ایسا کیوں ہے
ایسا کیوں ہوتا ہے کہ ہم اپنے ہی جیسے انسانوں کے بچوں کو بے دردی سے مارتے پیٹتے ہیں.....
وہ ایک نو دس سال کی بچی ہے۔ ابھی اس کی عمر گڑیوں سے کھیلنے کی ہے، لیکن اسے گھروں میں کام کاج کرنا پڑتا ہے۔ غلطی کی صورت میں اسے مار پیٹ سے دوچار ہونا پڑتا ہے اور کبھی کبھار سزا کے طور پر کھانا بھی بند کردیا جاتا ہے اور اکیلے کمرے میں بند کردیا جاتا ہے۔ ایسا پہلی بار نہیں ہو رہا ہے بلکہ ہمارے یہاں ایسا ہوتا رہا ہے، گھریلو ملازمین کے ساتھ اس قسم کے سلوک سننے میں آتے رہتے ہیں، لیکن جب اس قسم کے حادثات و واقعات بڑے اچھے پڑھے لکھے گھرانوں میں سننے میں آئے تو تعجب نہیں، افسوس ہوتا ہے۔
ایسا کیوں ہوتا ہے کہ ہم اپنے ہی جیسے انسانوں کے بچوں کو بے دردی سے مارتے پیٹتے ہیں، انھیں تشدد کا نشانہ بناتے ہیں، اس کی صرف ایک ہی وجہ ہے۔ خوف قیامت کا ختم ہوجانا۔ جب یہ سمجھ کر یقین کرلیا جائے کہ قیامت تو آنی ہی ہے۔ اور بس اس کے آگے پیچھے اور کچھ بھی نہیں، تو بہت سے خوف نکلتے چلے جاتے ہیں۔ ہم خدا کا شکر ادا کرتے ہیں کہ اشرف المخلوقات میں پیدا ہوئے ہیں، اس کے بعد شکر کی ایک طویل فہرست چلی جاتی ہے، لیکن اس کے ساتھ ہم خود بخود یہ اخذ کرتے چلے جاتے ہیں کہ سب کچھ ہے، شکر ہے، لیکن اس شکر کے لوازمات کو نہیں سمجھتے۔ شکر کے لوازمات کیا ہیں؟
خدا تعالیٰ نے ہمارے اردگرد نعمتوں سے بھری دنیا سجائی ہے، جو مادی اشیا سے لے کر خوبصورت جذبات و احساسات تک پھیلی ہے۔ مثلاً ہم خوش نصیب ہیں کہ پیار کرنے والے والدین ہیں، خیال کرنے والے عزیز و اقارب، بہن بھائی اور بہت سے رشتے ہیں۔ کسی کے لبوں سے ادا کردہ ایک خوبصورت جملہ ہماری شخصیت میں بھرپور انرجی بھر دیتا ہے۔ یہ کیا ہے؟ یہ وہ احساسات و جذبات ہیں جن کا شکر ادا کرنا ہماری فہرست میں شامل ہی نہیں۔ وہ تمام لوگ جو ہمارے لیے اچھا سوچتے ہیں، محبت کرتے ہیں، خیال کرتے ہیں، چاہے برسوں سے ہم ان سے نہیں ملیں لیکن ہم ان کے خیالات میں اچھے لفظوں سے محفوظ ہیں، یا اگر ماضی میں ان کے کسی برے عمل کی وجہ سے وہ آپ کو حال میں یاد آجائیں تو ان کی اس برائی کو نظرانداز کرتے ان کے کسی اچھے عمل کو یاد کریں تو بھی اس میں آپ کے اچھے خیالات پھول سے کھل جاتے ہیں، جو انسان کی شخصیت میں قدرتی طور پر انرجی بھر دیتے ہیں۔
یہ کوئی اتفاق نہیں بلکہ حقیقت ہے، اسے اپنی عملی زندگی میں شامل کرکے دیکھیے، یہ احساس بہت خوبصورت ہے کہ کسی کے برے عمل کو اگر وہ آپ کی یاد میں اسی ناگواری کے ساتھ ابھرے تو اسے بری یاد کے طور پر دل سے لگا کر نہ رکھیے بلکہ اسے کسی اچھی دعا کے ٹیگ کے ساتھ محفوظ کرلیں اور کچھ نہیں تو صرف یہی کہ خدا انھیں نیک ہدایت دے۔ یا ایک بڑے بزرگ بدرالزماں طورسی کی مانند ''خدا انھیں خوف قیامت دے'' کی دعا دے کر بری یاد کے اس سفر سے آگے نکل جائیے۔ ایک بہت آسان اور خوبصورت پریکٹس ہے۔
سائنس کا ایک قانون ہے کہ ہر منفی چارج مثبت چارج کی طرف کشش کرتا ہے۔ اسلام میں بھی کچھ اسی طرح ہے، بلکہ دونوں طرح سے ہے۔ اچھے اعمال خودبخود آپ کے گرد اچھے لوگوں کو جمع کردیں گے یا برے لوگوں کو۔ دونوں میں اچھائی کا پہلو ہے مثلاً یہ کہ خدا کی طرف سے برے لوگوں کی اصلاح کے لیے ایک پہلو پوشیدہ ہے اور دوسرے اچھے لوگوں کی صحبت سے اچھی باتیں سیکھنے کو ملتی ہیں۔ ہم خود کس طرح اپنی اصلاح کرسکتے ہیں؟ یہ سوال مجھ سے کسی نے پوچھا تھا۔ حالانکہ باتیں یوں ہی روزمرہ کے مسائل کی ہورہی تھیں۔
