افغان پارلیمنٹ اور گورنر آفس قندھار پر حملے
افغانستان میں پارلیمنٹ اور گورنر قندھار کے دفتر پر ہونے والے حملوں میں 41 افراد ہلاک اور 96 زخمی ہوگئے
افغانستان میں امن و امان کی صورتحال خراب تر ہوتی جا رہی ہے، شرپسند و دہشت گرد عناصر نے اپنا دائرہ کار سرکاری دفاتر پر حملوں اور غیر ملکی شخصیات کو ہدف بنانے تک پھیلا دیا ہے۔ دہشت گردوں کی سفاکیت بڑھتی جارہی ہے۔ منگل کے روز افغانستان میں پے درپے بم دھماکے اور خودکش حملے کیے گئے۔
افغانستان میں پارلیمنٹ اور گورنر قندھار کے دفتر پر ہونے والے حملوں میں 41 افراد ہلاک اور 96 زخمی ہوگئے، زخمیوں میں گورنر قندھار اور متحدہ عرب امارات کے سفیر بھی شامل ہیں۔ پارلیمنٹ کے باہر ہونے والے خودکش دھماکے کی ذمے داری طالبان ترجمان ذبیح اﷲ مجاہد نے قبول کرتے ہوئے کہا کہ دھماکوں میں افغان انٹیلی جنس ایجنسی کی گاڑی کو نشانہ بنایا گیا ہے، جب کہ گورنر آفس قندھار پر حملے کی ذمے داری اب تک کسی گروپ نے قبول نہیں کی ہے۔
غیرملکی خبر رساں ادارے کے مطابق دارالحکومت کابل میں پارلیمنٹ کی عمارت کے باہر ایک پیدل خودکش بمبار نے دھماکا کردیا جس کے بعد سڑک کے دوسری طرف کھڑی کار میں دھماکا ہوا، دونوں حملوں میں 30 افراد ہلاک اور 80 زخمی ہوگئے۔ہلاک ہونے والوں کی اکثریت عام شہریوں پر مشتمل ہے۔ دہشت گردوں نے حملے کی ہلاکت خیزی کو بڑھانے کے لیے اس وقت کا انتخاب کیا تھا جب پارلیمنٹ کا عملہ چھٹی کے وقت عمارت سے باہر نکل رہا تھا اور خاصی بھیڑ جمع ہو گئی تھی، مرنے والوں میں 4 پولیس اہلکار بھی شامل ہیں جب کہ زخمیوں میں سے متعدد کی حالت نازک ہونے کے باعث ہلاکتوں میں اضافے کا خدشہ ہے۔
افغانستان کی مرکزی انٹیلی جنس ایجنسی نیشنل ڈائریکٹوریٹ آف سیکیورٹی کے مقامی سربراہ بھی ہلاک ہونے والوں میں شامل ہیں۔اے ایف پی کے مطابق قندھار میں گورنر آفس میں ہونے والے دھماکے میں کم از کم 11 افراد ہلاک اور 16زخمی ہو ئے۔ حملہ اس وقت کیا گیا جب یو اے ای کے سفیر عبداﷲ الکعبی وفد کے ہمراہ وہاں دورے پر آئے ہوئے تھے۔ دھماکا خیز مواد ایک صوفے کے نیچے نصب کیا گیا تھا۔ قبل ازیں صبح کے وقت صوبہ ہلمند کے صوبائی دارالحکومت لشکرگاہ میں ایک خودکش بمبار نے دھماکہ کیا جس میں 7 افراد ہلاک اور 9 زخمی ہوئے تھے۔
