عدلیہ کی تاریخ کا روشن باب بند ہوا
جسٹس سعیدالزماں صدیقی کا بہ حیثیت منصف کردار ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔
لکھنؤ، دکن، ڈھاکا اور کراچی۔۔۔ چار شہروں سے نسبت رکھنے والے جسٹس (ر) سعید الزماں صدیقی راہی ملک عدم ہوئے۔۔۔ وہ یکم دسمبر 1937ء کو لکھنؤ میں پیدا ہوئے۔۔۔ اس کے بعد ابتدائی تعلیمی مدارج حیدر آباد (دکن) میں طے ہوئے، اعلیٰ تعلیم کی کچھ منازل ڈھاکا (سابق مشرقی پاکستان) میں حاصل ہوئیں، یہیں میٹرک اور انٹر کے بعد انجنیئرنگ کے اس طالب علم پر عُقدہ کھلتا ہے کہ اسے انجنیئرنگ کی گھاٹیوں کو عبور کرنے کے بہ جائے قانونی پیچ وخم پر ملکہ حاصل کرنا چاہیے، چناں چہ سعید الزماں صدیقی نے قانون کی تعلیم حاصل کرنے کا فیصلہ کیا۔
اب اُن کا مسکن اُس وقت کا وفاقی دارالحکومت کراچی تھا۔ جامعہ کراچی سے شعبۂ فلسفے سے گریجویٹ ہوئے اور پھر 1958ء میں جامعہ کراچی ہی سے وکالت کے امتحان میں سرخرو ہوئے۔ فروری 1961ء میں بار کا حصہ بنے۔ اس کے بعد مغربی پاکستان ہائی کورٹ کے وکیل بنے، تو یہ نومبر 1963ء تھا۔۔۔ بطور وکیل عدالت عظمیٰ منزل بنی تو یہ 1969ء کا ماہ نومبر تھا۔
1967ء میں سندھ ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے جنرل سیکریٹری بنے۔ 1968-69ء میں کراچی ہائی کورٹ بار کی مینجنگ کمیٹی کے رکن چنے گئے۔ 1977ء میں اعزازی جنرل سیکریٹری ہائی کورٹ بار لائبریری بنے۔ پھر 5 مئی 1980ء کو سعید الزماں صدیقی سندھ کی عدالت عالیہ کے جج بن جاتے ہیں اور 5 نومبر 1990ء کو سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کی مسند ان کا مقدر بنتی ہے۔ 23 مئی 1992ء کو وہ ملک کی سب سے بڑی عدالت کے جج ہو جاتے ہیں۔
اب جسٹس سعید الزماں کی صدیقی کی زندگی ایک نیا موڑ لیتی ہے۔۔۔ نواز شریف پہلی بار وزارت عظمیٰ کے عہدے پر متمکن ہیں۔۔۔ اور صدر کے مضبوط عہدے پر بیوروکریسی میں طویل خدمات انجام دینے والے غلام اسحق خان۔۔۔
وہی اسحق خان جو 17 اگست 1988ء کو جنرل ضیاء الحق کے طیارے کے حادثے کے وقت چیئرمین سینیٹ تھے اور ضیاء الحق کے بعد صدر کی مضبوط مسند پر بیٹھے اور چناؤ کے بعد برسراقتدار آنے والی پاکستان پیپلزپارٹی کی حکومت محض 20 ماہ بعد برطرف کرچکے تھے، اب ایک بار پھر اُسی اختیار کو استعمال کرتے ہوئے 1993ء میں ایک اور منتخب حکومت برخاست کر دیتے ہیں، لیکن وزیراعظم نوازشریف معاملہ عدالت عظمیٰ لے جاتے ہیں، جس کے نتیجے میں صدارتی فیصلہ کالعدم قرار دیا جاتا ہے، اور حکومت بحال کردی جاتی ہے۔
عدالت عظمیٰ کے جس 11 رکنی بینچ نے نوازشریف کی حکومت بحال کی، جسٹس سعید الزماں صدیقی اس کا حصہ تھے۔ بنچ میں اس فیصلے کی مخالفت کرنے والے واحد جج جسٹس سجاد علی شاہ تھے۔ عدالتی بحالی کا نوازشریف کو خاطرخواہ فائدہ حاصل نہ ہوا، کیوں کہ اس فیصلے کے بعد فوج نے مداخلت کی اور اُس وقت کے آرمی چیف جنرل عبدالوحید کاکڑ نے صدر غلام اسحق خان اور وزیراعظم نوازشریف، دونوں ہی سے استعفا لے لیا۔
عام انتخابات ہوئے اور اگلی حکومت بے نظیر بھٹو کی آئی، جس میں جسٹس سجاد علی شاہ چیف جسٹس کے عہدے پر براجمان ہوئے۔ بے نظیر نے اپنی جماعت سے منسلک فاروق احمد لغاری کو صدر بنایا، لیکن مضبوط صدر نے اپنی ہی جماعت کے خلاف وار کیا اور انتخابات کے بعد اقتدار کا ہما دوسری بار نوازشریف کے سر بیٹھا۔
اب 1993ء میں نواز حکومت کی بحالی کی مخالفت کرنے والے جسٹس سجاد علی شاہ چیف جسٹس تھے اور نوازشریف دوسری بار وزیراعظم بن چکے تھے۔ 27 نومبر 1997ء کو وزیرِ اعظم کی ایک مقدمے میں چیف جسٹس کی تین رکنی عدالت میں پیشی تھی، مگر نواز لیگی کارکنوں کی جانب سے شدید ہنگامے کی بنا پر سماعت مکمل نہ ہو سکی، چیف جسٹس نے تیرہویں آئینی ترمیم معطل کر کے صدر کا اسمبلی تحلیل کرنے کا اختیار بحال کر ڈالا، مگر بازو کے کمرے میں عدالت عظمیٰ کے دس رکنی بینچ نے جسٹس سعید الزماں صدیقی کی سربراہی میں اس تین رکنی بینچ کے حکم کو معطل کر دیا۔ یوں ایک بڑا عدالتی بحران پیدا ہو گیا، جس کا نتیجہ جسٹس سجاد علی شاہ کی معزولی کی صورت میں برآمد ہوا اور جسٹس اجمل میاں نئے چیف جسٹس بنے، جن کی ریٹائرمنٹ کے بعد یکم جولائی 1999ء کو جسٹس سعید الزماں صدیقی پاکستان کے 15 ویں چیف جسٹس بنے۔۔۔ 12 اکتوبر 1999ء کو جنرل پرویز مشرف برسراقتدار آئے۔ پھر اس اقتدار کو قانونی راہ دینے کے واسطے ایک 'عبوری حکم' کے تحت تمام ججوں کی حلف برداری درپیش ہوئی، اور 26 جنوری 2000ء کو سعید الزماں صدیقی نے یہ حلف اٹھانے سے انکار کر دیا اور اپنے عہدے سے سبک دوش ہونے کو ترجیح دی۔ نتیجتاً اُس وقت کے طاقت وَر ترین فوجی جرنیلوں کے دباؤ کا سامنا مع اہل خانہ نظربندی کی صورت میں کرنا پڑا۔
مارچ 2007ء میں جب اُس وقت کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کو معطل کیا گیا اور ان کی عدالتی بحالی کے بعد نومبر 2007ء کو ایک بار پھر ملک بھر میں ہنگامی حالت نافذ کی گئی تو جسٹس افتخار محمد چوہدری سمیت ججوں کی ایک بہت بڑی تعداد نے حلف اٹھانے سے انکار کیا، یوں وہ سب اپنے عہدوں پر باقی نہ رہ سکے۔ (ان ججوں کی بحالی پھر 2009ء میں عمل میں آئی) ایسے میں پرویز مشرف کے پہلے ہی 'عبوری حکم' پر انکار کرنے والے جسٹس (ر) سعید الزماں صدیقی کو بھی خاص طور پر یاد کیا گیا۔ ان کے 2000ء کے 'حرف انکار' کا سات سال بعد 2007ء میں خوب چرچا ہوا اور قانون کے پاس دار حلقوں نے انہیں اس جرأت پر خصوصی خراج تحسین پیش کیا۔
2008ء میں جب جنرل (ر) پرویز مشرف نے پارلیمان میں نواز لیگ اور پیپلزپارٹی کی مشترکہ حکومت کی جانب سے مواخذے کی تحریک پیش کیے جانے پر استعفا دیا، تو مسلم لیگ (نواز) نے انہیں اپنا صدارتی امیدوار نام زَد کیا۔ اس سے قبل بھی نوازشریف ایک ریٹائرڈ جج رفیق تارڑ کو صدر کے عہدے پر منتخب کرا چکی تھی۔ 2008ء میں نواز لیگ کی جانب سے ایسی ہی تاریخ دُہرانے کی کوشش کی گئی، لیکن ان کے مقابل پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری صدارتی امیدوار تھے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ انہیں پیپلزپارٹی کے باقاعدہ اعلان سے پہلے ہی متحدہ قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین نے ''نام زَد'' کردیا تھا۔ پھر سیاسی تاریخ یہ منظر بھی رونما ہوا کہ 'مہاجر حقوق' کی عَلم بردار متحدہ قومی موومنٹ نے صدارتی چناؤ میں ایک مہاجر امیدوار کے خلاف اپنے ووٹ استعمال کیے اور جسٹس (ر) سعید الزماں صدیقی صدر پاکستان نہ بن سکے اور یہ عہدہ آصف علی زرداری کے حصے میں آیا۔
پھر تاریخ کا پہیا گھوما۔۔۔ 2013ء میں ملک کا عام چناؤ منعقد ہوا اور نواز لیگ نے ایک بار پھر 1997ء کی طرح دو تہائی اکثریت حاصل کر کے تنِ تنہا حکومت بنا لی۔۔۔ نوازشریف تیسری بار وزارت عظمیٰ کی کرسی پر بیٹھ گئے۔ پھر ستمبر 2013ء کو آصف زرداری کے عہدۂ صدارت کی میعاد پوری ہوگئی۔۔۔ مبصرین یہ توقع کر رہے تھے کہ اب جسٹس (ر) سعید الزماں صدیقی ہی نئے صدر پاکستان ہوں گے، مگر جانے کیا 'مصلحت' آڑے آئی کہ جب فتح یقینی تھی، تو حکم راں جماعت نے اپنا پچھلا صدارتی امیدوار فراموش کر دیا ورنہ آج سعید الزماں صدیقی صدر مملکت کی حیثیت سے دنیا سے رخصت ہوتے۔ سابق گورنر سندھ ممنون حسین کو صدر مملکت کے عہدے سے سرفراز کر دیا گیا کہ 12 اکتوبر 1999ء کو نواز حکومت کی برطرفی کے بعد ممنون حسین بھی اپنے معزول قائد کے وفادار رہے تھے۔
یہ امر بھی حیرت سے خالی نہیں کہ نوازشریف وزیراعظم بنے، تو انہوں نے بھی اپنے پیش رو حکم راں جماعت کی طرح سندھ کی گورنری پر ڈاکٹر عشرت العباد کو برقرار رہنے دیا۔۔۔ وہی گورنر جسے ان کی حکومت ختم کرنے والے جنرل (ر) پرویز مشرف کے دور میں متحدہ قومی موومنٹ کی جانب سے اس عہدے پر بھیجا گیا۔۔۔ ورنہ نواز شریف کی حکومت آنے کے بعد اس عہدے کے لیے ممنون حسین کی نام زَدگی کی توقع کی جا رہی تھی، پھر یوں ہوا کہ ڈاکٹر عشرت العباد اور ان کی سیاسی جماعت میں دوریاں واضح ہوتی چلی گئیں، اس پر طرّہ کہ انہی کی سابق جماعت کے سابق ساجھے دار مصطفیٰ کمال نے ان پر سخت تنقید کی اور انہوں نے بھی اپنے عہدہ ٔگورنری میں پہلی بار نہایت سخت اور درشت لب ولہجے میں مصطفیٰ کمال کو ترکی بہ ترکی جواب دیا، جس کے کچھ عرصے کے بعد ہی انہیں طویل مدت کے بعد عہدے سے الگ کر دیا گیا، ممکنہ طور پر اسی امر کو عشرت العباد کی رخصتی کا ایک اہم سبب گردانا جاتا ہے۔
11 نومبر 2016ء کو ڈاکٹر عشرت العباد کی جگہ جسٹس (ر) سعید الزماں صدیقی نے گورنر سندھ کے عہدے کا حلف اٹھایا۔ وہ سندھ کے 31 ویں گورنر تھے۔ جسٹس (ر) سعید الزماں صدیقی اپنے پیش رو ڈاکٹر عشرت العباد سے طویل اور مختصر مدت کے تفاوت کے ساتھ عمروں کے حوالے سے بھی کافی ممتاز رہے، جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ 1963ء میں جب ڈاکٹر عشرت العباد پیدا ہوئے، اُس وقت سعید الزماں صدیقی بطور وکیل ہائی کورٹ خدمات انجام دے رہے تھے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ اس سے قبل بھی جسٹس (ر) سعید الزماں صدیقی 27 جولائی 1990ء کو تین روز کے لیے بھی قائم مقام گورنر سندھ رہ چکے ہیں۔ وہ کبھی کسی سیاسی جماعت کا حصہ نہیں بنے، تاہم انہیں سیاسی طور پر نواز لیگ کے قریب خیال کیا جاتا تھا۔ اس امر کے باوجود انہیں ملک بھر میں یک ساں طور پر عزت واحترام اور قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ پیرانہ سالی میں انہیں گورنر سندھ بنانے پر کافی تنقید کی گئی، کیوں کہ عہدہ سنبھالنے کے وقت بھی ان کی صحت کافی خراب تھی، جس کی بنا پر وہ حلف برداری کے بعد مزار قائد جانے کی روایت بھی نہ نبھا سکے۔
یہی نہیں بل کہ وہ صوبے کے حوالے سے ہونے والی اعلیٰ سطح کی اہم بیٹھکوں میں بھی شامل نہ ہوسکے۔ طبیعت زیادہ خراب ہونے کی بنا پر وہ کافی دن اسپتال کے 'انتہائی نگہ داشت کے شعبے' میں بھی زیرعلاج رہے۔ گذشتہ روز دوپہر کو ان کی طبیعت زیادہ خراب ہوئی، انہیں طبی امداد کے لیے اسپتال لے جایا گیا ، جہاں شام کے وقت وہ خالق حقیقی سے جاملے۔ یوں وہ صرف دوماہ ہی اپنے عہدے پر رہ سکے۔ جسٹس (ر) سعید الزماں صدیقی کی رحلت سے ہماری سیاسی اور عدالتی تاریخ میں جرأت، شرافت اور اعلیٰ اقدار کا ایک سنہرا باب بند ہو گیا۔
اب اُن کا مسکن اُس وقت کا وفاقی دارالحکومت کراچی تھا۔ جامعہ کراچی سے شعبۂ فلسفے سے گریجویٹ ہوئے اور پھر 1958ء میں جامعہ کراچی ہی سے وکالت کے امتحان میں سرخرو ہوئے۔ فروری 1961ء میں بار کا حصہ بنے۔ اس کے بعد مغربی پاکستان ہائی کورٹ کے وکیل بنے، تو یہ نومبر 1963ء تھا۔۔۔ بطور وکیل عدالت عظمیٰ منزل بنی تو یہ 1969ء کا ماہ نومبر تھا۔
1967ء میں سندھ ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے جنرل سیکریٹری بنے۔ 1968-69ء میں کراچی ہائی کورٹ بار کی مینجنگ کمیٹی کے رکن چنے گئے۔ 1977ء میں اعزازی جنرل سیکریٹری ہائی کورٹ بار لائبریری بنے۔ پھر 5 مئی 1980ء کو سعید الزماں صدیقی سندھ کی عدالت عالیہ کے جج بن جاتے ہیں اور 5 نومبر 1990ء کو سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کی مسند ان کا مقدر بنتی ہے۔ 23 مئی 1992ء کو وہ ملک کی سب سے بڑی عدالت کے جج ہو جاتے ہیں۔
اب جسٹس سعید الزماں کی صدیقی کی زندگی ایک نیا موڑ لیتی ہے۔۔۔ نواز شریف پہلی بار وزارت عظمیٰ کے عہدے پر متمکن ہیں۔۔۔ اور صدر کے مضبوط عہدے پر بیوروکریسی میں طویل خدمات انجام دینے والے غلام اسحق خان۔۔۔
وہی اسحق خان جو 17 اگست 1988ء کو جنرل ضیاء الحق کے طیارے کے حادثے کے وقت چیئرمین سینیٹ تھے اور ضیاء الحق کے بعد صدر کی مضبوط مسند پر بیٹھے اور چناؤ کے بعد برسراقتدار آنے والی پاکستان پیپلزپارٹی کی حکومت محض 20 ماہ بعد برطرف کرچکے تھے، اب ایک بار پھر اُسی اختیار کو استعمال کرتے ہوئے 1993ء میں ایک اور منتخب حکومت برخاست کر دیتے ہیں، لیکن وزیراعظم نوازشریف معاملہ عدالت عظمیٰ لے جاتے ہیں، جس کے نتیجے میں صدارتی فیصلہ کالعدم قرار دیا جاتا ہے، اور حکومت بحال کردی جاتی ہے۔
عدالت عظمیٰ کے جس 11 رکنی بینچ نے نوازشریف کی حکومت بحال کی، جسٹس سعید الزماں صدیقی اس کا حصہ تھے۔ بنچ میں اس فیصلے کی مخالفت کرنے والے واحد جج جسٹس سجاد علی شاہ تھے۔ عدالتی بحالی کا نوازشریف کو خاطرخواہ فائدہ حاصل نہ ہوا، کیوں کہ اس فیصلے کے بعد فوج نے مداخلت کی اور اُس وقت کے آرمی چیف جنرل عبدالوحید کاکڑ نے صدر غلام اسحق خان اور وزیراعظم نوازشریف، دونوں ہی سے استعفا لے لیا۔
عام انتخابات ہوئے اور اگلی حکومت بے نظیر بھٹو کی آئی، جس میں جسٹس سجاد علی شاہ چیف جسٹس کے عہدے پر براجمان ہوئے۔ بے نظیر نے اپنی جماعت سے منسلک فاروق احمد لغاری کو صدر بنایا، لیکن مضبوط صدر نے اپنی ہی جماعت کے خلاف وار کیا اور انتخابات کے بعد اقتدار کا ہما دوسری بار نوازشریف کے سر بیٹھا۔
اب 1993ء میں نواز حکومت کی بحالی کی مخالفت کرنے والے جسٹس سجاد علی شاہ چیف جسٹس تھے اور نوازشریف دوسری بار وزیراعظم بن چکے تھے۔ 27 نومبر 1997ء کو وزیرِ اعظم کی ایک مقدمے میں چیف جسٹس کی تین رکنی عدالت میں پیشی تھی، مگر نواز لیگی کارکنوں کی جانب سے شدید ہنگامے کی بنا پر سماعت مکمل نہ ہو سکی، چیف جسٹس نے تیرہویں آئینی ترمیم معطل کر کے صدر کا اسمبلی تحلیل کرنے کا اختیار بحال کر ڈالا، مگر بازو کے کمرے میں عدالت عظمیٰ کے دس رکنی بینچ نے جسٹس سعید الزماں صدیقی کی سربراہی میں اس تین رکنی بینچ کے حکم کو معطل کر دیا۔ یوں ایک بڑا عدالتی بحران پیدا ہو گیا، جس کا نتیجہ جسٹس سجاد علی شاہ کی معزولی کی صورت میں برآمد ہوا اور جسٹس اجمل میاں نئے چیف جسٹس بنے، جن کی ریٹائرمنٹ کے بعد یکم جولائی 1999ء کو جسٹس سعید الزماں صدیقی پاکستان کے 15 ویں چیف جسٹس بنے۔۔۔ 12 اکتوبر 1999ء کو جنرل پرویز مشرف برسراقتدار آئے۔ پھر اس اقتدار کو قانونی راہ دینے کے واسطے ایک 'عبوری حکم' کے تحت تمام ججوں کی حلف برداری درپیش ہوئی، اور 26 جنوری 2000ء کو سعید الزماں صدیقی نے یہ حلف اٹھانے سے انکار کر دیا اور اپنے عہدے سے سبک دوش ہونے کو ترجیح دی۔ نتیجتاً اُس وقت کے طاقت وَر ترین فوجی جرنیلوں کے دباؤ کا سامنا مع اہل خانہ نظربندی کی صورت میں کرنا پڑا۔
مارچ 2007ء میں جب اُس وقت کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کو معطل کیا گیا اور ان کی عدالتی بحالی کے بعد نومبر 2007ء کو ایک بار پھر ملک بھر میں ہنگامی حالت نافذ کی گئی تو جسٹس افتخار محمد چوہدری سمیت ججوں کی ایک بہت بڑی تعداد نے حلف اٹھانے سے انکار کیا، یوں وہ سب اپنے عہدوں پر باقی نہ رہ سکے۔ (ان ججوں کی بحالی پھر 2009ء میں عمل میں آئی) ایسے میں پرویز مشرف کے پہلے ہی 'عبوری حکم' پر انکار کرنے والے جسٹس (ر) سعید الزماں صدیقی کو بھی خاص طور پر یاد کیا گیا۔ ان کے 2000ء کے 'حرف انکار' کا سات سال بعد 2007ء میں خوب چرچا ہوا اور قانون کے پاس دار حلقوں نے انہیں اس جرأت پر خصوصی خراج تحسین پیش کیا۔
2008ء میں جب جنرل (ر) پرویز مشرف نے پارلیمان میں نواز لیگ اور پیپلزپارٹی کی مشترکہ حکومت کی جانب سے مواخذے کی تحریک پیش کیے جانے پر استعفا دیا، تو مسلم لیگ (نواز) نے انہیں اپنا صدارتی امیدوار نام زَد کیا۔ اس سے قبل بھی نوازشریف ایک ریٹائرڈ جج رفیق تارڑ کو صدر کے عہدے پر منتخب کرا چکی تھی۔ 2008ء میں نواز لیگ کی جانب سے ایسی ہی تاریخ دُہرانے کی کوشش کی گئی، لیکن ان کے مقابل پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری صدارتی امیدوار تھے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ انہیں پیپلزپارٹی کے باقاعدہ اعلان سے پہلے ہی متحدہ قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین نے ''نام زَد'' کردیا تھا۔ پھر سیاسی تاریخ یہ منظر بھی رونما ہوا کہ 'مہاجر حقوق' کی عَلم بردار متحدہ قومی موومنٹ نے صدارتی چناؤ میں ایک مہاجر امیدوار کے خلاف اپنے ووٹ استعمال کیے اور جسٹس (ر) سعید الزماں صدیقی صدر پاکستان نہ بن سکے اور یہ عہدہ آصف علی زرداری کے حصے میں آیا۔
پھر تاریخ کا پہیا گھوما۔۔۔ 2013ء میں ملک کا عام چناؤ منعقد ہوا اور نواز لیگ نے ایک بار پھر 1997ء کی طرح دو تہائی اکثریت حاصل کر کے تنِ تنہا حکومت بنا لی۔۔۔ نوازشریف تیسری بار وزارت عظمیٰ کی کرسی پر بیٹھ گئے۔ پھر ستمبر 2013ء کو آصف زرداری کے عہدۂ صدارت کی میعاد پوری ہوگئی۔۔۔ مبصرین یہ توقع کر رہے تھے کہ اب جسٹس (ر) سعید الزماں صدیقی ہی نئے صدر پاکستان ہوں گے، مگر جانے کیا 'مصلحت' آڑے آئی کہ جب فتح یقینی تھی، تو حکم راں جماعت نے اپنا پچھلا صدارتی امیدوار فراموش کر دیا ورنہ آج سعید الزماں صدیقی صدر مملکت کی حیثیت سے دنیا سے رخصت ہوتے۔ سابق گورنر سندھ ممنون حسین کو صدر مملکت کے عہدے سے سرفراز کر دیا گیا کہ 12 اکتوبر 1999ء کو نواز حکومت کی برطرفی کے بعد ممنون حسین بھی اپنے معزول قائد کے وفادار رہے تھے۔
