انسانی حقوق کے نمائندوں کی بازیابی ناگزیر
غیر جمہوری قوتیں انسانی حقوق کیلیے کام کرنے والے افراد کو دن دہاڑے اغوا کر رہی ہیں
پروفیسر سلمان حیدر سمیت لاپتہ ہونیوالے انسانی حقوق کے متحرک نمائندوں کی بازیابی کیلیے مختلف شہروں میں احتجاجی مظاہرے کیے گئے۔لاہور ، کراچی ، اسلام آباد ،کوئٹہ اور پشاور میں سیاسی کارکنوں اور سوشل میڈیا گروپس نے لاپتا ہونے والوں کی جلد بازیابی کے لیے زور دیتے ہوئے کہا کہ ملکی سلامتی اور داخلی صورتحال کے پیش نظر حکومت مسنگ پرسنز کے انسانی ایشو کو جلد منطقی انجام تک پہنچائے اور جبری گمشدگی سے پیدا ہونے والی الجھن اور اضطراب کا ازالہ کرنے کیلیے قانون نافذ کرنے والے ادارے لاپتا افراد کی بلا تاخیر بازیابی کیلیے کوئی کسر نہ اٹھا رکھیں۔
وفاقی وزیرداخلہ چوہدری نثار نے اسلام آباد اورپنجاب سے لاپتہ4 افرادسے متعلق سینٹ اجلاس میں تفصیلات سے آگاہ کرتے ہوئے بتایا کہ حکومت کی جبری گمشدگی کی پالیسی ہے نہ ہی ایسی کسی بات کو برداشت کیا جائے گا۔ پنجاب حکومت سے رابطے میں ہیں اور معلومات لے رہے ہیں، اب تک کی تفتیش میں کوئی شواہد سامنے نہیں آئے۔فاطمہ جناح یونیورسٹی کے پروفیسرسلمان حیدر کیلیے انٹیلی جنس والوں سے بات کرنے کی کوشش کر رہے ہیں تاکہ وہ گھر واپس آسکیں، انھوں نے امید ظاہر کی کہ لاپتہ پروفیسر واپس آجائیںگے اور کہا کہ گھناؤنے جرم کے پیچھے جو لوگ ہیںان کا پیچھا کریں گے۔
وزیر داخلہ نے بتایا کہ سلمان حیدر کو 8:20 پر کورال کے قریب سے اغوا کیا گیا، ایک ویگو گاڑی تعاقب کر رہی تھی، پنجاب حکومت سے ملنے والے شواہد کے مطابق ان تینوں اغوا کے واقعات کا آپس میں کوئی ربط نہیں ہے۔ سینٹ میں قائد حزب اختلاف اعتزاز احسن نے کہا ایوان ابھی چار مغوی افراد کے حوالے سے تشنہ ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ بلوچ سماجی رہنما اور پبلشر عبدالواحد بلوچ کے لاپتا ہونے اور ان کی واپسی کیلیے سیاسی اور سماجی حلقوں سمیت سوشل میڈیا نے غیر معمولی کردار ادا کیا،اور اس کھردری حقیقت سے ارباب اختیار کو آگہی بخشی کہ اکیسویں صدی آزادی اظہار، آزاد پریس، سوشل میڈیا انقلاب اور فشار و بے محابہ مکالمہ کی صدی ہے جب کہ دنیا کو انتہا پسندوں خود کش حملہ آوروں اور دہشتگردوں نے جس بے رحمی کے ساتھ اپنے حصار میں لے رکھا ہے اس سے نمٹنے کیلیے ترقی یافتہ ممالک بھی کاؤنٹر ٹیررازم کارروائیوں کیلیے سر توڑ کوشش کررہے ہیں، اس لیے سائبر کرائم سیکٹر میں ایف آئی اے پر تفتیش و نتیجہ خیز تحقیقات کی بھاری ذمے داری عائد ہوتی ہے تاہم سلمان حیدر ، عاصم سعید اور وقاص گورایا کی گمشدگی میں پراسراریت کا عنصر نمایاں ہے۔
