جنوری تا دسمبر کیا گزری کس پر
مشہور شخصیات کے لیے گزرا برس کیا لایا.
KARACHI:
روزوشب کے زینے طے کرکے وقت کے افق میں گم ہوجانے والا ہر برس ہم میں سے ہر ایک کے لیے غم وخوشی، کام یابی اور ناکامی اور تبدیلی لے کر آتا ہے، جو اس سال کو ہمارے لیے یادگار بنادیتی ہے۔
اس حوالے سے ہم نے بعض ایسی شخصیات سے گفتگو کی جن کے لیے 2012 کسی بھی طور پر یادگار ثابت ہوا ہے۔
سرتاج عزیز
سنیئر سیاست داں، مسلم لیگ (ن) کے مرکزی راہ نما اور ماہراقتصادیات سرتاج عزیز کہتے ہیں:
ذاتی اعتبار سے اس سال سب سے اہم کام اپنی پارٹی مسلم لیگ (ن) کے منشور کی تیاری تھی۔ لوگ پوچھتے ہیں کہ ملک کو اقتصادی' سماجی' توانائی اور دہشت گردی کی صورت میں جن بڑے بحرانوں کا سامنا ہے' ان کا آپ کے پاس کیا حل ہے؟ اس تناظر میں منشور کی اہمیت اور بڑھ جاتی ہے۔ ہم نے کوشش کی ہے کہ ان سب مسائل کا قابل عمل حل سامنے لے کر آئیں اور منشور میں محض لفاظی نہ ہو۔ ایک نجی یونیورسٹی کے وائس چانسلر کی حیثیت سے بھی اس سال کے دوران اپنے کام سے مطمئن ہوں۔ خدا کا شکر ہے کہ زندگی صحت کے ساتھ اچھی گزر رہی ہے۔
امجد اسلام امجد،(شاعر اور قلم کار)
معروف شاعر، ڈراما نگار اور کالم نویس امجد اسلام امجد کا کہنا ہے:
ویسے تو زندگی کا جو بھی لمحہ گزرے، اسے غنیمت جاننا چاہیے اور ہر سانس کی قدر کرنی چاہیے۔ 2012ء میں اگرچہ ہمارا سفر نشیب کی طرف جاری رہا، لیکن ہم امید کر سکتے ہیں کہ اس سال ہونے والے تجربات کی روشنی میں ہم نے معاشرتی، سیاسی، ثقافتی اور ہر اعتبار سے کچھ نہ کچھ ضرور سیکھا ہوگا اور یہ تجربہ آنے والے برسوں میں ہمارے کام آئے گا۔ راستے میں چاہے کتنی مشکلات کا سامنا کیوں نہ کرنا پڑے، لیکن اس سفر میں یہ خوبی ضرور ہوتی ہے کہ یہ ہمیں ہماری منزل سے اور قریب کر دیتا ہے، جس کے نتیجے میں End of Tunnel روشنی دکھائی دینے لگتی ہے۔ اس پہلو سے دیکھا جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ یہ سال آئندہ ہمارے لیے اچھائیاں لانے کا موجب بنے گا۔ ذاتی زندگی میں یہ سال کوئی انقلابی تبدیلیاں لے کر نہیں آیا۔ اس سال شعری مجموعہ ''شام سرائے'' شایع ہوا ہے۔ کالموں کی کتاب کی اشاعت تاخیر کے سبب اب اگلے سال کے آغاز میں متوقع ہے۔ ڈراما نگاری کا سلسلہ کچھ عرصہ سے موقوف کر رکھا تھا' آئندہ سال اس پر بھی کام کرنے کا ارادہ ہے۔ انفرادی طور پر یہ سال اچھا رہا' لیکن دعا ہے کہ آئندہ سال اجتماعی طور پر بھی ہم سب کی زندگیوں میں بہتری لے کر آئے۔
محمد آصف
عالمی اسنوکر چیمپئن محمد آصف کہتے ہیں:
میرے لیے یہ سال زندگی کا بہترین سال تھا، جس میں ایک انٹرنیشنل ایونٹ جیتنے کا اعزاز ملک کے نام کرنے میں کام یاب ٹھہرا۔ اس سال کے دوران پہلے نیشنل رینکنگ کے ٹورنامنٹ جیتے۔ بیرون ملک ایونٹس میں نمایاں کارکردگی کا مظاہرہ کیا' پھر بلغاریہ میں ہونے والے عالمی مقابلے میں کام یابی حاصل کی۔
