الوداع عبدالحفیظ لاکھو الوداع
ہم وکیلوں کی زندگیاں بھی عجیب ہوتی ہیں
PESHAWAR:
ہم وکیلوں کی زندگیاں بھی عجیب ہوتی ہیں۔ نہ کوئی ریٹائرمنٹ ہوتی ہے نہ کبھی سکھ سے گھر بیٹھنا نصیب ہوتا ہے۔جب تک آنکھوں میں بینائی ہو، گو کہ ہاتھوں میں جنبش نہ ہو، اس پیشے میں عمر کی کوئی قید نہیں۔دن مہینے سال دہائیاں گزر جاتی ہیں بار میں آتے جاتے سیڑھیاں چڑھتے اترتے لائبریری و کورٹ روم کے چکر کاٹتے کاٹتے۔ کسی قہوہ خانے کی مانند قدموں کی چاپ ہے، کالا کوٹ ٹائی کالے جوتے سب کا لباس ہے۔ وہ ذرا بھی بند ہوا نہیں تو پھر کسی ہاتھ کی ہلکی کی جنبش اسے کھول دیتی ہے۔اور پھر یوں ایک دم سے قہقہوں کی بارش سمیٹ لیتی ہے۔
اپنی آغوش میں، سگریٹ کا دھواں چائے کی پیالیوں کی گڑگڑاہٹ ہے، کوئی بغلگیر ہے تو کوئی خیالوں میں گم تو کوئی ہنسی میں ڈوبا ہوا ہے۔ یہ جو جیسے پتا پتا بوٹا بوٹا حال ہمارا جانے ہے، جانے نا جانے وکیل ہی نہ جانے عالم تو سارا جانے ہے کہ کل حفیظ پیرزادہ چلا گیا آج عبدالحفیظ لاکھو تو پھر کوئی اور ہو گا۔ وقت کی لڑیاں ہیں بس جس میں مقید ہے میرا ہونا اور نہ ہونا بھی پل دو پل کے وکیل پل دو پل کی ان کہانیاں۔
''مگر عبدالحفیظ لاکھو بڑی مشکل ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا'' کی مانند تھے واقعی ہزاروں سال نر گس اپنی بے نوری پر روتی ہو گی۔ یہ میری خوش نصیبی ٹھہری کہ میں نے ان کو بہت قریب سے دیکھا وہ میرے استاد محترم تھے۔ پورے پانچ سال ان کی شاگردی میں گزارے۔
کچھ دن پہلے انتقال کر گئے لگ بھگ نوے سال کی عمر پائی۔ یوں کہیے پرانے زمانے کے وکیل تھے وہ جس قبیل کے وکیل تھے وہ قبیلہ اب تاریخ ہوا۔ساٹھ سال سے بھی زیادہ کا عرصہ وکالت میں گزارا۔ سندھ ہائی کورٹ بار کے صدر بھی ہوئے تو سندھ کے ایڈوکیٹ جنرل بھی۔ یہ بینظیر کے پہلے دور کا واقعہ ہے جب ان کے شوہر زرداری صاحب نے ان کے کام میں مداخلت ڈالنے کی حرکت کی تو کیا ہوا؟ عبدالحفیظ لاکھو استعفیٰ دے کر بیٹھ گئے، بینظیر پر جب عتاب آیا تو یہ ان کے فعال وکیل تھے۔ایک دن عدالت میں بینظیر ساتھ ان کے اور لاکھو صاحب کورٹ سے مخاطب تھے۔
بینظیر صاحبہ بیچ میں حسب عادت جج صاحب سے خود رجوع کر بیٹھیں یہ بات لاکھو صاحب کو نا گوار گزری اور ایک دم پرزور انداز میں بولے، محترمہ یعنی اپنی موکل کو بھری عدالت میں کہہ بیٹھے ''محترمہ میں ہوں نا آپ کا وکیل آپ کی صفائی میں بولنے کے لیے آپ پلیز بیچ میں نا بولیں''۔ بھلا کون سا وکیل تھا جو بینظیر کا ہوتا ہو گا جو یہ کہنے کی جرأت کرتا؟ کوئی بھی نہیں!
