بیماری ہماری ذات میں ہے
اصل خرابی ہماری سوچ اور رویے میں ہے۔ ہم جسمانی طور پر بیسوی صدی میں رہتے ہیں....
قرارداد مقاصد کی منظوری کے دن ہی پتہ لگ گیا تھا کہ آگے چل کر خسارے ہی خسارے ہوں گے، لیکن یہ یقین نہ تھا کہ سارے کے سارے ہمارے ہی ہوں گے۔ پھر خسارے بڑھتے ہی چلے گئے۔ ہم ہر خسارے پر چلاتے رہے، وقت کے ساتھ ساتھ ہمارا چلانا بڑھتا ہی چلا گیا، اتنا چلائے کہ پھر ہماری آواز ہی گم ہوگئی اور پھر ہر طرف سناٹے ہی سناٹے ہوگئے، اور بات چلانے سے سرگوشیوں تک جا پہنچی۔
آج جس سے بات کرلو، وہ سرگوشی کرتا ہوا ملے گا، روتا ہوا ہی ملے گا، کبھی بدعنوان حکمرانوں کا رونا رو رہا ہوگا، کبھی کرپشن اور لوٹ مار کی دہائیاں دے رہا ہوگا، کبھی انتہا پسندی اور دہشتگردی کی سرگوشی کررہا ہوگا، کبھی لوڈشیڈنگ، کبھی پانی اور گیس کی قلت کی اور کبھی بدنظمی اور بدامنی کا رونا رو رہا ہوگا۔ غرض ہر اس چیز پر جو اس کی زندگی کے لیے عذاب بن چکی ہے رو رہا ہوتا ہے اور ہر بات کے آخر میں یہ کہہ رہا ہوتا ہے کہ یہ سب کچھ کیوں ہورہا ہے، یہ سب کچھ کب ختم ہوگا؟ آخر زیادتیوں اور ناانصافیو ں کی ایک حد ہوتی ہے اور اس حد کے اس پار پھر خوشحالی، چین، امن، ترقی اور سکون ہی ہوتا ہے، لیکن 69 سال گزرنے کے باوجود ہم ان حدوں کے اس پار کیوں نہیںپہنچ پا رہے ہیں، کیوں نہیں ہمارا سفر ختم ہورہا ہے۔
یاد رکھیں، ہم کبھی بھی اپنے اسی رویے اور سوچ کے ساتھ اس پار نہیں پہنچ پائیں گے، کیونکہ ہماری اسی سوچ اور رویے نے ہمارے پاؤں میں بیڑیاں ڈال رکھی ہیں۔ اصل میں ہم ساری زندگی اس کیوں کے پیچھے پڑے رہے ہیں اور وہ بھی ہاتھ پاؤں دھو کر۔ ہم نے کبھی یہ جاننے کی کوشش ہی نہیں کی کہ آخر یہ سب کچھ ہو کیوں رہا ہے۔ یاد رکھیں، اصل مسئلہ 'کیوں' میں نہیں بلکہ 'آخر کیوں' میں ہوتا ہے۔
ہم نے اپنی ساری زندگی علامات کو کوستے کوستے ختم کردی ہے، ہم نے کبھی اس کیوں کو جاننے، سمجھنے اور اس کے پیچھے دیکھنے کی کوشش ہی نہیں کی، ہماری دلچسپی ہمیشہ ہی سے بیماری کے خاتمے میں نہیں بلکہ علامات کے خاتمے میں رہی۔ جس طرح اگر کسی شخص کے جسم میں کہیں درد اٹھے یا اسے بخار ہوجائے اور وہ روایتی درد کی دوا کھاتا رہے اور وقتی طور پر سکون حاصل کرتا ہے تو ایسے شخص کو آپ کیا کہیں گے؟ ظاہر ہے کہ درد یا بخار تو ایک علامت ہے، بیماری نہیں اور یہی حال ہمارا ہوا ہے۔ ہم نے کبھی بھی اپنی اصل بیماری کی طرف توجہ ہی نہیں دی، جس کا نتیجہ آج ہم سب بھگت رہے ہیں۔
اصل خرابی ہماری سوچ اور رویے میں ہے۔ ہم جسمانی طور پر بیسوی صدی میں رہتے ہیں لیکن سوچ اور رویے کے لحاظ سے ہم آج بھی 14 ویں صدی میں زندہ ہیں اور سونے پہ سہاگہ یہ کہ ہم یہ سمجھے بیٹھے ہیں کہ دنیا 14 ویں صدی سے آگے ہی نہیں بڑھی۔