عالمی مقابلے میں شرکت کو ممکن بنانے کے لیے کچھ دِقّت کا سامنا کرنا پڑا، فنڈز وقت پر ریلیز نہ ہو سکے۔ لوگوں کے تعاون سے عالمی مقابلے میں شرکت ممکن ہو سکی۔ مجھے خوشی ہے کہ ان مشکل حالات میں عالمی اعزاز جیت کر میں قوم کی خوشیوں اور ملک کی نیک نامی کا موجب بنا ہوں۔ پوری قوم کی بھرپور سپورٹ اور دعائیں میرے ساتھ تھیں۔ میری کوشش ہو گی کہ آنے والے برسوں میں بھی کام یابی کا یہ سلسلہ جاری رکھتے ہوئے ملک کا نام سربلند کرنے میں اپنا کردار ادا کر سکوں۔
امجد علی صابری
امجد علی صابری کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ غلام فرید صابری کے اِس سپوت نے قوالی کے میدان میں منفرد شناخت بنائی ہے اور اپنے خاندان کا نام روشن کر رہے ہیں۔ ان کی آواز اور انداز نے بیرون ملک بھی اپنے مداح بنائے ہیں۔
26 جنوری 2012 کو پاکستان اور پولینڈ کی دوستی کے پچاس سال مکمل ہونے پر پاکستانی سفارت خانے کے تحت پولینڈ کے ایک شہر میں محفلِ سماع کا انعقاد کیا گیا، جس میں امجد علی صابری نے پرفارم کیا۔ اس تقریب سے جُڑی ایک یاد کی تفصیل ان کی زبانی جانیے:
''سُروں نے دلوں پر اثر کیا تھا، اور تال نے انھیں مست و بے خود کر دیا تھا۔ میرے کلام کی زبان ان کے لیے اجنبی تھی، وہ اسے سمجھ نہیں رہے تھے، لیکن ان پر ایک خاص کیفیت طاری ہو چکی تھی۔
انھوں نے جاننا چاہا کہ یہ کیا ہے؟ ''
''وہاں موجود مترجم نے ان کی یہ خواہش مجھ تک پہنچائی اور اسی کی مدد سے میں نے اسلام، اس کی تعلیمات، نعتیہ اور صوفیانہ کلام اور برگزیدہ ہستیوں کے بارے میں بنیادی باتیں سامعین تک پہنچا دیں، جس نے شاید ان کا اشتیاق بڑھا دیا تھا۔ وہ اسے دل کی گہرائیوں تک محسوس کرنا چاہتے تھے۔ میں نے یہ بھی کہا کہ حقیقی لُطف حاصل کرنے کے لیے کلمہ پڑھنا اور ایمان لانا ضروری ہے۔ اس کے بعد میں نے کلام سنانے کا سلسلہ آگے بڑھایا اور بے پناہ عقیدت اور جذب کے عالم میں 'یا محمد نور مجسم' کی تسبیح شروع کی اور پھر اپنے مخصوص انداز میں 'میری جان علی، میرا مان علی' جیسا عمدہ کلام حاضرین کے سامنے پیش کرنے لگا۔ اس دوران میں نے عجیب سا شور محسوس کیا، جس میں داد اور ستایش نہ تھی بلکہ یوں لگا کہ حاضرین مجھے کچھ کہہ رہے ہیں۔ جب یہ شور بڑھنے لگا تو میں نے اپنے ساتھ بیٹھے ہوئے مترجم سے پوچھا کہ یہ کیا کہہ رہے ہیں؟''
''معلوم ہوا کہ سامعین کلمہ پڑھنے کی خواہش کا اظہار کر رہے ہیں، وہ اسے اپنانا چاہتے تھے!'''' اس محفل میں موجود اپنے غیر مسلم سامعین کی مکمل رضامندی حاصل کرنے کے بعد میں نے انھیں بہ آوازِ بلند کلمۂ طیبہ پڑھایا اور یوں وہ میری زندگی کی یادگار تقریب ثابت ہوئی۔''
2009 میں بھی امجد صابری کے ہاتھ پر محفلِ سماع کے دوران ان کی آواز میں صوفیانہ کلام سن کر ایک کینیڈین خاندان نے اسلام قبول کیا تھا، اور وہ خاندان آج بھی ان سے رابطے میں ہے۔
دانش کنیریا
2012 دانش کنیریا کو گہرے صدمے سے دوچار کر گیا۔ پاکستانی لیگ اسپنر کو انگلش کرکٹ بورڈ کے ایک فیصلے نے بین الاقوامی سطح پر کرکٹ کھیلنے سے محروم کر دیا اور انھیں تاحیات اس پابندی کا سامنا کرنا ہے۔
