تیسری آنکھ
زندگی ہر لمحہ بدلتی ہے۔ لہٰذا رویے اور لہجے بھی بدل جاتے ہیں
زندگی ہر لمحہ بدلتی ہے۔ لہٰذا رویے اور لہجے بھی بدل جاتے ہیں۔ سوچ بھی ایک سی نہیں رہتی۔ مگر وقت کے ساتھ جب احساس بدل جاتا ہے تو زندگی پر گہرا اثر پڑتا ہے۔ کیونکہ جب جدت کی بات کی جاتی ہے تو پھر زندگی فطری پن سے دور نکل جاتی ہے۔ پھر رویے اور لہجے مشینی ہوجاتے ہیں۔ بلکہ قدرے تلخ ہوجاتے ہیں۔ بے حسی کے سرور میں ڈوبے ہوئے۔
زندگی کتنی ہی کیوں نہ بدل جائے اور جدت کے حسین رنگ اس پر حاوی ہونے لگیں۔ مگر ایک مستقل اپنے ہونے کا احساس دلاتی رہتی ہے۔ اور وہ ہے مٹھاس کی کمی۔ لہجوں کی شیرینی کمیاب ہے۔ بس ایک روکھی پھیکی زندگی ہے، جو اپنے محور سے ہٹ کر ایک ہی سمت چلی جا رہی ہے۔ ایک مٹھاس منافقت بھری ہے۔ جس کی وجہ سے کوئی کام نہیں رکتا۔ جب کہ خوشامدی مٹھاس کے سہارے قسمت کے بند دروازے خودبخود کھلتے چلے جاتے ہیں۔ یہ مٹھاس سکہ رائج الوقت ہے۔
ٹھنڈے رویے اور میٹھے لہجے معاشرتی زندگی کا رخ بدل دیتے ہیں۔ یہ رویے اور شہد آگیں لہجے اب ملک سے باہر کی دنیا میں ملتے ہیں اور ان لہجوں و رویوں کے توازن میں معاشرتی زندگی ترتیب سے چلتی دکھائی دیتی ہے۔ من کے زہر سے انسان کو باقاعدہ لڑنا پڑتا ہے۔ کیونکہ یہ زہر اپنے جسم پر پہلے وار کرتا ہے، اس کے بعد کسی دوسرے کو زخمی کرتا ہے۔
شاید یہی وجہ ہے کہ اندر کی تلخیوں سے لڑنے کے لیے ہم نے کھانوں میں مٹھاس کی مقدار بڑھا دی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ مردوں کو چینی 150 کیلوریز (37.5گرام) دن میں لینی چاہیے جوکہ نو چمچ کھانے کے چمچ کے برابر ہیں اور خواتین کو سو کیلوریز (25گرام) تقریباً چھ چمچ مٹھاس استعمال کرنی چاہیے۔ اس کے علاوہ ڈبل روٹی، چاول، فروٹ ودیگر غذا میں الگ چینی شامل ہوتی ہے۔ علاوہ ازیں آئسکریم، سافٹ ڈرنکس اور جوسز روزمرہ کے استعمال میں آتے ہیں۔ کیک، بسکٹ اور مٹھائی کے بغیر یہ زندگی ادھوری لگتی ہے۔
میٹھا زیادہ کھانے سے ڈپریشن اور شیزوفرینیا جیسی ذہنی بیماری لاحق ہونے کے خطرات بڑھ جاتے ہیں اور مزاج سمجھ اور معیار زندگی پر براہ راست اثر پڑتا ہے۔ چینی کا زیادہ استعمال روحانی خلا پیدا کردیتا ہے۔ یہ pineal glands کی کارکردگی پر اثرانداز ہوتی ہے۔ جنھیں روحانیت کی مسند کہا جاتا ہے۔ یہ گلینڈس جنھیں تیسری آنکھ بھی کہا جاتا ہے۔ یہ دماغ کے وسط میں موجود Endocrine Gland (درون افرازی غدود) کہلاتے ہیں۔ یہ گلینڈ عبادت، مراقبہ یوگا، یا تصوراتی عمل کے وقت متحرک ہوتا ہے۔ طبعی طور پر سونے اور جاگنے کے طریقہ کار کو ضابطے میں رکھتا ہے۔ یہ ہارمونز لیول سے لے کر دباؤ اور جسمانی کارکردگی کا تعین کرتاہے۔
Pineal Gland جس طرح سے روشنی اور اندھیرے کے بائیو الیکٹرک سگنلز پر ردعمل دکھاتا ہے، بالکل اسی طرح مراقبے کے دوران اس بائیو الیکٹریکل توانائی کو متحرک کردیتا ہے۔ قدیم تہذیبیں جسم کے اس فعال عضوے کو ادراک، وجدان اور روحانی کیفیات کا مرکز سمجھا کرتی تھیں۔
آج کل ہم اکثر بچوں یا بڑوں کے ناپسندیدہ رویوں کا ذکر کرتے ہیں۔ جس میں بے حسی، لاتعلقی، بات نہ سمجھنا، مزاج کے اتار چڑھاؤ وغیرہ شامل ہیں تو ان تمام تر مسائل کی وجہ ہمارے جسم میں مٹھاس کی زیادہ مقدار کا ہونا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جسم میں موجود یہ شیرینی، لہجوں کو تلخ اور پریشان کن بنا دیتی ہے۔
ذہن کی یکسانیت، تشویش اور زندگی سے بے زاری کو فطری خوشی و اطمینان میں بدلنے کے لیے تیسری آنکھ کو کھولنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ جسے third eye chakra بھی کہا جاتا ہے۔ جس کے لیے سب سے پہلے دماغ میں خاموشی کا بیج بونا پڑتا ہے۔ ذہن خاموش اور پرسکون ہے تو یہ ذہنی ارتکاز فطرت و کائنات کی توانائی کو اپنے اندر جذب کرتا رہتا ہے۔ سوچ، تصور و خیال کے زاویے بدل جاتے ہیں۔ بلکہ ان میں وسعت و گہرائی آجاتی ہے۔ ذہن پرسکون ہے، تو تصور کی کھڑکی ان دیکھے مناظر کی طرف کھل جاتی ہے۔ ہماری زندگی بیک وقت پس منظر و پیش منظر کا امتزاج ہے۔ ایک حقیقت سامنے ہے اور دوسری پوشیدہ ہے۔
ہم ظاہری طور پر نظر آنے والے رویوں اور واقعات کا مشاہدہ کرسکتے ہیں مگر ان کے پس پردہ چھپے محرکات تک رسائی حاصل کرنا ممکن نہیں۔ لہٰذا عمل اور ردعمل کے درمیان کا فاصلہ عبور نہیں کر پاتے۔ یہی وجہ ہے کہ ہماری زندگی عمل کی طاقت سے بے بہرہ اور ردعمل کے نتائج سے بے خبر گزرتی ہے۔ زمینی حقائق کے مطابق جب ہم زمین میں بیج بوتے ہیں تو جلد ہی پودا پنپنے لگتا ہے مگر جب ذہن میں منفی خیال کا بیج بوتے ہیں (چاہے اپنے ذہن میں یا کسی اور کے) تو اس کے منفی اثرات اور تباہ کن نتائج سے بے خبر رہتے ہیں۔ برا نتیجہ سب سے پہلے بیج بونے والا بھگتتا ہے۔ یہ نفرت یا ذہنی فشار بھی جدید دنیا کے اشتہاری رویوں کی ضرورت بن چکے ہیں۔
انسان بیک وقت خیال کی مختلف سمتوں کی جانب سفر کرتا ہے۔
ایک ہی وقت میں سوچ کی مختلف سمتیں خیال کی مرکزیت سے دور کردیتی ہیں۔
باطن کی تیسری آنکھ کی فعالیت اس وقت ممکن ہے جب ہم فطری ماحول و فطری روشنی سے رابطہ بڑھا دیں گے۔ سورج و چاند کی روشنی، جسمانی مشق، گہری سانسوں کی مشق و تعمیری مشغلے ذہن کے انتشار سے باہر نکال سکتے ہیں۔ ہم نے جدت کے نام پر جس شور سے دوستی کرلی ہے اسے ترک کرنے میں ہی بہتری ہے۔ خاموشی، تنہائی، درخت، پھول، پودے، دریا اور تمام مظاہر فطرت جو ذہن کی مخفی صلاحیتوں کو جلا بخشتے ہیں۔ ان سے دوبارہ دوستی کرنی پڑے گی۔
ہم جدید غذا سے منہ نہیں موڑ سکتے۔ فاسٹ فوڈ اور تمام تر میٹھی اشیا زندگی کا حصہ بن چکی ہیں۔ لیکن ہم ان کا استعمال کم کرکے ذہن، جسم و روح کی کھوئی ہوئی توانائی دوبارہ بحال کرسکتے ہیں۔
زندگی کتنی ہی کیوں نہ بدل جائے اور جدت کے حسین رنگ اس پر حاوی ہونے لگیں۔ مگر ایک مستقل اپنے ہونے کا احساس دلاتی رہتی ہے۔ اور وہ ہے مٹھاس کی کمی۔ لہجوں کی شیرینی کمیاب ہے۔ بس ایک روکھی پھیکی زندگی ہے، جو اپنے محور سے ہٹ کر ایک ہی سمت چلی جا رہی ہے۔ ایک مٹھاس منافقت بھری ہے۔ جس کی وجہ سے کوئی کام نہیں رکتا۔ جب کہ خوشامدی مٹھاس کے سہارے قسمت کے بند دروازے خودبخود کھلتے چلے جاتے ہیں۔ یہ مٹھاس سکہ رائج الوقت ہے۔
ٹھنڈے رویے اور میٹھے لہجے معاشرتی زندگی کا رخ بدل دیتے ہیں۔ یہ رویے اور شہد آگیں لہجے اب ملک سے باہر کی دنیا میں ملتے ہیں اور ان لہجوں و رویوں کے توازن میں معاشرتی زندگی ترتیب سے چلتی دکھائی دیتی ہے۔ من کے زہر سے انسان کو باقاعدہ لڑنا پڑتا ہے۔ کیونکہ یہ زہر اپنے جسم پر پہلے وار کرتا ہے، اس کے بعد کسی دوسرے کو زخمی کرتا ہے۔
شاید یہی وجہ ہے کہ اندر کی تلخیوں سے لڑنے کے لیے ہم نے کھانوں میں مٹھاس کی مقدار بڑھا دی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ مردوں کو چینی 150 کیلوریز (37.5گرام) دن میں لینی چاہیے جوکہ نو چمچ کھانے کے چمچ کے برابر ہیں اور خواتین کو سو کیلوریز (25گرام) تقریباً چھ چمچ مٹھاس استعمال کرنی چاہیے۔ اس کے علاوہ ڈبل روٹی، چاول، فروٹ ودیگر غذا میں الگ چینی شامل ہوتی ہے۔ علاوہ ازیں آئسکریم، سافٹ ڈرنکس اور جوسز روزمرہ کے استعمال میں آتے ہیں۔ کیک، بسکٹ اور مٹھائی کے بغیر یہ زندگی ادھوری لگتی ہے۔
میٹھا زیادہ کھانے سے ڈپریشن اور شیزوفرینیا جیسی ذہنی بیماری لاحق ہونے کے خطرات بڑھ جاتے ہیں اور مزاج سمجھ اور معیار زندگی پر براہ راست اثر پڑتا ہے۔ چینی کا زیادہ استعمال روحانی خلا پیدا کردیتا ہے۔ یہ pineal glands کی کارکردگی پر اثرانداز ہوتی ہے۔ جنھیں روحانیت کی مسند کہا جاتا ہے۔ یہ گلینڈس جنھیں تیسری آنکھ بھی کہا جاتا ہے۔ یہ دماغ کے وسط میں موجود Endocrine Gland (درون افرازی غدود) کہلاتے ہیں۔ یہ گلینڈ عبادت، مراقبہ یوگا، یا تصوراتی عمل کے وقت متحرک ہوتا ہے۔ طبعی طور پر سونے اور جاگنے کے طریقہ کار کو ضابطے میں رکھتا ہے۔ یہ ہارمونز لیول سے لے کر دباؤ اور جسمانی کارکردگی کا تعین کرتاہے۔
Pineal Gland جس طرح سے روشنی اور اندھیرے کے بائیو الیکٹرک سگنلز پر ردعمل دکھاتا ہے، بالکل اسی طرح مراقبے کے دوران اس بائیو الیکٹریکل توانائی کو متحرک کردیتا ہے۔ قدیم تہذیبیں جسم کے اس فعال عضوے کو ادراک، وجدان اور روحانی کیفیات کا مرکز سمجھا کرتی تھیں۔
آج کل ہم اکثر بچوں یا بڑوں کے ناپسندیدہ رویوں کا ذکر کرتے ہیں۔ جس میں بے حسی، لاتعلقی، بات نہ سمجھنا، مزاج کے اتار چڑھاؤ وغیرہ شامل ہیں تو ان تمام تر مسائل کی وجہ ہمارے جسم میں مٹھاس کی زیادہ مقدار کا ہونا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جسم میں موجود یہ شیرینی، لہجوں کو تلخ اور پریشان کن بنا دیتی ہے۔
ذہن کی یکسانیت، تشویش اور زندگی سے بے زاری کو فطری خوشی و اطمینان میں بدلنے کے لیے تیسری آنکھ کو کھولنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ جسے third eye chakra بھی کہا جاتا ہے۔ جس کے لیے سب سے پہلے دماغ میں خاموشی کا بیج بونا پڑتا ہے۔ ذہن خاموش اور پرسکون ہے تو یہ ذہنی ارتکاز فطرت و کائنات کی توانائی کو اپنے اندر جذب کرتا رہتا ہے۔ سوچ، تصور و خیال کے زاویے بدل جاتے ہیں۔ بلکہ ان میں وسعت و گہرائی آجاتی ہے۔ ذہن پرسکون ہے، تو تصور کی کھڑکی ان دیکھے مناظر کی طرف کھل جاتی ہے۔ ہماری زندگی بیک وقت پس منظر و پیش منظر کا امتزاج ہے۔ ایک حقیقت سامنے ہے اور دوسری پوشیدہ ہے۔
ہم ظاہری طور پر نظر آنے والے رویوں اور واقعات کا مشاہدہ کرسکتے ہیں مگر ان کے پس پردہ چھپے محرکات تک رسائی حاصل کرنا ممکن نہیں۔ لہٰذا عمل اور ردعمل کے درمیان کا فاصلہ عبور نہیں کر پاتے۔ یہی وجہ ہے کہ ہماری زندگی عمل کی طاقت سے بے بہرہ اور ردعمل کے نتائج سے بے خبر گزرتی ہے۔ زمینی حقائق کے مطابق جب ہم زمین میں بیج بوتے ہیں تو جلد ہی پودا پنپنے لگتا ہے مگر جب ذہن میں منفی خیال کا بیج بوتے ہیں (چاہے اپنے ذہن میں یا کسی اور کے) تو اس کے منفی اثرات اور تباہ کن نتائج سے بے خبر رہتے ہیں۔ برا نتیجہ سب سے پہلے بیج بونے والا بھگتتا ہے۔ یہ نفرت یا ذہنی فشار بھی جدید دنیا کے اشتہاری رویوں کی ضرورت بن چکے ہیں۔
انسان بیک وقت خیال کی مختلف سمتوں کی جانب سفر کرتا ہے۔
ایک ہی وقت میں سوچ کی مختلف سمتیں خیال کی مرکزیت سے دور کردیتی ہیں۔
باطن کی تیسری آنکھ کی فعالیت اس وقت ممکن ہے جب ہم فطری ماحول و فطری روشنی سے رابطہ بڑھا دیں گے۔ سورج و چاند کی روشنی، جسمانی مشق، گہری سانسوں کی مشق و تعمیری مشغلے ذہن کے انتشار سے باہر نکال سکتے ہیں۔ ہم نے جدت کے نام پر جس شور سے دوستی کرلی ہے اسے ترک کرنے میں ہی بہتری ہے۔ خاموشی، تنہائی، درخت، پھول، پودے، دریا اور تمام مظاہر فطرت جو ذہن کی مخفی صلاحیتوں کو جلا بخشتے ہیں۔ ان سے دوبارہ دوستی کرنی پڑے گی۔
ہم جدید غذا سے منہ نہیں موڑ سکتے۔ فاسٹ فوڈ اور تمام تر میٹھی اشیا زندگی کا حصہ بن چکی ہیں۔ لیکن ہم ان کا استعمال کم کرکے ذہن، جسم و روح کی کھوئی ہوئی توانائی دوبارہ بحال کرسکتے ہیں۔