ذہن میں اس وقت یہی جواب ابھرا۔ اگر آپ کے سامنے بیٹھی کوئی شخصیت یا ذہن میں ابھرتی کسی بھی شخصیت کے متعلق آپ کے ذہن میں کوئی منفی بات آرہی ہے تو اسے دھکیلتے ہوئے سوچیے کہ لیکن اس کی فلاں بات اچھی ہے۔ تو کیا ہوا۔ انسان سے غلطی ہوجاتی ہے اور بعض اوقات نہایت معمولی سی غلطی بھی ذہن پر خراشیں ڈال دیتی ہے۔ یہ صرف انسان کا نفس ہے جو اسے دوسرے انسان کے خلاف ابھارنے میں ذرا نہیں چوکتا۔ ہمیں اسی کھیل پر توجہ دینی ہے کہ ایسا کیوں ہے؟ اس پر قابو پانے کا آسان حل۔ خدا کا شکر ادا کرنا ہے۔ ایک بار سرا مضبوطی سے تھام لیں پھر دیکھیے کمال۔
ایک چھوٹی سی بچی پر تشدد کے کیس نے ہماری اعلیٰ اقدار پر بیٹھے لوگوں کی عزت کی کس قدر دھجیاں اڑائیں، اس میں قصور محض ایک خاتون کا ہے لیکن انگلیاں بہت سی جانب اٹھ رہی ہیں۔ نقصان کس کا ہو رہا ہے؟ بس یہی کوشش ہے ان منفی طاقتوں کی جو انسان سے اس انداز سے کام کرواتی ہیں جو وقتی طور پر اس کے اندر ابھرتے جنون، وحشت کو بظاہر پرسکون کرتا ہے لیکن ان چند منٹوں، چند لمحوں، کچھ وقت کی پرسکون لذت کتنے طویل عرصے تک ان سب کو شرمندہ اور پریشان کرتی رہے گی، اس اذیت کا انھیں بخوبی اندازہ ہوا ہوگا۔ کاش ایسا نہ ہوا ہوتا۔ کاش میں یوں کردیتی۔
کاش ایسا ہو جاتا۔ کاش ... ایسے بہت سارے کاش جب دامن میں جمع ہونے لگے تو ان سب کا کنکشن اپنے رب سے کردیں۔ ایک آسان سا حل۔ اور کاش کی وجہ پر توبہ کرکے آگے بڑھیے لیکن ایسا نہ ہو کہ دامن آلودہ ہو اور ایک بار پھر وہی سرد مہری۔ تندی، غرور، اکڑ کہ ان دل کی بیماریوں کا علاج دنیا بھر کے کسی حکیم ڈاکٹر کے پاس نہیں۔ اور یہی انسانی شخصیت کا کینسر ہے، جس کا علاج خود انسان کے پاس ہے اگر وہ اپنا علاج کرنا چاہے تو۔
پتا نہیں اپنے آپ کو کیا سمجھتے ہیں؟ ہمارے معاشرے میں یہ جملہ بہت عام ہے یہ دراصل شکایتی جملہ ہے جس کی جڑ سے اتنی شاخیں نکلتی ہیں جو انسان کو دنیا اور آخرت دونوں میں بڑی آسانی سے رسوا کرسکتی ہیں۔ ذاتی طور پر تقریباً سب کو ہی تجربہ ہوا ہے کہ اگر واقعی کوئی بڑی شخصیت ہے تو اسے یہ سوچ کر آگے بڑھ جائیے کہ شاید وقت نہیں ہوگا۔ یہ نہ سوچیے کہ کسی نے کم سمجھ کر توجہ نہیں دی، یا پتا نہیں اپنے آپ کو کیا سمجھتے ہیں ہونہہ... ارے ہم بھی کیا کسی سے کم ہیں، فلاں فلاں۔ اس طرح دل میں اس شخصیت کے خلاف بلاوجہ کدورت جمع ہوتی رہتی ہے۔
ذرا سوچیے اس جمع شدہ کدورت کا ہماری ذات کو کیا فائدہ۔ نہ ظاہری طور پر اور نہ ہی باطنی طور پر۔ لہٰذا ایسی کدورت کو فارغ ہی کریں جس سے فائدہ ہی نہ ہو۔ اپنے دل کو کم سے کم تکلیف دیں۔ اسے بلا وجہ کسی کی کدورت، حسد، بغض اور عناد سے آلودہ نہ کریں کیونکہ اس آلودگی سے نہ صرف آپ کی شخصیت سے نرمی، خوش اخلاقی اور خوبصورتی رخصت ہوجائے گی بلکہ آپ اپنے جاننے والوں اور گھر والوں میں بھی بدمزاج، غصیلے اور سڑیل ٹائپ کے الفاظوں سے یاد کیے جائیں گے۔
ہمارے رب کے اخلاق بہت اعلیٰ ہیں اور وہ یہی چاہتے ہیں کہ ان کے بندے اخلاق کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑیں تمام پیغمبران و انبیا اور بزرگان اسلام کا اخلاق ملاحظہ فرمائیں آج مغرب ترقی یافتہ، مہذب کہلاتا ہے تو کیوں؟ ہمارے پاس کس چیز کی کمی ہے سوچیے...! معاف کردینے میں عظمت ہے۔ اچھا سوچیے اپنے لیے اور اپنے اردگرد لوگوں کے لیے کہ اس میں کون سے پیسے خرچ ہوتے ہیں اور شکر ادا کیجیے اپنے رب کا کہ اس میں بھی پیسے خرچ نہیں ہوتے۔ تجربہ ہی کرکے دیکھ لیں۔