ہمارے تمام مسئلوں کی اصل جڑ اور بیماری ہماری اپنی ذات میں ہے۔ پوری دنیا بیسویں صدی میں ہے اور ہم دوسری طرف 14 ویں صدی میں کھڑے پوری دنیا کو برا بھلا کہنے میں مصروف ہیں اور ہمیں اس بات پر 100 فیصد یقین ہے کہ ہم صحیح اور دنیا غلط ہے، کیونکہ ہم اپنے آپ کو اپنی نگاہ سے دیکھ رہے ہیں، نہ کہ دوسروں کی نگاہ سے۔ اسی وجہ سے ساری دنیا ہم سے ڈر کر دور بھاگتی ہے۔ ہم دنیا بھر میں تنہا رہ گئے ہیں، جب بھی ہم دنیا کے ساتھ چلنے کی کوشش کرتے ہیں تو ہمارے سماج کے بنیاد پرست، رجعت و قدامت پرست ٹھیکیدار ہمارے سامنے دیوار بن کر کھڑ ے ہوجاتے ہیں۔
آپ نے Autism میں مبتلا ٹیمپل گرینڈن کی کہانی تو سن رکھی ہوگی۔ گرینڈن 1990ء کی دہائی میں دنیا بھر بہت نام کما چکی تھی، اکثر اسے لیکچر دینے کے لیے بلایا جاتا، جن میں زیادہ تر اس کا موضوع پیشہ ورانہ تجربات، خودپسندی، Autism کی بیماری پر قابو پانا اور حیوانی رویوں سے متعلق ہوتے تھے۔ اس کے لیکچرز زبردست جارہے تھے، وہ معلومات سے بھرپور ہوتے تھے، مگر ایسے چند لیکچرز کے بعد اس کے سامعین نے اس کے لیکچرز پر اپنی جس رائے کا اظہار کیا وہ اس کے لیے بڑی اذیت ناک تھی۔ لوگوں کو شکایت تھی کہ وہ براہ راست لوگوں کی آنکھوں میں آنکھیں نہیں ڈالتی اور مشینی انداز میں اپنے نوٹس پڑھتے ہی چلی جاتی ہے اور بدتمیزی کی حد تک سامعین کو اپنے ساتھ شامل کرنے سے گریز کرتی ہے۔
حیران کن طور پر گرینڈن اس بات پر ذرا بھی پریشان نہ ہوئی، الٹا لوگوں کی رائے نے اس کے اندر اور جوش و خروش پیدا کردیا، کیونکہ لوگوں نے اسے جیسے دیکھا اس کی حقیقی تصویر انھوں نے اسے بھی دکھا دی۔ اپنی غلطیوں کی اصلاح کے لیے اسے ایسی ہی رائے کی تو ضرورت تھی، بڑی تعداد میں ملنے والے فیڈبیک کی مدد سے اپنی خامیوں کا جائزہ لینے کے بعد اس نے اپنے لیکچر کے اسٹائل میں تبدیلیاں کر ڈالیں۔ ان میں واقعات اور لطائف شامل کیے، اپنے لیکچرز کا دورانیہ کم کردیا، خود کو نوٹس کے بغیر بولنے کی مشق کروائی اور ہر لیکچر کے اختتام پر سامعین کی طرف سے آنے والے تمام سوالات کے تسلی بخش جواب دینے شروع کردیے۔
اس کے ابتدائی لیکچرز سننے والے لوگ جب دوبارہ اس کے لیکچرز کے سامعین میں شامل ہوتے تو انھیں یقین نہ آتا کہ یہ وہی گرینڈن ہے، اب وہ لوگوں کو ہنساتی بھی تھی اور اپنے ساتھ لیکچر میں شامل بھی رکھتی تھی اور ایک لمحے کے لیے سامعین کی توجہ ادھر ادھر نہ ہونے دیتی۔ لوگ حیران تھے کہ اس میں یہ معجزانہ تبدیلی کیسے آئی۔ اصل میں بالکل سیدھی سادی سی بات ہے، پہلے گرینڈن اپنے آپ کو اپنی نگاہ سے دیکھتی تھی، اس لیے اس کی ساری خامیاں اور برائیاں اس سے چھپی ہوئی تھیں اور جیسے ہی اس نے اپنے آپ کو دوسروں کی نگاہوں سے دیکھنا شروع کیا، تو اسے اپنے تمام نقائص نظر آگئے، جو اس سے پہلے اس کی نظروں سے اوجھل تھے۔
لوگ ہمارے رویے کو باہر سے دیکھ رہے ہوتے ہیں، اسی لیے ہمارے بارے میں لوگوں کا تاثر ہمارے اپنے تاثر سے بالکل مختلف ہوتا ہے۔ اگر ہم سب Autism بیماری میں ہی مبتلا رہنا چاہتے ہیں تو الگ بات ہے، لیکن اگر ہم اپنی بیماری اور اپنے عذابوں سے بیزار آچکے ہیں تو پھر آئیے، اپنے آپ کو اپنی نگاہوں سے نہیں بلکہ دنیا بھر کی نگاہوں سے دیکھنا شروع کردیجیے اور جس وقت آپ اپنے آپ کو دنیا کی نگاہوں سے دیکھنا شروع کردیں گے تو آپ کی ساری خرابیاں، برائیاں اور نقائص آپ کے سامنے آکر مسکرا رہے ہوں گے، پھر آپ ان کے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں، یہ آپ پر منحصر ہے۔
آج جس سے بات کرلو، وہ سرگوشی کرتا ہوا ملے گا، روتا ہوا ہی ملے گا، کبھی بدعنوان حکمرانوں کا رونا رو رہا ہوگا، کبھی کرپشن اور لوٹ مار کی دہائیاں دے رہا ہوگا، کبھی انتہا پسندی اور دہشتگردی کی سرگوشی کررہا ہوگا، کبھی لوڈشیڈنگ، کبھی پانی اور گیس کی قلت کی اور کبھی بدنظمی اور بدامنی کا رونا رو رہا ہوگا۔ غرض ہر اس چیز پر جو اس کی زندگی کے لیے عذاب بن چکی ہے رو رہا ہوتا ہے اور ہر بات کے آخر میں یہ کہہ رہا ہوتا ہے کہ یہ سب کچھ کیوں ہورہا ہے، یہ سب کچھ کب ختم ہوگا؟ آخر زیادتیوں اور ناانصافیو ں کی ایک حد ہوتی ہے اور اس حد کے اس پار پھر خوشحالی، چین، امن، ترقی اور سکون ہی ہوتا ہے، لیکن 69 سال گزرنے کے باوجود ہم ان حدوں کے اس پار کیوں نہیںپہنچ پا رہے ہیں، کیوں نہیں ہمارا سفر ختم ہورہا ہے۔
یاد رکھیں، ہم کبھی بھی اپنے اسی رویے اور سوچ کے ساتھ اس پار نہیں پہنچ پائیں گے، کیونکہ ہماری اسی سوچ اور رویے نے ہمارے پاؤں میں بیڑیاں ڈال رکھی ہیں۔ اصل میں ہم ساری زندگی اس کیوں کے پیچھے پڑے رہے ہیں اور وہ بھی ہاتھ پاؤں دھو کر۔ ہم نے کبھی یہ جاننے کی کوشش ہی نہیں کی کہ آخر یہ سب کچھ ہو کیوں رہا ہے۔ یاد رکھیں، اصل مسئلہ 'کیوں' میں نہیں بلکہ 'آخر کیوں' میں ہوتا ہے۔
ہم نے اپنی ساری زندگی علامات کو کوستے کوستے ختم کردی ہے، ہم نے کبھی اس کیوں کو جاننے، سمجھنے اور اس کے پیچھے دیکھنے کی کوشش ہی نہیں کی، ہماری دلچسپی ہمیشہ ہی سے بیماری کے خاتمے میں نہیں بلکہ علامات کے خاتمے میں رہی۔ جس طرح اگر کسی شخص کے جسم میں کہیں درد اٹھے یا اسے بخار ہوجائے اور وہ روایتی درد کی دوا کھاتا رہے اور وقتی طور پر سکون حاصل کرتا ہے تو ایسے شخص کو آپ کیا کہیں گے؟ ظاہر ہے کہ درد یا بخار تو ایک علامت ہے، بیماری نہیں اور یہی حال ہمارا ہوا ہے۔ ہم نے کبھی بھی اپنی اصل بیماری کی طرف توجہ ہی نہیں دی، جس کا نتیجہ آج ہم سب بھگت رہے ہیں۔
اصل خرابی ہماری سوچ اور رویے میں ہے۔ ہم جسمانی طور پر بیسوی صدی میں رہتے ہیں لیکن سوچ اور رویے کے لحاظ سے ہم آج بھی 14 ویں صدی میں زندہ ہیں اور سونے پہ سہاگہ یہ کہ ہم یہ سمجھے بیٹھے ہیں کہ دنیا 14 ویں صدی سے آگے ہی نہیں بڑھی۔
ہمارے تمام مسئلوں کی اصل جڑ اور بیماری ہماری اپنی ذات میں ہے۔ پوری دنیا بیسویں صدی میں ہے اور ہم دوسری طرف 14 ویں صدی میں کھڑے پوری دنیا کو برا بھلا کہنے میں مصروف ہیں اور ہمیں اس بات پر 100 فیصد یقین ہے کہ ہم صحیح اور دنیا غلط ہے، کیونکہ ہم اپنے آپ کو اپنی نگاہ سے دیکھ رہے ہیں، نہ کہ دوسروں کی نگاہ سے۔ اسی وجہ سے ساری دنیا ہم سے ڈر کر دور بھاگتی ہے۔ ہم دنیا بھر میں تنہا رہ گئے ہیں، جب بھی ہم دنیا کے ساتھ چلنے کی کوشش کرتے ہیں تو ہمارے سماج کے بنیاد پرست، رجعت و قدامت پرست ٹھیکیدار ہمارے سامنے دیوار بن کر کھڑ ے ہوجاتے ہیں۔
