فیملی پلاننگ کو بھی سی پیک کا حصہ بنایا جائے
کرکٹ کے کھیل کو بھی سی پیک کا حصہ بنایا جائے...
پاکستان میں آج کل جس بات کا سب سے زیادہ چرچا ہے اور جو لفظ سب سے زیادہ استعمال ہورہاہے وہ سی پیک ہے، حکمران پارٹی سے لے کر حزب اختلاف کی جماعتوں تک ہر ایک سیاسی جماعت اور لیڈر سی پیک منصوبے میں دلچسپی لے رہے ہیں۔ حکومت کا دعویٰ ہے کہ سی پیک سے ملک کی تقدیر بدل جائے گی۔ جب کہ سی پیک کے بارے میں حزب اختلاف کی جماعتوں اور رہنماؤں کا رویہ بھی خاصا مثبت اور معتدل ہے۔
کچھ یہ بات بھی ہے کہ جو لوگ ہر بات پر تنقید کرتے ہیں انھیں سی پیک کی کوئی ایسی کمزوری ہاتھ نہیں آرہی جسے وہ تنقید کا نشانہ بناسکیں۔ بہت سوں کو شاید سی پیک کا منصوبہ اچھی طرح سمجھ میں نہیں آیا، پھر برادر ملک عوامی جمہوریہ چین کے اس منصوبے میں شریک کار ہونے کی وجہ سے بھی بیشتر لوگوں کا رویہ نرم پڑجاتا ہے، کیونکہ ظاہر ہے ایسے برادر ملک سے ہرگز یہ توقع نہیں کی جاسکتی کہ وہ پاکستان کے مفاد کے خلاف کسی منصوبے پر عمل کرے گا۔
ہم بھی جب آج سی پیک پر لکھنے کی کوشش کررہے ہیں تو ہمیں اس کا کوئی سرا ہاتھ نہیں لگ رہا جس سے ہم اپنی بات شروع کریں، ہاں ہمیں یہ ٹرینڈ ضرور نظر آرہاہے کہ ہمارے ملک کا ہر خطہ اور صوبہ اپنے اپنے علاقے کے منصوبے سی پیک میں شامل کرنے کے لیے بے تاب نظر آتا ہے۔ تازہ ترین منصوبہ کراچی سرکلر ریلوے کا ہے، جسے سی پیک میں شامل کرنے کا مطالبہ کیا گیا اور جسے شاید منظور بھی کرلیا گیا ہے۔
سچی بات ہے کچھ تو سی پیک خاصا لچکدار واقع ہوا ہے اور کچھ اسے لانچ کرنے والے خاصے فراخ دل ہیں، جو کسی مطالبے پر بھی ''نہ'' نہیں کہتے، بلکہ اپنے چینی بھائیوں کے بل بوتے پر فوراً حامی بھرلیتے ہیں، اسی لیے ہمیں بھی قومی اہمیت کے ایک اہم معاملے کے لیے سی پیک کا دروازہ کھٹکھٹانے کی ہمت ہوئی ہے۔
ہمارا مطالبہ یہ ہے کہ فیملی پلاننگ کو بھی سی پیک کا ایک حصہ بنا دیا جائے، کیونکہ جو لوگ یہ چیلنج قبول کرسکتے ہیں وہ ہمارے چینی بھائی ہیں، جو اپنے دنیا کے سب سے زیادہ آبادی والے ملک میں یہ مشکل کام انجام دے چکے ہیں۔ اگر اس بڑھتی ہوئی آبادی پر ابھی سے بند نہیں باندھا گیا تو ترقی و خوشحالی کے سارے منصوبے دھرے رہ جائیں گے۔
ہمارے ملک میں آبادی میں اضافے کی شرح آسمان سے باتیں کررہی ہے، جسے روکنے کی نجی، سرکاری اور عوامی سطح پر کی جانے والی کوششیں نہ ہونے کے برابر ہیں۔ کم بچے خوشحال گھرانے کا تصور بدقسمتی سے ہمارے ملک کے عوام کی اکثریت کے لیے ناقابل قبول ہے، جس کا بڑا سبب ناخواندگی ہے۔ ظاہر ہے پڑھے لکھے لوگوں میں ہی یہ کامن سینس ہوسکتا ہے کہ اگر آبادی بڑھتی رہی تو ملک دستیاب پانی، بجلی اور دیگر سہولتیں ناکافی ہوجائیںگی۔
اسی طرح ہر سال تعلیمی اداروں سے فارغ التحصیل ہونے والے نوجوانوں کی تعداد اگر مناسب ہوگی تو نجی اور سرکاری سطح پر ان کے لیے روزگار کا بہتر بندوبست کیا جاسکے گا۔ بیروزگاری کم ہوگی تو بیراہ روی اور جرائم کی شرح بھی کم ہوگی۔