اس فیصلے کے خلاف دائر کی گئی اپیل سے پیدا ہونے والی امید اور امکانات دانش کا دُکھ اور تکلیف کم کرنے میں پیش پیش ہیں۔ اس ضمن میں انھوں نے اپنے خیالات اور جذبات کا اظہار اس طرح کیا، ''اس سال اپنے کرکٹ کھیلنے پر پابندی کی خبر 'ہارٹ بریکنگ' ثابت ہوئی، اس فیصلے سے مجھے شدید صدمہ پہنچا ہے۔ یہ میرے لیے ہی نہیں بلکہ میری پوری فیملی کے لیے انتہائی تکلیف دہ ہے۔ میں محبِ وطن ہوں اور میں نے کوئی غلط کام نہیں کیا ہے۔ مجھے اس سارے معاملے میں قربانی کا بکرا بنایا گیا ہے، میں اپنا مقدمہ لڑ رہا ہوں اور امید ہے کہ جیت جاؤں گا۔''
دانش کنیریا پر اپنے انگلش کائونٹی ایسیکس کے ساتھی کھلاڑی میرون ویسٹفیلڈ کو ورغلانے اور کھیل کے دوران خراب کارکردگی پیش کرنے پر مجبور کرنے کا الزام ہے۔ پچھلے دنوں دانش کنیریا کی طرف سے سزا کے خلاف اپیل کی سماعت غیرمعینہ مدت کے لیے ملتوی کر دی گئی۔
کیا آنے والے سال دانش کے لیے خوشیاں لائے گا؟ یہ جاننے کے لیے تھوڑا انتظار کرنا پڑے گا۔
ماجد جہانگیر
'ففٹی ففٹی' نہیں بلکہ ماجد جہانگیر کو اپنی جیت کا سو فی صد یقین ہے!
پی ٹی وی کے مقبول ترین کامیڈی شو ''ففٹی ففٹی'' سے ماجد جہانگیر نے بے پناہ شہرت حاصل کی اور آج بھی ان کا مخصوص لہجہ اور مزاحیہ انداز اس پروگرام کے کروڑوں ناظرین کے ذہنوں میں تازہ ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ٹیلی ویژن انڈسٹری سے وابستگی کے دوران بہترین سیاست سیکھی ہے اور کوئی انھیں مات نہیں دے سکتا۔
اس یقین کے ساتھ ماجد جہانگیر نے اس برس عملی سیاست میں قدم رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ان کی نظر میں مسلم لیگ (نون) کی قیادت ملک میں تبدیلی لاسکتی ہے اور وہ میاں محمد نواز شریف سے ملاقات کر کے ان کی جماعت میں شمولیت اختیار کریں گے۔ اس سلسلے میں ان کا کہنا ہے،''میں ملک کے بگڑتے ہوئے حالات دیکھ رہا ہوں، عوام تبدیلی چاہتے ہیں۔ فن کار حساس اور درد مند ہوتا ہے اور لوگوں کے دکھ درد اور ان کی پریشانیوں کو بہتر طور پر سمجھ سکتا ہے، میں یہ بھی دیکھ رہا ہوں کہ ایوانوں میں فن کاروں کی نمایندگی نہیں ہے، جو ان کے مسائل اور مشکلات کے لیے آواز بلند کرے۔ یہی سوچ کر میں نے سیاست میں قدم رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔''ماجد جہانگیر کی خواہش ہے کہ نون لیگ انھیں اپنے انتخابی امیدوار کی حیثیت سے عام انتخابات میں سامنے لائے۔
سنیل شنکر
یہ سال سنیل شنکر کی کام یابی کا راستہ سہل بناتا اور ان کے شہرت کے سفر کی رفتار بڑھاتا رہا۔ معروف افسانہ نگار سعادت حسن منٹو کی زندگی پر بنائے گئے کھیل نے انھیں ہدایت کار کے طور پر شہرت اور مقام بنانے میں مدد دی ہے۔
ان کی تھیٹر پرفارمینس ''منٹو راما'' کے نام سے کراچی میں ادبی اور ثقافتی سرگرمیوں کے مرکز آرٹس کونسل میں پانچ دن جاری رہی اور حاضرین نے اسے بے حد سراہا، جب کہ آرٹ کے ناقدین نے اس پر حوصلہ افزاء تبصرے کیے۔ پاکستان ٹیلی ویژن نے اس کھیل کی ڈرامائی تشکیل کی خواہش ظاہر کی اور اب یہ سرحد پار جارہا ہے۔ سنیل شنکر، ''منٹو راما'' کی کام یابی پر نہایت خوش ہیں۔
سنیل شنکر نے بتایا، ''یہ میری زندگی کے یادگار لمحات ہیں۔ ہماری کوشش کو بے حد سراہا گیا ہے، خرم علی شفیق کا تحریر کردہ اس کھیل کے تمام آرٹسٹوں نے بہترین پرفارمینس دی ہے، جسے باذوق افراد اور نقدونظر کے میدان کے معتبر ناموں نے قبولیت کی سند بخشی ہے۔ مشہور اداکار اور صدا کار ضیاء محی الدین نے کہا کہ اس کھیل کو ہندوستان لے جانا چاہیے۔ نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف پرفارمنگ آرٹ (ناپا) کے ذریعے اس سلسلے میں دہلی کے نیشنل اسکول آف ڈراما سے رابطہ کیا گیا، جو وہاں تھیٹر، ڈراموں اور دیگر ثقافتی سرگرمیوں کے لیے متحرک ہے۔ وہاں 'بھرت رنگ منج فیسٹیول' کی تیاریاں جاری تھیں اور ہم اس میں اپنا کھیل پیش کرنا چاہتے تھے۔ انھوں نے ہم سے ڈراما بھیجنے کے لیے کہا، جس پر یہاں سے دو کھیل بھیجے گئے، ان میں ایک منٹو راما بھی تھا۔ اس کھیل کو وہاں تھیٹر کرنے کے لیے منتخب کر لیا گیا، چند دن بعد میں اپنی ٹیم کے ساتھ فیسٹیول میں اپنا کھیل پیش کرنے کے لیے جانے والا ہوں۔ یہ ایک زبردست کام یابی ہے۔ اس کے علاوہ کولکتہ میں ہونے والے ایک لٹریری فیسٹیول کے لیے بھی ہمارے کام کا انتخاب کیا گیا ہے۔''
سنیل پاکستان میں تھیٹر کے فروغ کے لیے کام کرنا چاہتے ہیں۔ ان کی خواہش ہے کہ تھیٹر اور اداکاری سے متعلق ادارے ایک دوسرے کے قریب آئیں اور قومی سطح پر فیسٹیول کا انعقاد ممکن ہو، جس سے سیکھنے اور جاننے کا موقع ملے گا۔
افتخارعارف
افتخار عارف ممتاز بھی ہیں، مقبول بھی اور معروف بھی ہیں۔ سالِ رواں میں کسی خاص تبدیلی کے حوالے سے ان کے احساسات وہی تھے جو موجودہ ملکی صورتِ احوال پر کسی سچے فن کار کے ہونے چاہییں۔ کہتے ہیں،''دو ہزار بارہ کا سال انبساط، تکدر اور تشویش کی نذر رہا، دہشت گردی اور انتہا پسندی نے ایک عجیب وضع کی بے یقینی مسلط کر دی تھی، اﷲ کا شکر ہے کہ قوم اپنوں اور بے گانوں کو پہچاننے میں کام یاب ہو گئی ہے۔ میری ذاتی زندگی میں صورتِ حال بہتر یوں ہوئی کہ بچوں کے بچے بڑے ہو گئے ہیں اور ماشاء اﷲ پڑھنے لکھنے میں لگے ہوئے ہیں، میں جب ان کو دیکھتا ہوں تو آنے والے دنوں سے اچھی توقعات وابستہ ہونے لگتی ہیں۔ میری دعا ہے کہ اﷲ انہیں زندگی میں وہ سکھ دے جو ہمیں نہیں مل سکا۔''
بیگم عابدہ حسین
پاکستان پیپلز پارٹی کی راہ نما اور معروف سیاست داں بیگم عابدہ حسین سے رابطہ کیا گیا تو ان کی آواز میں خوش گواری کا تاثر بہت نمایاں تھا۔ سال 2012 میں کسی بڑی تبدیلی کے حوالے سے انہوں نے سیاسی تبدیلی کے بجائے ایک گھریلو تبدیلی کا ذکر کیا اور اس تبدیلی کو انہوں نے بہت خوش گوار قرار دیا۔ ان کے جواب میں ''خوش گوار'' کی تکرار اور نویدِ مسرت جیسے الفاظ کے استعمال ہی سے ان کی سرشاری کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ یہ ان کے اپنے ہی چنے ہوئے الفاظ ہیں، ''اس سال میری ذاتی زندگی میں بڑی خوش گوار تبدیلی ہوئی، میرے بیٹے کی شادی مارچ 2012 میں ہوئی، اس خوشی نے میری زندگی کو خوش گوار احساس بخشا''۔ انہوں نے مزید کہا ''گھر میں ایک نئے فرد کے آنے سے رونق بڑھ گئی ہے اور یوں یہ سال ہمارے خاندان کے لے نوید مسرت لایا۔''
