حکومت کے خلاف اپوزیشن کی آخری امید
آصف زرداری اور بلاول زرداری کے ضمنی الیکشن لڑنے کے اعلان اور پارلیمنٹ میں......
MIRAMSHAH/ISLAMABAD:
بقول چوہدری شجاعت حسین کے، گرینڈالائنس کے لیے آصف علی زرداری سے ملاقات پانی میں مدھانی کے مترادف ثابت ہوئی ہے۔ انھی سطورمیں گزشتہ ہفتہ یہ بات کہی گئی تھی کہ پچھلے تین سال میںجب بھی نوازشریف حکومت کواپوزیشن کی طرف سے کسی خطرہ کا سامنا ہوا، پیپلزپارٹی نے اس کو ریسکیو کیا۔
وجہ اس کی یہ ہے کہ حکومت میں آصف زرداری کا سٹیک وزیراعظم نوازشریف سے کسی طورکم نہیں۔ اگر نوازشریف کے پاس ایوان زیریں یعنی قومی اسمبلی میں اکثریت اورصوبہ پنجاب کی حکومت ہے، تو آصف زرداری کے پاس ایوان بالایعنی سینیٹ میں اکثریت اور صوبہ سندھ کی حکومت ہے۔ قومی اسمبلی اور سینیٹ دونوں میں قائد حزب اختلاف بھی پیپلزپارٹی کے ہیں۔ مزید یہ کہ پنجاب میں اگر پچھلے آٹھ سال سے ن لیگ حکمران ہیں تو سندھ میں پچھلے آٹھ سال سے پیپلزپارٹی حکمران ہیں۔ صرف ایک فرق ہے کہ نوازشریف اور شہباز شریف خوداسمبلیوں میں بیٹھے ہیں، جب کہ آصف زرداری اور بلاول زرداری اسمبلیوں سے باہر ہیں۔ مگرآیندہ چند ہفتوں میں یہ بھی ختم ہو جائے گا، جب دونوں زرداری ضمنی الیکشن جیت کر اسمبلیوں میں پہنچ جائیں گے۔
آصف زرداری اور بلاول زرداری کے ضمنی الیکشن لڑنے کے اعلان اور پارلیمنٹ میں پہنچنے کے اعلان کا مطلب واضح ہے کہ وہ حکومت کوگرانا نہیں، بلکہ مستحکم کرنا چاہتے ہیں، اور آیندہ الیکشن بھی اسی حکمت عملی کے ساتھ لڑناچاہتے ہیں، جس حکمت عملی کے ساتھ انھوں نے گزشتہ الیکشن لڑاتھا۔ حکمت عملی یہ ہے کہ سندھ میں پیپلزپارٹی کی حکومت کا تسلسل قائم رہے، جب کہ پنجاب میں ن لیگ کوکمزورکرنے کے لیے اس کی مخالف قوتوں کوساتھ ملانے کی کوشش کی جائے، جن میں سرفہرست مسلم لیگ ق ہے۔
مگر مسئلہ یہ ہے کہ چوہدری برادران جان چکے ہیں کہ پنجاب میں پیپلزپارٹی کے تلوں میں کوئی تیل نہیں۔ 2013 کے الیکشن کے بعد لوکل باڈیز الیکشن میں بھی پیپلزپارٹی پٹ گئی ہے ۔یہ کہنا مناسب ہو گا کہ قومی سطح پر اگر پیپلزپارٹی کو اپوزیشن کی باقی پارٹیوں کو ساتھ لے کرچلنے میں کوئی دلچسپی نہیں توپنجاب کی سطح پر اپوزیشن کی دیگرپارٹیوں کو پیپلز پارٹی کے ساتھ چلنے میں کوئی منفعت نظر نہیں آتی۔ اس تناظر میں یہ باور کرنا کہ پنجاب میں پیپلزپارٹی کی قیادت میں حکومت کے خلاف کوئی گرینڈالائنس بن سکتا ہے، مضحکہ خیز بات ہوگی۔