دنیا بھر میں عام طور پر وہی ممالک زیادہ ترقی یافتہ اور خوشحال نظر آتے ہیں، جن کی آبادی کم ہے، اس سلسلے میں چین کو ایک استثنیٰ قرار دیا جاسکتا ہے جس نے دنیا کی سب سے بڑی آبادی والا ملک ہونے کے باوجود بے مثال ترقی کی ہے اور ترقی کی اس منزل تک پہنچنے کے لیے چینی حکومت نے جو پہلا کام کیا وہ آبادی میں اضافے کی شرح پر قابو پانا تھا۔ چنانچہ چینی حکومت نے اپنے عوام کو کچھ تو سمجھا بجھاکر اور کچھ زور زبردستی کرکے ''ایک فیملی ایک یا دو بچے'' کے تصور کو منوالیا، جب کہ دوسرے بچے کی بھی اب آکر اس لیے اجازت دی ہے کہ گھر میں ایک لڑکے یا لڑکی کے تنہا پرورش پانے سے نفسیاتی مسائل پیدا ہورہے تھے۔
اسی لیے سچی بات ہے ہم پاکستان میں بھی اپنے چینی بھائیوں کی طرف بڑی پرامید نگاہوں سے دیکھ رہے ہیںکہ وہ دنیا جہان کی دوسری اچھی باتوں کی طرح فیملی پلاننگ کو بھی سی پیک کا حصہ بنائیںگے اور لوگوں کو قائل معقول کریںگے کہ ایک آئیڈیل فیملی وہی ہوتی ہے جو ایک یا دو بچوں پر مشتمل ہوتی ہے۔ خاص طور پر مستقبل میں ہمیں تعلیم صحت، ٹرانسپورٹ اور دیگر شعبوں میں آگے چل کر پیش آنے والے چیلنجوں کا سامنا کرنا ہے تو کم از کم اب ہمیں چھوٹے گھرانوں کے CENCEPT کو قابل قبول بلکہ مقبول بنانا ہوگا اور اس سلسلے میں غلط مذہبی سوچ کی اصلاح کرنی ہوگی اور سعودی عرب اور ایران کے ماڈل سامنے رکھ کر اپنے علمائے کرام کا بھی تعاون حاصل کرنا ہوگا۔
اگر فیملی پلاننگ سی پیک کا حصہ بن گئی تو سب سے پہلے تو اس شعبے کے لیے وافر مقدار میں فنڈز مہیا ہوجائیںگے اور لوگوں کو یہ پیشکش کی جاسکے گی کہ آیندہ تعلیم صحت اور روزگار کی سہولتیں زیادہ تر چھوٹے گھرانوں کے لیے ہوںگی جن کو آگے بڑھنے کے لیے خصوصی INCENTIVES دیے جائیںگے۔ مثلاً اگر کسی گھر میں صرف ایک لڑکا ہو تو اس کی تعلیم اور روزگار کا بندوبست کرنا اسٹیٹ کی ذمے داری ہوگی۔
جب ہم اپنا یہ کالم ختم کرنے والے تھے تو ہمیں یہ مطالبہ بھی سننے کو ملا کہ کرکٹ کو بھی سی پیک کا حصہ بنایا جائے۔ سچی بات ہے لوگ سی پیک کو ایک قسم کا تریاق اور ہر مسئلے کا حل سمجھنے لگے ہیں۔ ہماری قومی کرکٹ ٹیم کچھ ہی دن پہلے حسب روایت یا حسب معمول آسٹریلیا سے شرمناک شکست سے دو چار ہوئی ہے۔ قدرتی طور پر کرکٹ کے شائقین سخت مایوسی کا شکار ہیں کیونکہ قومی کرکٹ ٹیم نے یہ شکست بغیر کسی مزاحمت کی زحمت اٹھائے بڑے آرام سے کھائی ہے یوں لگتا ہے کہ عام کھلاڑی سے لے کر کپتان تک وسیم اکرم جیسے جہاندیدہ بیٹسمین کے مشورے کے باوجود ٹیم کی جان چھوڑنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔
اسی لیے کسی نے یہ شوشا چھوڑا ہے کہ کرکٹ کے کھیل کو بھی سی پیک کا حصہ بنایا جائے ان خبروں کے مطابق جن کی فی الحال تصدیق نہیں ہوسکی، ہمارے چینی بھائی اس مطالبے پر بھی خاصے سنجیدہ ہوگئے ہیں اور انھوں نے یہ پیشکش کی ہے کہ سی پیک کے فنڈز سے ہر شہر میں بین الاقوامی معیار کا ایک کرکٹ اسٹیڈیم تعمیر کیا جاسکتا ہے اور جہاں جہاں سے سی پیک کا گزر ہو وہاں سے باصلاحیت بولرز اور بیٹسمین پیدا کیے جاسکتے ہیں جو اچھے فیلڈر بھی ہوںگے۔ اس کے ساتھ ہی دنیا کے مختلف ملکوں کو سی پیک منصوبے میں حصہ داری کا لالچ دے کر اپنی کرکٹ ٹیمیں پاکستان بھیجنے پر مجبور کیا جاسکتا ہے کیونکہ بعض دوسری ٹیموں کی طرح ہماری ٹیم بھی اپنے میدانوں میں زیادہ شیر ہوتی ہے اور بڑی سے بڑی ٹیموں کو ٹھکانے لگادیتی ہے مگر بدقسمتی سے کئی برسوں سے اسے دنیا کی مختلف ٹیموں کو بلاکر بدلہ لینے کا موقع ہی نہیں مل رہا ہے۔