صائب ہوگا کہ افغانستان دہشتگرد عناصر کے خلاف موثر حکمت عملی مرتب کرے۔ پاکستان نے افغانستان میں بم دھماکوں کی شدید مذمت کی ہے۔ پاکستان افغان حکومت اور طالبان کے مابین مذاکرات کا خواہاں ہے لیکن اس طرح کے شرپسندانہ واقعات مذاکرات کی کوششوں میں رکاوٹ ثابت ہوں گے۔ بدامنی اور دہشت گردی خطے کے مفاد میں نہیں، صائب ہوگا کہ طالبان اور افغان حکومت جلد از جلد مذاکرات کی میز پر آئیں اور اختلافات کے خاتمے کیلیے کوششیں کریں۔
افغانستان میں پارلیمنٹ اور گورنر قندھار کے دفتر پر ہونے والے حملوں میں 41 افراد ہلاک اور 96 زخمی ہوگئے، زخمیوں میں گورنر قندھار اور متحدہ عرب امارات کے سفیر بھی شامل ہیں۔ پارلیمنٹ کے باہر ہونے والے خودکش دھماکے کی ذمے داری طالبان ترجمان ذبیح اﷲ مجاہد نے قبول کرتے ہوئے کہا کہ دھماکوں میں افغان انٹیلی جنس ایجنسی کی گاڑی کو نشانہ بنایا گیا ہے، جب کہ گورنر آفس قندھار پر حملے کی ذمے داری اب تک کسی گروپ نے قبول نہیں کی ہے۔
غیرملکی خبر رساں ادارے کے مطابق دارالحکومت کابل میں پارلیمنٹ کی عمارت کے باہر ایک پیدل خودکش بمبار نے دھماکا کردیا جس کے بعد سڑک کے دوسری طرف کھڑی کار میں دھماکا ہوا، دونوں حملوں میں 30 افراد ہلاک اور 80 زخمی ہوگئے۔ہلاک ہونے والوں کی اکثریت عام شہریوں پر مشتمل ہے۔ دہشت گردوں نے حملے کی ہلاکت خیزی کو بڑھانے کے لیے اس وقت کا انتخاب کیا تھا جب پارلیمنٹ کا عملہ چھٹی کے وقت عمارت سے باہر نکل رہا تھا اور خاصی بھیڑ جمع ہو گئی تھی، مرنے والوں میں 4 پولیس اہلکار بھی شامل ہیں جب کہ زخمیوں میں سے متعدد کی حالت نازک ہونے کے باعث ہلاکتوں میں اضافے کا خدشہ ہے۔
افغانستان کی مرکزی انٹیلی جنس ایجنسی نیشنل ڈائریکٹوریٹ آف سیکیورٹی کے مقامی سربراہ بھی ہلاک ہونے والوں میں شامل ہیں۔اے ایف پی کے مطابق قندھار میں گورنر آفس میں ہونے والے دھماکے میں کم از کم 11 افراد ہلاک اور 16زخمی ہو ئے۔ حملہ اس وقت کیا گیا جب یو اے ای کے سفیر عبداﷲ الکعبی وفد کے ہمراہ وہاں دورے پر آئے ہوئے تھے۔ دھماکا خیز مواد ایک صوفے کے نیچے نصب کیا گیا تھا۔ قبل ازیں صبح کے وقت صوبہ ہلمند کے صوبائی دارالحکومت لشکرگاہ میں ایک خودکش بمبار نے دھماکہ کیا جس میں 7 افراد ہلاک اور 9 زخمی ہوئے تھے۔
صائب ہوگا کہ افغانستان دہشتگرد عناصر کے خلاف موثر حکمت عملی مرتب کرے۔ پاکستان نے افغانستان میں بم دھماکوں کی شدید مذمت کی ہے۔ پاکستان افغان حکومت اور طالبان کے مابین مذاکرات کا خواہاں ہے لیکن اس طرح کے شرپسندانہ واقعات مذاکرات کی کوششوں میں رکاوٹ ثابت ہوں گے۔ بدامنی اور دہشت گردی خطے کے مفاد میں نہیں، صائب ہوگا کہ طالبان اور افغان حکومت جلد از جلد مذاکرات کی میز پر آئیں اور اختلافات کے خاتمے کیلیے کوششیں کریں۔