'چیئرمین بلاول'کی حکومت کے خلاف شعلہ بیانی نے پنجاب میں جیالوں کے خون میں کچھ گرمی پیداکی تھی اور وہ بطوراپوزیشن پیپلزپارٹی کی بحالی کے خواب دیکھنے لگ گئے تھے؛ مگر27 دسمبرکو جو کہ 'چیئرمین بلاول' کی جانب سے حکومت کو ڈیڈلائن تھی، آصف زرداری نے 'چیئرمین ' کی ڈیڈلائن کا ذکر تو دورکی بات، حکومت سے ان کے4 مطالبات کو بھی اس قابل نہیں سمجھا کہ ان کو دہرا ہی دیا جائے۔ ان کے اس تجاہل سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ آصف زرداری 'چیئرمین بلاول' کی 'چیئرمین شپ' کوکتنی اہمیت دیتے ہیں۔ پنجاب کے حالیہ بلدیاتی الیکشن کے نتائج دیکھ کر یہ سمجھنا مشکل نہیں کہ ن لیگ کے خلاف اگر پنجاب میں کوئی مضبوط انتخابی اتحاد قائم نہ ہوا تو پنجاب میں ن لیگ اگلا الیکشن بآسانی جیت سکتی ہے۔
پنجاب میں الیکشن جیتنے کا مطلب ہے کہ وفاق میں بھی ن لیگ کی حکومت ہو گی۔ پنجاب میں ن لیگ کی راہ میں اگرکوئی رکاوٹ ہو سکتی ہے، تو وہ عمران خان اور چوہدری برادران کا 'انتخابی اتحاد' ہے، کیونکہ اس صورت میں اس کو ن لیگ کے ناراض عناصرکی ہمدردیاں بھی مل سکتی ہیں، جیساکہ بلدیاتی الیکشن کے سربراہوں کے الیکشن میں ہوا۔ ملتان میں شاہ محمود قریشی اور جہانگیر ترین کاغذی پہلوان ثابت ہوئے ہیں۔ اس بارے میں حتمی طورپرکچھ کہنامشکل ہے؛ لیکن یہ تسلیم کیے بغیرچارہ نہیں کہ پچھلے آٹھ سال میں پنجاب میں یہ چوہدری برادران اور عمران خان ہی ہیں، جنھوں نے حقیقی اپوزیشن کا کرداراداکیا ہے۔2014 میں طاہرالقادری کے پیچھے اگر چوہدری برادران کھڑے نہ ہوتے توطاہرالقادری کا 'انقلاب مارچ' ظہور پذیر نہیں ہو سکتا تھا، اور طاہرالقادری کا 'انقلاب مارچ' ظہورپذیر نہ ہوتا تو عمران خان کا 'آزادی مارچ' لاہور سے نکل کراسلام آباد پہنچ ہی نہیں سکتا تھا۔
اس طرح جب عمران خان نے 'اسلام آباد لاک ڈاون' کی کال دی تو سوائے چوہدری برادران کے، کسی نے عمران خان کی کھل کرحمایت نہیں کی۔ علاوہ اس کے، چوہدری برادران اور عمران خان کے درمیان ٹیلی فونک رابطوں کے بعد براہ راست ملاقاتیں بھی ہو چکی ہیں، بلکہ جب سپریم کورٹ نے عمران خان سے جوڈیشل کمیشن کے قائم کرنے یانہ کرنے پررائے مانگی تو انھوں نے پرویز الٰہی سے بھی اس بارے میں مشاورت کی۔ پچھلے دنوں جاوید ہاشمی نے عمران خان پر الزامات کی بارش کی، تو اس میں بھی چوہدری برادران ہی نے ان کو ریسکیو کیا۔
مگراس سب کچھ کے باوجودیہ حقیقت اپنی جگہ ہے کہ عمران خان اورچوہدری برادران کے درمیان اب بھی بہت فاصلہ ہے۔ اس کی پہلی وجہ یہ ہے کہ چوہدری برادران پانچ سال تک پنجاب میں برسراقتداررہ چکے ہیں، اورآج بھی جب پنجاب میں شہبازشریف دورکاموازنہ پرویزالٰہی دورہی سے کیاجاتاہے۔ یہ کوئی رازنہیں کہ تب سے پنجاب اوراسلام آبادکی ایسٹیبلشمنٹ چوہدری برادران کے ساتھ رابطے میں ہے۔
عمران خان اس سے خائف ہیں۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ ق لیگ کے جو سیاست دان قلازی کھا کے پی ٹی آئی میں شامل ہو چکے ہیں۔وہ بھی ایکسپوزہونے سے بچنے کے لیے عمران خان اورچوہدری برادران کوانتخابی طور پر ملتے ہوئے نہیں دیکھ سکتے۔ یہ وہ سیاستدان تھے کہ جب تک ق لیگ برسراقتدار تھی، یہ چوہدری برادران سے اسی طرح وفاداری کادم بھرتے تھے، جس طرح آج عمران خان سے وفاداری کادم بھرتے ہیں یہ سمجھنامشکل نہیںکہ پنجاب میں چوہدری برادران اورعمران خان کے درمیان جوفاصلے ہیں، وہ اگر برقراررہتے ہیں اوردونوں پارٹیاں بدستور ایک دوسرے سے کھنچی کھنچی رہتی ہیں تواس کاتمام ترفائدہ ن لیگ کو ہوگا۔ لہٰذا ن لیگ کی پوری کوشش بھی ہے کہ عمران خان اور چوہدری برادران اکٹھے نہ ہونے پائیں۔
حرف آخریہ کہ پنجاب نوازشریف حکومت کاپاوربیس ہے، جس میں ان کامقابلہ آصف زرداری کاگرینڈالائنس نہیں، عمران خان اورچوہدری برادران کاانتخابی اتحاد ہی کر سکتاہے۔ پنجاب میں بلاول بھٹوکی حکومت کے خلاف شعلہ نوائی کوعوامی سطح پراہمیت دی جارہی تھی اورپانامہ لیکس پراحتجاجی سیاست نے ان کوپارٹی امیج بحال کرنے کاموقع بھی مہیاکردیاتھا؛ مگرآصف زرداری نے وطن واپسی پراس طرح ان کی ڈورکھینچی کہ پنجاب میں ان کی سیاست کاستارہ پوری طرح روشنی بکھیرنے سے پہلے ہی بجھ گیاہے؛ اور پنجاب میں اپوزیشن کی سیاست کی کامیابی کادارومداراب مکمل طورپرعمران خان اورچوہدری برادران کے انتخابی اتحاد پررہ گیاہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ یہ بیل بھی منڈھے چڑھتی ہے یا نہیں۔شاعرنے کہاتھا،
لیے جاتی ہے کہیںایک توقع غالب
جادہ رہ کشش کاف ِ کرم ہے ہم کو
بقول چوہدری شجاعت حسین کے، گرینڈالائنس کے لیے آصف علی زرداری سے ملاقات پانی میں مدھانی کے مترادف ثابت ہوئی ہے۔ انھی سطورمیں گزشتہ ہفتہ یہ بات کہی گئی تھی کہ پچھلے تین سال میںجب بھی نوازشریف حکومت کواپوزیشن کی طرف سے کسی خطرہ کا سامنا ہوا، پیپلزپارٹی نے اس کو ریسکیو کیا۔
وجہ اس کی یہ ہے کہ حکومت میں آصف زرداری کا سٹیک وزیراعظم نوازشریف سے کسی طورکم نہیں۔ اگر نوازشریف کے پاس ایوان زیریں یعنی قومی اسمبلی میں اکثریت اورصوبہ پنجاب کی حکومت ہے، تو آصف زرداری کے پاس ایوان بالایعنی سینیٹ میں اکثریت اور صوبہ سندھ کی حکومت ہے۔ قومی اسمبلی اور سینیٹ دونوں میں قائد حزب اختلاف بھی پیپلزپارٹی کے ہیں۔ مزید یہ کہ پنجاب میں اگر پچھلے آٹھ سال سے ن لیگ حکمران ہیں تو سندھ میں پچھلے آٹھ سال سے پیپلزپارٹی حکمران ہیں۔ صرف ایک فرق ہے کہ نوازشریف اور شہباز شریف خوداسمبلیوں میں بیٹھے ہیں، جب کہ آصف زرداری اور بلاول زرداری اسمبلیوں سے باہر ہیں۔ مگرآیندہ چند ہفتوں میں یہ بھی ختم ہو جائے گا، جب دونوں زرداری ضمنی الیکشن جیت کر اسمبلیوں میں پہنچ جائیں گے۔
آصف زرداری اور بلاول زرداری کے ضمنی الیکشن لڑنے کے اعلان اور پارلیمنٹ میں پہنچنے کے اعلان کا مطلب واضح ہے کہ وہ حکومت کوگرانا نہیں، بلکہ مستحکم کرنا چاہتے ہیں، اور آیندہ الیکشن بھی اسی حکمت عملی کے ساتھ لڑناچاہتے ہیں، جس حکمت عملی کے ساتھ انھوں نے گزشتہ الیکشن لڑاتھا۔ حکمت عملی یہ ہے کہ سندھ میں پیپلزپارٹی کی حکومت کا تسلسل قائم رہے، جب کہ پنجاب میں ن لیگ کوکمزورکرنے کے لیے اس کی مخالف قوتوں کوساتھ ملانے کی کوشش کی جائے، جن میں سرفہرست مسلم لیگ ق ہے۔
مگر مسئلہ یہ ہے کہ چوہدری برادران جان چکے ہیں کہ پنجاب میں پیپلزپارٹی کے تلوں میں کوئی تیل نہیں۔ 2013 کے الیکشن کے بعد لوکل باڈیز الیکشن میں بھی پیپلزپارٹی پٹ گئی ہے ۔یہ کہنا مناسب ہو گا کہ قومی سطح پر اگر پیپلزپارٹی کو اپوزیشن کی باقی پارٹیوں کو ساتھ لے کرچلنے میں کوئی دلچسپی نہیں توپنجاب کی سطح پر اپوزیشن کی دیگرپارٹیوں کو پیپلز پارٹی کے ساتھ چلنے میں کوئی منفعت نظر نہیں آتی۔ اس تناظر میں یہ باور کرنا کہ پنجاب میں پیپلزپارٹی کی قیادت میں حکومت کے خلاف کوئی گرینڈالائنس بن سکتا ہے، مضحکہ خیز بات ہوگی۔
'چیئرمین بلاول'کی حکومت کے خلاف شعلہ بیانی نے پنجاب میں جیالوں کے خون میں کچھ گرمی پیداکی تھی اور وہ بطوراپوزیشن پیپلزپارٹی کی بحالی کے خواب دیکھنے لگ گئے تھے؛ مگر27 دسمبرکو جو کہ 'چیئرمین بلاول' کی جانب سے حکومت کو ڈیڈلائن تھی، آصف زرداری نے 'چیئرمین ' کی ڈیڈلائن کا ذکر تو دورکی بات، حکومت سے ان کے4 مطالبات کو بھی اس قابل نہیں سمجھا کہ ان کو دہرا ہی دیا جائے۔ ان کے اس تجاہل سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ آصف زرداری 'چیئرمین بلاول' کی 'چیئرمین شپ' کوکتنی اہمیت دیتے ہیں۔ پنجاب کے حالیہ بلدیاتی الیکشن کے نتائج دیکھ کر یہ سمجھنا مشکل نہیں کہ ن لیگ کے خلاف اگر پنجاب میں کوئی مضبوط انتخابی اتحاد قائم نہ ہوا تو پنجاب میں ن لیگ اگلا الیکشن بآسانی جیت سکتی ہے۔
پنجاب میں الیکشن جیتنے کا مطلب ہے کہ وفاق میں بھی ن لیگ کی حکومت ہو گی۔ پنجاب میں ن لیگ کی راہ میں اگرکوئی رکاوٹ ہو سکتی ہے، تو وہ عمران خان اور چوہدری برادران کا 'انتخابی اتحاد' ہے، کیونکہ اس صورت میں اس کو ن لیگ کے ناراض عناصرکی ہمدردیاں بھی مل سکتی ہیں، جیساکہ بلدیاتی الیکشن کے سربراہوں کے الیکشن میں ہوا۔ ملتان میں شاہ محمود قریشی اور جہانگیر ترین کاغذی پہلوان ثابت ہوئے ہیں۔ اس بارے میں حتمی طورپرکچھ کہنامشکل ہے؛ لیکن یہ تسلیم کیے بغیرچارہ نہیں کہ پچھلے آٹھ سال میں پنجاب میں یہ چوہدری برادران اور عمران خان ہی ہیں، جنھوں نے حقیقی اپوزیشن کا کرداراداکیا ہے۔2014 میں طاہرالقادری کے پیچھے اگر چوہدری برادران کھڑے نہ ہوتے توطاہرالقادری کا 'انقلاب مارچ' ظہور پذیر نہیں ہو سکتا تھا، اور طاہرالقادری کا 'انقلاب مارچ' ظہورپذیر نہ ہوتا تو عمران خان کا 'آزادی مارچ' لاہور سے نکل کراسلام آباد پہنچ ہی نہیں سکتا تھا۔