روزوشب کے زینے طے کرکے وقت کے افق میں گم ہوجانے والا ہر برس ہم میں سے ہر ایک کے لیے غم وخوشی، کام یابی اور ناکامی اور تبدیلی لے کر آتا ہے، جو اس سال کو ہمارے لیے یادگار بنادیتی ہے۔
اس حوالے سے ہم نے بعض ایسی شخصیات سے گفتگو کی جن کے لیے 2012 کسی بھی طور پر یادگار ثابت ہوا ہے۔
سرتاج عزیز
سنیئر سیاست داں، مسلم لیگ (ن) کے مرکزی راہ نما اور ماہراقتصادیات سرتاج عزیز کہتے ہیں:
ذاتی اعتبار سے اس سال سب سے اہم کام اپنی پارٹی مسلم لیگ (ن) کے منشور کی تیاری تھی۔ لوگ پوچھتے ہیں کہ ملک کو اقتصادی' سماجی' توانائی اور دہشت گردی کی صورت میں جن بڑے بحرانوں کا سامنا ہے' ان کا آپ کے پاس کیا حل ہے؟ اس تناظر میں منشور کی اہمیت اور بڑھ جاتی ہے۔ ہم نے کوشش کی ہے کہ ان سب مسائل کا قابل عمل حل سامنے لے کر آئیں اور منشور میں محض لفاظی نہ ہو۔ ایک نجی یونیورسٹی کے وائس چانسلر کی حیثیت سے بھی اس سال کے دوران اپنے کام سے مطمئن ہوں۔ خدا کا شکر ہے کہ زندگی صحت کے ساتھ اچھی گزر رہی ہے۔
امجد اسلام امجد،(شاعر اور قلم کار)
معروف شاعر، ڈراما نگار اور کالم نویس امجد اسلام امجد کا کہنا ہے:
ویسے تو زندگی کا جو بھی لمحہ گزرے، اسے غنیمت جاننا چاہیے اور ہر سانس کی قدر کرنی چاہیے۔ 2012ء میں اگرچہ ہمارا سفر نشیب کی طرف جاری رہا، لیکن ہم امید کر سکتے ہیں کہ اس سال ہونے والے تجربات کی روشنی میں ہم نے معاشرتی، سیاسی، ثقافتی اور ہر اعتبار سے کچھ نہ کچھ ضرور سیکھا ہوگا اور یہ تجربہ آنے والے برسوں میں ہمارے کام آئے گا۔ راستے میں چاہے کتنی مشکلات کا سامنا کیوں نہ کرنا پڑے، لیکن اس سفر میں یہ خوبی ضرور ہوتی ہے کہ یہ ہمیں ہماری منزل سے اور قریب کر دیتا ہے، جس کے نتیجے میں End of Tunnel روشنی دکھائی دینے لگتی ہے۔ اس پہلو سے دیکھا جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ یہ سال آئندہ ہمارے لیے اچھائیاں لانے کا موجب بنے گا۔ ذاتی زندگی میں یہ سال کوئی انقلابی تبدیلیاں لے کر نہیں آیا۔ اس سال شعری مجموعہ ''شام سرائے'' شایع ہوا ہے۔ کالموں کی کتاب کی اشاعت تاخیر کے سبب اب اگلے سال کے آغاز میں متوقع ہے۔ ڈراما نگاری کا سلسلہ کچھ عرصہ سے موقوف کر رکھا تھا' آئندہ سال اس پر بھی کام کرنے کا ارادہ ہے۔ انفرادی طور پر یہ سال اچھا رہا' لیکن دعا ہے کہ آئندہ سال اجتماعی طور پر بھی ہم سب کی زندگیوں میں بہتری لے کر آئے۔
محمد آصف
عالمی اسنوکر چیمپئن محمد آصف کہتے ہیں:
میرے لیے یہ سال زندگی کا بہترین سال تھا، جس میں ایک انٹرنیشنل ایونٹ جیتنے کا اعزاز ملک کے نام کرنے میں کام یاب ٹھہرا۔ اس سال کے دوران پہلے نیشنل رینکنگ کے ٹورنامنٹ جیتے۔ بیرون ملک ایونٹس میں نمایاں کارکردگی کا مظاہرہ کیا' پھر بلغاریہ میں ہونے والے عالمی مقابلے میں کام یابی حاصل کی۔
عالمی مقابلے میں شرکت کو ممکن بنانے کے لیے کچھ دِقّت کا سامنا کرنا پڑا، فنڈز وقت پر ریلیز نہ ہو سکے۔ لوگوں کے تعاون سے عالمی مقابلے میں شرکت ممکن ہو سکی۔ مجھے خوشی ہے کہ ان مشکل حالات میں عالمی اعزاز جیت کر میں قوم کی خوشیوں اور ملک کی نیک نامی کا موجب بنا ہوں۔ پوری قوم کی بھرپور سپورٹ اور دعائیں میرے ساتھ تھیں۔ میری کوشش ہو گی کہ آنے والے برسوں میں بھی کام یابی کا یہ سلسلہ جاری رکھتے ہوئے ملک کا نام سربلند کرنے میں اپنا کردار ادا کر سکوں۔
امجد علی صابری
امجد علی صابری کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ غلام فرید صابری کے اِس سپوت نے قوالی کے میدان میں منفرد شناخت بنائی ہے اور اپنے خاندان کا نام روشن کر رہے ہیں۔ ان کی آواز اور انداز نے بیرون ملک بھی اپنے مداح بنائے ہیں۔
26 جنوری 2012 کو پاکستان اور پولینڈ کی دوستی کے پچاس سال مکمل ہونے پر پاکستانی سفارت خانے کے تحت پولینڈ کے ایک شہر میں محفلِ سماع کا انعقاد کیا گیا، جس میں امجد علی صابری نے پرفارم کیا۔ اس تقریب سے جُڑی ایک یاد کی تفصیل ان کی زبانی جانیے:
''سُروں نے دلوں پر اثر کیا تھا، اور تال نے انھیں مست و بے خود کر دیا تھا۔ میرے کلام کی زبان ان کے لیے اجنبی تھی، وہ اسے سمجھ نہیں رہے تھے، لیکن ان پر ایک خاص کیفیت طاری ہو چکی تھی۔
انھوں نے جاننا چاہا کہ یہ کیا ہے؟ ''
''وہاں موجود مترجم نے ان کی یہ خواہش مجھ تک پہنچائی اور اسی کی مدد سے میں نے اسلام، اس کی تعلیمات، نعتیہ اور صوفیانہ کلام اور برگزیدہ ہستیوں کے بارے میں بنیادی باتیں سامعین تک پہنچا دیں، جس نے شاید ان کا اشتیاق بڑھا دیا تھا۔ وہ اسے دل کی گہرائیوں تک محسوس کرنا چاہتے تھے۔ میں نے یہ بھی کہا کہ حقیقی لُطف حاصل کرنے کے لیے کلمہ پڑھنا اور ایمان لانا ضروری ہے۔ اس کے بعد میں نے کلام سنانے کا سلسلہ آگے بڑھایا اور بے پناہ عقیدت اور جذب کے عالم میں 'یا محمد نور مجسم' کی تسبیح شروع کی اور پھر اپنے مخصوص انداز میں 'میری جان علی، میرا مان علی' جیسا عمدہ کلام حاضرین کے سامنے پیش کرنے لگا۔ اس دوران میں نے عجیب سا شور محسوس کیا، جس میں داد اور ستایش نہ تھی بلکہ یوں لگا کہ حاضرین مجھے کچھ کہہ رہے ہیں۔ جب یہ شور بڑھنے لگا تو میں نے اپنے ساتھ بیٹھے ہوئے مترجم سے پوچھا کہ یہ کیا کہہ رہے ہیں؟''
''معلوم ہوا کہ سامعین کلمہ پڑھنے کی خواہش کا اظہار کر رہے ہیں، وہ اسے اپنانا چاہتے تھے!'''' اس محفل میں موجود اپنے غیر مسلم سامعین کی مکمل رضامندی حاصل کرنے کے بعد میں نے انھیں بہ آوازِ بلند کلمۂ طیبہ پڑھایا اور یوں وہ میری زندگی کی یادگار تقریب ثابت ہوئی۔''
2009 میں بھی امجد صابری کے ہاتھ پر محفلِ سماع کے دوران ان کی آواز میں صوفیانہ کلام سن کر ایک کینیڈین خاندان نے اسلام قبول کیا تھا، اور وہ خاندان آج بھی ان سے رابطے میں ہے۔
دانش کنیریا
2012 دانش کنیریا کو گہرے صدمے سے دوچار کر گیا۔ پاکستانی لیگ اسپنر کو انگلش کرکٹ بورڈ کے ایک فیصلے نے بین الاقوامی سطح پر کرکٹ کھیلنے سے محروم کر دیا اور انھیں تاحیات اس پابندی کا سامنا کرنا ہے۔
