رجسٹرارکی پی اے سی میں طلبی سپریم کورٹ کاخصوصی بینچ تشکیل
آرٹیکل78اور88میںاعلیٰ عدلیہ کے اخراجات کوپارلیمنٹ نگرانی سے آزادکیاگیا،درخواست گزار
رجسٹرارسپریم کورٹ کو پبلک اکائونٹس کمیٹی کے سامنے پیش ہوناچاہیے یانہیں، فیصلہ عدالت عظمٰی کا 3 رکنی اسپیشل بینچ کرے گا۔
پبلک اکائونٹس کمیٹی کی طرف سے رجسٹرار سپریم کورٹ کو پیش ہونے کے نوٹس کا معاملہ 3 رکنی بینچ کے سامنے رکھ دیا گیا ہے۔ جسٹس اعجاز افضل خان، جسٹس گلزار احمد اور جسٹس شیخ عظمت سعید پر مشتمل خصوصی بینچ یکم جنوری 2013 سے مقدمے کی سماعت کریگا۔ رجسٹرار سپریم کورٹ کو پبلک اکائونٹس کمیٹی میں طلب کرنے کیخلاف کراچی بار ایسوسی ایشن کے صدر محمود الحسن کی طرف سے ایک آئینی پٹیشن دائرکی گئی ہے جس میں موقف اپنایا گیا ہے کہ رجسٹرار سپریم کورٹ کو پارلیمنٹ کی کمیٹی میں طلب کرنا آئین کی شق 68 کی خلاف ورزی ہے کیونکہ آئین نے ججوں کے کنڈکٹ کو پارلیمنٹ کے کسی بھی فورم پر زیر بحث لانے پر پابندی عائدکی ہے اور اعلیٰ عدلیہ کے اخراجات کو آئین کی شق 78 اور 88 میں پارلیمنٹ کی نگرانی سے آزادکیا ہے۔
عدلیہ کے معاملات میں حکومت یا پارلیمنٹ کی مداخلت عدلیہ کی آزادی اور اختیارات کی تقسیم کے تصور سے متصادم ہے، اس لیے آئین نے عدلیہ کے معاملات میںایسی کسی بھی قسم کی مداخلت کا راستہ روکا ہے جس سے عدلیہ کی آزادی متاثر ہو۔ درخواست میںکہا گیا ہے کہ ماضی میں اختیارات کی عدم تقسیم کے باعث ریاستی جبرکو فروغ ملا جس کی وجہ سے طاقت کا توازن قائم نہیں رہا اور بنیادی انسانی حقوق پامال ہوتے رہے۔ درخواست میں مزیدکہا گیا ہے کہ عدلیہ کے اخراجات کے اندرونی آڈٹ کے علاوہ آڈیٹر جنرل کا محکمہ بھی آڈٹ کر تا ہے اس لیے پبلک اکائونٹس کمیٹی کی طرف سے رجسٹرارکو طلب کرنا غیر آئینی ہے۔
درخواست میں رجسٹرار سپریم کورٹ کوکمیٹی کی جانب سے جاری نوٹس کو اختیارات سے تجاوز اور غیر قانونی قرار دینے کی استدعا کی گئی ہے اور درخواست کی گئی ہے کہ رجسٹرار سپریم کورٹ کوکمیٹی کے سامنے پیش ہونے سے روک دیا جائے۔ درخواست ایڈووکیٹ آن ریکارڈکے اے وہاب کے ذریعے دائرکی گئی ہے جس میں وفاقی حکومت کے علاوہ پبلک اکائونٹس کمیٹی اور رجسٹرار سپریم کورٹ کو فریق بنایا گیا ہے۔
پبلک اکائونٹس کمیٹی کی طرف سے رجسٹرار سپریم کورٹ کو پیش ہونے کے نوٹس کا معاملہ 3 رکنی بینچ کے سامنے رکھ دیا گیا ہے۔ جسٹس اعجاز افضل خان، جسٹس گلزار احمد اور جسٹس شیخ عظمت سعید پر مشتمل خصوصی بینچ یکم جنوری 2013 سے مقدمے کی سماعت کریگا۔ رجسٹرار سپریم کورٹ کو پبلک اکائونٹس کمیٹی میں طلب کرنے کیخلاف کراچی بار ایسوسی ایشن کے صدر محمود الحسن کی طرف سے ایک آئینی پٹیشن دائرکی گئی ہے جس میں موقف اپنایا گیا ہے کہ رجسٹرار سپریم کورٹ کو پارلیمنٹ کی کمیٹی میں طلب کرنا آئین کی شق 68 کی خلاف ورزی ہے کیونکہ آئین نے ججوں کے کنڈکٹ کو پارلیمنٹ کے کسی بھی فورم پر زیر بحث لانے پر پابندی عائدکی ہے اور اعلیٰ عدلیہ کے اخراجات کو آئین کی شق 78 اور 88 میں پارلیمنٹ کی نگرانی سے آزادکیا ہے۔
عدلیہ کے معاملات میں حکومت یا پارلیمنٹ کی مداخلت عدلیہ کی آزادی اور اختیارات کی تقسیم کے تصور سے متصادم ہے، اس لیے آئین نے عدلیہ کے معاملات میںایسی کسی بھی قسم کی مداخلت کا راستہ روکا ہے جس سے عدلیہ کی آزادی متاثر ہو۔ درخواست میںکہا گیا ہے کہ ماضی میں اختیارات کی عدم تقسیم کے باعث ریاستی جبرکو فروغ ملا جس کی وجہ سے طاقت کا توازن قائم نہیں رہا اور بنیادی انسانی حقوق پامال ہوتے رہے۔ درخواست میں مزیدکہا گیا ہے کہ عدلیہ کے اخراجات کے اندرونی آڈٹ کے علاوہ آڈیٹر جنرل کا محکمہ بھی آڈٹ کر تا ہے اس لیے پبلک اکائونٹس کمیٹی کی طرف سے رجسٹرارکو طلب کرنا غیر آئینی ہے۔
درخواست میں رجسٹرار سپریم کورٹ کوکمیٹی کی جانب سے جاری نوٹس کو اختیارات سے تجاوز اور غیر قانونی قرار دینے کی استدعا کی گئی ہے اور درخواست کی گئی ہے کہ رجسٹرار سپریم کورٹ کوکمیٹی کے سامنے پیش ہونے سے روک دیا جائے۔ درخواست ایڈووکیٹ آن ریکارڈکے اے وہاب کے ذریعے دائرکی گئی ہے جس میں وفاقی حکومت کے علاوہ پبلک اکائونٹس کمیٹی اور رجسٹرار سپریم کورٹ کو فریق بنایا گیا ہے۔