اس طرح جب عمران خان نے 'اسلام آباد لاک ڈاون' کی کال دی تو سوائے چوہدری برادران کے، کسی نے عمران خان کی کھل کرحمایت نہیں کی۔ علاوہ اس کے، چوہدری برادران اور عمران خان کے درمیان ٹیلی فونک رابطوں کے بعد براہ راست ملاقاتیں بھی ہو چکی ہیں، بلکہ جب سپریم کورٹ نے عمران خان سے جوڈیشل کمیشن کے قائم کرنے یانہ کرنے پررائے مانگی تو انھوں نے پرویز الٰہی سے بھی اس بارے میں مشاورت کی۔ پچھلے دنوں جاوید ہاشمی نے عمران خان پر الزامات کی بارش کی، تو اس میں بھی چوہدری برادران ہی نے ان کو ریسکیو کیا۔
مگراس سب کچھ کے باوجودیہ حقیقت اپنی جگہ ہے کہ عمران خان اورچوہدری برادران کے درمیان اب بھی بہت فاصلہ ہے۔ اس کی پہلی وجہ یہ ہے کہ چوہدری برادران پانچ سال تک پنجاب میں برسراقتداررہ چکے ہیں، اورآج بھی جب پنجاب میں شہبازشریف دورکاموازنہ پرویزالٰہی دورہی سے کیاجاتاہے۔ یہ کوئی رازنہیں کہ تب سے پنجاب اوراسلام آبادکی ایسٹیبلشمنٹ چوہدری برادران کے ساتھ رابطے میں ہے۔
عمران خان اس سے خائف ہیں۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ ق لیگ کے جو سیاست دان قلازی کھا کے پی ٹی آئی میں شامل ہو چکے ہیں۔وہ بھی ایکسپوزہونے سے بچنے کے لیے عمران خان اورچوہدری برادران کوانتخابی طور پر ملتے ہوئے نہیں دیکھ سکتے۔ یہ وہ سیاستدان تھے کہ جب تک ق لیگ برسراقتدار تھی، یہ چوہدری برادران سے اسی طرح وفاداری کادم بھرتے تھے، جس طرح آج عمران خان سے وفاداری کادم بھرتے ہیں یہ سمجھنامشکل نہیںکہ پنجاب میں چوہدری برادران اورعمران خان کے درمیان جوفاصلے ہیں، وہ اگر برقراررہتے ہیں اوردونوں پارٹیاں بدستور ایک دوسرے سے کھنچی کھنچی رہتی ہیں تواس کاتمام ترفائدہ ن لیگ کو ہوگا۔ لہٰذا ن لیگ کی پوری کوشش بھی ہے کہ عمران خان اور چوہدری برادران اکٹھے نہ ہونے پائیں۔
حرف آخریہ کہ پنجاب نوازشریف حکومت کاپاوربیس ہے، جس میں ان کامقابلہ آصف زرداری کاگرینڈالائنس نہیں، عمران خان اورچوہدری برادران کاانتخابی اتحاد ہی کر سکتاہے۔ پنجاب میں بلاول بھٹوکی حکومت کے خلاف شعلہ نوائی کوعوامی سطح پراہمیت دی جارہی تھی اورپانامہ لیکس پراحتجاجی سیاست نے ان کوپارٹی امیج بحال کرنے کاموقع بھی مہیاکردیاتھا؛ مگرآصف زرداری نے وطن واپسی پراس طرح ان کی ڈورکھینچی کہ پنجاب میں ان کی سیاست کاستارہ پوری طرح روشنی بکھیرنے سے پہلے ہی بجھ گیاہے؛ اور پنجاب میں اپوزیشن کی سیاست کی کامیابی کادارومداراب مکمل طورپرعمران خان اورچوہدری برادران کے انتخابی اتحاد پررہ گیاہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ یہ بیل بھی منڈھے چڑھتی ہے یا نہیں۔شاعرنے کہاتھا،
لیے جاتی ہے کہیںایک توقع غالب
جادہ رہ کشش کاف ِ کرم ہے ہم کو