اس فیصلے کے خلاف دائر کی گئی اپیل سے پیدا ہونے والی امید اور امکانات دانش کا دُکھ اور تکلیف کم کرنے میں پیش پیش ہیں۔ اس ضمن میں انھوں نے اپنے خیالات اور جذبات کا اظہار اس طرح کیا، ''اس سال اپنے کرکٹ کھیلنے پر پابندی کی خبر 'ہارٹ بریکنگ' ثابت ہوئی، اس فیصلے سے مجھے شدید صدمہ پہنچا ہے۔ یہ میرے لیے ہی نہیں بلکہ میری پوری فیملی کے لیے انتہائی تکلیف دہ ہے۔ میں محبِ وطن ہوں اور میں نے کوئی غلط کام نہیں کیا ہے۔ مجھے اس سارے معاملے میں قربانی کا بکرا بنایا گیا ہے، میں اپنا مقدمہ لڑ رہا ہوں اور امید ہے کہ جیت جاؤں گا۔''
دانش کنیریا پر اپنے انگلش کائونٹی ایسیکس کے ساتھی کھلاڑی میرون ویسٹفیلڈ کو ورغلانے اور کھیل کے دوران خراب کارکردگی پیش کرنے پر مجبور کرنے کا الزام ہے۔ پچھلے دنوں دانش کنیریا کی طرف سے سزا کے خلاف اپیل کی سماعت غیرمعینہ مدت کے لیے ملتوی کر دی گئی۔
کیا آنے والے سال دانش کے لیے خوشیاں لائے گا؟ یہ جاننے کے لیے تھوڑا انتظار کرنا پڑے گا۔
ماجد جہانگیر
'ففٹی ففٹی' نہیں بلکہ ماجد جہانگیر کو اپنی جیت کا سو فی صد یقین ہے!
پی ٹی وی کے مقبول ترین کامیڈی شو ''ففٹی ففٹی'' سے ماجد جہانگیر نے بے پناہ شہرت حاصل کی اور آج بھی ان کا مخصوص لہجہ اور مزاحیہ انداز اس پروگرام کے کروڑوں ناظرین کے ذہنوں میں تازہ ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ٹیلی ویژن انڈسٹری سے وابستگی کے دوران بہترین سیاست سیکھی ہے اور کوئی انھیں مات نہیں دے سکتا۔
اس یقین کے ساتھ ماجد جہانگیر نے اس برس عملی سیاست میں قدم رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ان کی نظر میں مسلم لیگ (نون) کی قیادت ملک میں تبدیلی لاسکتی ہے اور وہ میاں محمد نواز شریف سے ملاقات کر کے ان کی جماعت میں شمولیت اختیار کریں گے۔ اس سلسلے میں ان کا کہنا ہے،''میں ملک کے بگڑتے ہوئے حالات دیکھ رہا ہوں، عوام تبدیلی چاہتے ہیں۔ فن کار حساس اور درد مند ہوتا ہے اور لوگوں کے دکھ درد اور ان کی پریشانیوں کو بہتر طور پر سمجھ سکتا ہے، میں یہ بھی دیکھ رہا ہوں کہ ایوانوں میں فن کاروں کی نمایندگی نہیں ہے، جو ان کے مسائل اور مشکلات کے لیے آواز بلند کرے۔ یہی سوچ کر میں نے سیاست میں قدم رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔''ماجد جہانگیر کی خواہش ہے کہ نون لیگ انھیں اپنے انتخابی امیدوار کی حیثیت سے عام انتخابات میں سامنے لائے۔
سنیل شنکر
یہ سال سنیل شنکر کی کام یابی کا راستہ سہل بناتا اور ان کے شہرت کے سفر کی رفتار بڑھاتا رہا۔ معروف افسانہ نگار سعادت حسن منٹو کی زندگی پر بنائے گئے کھیل نے انھیں ہدایت کار کے طور پر شہرت اور مقام بنانے میں مدد دی ہے۔
ان کی تھیٹر پرفارمینس ''منٹو راما'' کے نام سے کراچی میں ادبی اور ثقافتی سرگرمیوں کے مرکز آرٹس کونسل میں پانچ دن جاری رہی اور حاضرین نے اسے بے حد سراہا، جب کہ آرٹ کے ناقدین نے اس پر حوصلہ افزاء تبصرے کیے۔ پاکستان ٹیلی ویژن نے اس کھیل کی ڈرامائی تشکیل کی خواہش ظاہر کی اور اب یہ سرحد پار جارہا ہے۔ سنیل شنکر، ''منٹو راما'' کی کام یابی پر نہایت خوش ہیں۔
سنیل شنکر نے بتایا، ''یہ میری زندگی کے یادگار لمحات ہیں۔ ہماری کوشش کو بے حد سراہا گیا ہے، خرم علی شفیق کا تحریر کردہ اس کھیل کے تمام آرٹسٹوں نے بہترین پرفارمینس دی ہے، جسے باذوق افراد اور نقدونظر کے میدان کے معتبر ناموں نے قبولیت کی سند بخشی ہے۔ مشہور اداکار اور صدا کار ضیاء محی الدین نے کہا کہ اس کھیل کو ہندوستان لے جانا چاہیے۔ نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف پرفارمنگ آرٹ (ناپا) کے ذریعے اس سلسلے میں دہلی کے نیشنل اسکول آف ڈراما سے رابطہ کیا گیا، جو وہاں تھیٹر، ڈراموں اور دیگر ثقافتی سرگرمیوں کے لیے متحرک ہے۔ وہاں 'بھرت رنگ منج فیسٹیول' کی تیاریاں جاری تھیں اور ہم اس میں اپنا کھیل پیش کرنا چاہتے تھے۔ انھوں نے ہم سے ڈراما بھیجنے کے لیے کہا، جس پر یہاں سے دو کھیل بھیجے گئے، ان میں ایک منٹو راما بھی تھا۔ اس کھیل کو وہاں تھیٹر کرنے کے لیے منتخب کر لیا گیا، چند دن بعد میں اپنی ٹیم کے ساتھ فیسٹیول میں اپنا کھیل پیش کرنے کے لیے جانے والا ہوں۔ یہ ایک زبردست کام یابی ہے۔ اس کے علاوہ کولکتہ میں ہونے والے ایک لٹریری فیسٹیول کے لیے بھی ہمارے کام کا انتخاب کیا گیا ہے۔''
سنیل پاکستان میں تھیٹر کے فروغ کے لیے کام کرنا چاہتے ہیں۔ ان کی خواہش ہے کہ تھیٹر اور اداکاری سے متعلق ادارے ایک دوسرے کے قریب آئیں اور قومی سطح پر فیسٹیول کا انعقاد ممکن ہو، جس سے سیکھنے اور جاننے کا موقع ملے گا۔
افتخارعارف
افتخار عارف ممتاز بھی ہیں، مقبول بھی اور معروف بھی ہیں۔ سالِ رواں میں کسی خاص تبدیلی کے حوالے سے ان کے احساسات وہی تھے جو موجودہ ملکی صورتِ احوال پر کسی سچے فن کار کے ہونے چاہییں۔ کہتے ہیں،''دو ہزار بارہ کا سال انبساط، تکدر اور تشویش کی نذر رہا، دہشت گردی اور انتہا پسندی نے ایک عجیب وضع کی بے یقینی مسلط کر دی تھی، اﷲ کا شکر ہے کہ قوم اپنوں اور بے گانوں کو پہچاننے میں کام یاب ہو گئی ہے۔ میری ذاتی زندگی میں صورتِ حال بہتر یوں ہوئی کہ بچوں کے بچے بڑے ہو گئے ہیں اور ماشاء اﷲ پڑھنے لکھنے میں لگے ہوئے ہیں، میں جب ان کو دیکھتا ہوں تو آنے والے دنوں سے اچھی توقعات وابستہ ہونے لگتی ہیں۔ میری دعا ہے کہ اﷲ انہیں زندگی میں وہ سکھ دے جو ہمیں نہیں مل سکا۔''
بیگم عابدہ حسین
پاکستان پیپلز پارٹی کی راہ نما اور معروف سیاست داں بیگم عابدہ حسین سے رابطہ کیا گیا تو ان کی آواز میں خوش گواری کا تاثر بہت نمایاں تھا۔ سال 2012 میں کسی بڑی تبدیلی کے حوالے سے انہوں نے سیاسی تبدیلی کے بجائے ایک گھریلو تبدیلی کا ذکر کیا اور اس تبدیلی کو انہوں نے بہت خوش گوار قرار دیا۔ ان کے جواب میں ''خوش گوار'' کی تکرار اور نویدِ مسرت جیسے الفاظ کے استعمال ہی سے ان کی سرشاری کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ یہ ان کے اپنے ہی چنے ہوئے الفاظ ہیں، ''اس سال میری ذاتی زندگی میں بڑی خوش گوار تبدیلی ہوئی، میرے بیٹے کی شادی مارچ 2012 میں ہوئی، اس خوشی نے میری زندگی کو خوش گوار احساس بخشا''۔ انہوں نے مزید کہا ''گھر میں ایک نئے فرد کے آنے سے رونق بڑھ گئی ہے اور یوں یہ سال ہمارے خاندان کے لے نوید مسرت لایا۔''