر ٹرانسسٹرز کی تعداد جتنی زیادہ ہوگی پروسیسر کی رفتار بھی اتنی بلند ہوگی ۔ موجودہ ٹیکنالوجی سے سلیکون چپ پر ٹرانسسٹرز کی تعداد میں مزید اضافہ ممکن نہیں دیا۔ اس لیے ماہرین کسی دوسرے مادے کی تلاش میں ہیں، جو اس مقابلے میں سلیکون کو مات دے سکے۔ اس سلسلے میں ان کی نظر ''گرافین'' پر جا ٹھہری۔ گرافین کی ایک اہم خصوصیت یہ ہے کہ اس میں الیکٹران سلیکون کے مقابلے میں زیادہ تیزی سے حرکت کرتے ہیں۔ گرافین کی اس خصوصیت کے مستقبل میں بے شمار استعمالات سامنے آئیں گے جن میں سے ایک کمپیوٹرز، اسمارٹ فونز اور دیگر برقیاتی آلات میں اس کا استعمال ہے۔

کمپیوٹر کا استعمال جیسے جیسے وسیع ہوا ہے، ویسے ویسے ہارڈ ڈرائیو میں ڈیٹا ذخیرہ کرنے کی گنجائش میں اضافے کی ضرورت بھی بڑھتی گئی اور رفتہ رفتہ ان کی گنجائش میں اضافہ ہوتا چلاگیا۔ ماضی میں چند میگا اور گیگا بائٹ گنجائش کی حامل ہارڈ ڈرائیوز دست یاب تھیں، لیکن ترقی کرتے کرتے اب یہ سیکڑوں گیگابائٹ تک پہنچ گئی ہیں۔ روایتی طریقوں سے ہارڈ ڈرائیو کی گنجائش میں ایک خاص حد تک ہی اضافہ ممکن ہے، اس لیے سائنس داں نئی نئی تیکنیکوں کی تلاش میں ہیں، جن کے ذریعے ہارڈ ڈرائیوز کی گنجائش میں غیرمعمولی اضافہ کیا جاسکے۔ آئی بی ایم اور فیوجی کے تحقیقی ماہرین نے کیسٹ نما ہارڈ ڈرائیو بیریم فیریٹ سے تیار کی۔ چار انچ چوڑی، چار انچ لمبی اور ایک انچ موٹی اس ہارڈ ڈرائیو میں 35 پیٹا بائٹ تک ڈیٹا ذخیرہ کرنے کی گنجائش ہوگی۔

طب میں کئی پیش رفتیں ہوئیں
2012ء میں طب کے شعبے میں کئی پیش رفتیں ہوئیں، جن سے مختلف امراض کی تشخیص اور علاج میں سہولت ہوگی۔ امراضِ قلب، ذیابیطس اور رعشہ کے علاج کے ضمن میں اہم پیش رفت کرتے ہوئے سائنس داں مریض کی جلد کے خلیات کو اس کے دل کے عضلات میں تبدیل کرنے میں کام یاب ہوگئے۔ سائنس دانوں کا کہنا تھا کہ اس کام یابی سے دل کے امراض کا بہتر طور پر علاج کرنے میں مدد مل سکے گی۔ دنیا بھر میں سالانہ کروڑوں خواتین بریسٹ کینسر کا شکار ہوتی ہیں۔ کینسر پر تحقیق سے متعلق ایک برطانوی نے پہلی بار اس بیماری کا مکمل جینیاتی نقشہ تیار کرلیا۔ محققین کا کہنا تھا کہ یہ پیش رفت بے حد اہم ہے جس سے چھاتی کے سرطان کی تیزرفتار اور درست تشخیص اور بہتر علاج میں مدد ملے گی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں