زبردستی کا راضی نامہ…ایک وحشت ناک کلچر اسلامی قوانین کا غلط استعمال فساد فی الارض ہے سابق چیف جسٹس کے ر?

یہ میڈیا ہی کا کریڈٹ ہے کہ دردندگی کا نشانہ بننے والی ایسی ملازماؤں کے واقعات سامنے آرہے ہیں۔


عبید اللہ عابد January 11, 2017
یہ میڈیا ہی کا کریڈٹ ہے کہ دردندگی کا نشانہ بننے والی ایسی ملازماؤں کے واقعات سامنے آرہے ہیں،: فوٹو : فائل

ABERDEEN: یہ دسمبر2016 کی ایک آخری سردشام تھی جب وفاقی دارالحکومت یں ایک ایڈیشنل سیشن جج کی گھریلو ملازمہ پر بدترین تشدد کا ایک لرزہ خیز واقعہ منظرعام پر آیا۔

اُس روز 'ایکسپریس نیوز'نے اپنی مفصل خبر میں بتایا کہ ملازمت کرنے والی بچی طیبہ پر تشدد کے واضح ثبوت ملے ہیں۔ ٹی وی چینل نے پمز ہسپتال سے جاری ہونے والی ابتدائی رپورٹ کا حوالہ دیا کہ ننھی ملازمہ کو بُری طرح سے تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ پمز ہسپتال کے میڈیکو لیگل افسر نے انکشاف کیا کہ بچی کا طبی معائنہ کیا گیا جس میں ثابت ہوا کہ ملازمہ کے ہاتھ ، ناک ، ماتھے اور آنکھ پر زخم آئے ہیں جبکہ طیبہ کے ہاتھ پر جلنے کے نشانات بھی تازہ تھے۔ میڈیکل رپورٹ جاری ہونے کے بعد جج اور ان کی اہلیہ کے خلاف مقدمہ بھی درج کرلیا گیا ۔

دوسری جانب رجسٹرار ہائیکورٹ راجہ جواد حسن عباس کے روبرو ایڈیشنل سیشن جج ، ایس ایچ او تھانہ آئی نائن اور تفتیشی افسر پیش ہوئے۔ رجسٹرار ہائی کورٹ کے سامنے ایڈیشنل سیشن جج نے ویڈیو بیان قلمبند کرایا جس میں انہوں نے اپنے جرم سے انکار کردیا۔ چار روز بعد اچانک یہ خبر آئی کہ حاضر سروس ایڈیشنل سیشن جج خرم علی خان اور ان کی اہلیہ کے ہاتھوں مبینہ طور پر تشدد کا شکار ہونے والی کمسن بچی طیبہ کے والدین نے اپنا کیس واپس لینے کے لئے ملزمان سے راضی نامہ کرلیا ہے۔ طیبہ کے والد کا کہنا تھا کہ یہ راضی نامہ کسی بھی دباؤ کے بغیر ہوا، ہم نے جج کو معاف کردیا اور راضی نامہ لکھ کر عدالت میں جمع کرادیا ہے۔ راضی نامہ میں لکھاگیا:

''طیبہ نابالغہ بعمر 10سال میری حقیقی بیٹی ہے۔ مقدمہ مذکورہ بالا تھانہ آئی نائن میں میڈیا رپورٹ پر بزبان نابالغہ طیبہ درج ہوا ہے۔ مقدمہ مذکورہ بالا غلط اور بے بنیاد واقعات پر درج کیاگیاہے جس کی میں نے ازخود تحقیق کرلی ہے جس بناء پر میں نے راجہ خرم علی خان ولد راجہ سلیم احمد خان و مسماۃ ماہین ظفر زوجہ راجہ خرم علی خان کے ساتھ مکمل طور پر برضاورغبت بغیر کسی دباؤ کے راضی نامہ کرلیاہے اور مقدمہ ہذا میں فی سبیل اللہ معاف کردیاہے۔

اگر مقدمہ ہذا میں راجہ خرم علی خان ولد راجہ سلیم احمد خان و مسماۃ ماہین ظفر زوجہ راجہ خرم علی خان کی ضمانت منظور فرمائی جائے یا ان کو مقدمہ ہذا سے بری فرمادیاجائے تو من محلف کو کوئی عذر نہ ہوگا۔ من محلف غلط خبر چلانے پر غلط رپورٹنگ میں ملوث افراد کے خلاف کارروائی کا حق محفوظ رکھتاہے۔ مذکورہ بالا دونوں افراد (1) راجہ خرم علی خان ولد راجہ سلیم احمد خان ،(2) مسماۃ ماہین ظفر زوجہ راجہ خرم علی خان کے خلاف کسی قسم کی قانونی کارروائی نہ کروانا چاہتاہے اور نہ مقدمہ کی پیروی کرنا چاہتاہے۔''

راضی نامہ جمع ہونے کے بعد کیس نے اُس وقت نیا رخ اختیار کرلیا جب بچی کے سرپرست ہونے کے 3 دعویدار سامنے آگئے جو خود کو بچی کا والدین بتارہے تھے۔ چنانچہ پولیس حکام نے فیصلہ کیا کہ وہ بچی کے والدین کی اصل نشاندہی کے لئے بچی اور دعویدار والدین کے ڈی این اے ٹیسٹ کرائیں گے، جس کے بعد تشدد کیس، راضی نامہ اور بچی کی حوالگی کا حتمی فیصلہ کیا جائے گا۔یادرہے کہ یہ راضی نامہ مسماۃ ماہین ظفر کی طرف سے درخواست ضمانت قبل از گرفتاری کے ساتھ جناب ایڈیشنل سیشن جج(ویسٹ) اسلام آباد کی عدالت میں پیش کیاگیا۔ تاہم اس میں چند ایسے تضادات ثابت کررہے تھے کہ راضی نامہ دراصل اس سارے معاملے کو چھپانے اور دبانے کی کوشش ہے۔

بچی کے والد نے 10 روپے کے بیانِ حلفی پر اس میں مقدمہ کو جھوٹا قراردیا، اس ''جھوٹ'' کی ذمہ داری میڈیا پر عائد کی اور اس کے خلاف کارروائی کا مطالبہ بھی کیا لیکن اس ساری کوشش کا مضحکہ خیز پہلو یہ تھا کہ''راضی نامہ'' تیار کرانے و الوں نے لکھوا دیا کہ ''میں نے فی سبیل اللہ معاف کردیاہے''۔۔۔۔سوال یہ تھا کہ اگر مقدمہ جھوٹا تھا تو ''راضی نامہ'' کیوں؟ اور معافی کس بات پردی گئی؟ دوسری طرف پمز ہسپتال کی رپورٹ بھی موجود تھی جس میں تشدد کے واضح ثبوتوں کا ذکر موجود تھا۔اس رپورٹ کی موجودگی میں بچی کا والد کہہ رہاتھا کہ بچی کو سیڑھی سے گرنے کے سبب زخم آئے۔ بچی کی تصاویر دیکھ کر کون یقین کرسکتاتھا کہ یہ سیڑھی سے گری ہے کیونکہ سیڑھی سے گرنے سے ایسے زخم نہیں ہوتے۔ بہرحالگرفتار سیشن جج کی اہلیہ کی درخواست ضمانت پر کیس کی سماعت کرنے والے ایڈیشنل سیشن جج راجا آصف محمود نے 30 ہزار روپے کے مچلکوں کے عوض مسماۃ مہرین ظفر کی ضمانت منظور کرلی ۔

پانچ جنوری کو سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس مسٹر جسٹس ثاقب نثار نے اس درندگی کا ازخودنوٹس لیتے ہوئے طیبہ کیس اگلے روز(یعنی 6جنوری کو)کھلی عدالت میں سننے کا فیصلہ کیا۔فاضل چیف جسٹس نے رجسٹرار اسلام آباد ہائی کورٹ کی رپورٹ کے جائزے کے بعد کیس کو عدالت عظمیٰ میں سننے کا فیصلہ کیا۔ ساتھ ہی سپریم کورٹ نے ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد، ڈی آئی جی اورایس ایس پی کونوٹس جاری کردیئے جس میں کہا گیا کہ اگلے روز بچی پر تشدد کے حوالے سے تمام ریکارڈ ، پیش رفت اور بچی کے ورثا سمیت عدالت میں پیش ہوں جبکہ سماعت کے لئے فریقین کو بھی طلب کرلیا گیا۔

اگلے روز چیف جسٹس آف پاکستان کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے دورکنی بینچ نے ازخود نوٹس کیس کی سماعت کی۔ عدالت نے ڈی آئی جی پولیس کو تحقیقات کے لیے کمیٹی بنانے کی ہدایت کی اور3 روزمیں رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیا، پولیس کی جانب سے رپورٹ کی تیاری کے لیے 2 ہفتوں کی مہلت کی استدعا کی گئی جسے عدالت نے مسترد کردیا۔ سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ہم چاہتے ہیں کہ بچی کا جلد طبی معائنہ کرایا جائے تاکہ ثبوت ضائع نہ ہوں اور پولیس صرف سچ کوسامنے لائے۔ انہوں نے استفسار کیا کہ جب بنیادی انسانی حقوق کے معاملات پرراضی نامے نہیں ہو سکتے، والدین بھی بچوں کو بنیادی حقوق سے محروم نہیں رکھ سکتے، پھر یہ راضی نامہ کیسے ہوگیا؟

عدالت کے روبروطیبہ کی والدہ نے موقف اختیار کیا کہ وہ فیصل آباد کی رہائشی ہے اور طیبہ اس کی بیٹی ہے جو 2014 میں لاپتہ ہوگئی تھی۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ بچی آپ کی ہے، یہ آپ کو کیسے معلوم ہوا؟ جس پر کوثر بی بی نے کہا کہ اُس نے میڈیا پر بچی کی تصاویردیکھی تھیں اس سے اُنہیں پتہ چلا کہ یہ بچی اس کی لاپتہ بیٹی ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ بچی کے والدین ہونے کے دعویداروں کے ٹیسٹ کرائے جائیں، اس کے علاوہ میڈیا پر چلنے والی تصاویرکا بھی فرانزک ٹیسٹ کرایا جائے۔ اس کے بعد عدالت عظمیٰ نے کیس کی مزید سماعت 11 جنوری تک ملتوی کرتے ہوئے بچی اوراسسٹنٹ کمشنرپوٹھوہارکو ہرصورت پیش ہونے کا حکم دے دیا۔ واضح رہے کہ تشدد کا واقعہ میڈیا میں سامنے آنے کے بعد طیبہ لاپتہ ہوچکی تھی۔

سپریم کورٹ کے ازخود نوٹس لینے کے بعد پولیس نے طیبہ اور اس کے والدین کی تلاش کے لئے چھاپے مارنا شروع کردئیے جب کہ پولیس نے طیبہ کی پھوپھی پٹھانی بی بی کوگرفتارکرکے مزید تفتیش شروع کردی ، کہاگیا کہ پٹھانی بی بی اور دیگر افراد ہی طیبہ کو عدالت سے لے کر گئے تھے۔ پولیس نے دعویٰ کیا کہ وہ طیبہ کی بازیابی کے لئے مختلف ذرائع سے تلاشی کاعمل جاری رکھے ہوئے ہے جبکہ جدید ٹیکنالوجی سے بھی مدد لی جارہی ہے۔ تاہم اگلے کئی گھنٹوں تک طیبہ کا کوئی سراغ نہ مل سکا۔اس دوران میں اسلام آباد پولیس نے جڑواں شہروں کے علاوہ لاہور، فیصل آباد، جڑانوالا میں بھی چھاپے مارے۔

آٹھ جنوری کو بچی کی دادی نے تھانہ مارگلہ اسلام آباد میں درخواست دائر کی کہ طیبہ کو اغوا کر لیا گیا ہے۔ درخواست میں ایڈیشنل سیشن جج کی ہمسائی، ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر اسلام آباد، ایگزیکٹو مجسٹریٹ، ایس ایس پی اور دیگر افسران کو فریق بنایا گیا۔ دوسری جانب طیبہ کی ماں ہونے کی دعویدارکوثربی بی کی جانب سے فیصل آباد میں درج کرائے گئے مقدمہ کی ازسرنو تفتیش شروع کردی گئی، کوثربی بی کا دعویٰ تھا کہ طیبہ اس کی بیٹی تھی جسے اغوا کرلیاگیاتھا۔ اسی اثنا میں ذرائع ابلاغ کو اطلاعات ملیں کہ زخمی بچی اوراس کے مبینہ والدین اسلام آباد کے کسی مضافاتی علاقے میں روپوش ہیں۔ بعض ذرائع نے دعویٰ کیا کہ پٹھانی بی بی کا بچی کو لے جانے والے والدین سے رابطہ تھا جبکہ متاثرہ طیبہ آخری مرتبہ ایڈیشل سیشن جج عطا ربانی کی عدالت میں نظرآئی تھی جہاں سے والد ہونے کا دعوے دار اعظم نامی شخص اسے لے کرغائب ہو گیا۔

اسی روز (آٹھ جنوری کو) طیبہ کو پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں نے کارروائی کے دوران اسلام آباد کے مضافاتی علاقے سے بازیاب کرالیا اور اپنی تحویل میں لے لیا جس کے بعد ڈاکٹر جاوید اکرم کی سربراہی میں پمز ہسپتال کے5 رکنی میڈیکل بورڈ نے طیبہ کاطبی معائنہ مکمل کیا۔ بچی کے مکمل چیک اپ کے دوران میں خون کے ٹیسٹ سمیت تشدد کے تمام نشانات کا بھی جائزہ لیا گیا جبکہ طیبہ کے بھائی اور والدین کے خون کے نمونے بھی حاصل کئے گئے ۔ یادرہے کہ طبی معائنہ کے لئے طیبہ کو ڈی ایس پی کی سربراہی میں پولیس نفری نے سخت سیکورٹی میں پمز ہسپتال پہنچایا، اس موقع پر کم سن گھریلو ملازمہ کی ساتھ ان کی والدہ بھی موجود تھیں۔

پولیس نے تمام معاملے کو میڈیا سے اوجھل رکھا۔جب یہ سب کچھ ہورہاتھا تو ایک نئی کہانی بھی سامنے آئی جس کے مطابق ایڈیشنل جج راجہ خرم نے رئیل سٹیٹ دنیا کی ایک معروف شخصیت کے خلاف تین فیصلے دئیے تھے جس کی پاداش میں جج کے خلاف یہ سازش تیار کی گئی ورنہ طیبہ فیصل آباد کے ایک گھرانے میں کام کرتی تھی، پھر یہ بچی اچانک غائب ہو گئی۔اس کے اغوا کا مقدمہ بھی درج ہوا۔ کیا واقعی یہ سازش ہے؟ طیبہ کے ساتھ کیا ہوا، کیوں ہوا، کس نے کیاکچھ کیا، یہ سارا معاملہ اب ملک کی سب سے بڑی عدالت میں ہے۔ ان سب سوالات کے جوابات چند روز ہی میں سامنے آجائیں گے۔ تاہم اگر یہ سیڑھیوں سے گرنے کا واقعہ نہیں،کسی رئیل سٹیٹ ٹائیکون سے 'ٹاکرا' کا شاخشانہ نہیں اور دردندگی کی کہانی ہے تو اس پوری داستان کا المناک پہلو وہ راضی نامہ ہے جس کے ذریعے اس وحشت و بہیمیت کو چھپانے اور دبانے کی کوشش کی گئی۔

پاکستان میں ایسے ہی دیگر متعدد واقعات بھی موجود ہیں جس میں راضی نامہ کرکے یا کراکے معاملات کو دبا دیاگیا۔ یہ بذات خود ایک لرزہ خیز تصور ہے کہ قتل اور تشدد کے بعد راضی نامہ کرلیا یا کرادیا جاتاہے۔اس طرح کے راضی نامے طاقت وروں اور دولت مندوں کو انصاف سے بچالیتے ہیں اور قوم کے تمام طبقات اس حقیقت کو جانتے بوجھتے ان راضی ناموں کو قبول کرلیتے ہیں۔بالخصوص پاکستان کی عدالتیں جو بعض مقدمات میں راضی نامے قبول کرلیتی ہیں جبکہ بعض مثالیں ایسی بھی ہیں جب راضی نامے مسترد کردئیے گئے۔مثلاً سندھ ہائی کورٹ نے شاہ زیب قتل کیس میں قاتل اورمقتول خاندانوں کے درمیان صلح نامہ قبول کرلیا جبکہ رینجرز اہلکاروں کے ہاتھوں مقتول سرفراز کے ورثا کی طرف سے پیش کیاگیا صلح نامہ مسترد کردیا۔ حالانکہ دونوں دہشت گردی کے واقعات تھے۔ اس سے زیادہ المناک گھروں میں کام کرنے والے ملازموں پر بدترین تشدد کا پھیلتا ہوا کلچر ہے۔

یہ میڈیا ہی کا کریڈٹ ہے کہ دردندگی کا نشانہ بننے والی ایسی ملازماؤں کے واقعات سامنے آرہے ہیں، ہر چند روز بعد میڈیا ان واقعات کو لے کر چیخ چنگھاڑ رہا ہوتاہے۔ یہ چند درجن واقعات ہیں، تاہم ان سے سوگنا زیادہ واقعات ہر بڑے گھرانے میں روز ہی ہوتے ہیں لیکن ان پر چیخنے کی ہمت کسی ملازمہ میں نہیں ہے۔ چیخنے کا مطلب لگی بندھی نوکری ختم اور خط غربت سے انتہائی نیچے زندگی گزارنے والے والدین ''راضی نامے'' دور کی بات، خاموشی پر ہی گزارہ کرتے ہیں۔ پاکستان دنیا کے اُن چند ممالک میں شامل ہے جہاں کسی قسم کا ڈیٹا جمع کرنے کا رواج ہی نہ ہو، وہاں صحیح طور پر کچھ معلوم نہیں ہوسکتا۔ سوال یہ ہے کہ پاکستان اسی طرح درندگی اور اس کے بعد دھونس اور دباؤ کے نتیجے میں تیار ہونے والے''راضی ناموں'' کے ساتھ چلتا رہے گا؟

پاکستان میں راضی ناموں کے دیگر واقعات
٭امریکی شہری ریمنڈ ڈیوس نے27 جنوری 2011ء کو لاہور کی ایک سڑک پر فہیم اور فیضان نام کے دو نوجوانوں کو گولی مار کر قتل کر دیا۔ 16 مارچ 2011ء کو مقتولین کے ورثاء کو 2 ملین ڈالر دیت دینے کے وعدہ پر عدالت نے ریمنڈ ڈیوس کو بری کر دیا۔ پنجاب کے صوبائی وزیر قانون کا کہنا تھا کہ ان کی حکومت کا اس میں کوئی کردار نہیں کیونکہ مقتولین کے ورثا کی طرف سے معافی کے بعد وہ قانوناً کچھ نہیں کر سکتے۔ مقتولین کے وکیل نے دعویٰ کیا کہ ورثا سے زبردستی معافی نامہ پر دستخط کرائے گئے۔ بعض حلقوں نے اس مقدمہ کے اچانک فیصلہ کو وفاقی اور صوبائی حکومتوں، امریکہ اور عدالت کے منصف کے درمیان پہلے سے طے شدہ ڈراما قرار دیا ہے جس کا ریاستی اور شرعی قانون سے کوئی تعلق نہیں۔

ریمنڈ ڈیوس کے ہاتھوں قتل ہونے والے ایک نوجوان کی بیوہ نے انصاف فراہم نہ ہونے کے خدشہ پر 6 فروری کو احتجاجاً خود کشی کر لی جبکہ مقتول کے دیگر لواحقین نے بھی انصاف نہ ملنے کی صورت میں خود کشی کی دھمکی دی ۔ رہائی کے فوراً بعد امریکی ریمنڈ ڈیوس کو بذریعہ ہوائی جہاز افغانستان لے گئے جبکہ ریمنڈ ڈیوس کے مقدمہ کی سماعت کرنے اور عجلت میں فیصلہ دینے والا جج اگلے دن چھٹی پر روانہ ہو گیا۔٭شاہ زیب کراچی کا رہائشی نوجوان تھا، اس کے والد ایک پولیس افسر تھے۔ شاہ زیب نے جب اپنی بہن کو نازیبا فقرے کہنے والے غنڈوں کو منع کیا تو انہوں نے گولی چلا کر 25 دسمبر 2012ء کو کراچی ڈیفنس کے علاقہ میں شاہ زیب کو قتل کر دیا۔ غنڈوں میں سندھ کے وڈیرہ جتوئی خاندان کا سپوت شاہ رخ جتوئی، سراج تالپور اور دو دوسرے تھے۔

جتوئی دبئی فرار ہو گیا۔ شاہ زیب کے قتل پر سوشل میڈیا پر تحریک چلی، نتیجتاً سپریم کورٹ نے ازخودنوٹس لیا اور ملزموں کی گرفتاری کا حکم دیا۔اس کے بعد شاہ رخ کو پاکستان واپس لایا گیا اور جیل میں ڈالا گیا۔ انسداد دہشت گردی عدالت نے دو ملزموں شاہ رخ اور سراج تالپور کو موت، اور دو کو عمر قید کی سزا سنائی۔ 2013ء میں سبھاگوخان جتوئی نے دونوں خاندانوں کے درمیان ''صلح'' کروائی اور مقتول کے خاندان کو بھاری رقم ادا کی گئی۔ مقتول خاندان نے عدالت میں بیان جمع کرایا کہ انھوں نے ملزمان کو دیت لے کر معاف کر دیا ہے۔

جس کے بعد عدالت نے چاروں مجرموں کو رہا کر دیا۔اس ''صلح'' پر شکوک وشبہات موجود تھے کیونکہ فیصلے سے چند ماہ قبل شاہ زیب کی والدہ عنبرین نے کہا تھا کہ وہ چاہتی ہیں کہ ان کے بیٹے پر گولی چلانے والے کو ملنے والی سزا پر عملدرآمد ہو۔٭ کراچی کے بے نظیر پارک میں رینجرز کے ایک جوان نے 8 جون 2011 کو فائرنگ کرکے 17سالہ سرفراز شاہ کو قتل کردیاتھا،کراچی کی انسداد دہشت گردی کی عدالت نیسرفراز شاہ کو فائرنگ کر کے ہلاک کرنے والے رینجرز کے اہلکار شاہد ظفر کو سزائے موت کا حکم سنایا تھا، جبکہ دیگر چھ ملزمان کو عمر قید اور دو دو لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنائی گئی تھی۔

ان میں سب انسپکٹر باہو رحمان، ڈرائیور منٹھار علی، سپاہی لیاقت علی، محمد طارق اور محمد افضل اور پارک کے سکیورٹی گارڈ افسر خان شامل تھے۔ ملزمان نے فیصلے کے خلاف سندھ ہائی کورٹ میں اپیل کی۔ وہاں کچھ عرصہ بعد سرفراز شاہ کے بھائیوں نے ملزمان سے صلح کر لی اور سندھ ہائی کورٹ میں ملزمان کی سزائیں ختم کرنے کی اپیل کی گئی لیکن عدالت نے اس بنیاد پر یہ صلح نامہ مسترد کر دیا کہ انسداد دہشت گردی ایکٹ میں صلح کی گنجائش موجود نہیں۔ یوں سندھ ہائی کورٹ نے سرفراز شاہ قتل کیس میں صلح نامہ مسترد کرتے ہوئے رینجرز اہلکار کی سزائے موت کو برقرار رکھا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں

رائے

شیطان کے ایجنٹ

Nov 24, 2024 01:21 AM |

انسانی چہرہ

Nov 24, 2024 01:12 AM |