جب ذوالفقار علی بھٹو کا لاہور ہائی کورٹ میں مقدمہ چل رہا تھا یہ ان کے بھی وکیل تھے اور سپریم کورٹ یا جب بھٹو پنڈی جیل میں تھے اس وقت بھی ان کے وکیل تھے ہر دوسرے دن ملاقات کے لیے وہ بھٹو سے جیل میں ملنے جاتے تھے۔ایک ملاقات میں بھٹو نے کہا ''ذرا میری لٹکی ہوئی شلوار میں سے ناڑا نکالیے'' لاکھو صاحب نے ناڑا نکالا اور بھٹو صاحب سے پوچھا کہ اب کیا کرنا ہے بھٹو صاحب نے کہا ''اب اس کمرے کو اس ناڑے سے ناپ لیجیے لاکھو صاحب نے ناپ لی پھر پوچھا اب کیا کرنا ہے بھٹو صاحب نے کہا کہ''یہ ناپ آپ بیگم صاحبہ کو (نصرت بھٹو) کو دیجیے'' لاکھو صاحب سے رہا نہیں گیا پوچھ بیٹھے مگر کیوں''؟
بھٹو صاحب نے کان میں لاکھو صاحب کو کہا ''قذافی کے کمانڈو آئیں گے مجھے چھڑوانے کے لیے ان کو کمرے کا ناپ چاہیے'' لاکھو صاحب، بھٹو صاحب کی اس غیر سنجیدہ بات سے نالاں ہو گئے اور وہ بھٹو کو کہنے کی بھی جرأت رکھتے تھے اور کہہ بھی دیا ''ایسے بیکار سے خیالات میں اپنا وقت ضایع نہ کیجیے ایسا کچھ نہیں ہونے والا''۔
ایک طرف عبدالحفیظ پیر زادہ تھے جو بھٹو کے رفیق بھی تھے اور دوسری طرف عبدالحفیظ لاکھو تھے جو بھٹو کے وکیل تھے۔ یہی وجہ تھی کے بے نظیر بھٹو عبدالحفیظ لاکھو کو بہت قابل احترام سمجھتی تھیں۔ وہ عبدالحفیظ پیر زادہ کی اس بات سے بھی بخوبی واقف تھی کہ جس رات بھٹو کو پھانسی ہوئی تھی اور جب یہ خبر اسی رات پیر زادہ صاحب کے کانوں میں پڑی تھی تو انھوں نے اس خبر پر گہری نیند سونے کو ترجیح دی۔
اب ابدی نیند میں ہیں،کوئی گلہ نہیں۔ عبدالحفیظ لاکھو نے اپنے موکل بھٹو کا کیس گاتے گاتے ''تجھ کو معلوم نہیں کیوں عمر گنوا دی ہم نے'' کی باقی ماندہ زندگی بتا دی۔ ضیاء آمریت کا دور تھا تو لاکھو صاحب ایم آر ڈی تحریک کے روح رواں تھے، پابند سلاسل بھی رہے زیر عتاب بھی رہے یوں کہیے پا بجولاں تھے اور سامنے بازار تھے اور دشمنوں کے ہاتھوں میں کنکریاں تھیں۔ یوں تو بڑے نام ہیں جو اس کورٹ سے وابستہ ہیں، اے ۔کے بروہی، شریف الدین پیرزادہ وغیرہ عین ممکن ہے مورخ لاکھو صاحب کو پیشے اور قابلیت کے اعتبار سے اتنا بڑا وکیل نا کہے لیکن وکیل ہونے کے ناطے جو اصول ہیں آداب ہیں جو ریتیں ہیں رسمیں ہیں یا جس شعور کی سطح پر لاکھو صاحب کھڑے تھے اور وہ جو قومی ذمے داریاں اسی حوالے سے آپ پر پڑتی تھیں یا جو جمہوریت اور آمریت کے بیچ میں گھمسان کی جنگ تھی یہ شخص تاریخ کا ساتھ نبھانے کے لیے اپنا کردار لیے صف آرا تھا اور یوں لاکھو صاحب کا نام ہمیشہ جسٹس دراب پٹیل اور فخرالدین جی ابراہیم کے ساتھ لیا جائے گا۔
مجھ بد نصیب کو پورے پانچ سال میں ایک دن بھی ایسا موقع نہیں ملا کہ ان سارے نازوں نیازوں کو چھیڑتا اور ان سے بہت کچھ پوچھتا۔ بس وہ میرے سینئر وکیل تھے اور میں ان کا جونیئر وکیل۔ حفظ مراتب کا لحاظ ہر دم پیش نظر، نہ میں ان سے پیشے کے علاوہ کچھ پوچھ سکا نہ وہ کچھ بتاتے۔ بہت کم گو تھے مخدوم خلیق الزماں جب مجھے ان کے پاس لے کے گئے اس خیال سے کہ وہ مجھے اپنی شاگردی میں لیں اور جب میرا تعارف کراتے میرے والد محترم کا نام ان کے کانوں میں پڑا تو اِک دم سے خلیق سائیں کو کہنے لگے ـ ''کہ میں ان کو اپنی شاگردی میں تمہاری سفارش پر نہیں لے رہا بلکہ جس باپ کا یہ بیٹا ہے اس کو میں ناں نہیں کہہ سکتا'' اور پھر پورے پانچ سالوں میں مجھ سے میرے ابّا کا ایک مرتبہ بھی ذکر نہ کیا فقط ایک دفعہ بار میں جب پہلی بار میں ان کے ساتھ داخل ہوا تو ایک کونے کی طرف مجھے لے جاتے ہوئے کہاکہ ''تمہارے ابّا جب بار میں آتے تھے تو اس جگہ بیٹھا کرتے تھے'' پھر لاکھو صاحب کی آنکھوں سے میرے لیے رحم ختم اور بے رحمی شروع جو کہ ایک شاگرد کو لوہے سے کندن بنانے کے لیے لازم تھی۔ مگر پھر بھی ان کی محبت ان کے ہر ایک قدم سے بول اٹھتی تھی۔
رکے تو چاند چلے تو ہواؤں جیسا تھا
وہ شخص دھوپ میں دیکھو تو چھاؤں جیسا تھا
آج صبح بار میں داخل ہونے کی جرأت کی تو میری آنکھیں اس طرف چل نکلیں جہاں لاکھو صاحب بیٹھا کرتے تھے کہ ابھی کل ہی کی بات ہے کہ بھلا میں کافر کیسے اپنی آنکھوں بہتا نم روک سکتا تھا۔ مجھ کو یقین ہے پھر بھی جس طرح میں اپنے آنے والے وکیلوں کو یہ بتایا کروں گا کہ یہ خوبصورت انسان جس نے پاکستان کے عوام کے ہمراہ جمہوریت کے ساتھ انصاف و عدل کے لیے جو وکالت کی وہ ساٹھ سالوں سے اسی بار میں آیا کرتے تھے اور بار کے اس کونے میں بیٹھا کرتے تھے۔ خدا کرے لاکھو صاحب کی ٹریننگ سے میں بھی ایسا وکیل بن سکوں جیسا کہ وہ چاہتے تھے۔
''اے سندھ تم کو الوداع
اے ہند تم کو الوداع
تم میں تھی سارت جگت
اے جند تم کو الوداع''
(شیخ ایاز)