آپ نے Autism میں مبتلا ٹیمپل گرینڈن کی کہانی تو سن رکھی ہوگی۔ گرینڈن 1990ء کی دہائی میں دنیا بھر بہت نام کما چکی تھی، اکثر اسے لیکچر دینے کے لیے بلایا جاتا، جن میں زیادہ تر اس کا موضوع پیشہ ورانہ تجربات، خودپسندی، Autism کی بیماری پر قابو پانا اور حیوانی رویوں سے متعلق ہوتے تھے۔ اس کے لیکچرز زبردست جارہے تھے، وہ معلومات سے بھرپور ہوتے تھے، مگر ایسے چند لیکچرز کے بعد اس کے سامعین نے اس کے لیکچرز پر اپنی جس رائے کا اظہار کیا وہ اس کے لیے بڑی اذیت ناک تھی۔ لوگوں کو شکایت تھی کہ وہ براہ راست لوگوں کی آنکھوں میں آنکھیں نہیں ڈالتی اور مشینی انداز میں اپنے نوٹس پڑھتے ہی چلی جاتی ہے اور بدتمیزی کی حد تک سامعین کو اپنے ساتھ شامل کرنے سے گریز کرتی ہے۔
حیران کن طور پر گرینڈن اس بات پر ذرا بھی پریشان نہ ہوئی، الٹا لوگوں کی رائے نے اس کے اندر اور جوش و خروش پیدا کردیا، کیونکہ لوگوں نے اسے جیسے دیکھا اس کی حقیقی تصویر انھوں نے اسے بھی دکھا دی۔ اپنی غلطیوں کی اصلاح کے لیے اسے ایسی ہی رائے کی تو ضرورت تھی، بڑی تعداد میں ملنے والے فیڈبیک کی مدد سے اپنی خامیوں کا جائزہ لینے کے بعد اس نے اپنے لیکچر کے اسٹائل میں تبدیلیاں کر ڈالیں۔ ان میں واقعات اور لطائف شامل کیے، اپنے لیکچرز کا دورانیہ کم کردیا، خود کو نوٹس کے بغیر بولنے کی مشق کروائی اور ہر لیکچر کے اختتام پر سامعین کی طرف سے آنے والے تمام سوالات کے تسلی بخش جواب دینے شروع کردیے۔
اس کے ابتدائی لیکچرز سننے والے لوگ جب دوبارہ اس کے لیکچرز کے سامعین میں شامل ہوتے تو انھیں یقین نہ آتا کہ یہ وہی گرینڈن ہے، اب وہ لوگوں کو ہنساتی بھی تھی اور اپنے ساتھ لیکچر میں شامل بھی رکھتی تھی اور ایک لمحے کے لیے سامعین کی توجہ ادھر ادھر نہ ہونے دیتی۔ لوگ حیران تھے کہ اس میں یہ معجزانہ تبدیلی کیسے آئی۔ اصل میں بالکل سیدھی سادی سی بات ہے، پہلے گرینڈن اپنے آپ کو اپنی نگاہ سے دیکھتی تھی، اس لیے اس کی ساری خامیاں اور برائیاں اس سے چھپی ہوئی تھیں اور جیسے ہی اس نے اپنے آپ کو دوسروں کی نگاہوں سے دیکھنا شروع کیا، تو اسے اپنے تمام نقائص نظر آگئے، جو اس سے پہلے اس کی نظروں سے اوجھل تھے۔
لوگ ہمارے رویے کو باہر سے دیکھ رہے ہوتے ہیں، اسی لیے ہمارے بارے میں لوگوں کا تاثر ہمارے اپنے تاثر سے بالکل مختلف ہوتا ہے۔ اگر ہم سب Autism بیماری میں ہی مبتلا رہنا چاہتے ہیں تو الگ بات ہے، لیکن اگر ہم اپنی بیماری اور اپنے عذابوں سے بیزار آچکے ہیں تو پھر آئیے، اپنے آپ کو اپنی نگاہوں سے نہیں بلکہ دنیا بھر کی نگاہوں سے دیکھنا شروع کردیجیے اور جس وقت آپ اپنے آپ کو دنیا کی نگاہوں سے دیکھنا شروع کردیں گے تو آپ کی ساری خرابیاں، برائیاں اور نقائص آپ کے سامنے آکر مسکرا رہے ہوں گے، پھر آپ ان کے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں، یہ آپ پر منحصر ہے۔