یہ امر بھی حیرت سے خالی نہیں کہ نوازشریف وزیراعظم بنے، تو انہوں نے بھی اپنے پیش رو حکم راں جماعت کی طرح سندھ کی گورنری پر ڈاکٹر عشرت العباد کو برقرار رہنے دیا۔۔۔ وہی گورنر جسے ان کی حکومت ختم کرنے والے جنرل (ر) پرویز مشرف کے دور میں متحدہ قومی موومنٹ کی جانب سے اس عہدے پر بھیجا گیا۔۔۔ ورنہ نواز شریف کی حکومت آنے کے بعد اس عہدے کے لیے ممنون حسین کی نام زَدگی کی توقع کی جا رہی تھی، پھر یوں ہوا کہ ڈاکٹر عشرت العباد اور ان کی سیاسی جماعت میں دوریاں واضح ہوتی چلی گئیں، اس پر طرّہ کہ انہی کی سابق جماعت کے سابق ساجھے دار مصطفیٰ کمال نے ان پر سخت تنقید کی اور انہوں نے بھی اپنے عہدہ ٔگورنری میں پہلی بار نہایت سخت اور درشت لب ولہجے میں مصطفیٰ کمال کو ترکی بہ ترکی جواب دیا، جس کے کچھ عرصے کے بعد ہی انہیں طویل مدت کے بعد عہدے سے الگ کر دیا گیا، ممکنہ طور پر اسی امر کو عشرت العباد کی رخصتی کا ایک اہم سبب گردانا جاتا ہے۔
11 نومبر 2016ء کو ڈاکٹر عشرت العباد کی جگہ جسٹس (ر) سعید الزماں صدیقی نے گورنر سندھ کے عہدے کا حلف اٹھایا۔ وہ سندھ کے 31 ویں گورنر تھے۔ جسٹس (ر) سعید الزماں صدیقی اپنے پیش رو ڈاکٹر عشرت العباد سے طویل اور مختصر مدت کے تفاوت کے ساتھ عمروں کے حوالے سے بھی کافی ممتاز رہے، جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ 1963ء میں جب ڈاکٹر عشرت العباد پیدا ہوئے، اُس وقت سعید الزماں صدیقی بطور وکیل ہائی کورٹ خدمات انجام دے رہے تھے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ اس سے قبل بھی جسٹس (ر) سعید الزماں صدیقی 27 جولائی 1990ء کو تین روز کے لیے بھی قائم مقام گورنر سندھ رہ چکے ہیں۔ وہ کبھی کسی سیاسی جماعت کا حصہ نہیں بنے، تاہم انہیں سیاسی طور پر نواز لیگ کے قریب خیال کیا جاتا تھا۔ اس امر کے باوجود انہیں ملک بھر میں یک ساں طور پر عزت واحترام اور قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ پیرانہ سالی میں انہیں گورنر سندھ بنانے پر کافی تنقید کی گئی، کیوں کہ عہدہ سنبھالنے کے وقت بھی ان کی صحت کافی خراب تھی، جس کی بنا پر وہ حلف برداری کے بعد مزار قائد جانے کی روایت بھی نہ نبھا سکے۔
یہی نہیں بل کہ وہ صوبے کے حوالے سے ہونے والی اعلیٰ سطح کی اہم بیٹھکوں میں بھی شامل نہ ہوسکے۔ طبیعت زیادہ خراب ہونے کی بنا پر وہ کافی دن اسپتال کے 'انتہائی نگہ داشت کے شعبے' میں بھی زیرعلاج رہے۔ گذشتہ روز دوپہر کو ان کی طبیعت زیادہ خراب ہوئی، انہیں طبی امداد کے لیے اسپتال لے جایا گیا ، جہاں شام کے وقت وہ خالق حقیقی سے جاملے۔ یوں وہ صرف دوماہ ہی اپنے عہدے پر رہ سکے۔ جسٹس (ر) سعید الزماں صدیقی کی رحلت سے ہماری سیاسی اور عدالتی تاریخ میں جرأت، شرافت اور اعلیٰ اقدار کا ایک سنہرا باب بند ہو گیا۔