ایک سائبر سیکیورٹی این جی او اور مغویوں کے اہل خانہ کا کہنا ہے کہ پروفیسر سلمان حیدر ہیومن رائٹس ایکٹی وسٹ ، تھیٹر آرٹسٹ اور شاعر ہونے کے علاوہ ایک سیاسی جماعت کے رکن بھی ہیں، ان کے بلاگز کی شہرت تھی، ترقی پسندانہ خیالات رکھتے تھے، ان کی ایک نظم متنازع قرار دے دی گئی تھی ، 30 اگست کو سلمان حیدر نے اپنے سوشل میڈیا بلاگ میں لکھا تھا کہ ''آج جبری طور پر غائب کیے گئے لوگوں کا دن ہے ۔ یہ دن اس لیے نہیں منایا جاتا کہ یہاں لوگ اپنی رضامندی سے غائب ہوتے ہیں ، جبر کا تو نام بھی نہیں سنا کسی نے۔''
پولیس کا کہنا ہے ان کے بلاگز ، سیل فون ، سوشل میڈیا اکاؤنٹس اور ای میلز کی چھان بین جاری ہے۔ ان کے اغوا کے حوالہ سے ایک مقدمہ بھی مقامی پولیس اسٹیشن میں درج کیا گیا ہے ۔ میڈیا کے مطابق گذشتہ چار دنوں میں 12 افراد کے لاپتا ہونے کی اطلاعات ہیں، جن میں اکثریت انسانی حقوق کے کارکنوں اور سوشل میڈیا پر سرگرم لوگوں کی ہے ۔ خبروں کے مطابق سلمان حیدر جمعہ کو جب کہ احمد نصیر رضا ہفتہ کو لاپتا ہوئے، بتایا جاتا ہے کہ نصیر پولیو سے بھی متاثر ہیں، عاصم سعید اور وقاص گورایا 4جنوری کو لاپتا ہوئے۔
اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق سلمان حیدر کے بھائی فیضان نے بتایا کہ سلمان نے گھر فون کرکے بتایا کہ وہ اسلام آباد ایکسپریس وے پر اپنی کار چھوڑ کر جارہے ہیں۔ سیاسی اور سماجی کارکنوں کا کہنا ہے کہ حکومت نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد کروانے میں ناکام ہو چکی ہے، غیر جمہوری قوتیں انسانی حقوق کیلیے کام کرنے والے افراد کو دن دہاڑے اغوا کر رہی ہیں۔ سول سوسائٹی نیٹ ورک نے بھی مظاہرہ کیا۔ پریس کلب کے باہر مظاہرے میں سینیٹر افراسیاب خٹک، سینیٹر فرحت اللہ بابر، اخوند زادہ چٹان نے بھی شرکت کی۔ مظاہرین نے ہاتھوں میں سلمان حیدر کی تصاویر اور سماجی رہنماؤں کی رہائی پر مبنی پلے کارڈ اٹھا رکھے تھے۔
افراسیاب خٹک نے کہا کہ اگر سلمان پر الزام ہے تو کارروائی کریں۔ فرحت اللہ بابر نے کہا کہ ریاستی اداروں کو قانون کے تحت لانے کیلیے قانون سازی ہونی چاہیے۔ ہیومن رائٹس واچ نے حکومت پاکستان سے مطالبہ کیا ہے کہ انسانی حقوق کے نمائندوں اور بلاگرز کے اغوا کی فوری تحقیقات کرائی جائے۔ تنظیم کے ایشیا ڈائریکٹر بریڈ ایڈمز نے ایک بیان میں کہا کہ حکومت پر ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ ان چاروں کی بحفاظت بازیابی یقینی بنائے۔ بلاشبہ ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت مسنگ پرسنز کی گمشدگی کے تناظر میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں میں ملوث عناصر کو گرفتار کرکے صورتحال کو نارمل بنائے۔