قومی ٹیمیں منزل کے قریب پہنچ کر ہمت ہارتی رہیں
انٹرنیشنل کرکٹ کی واپسی کا خواب پورا نہ ہو سکا
طویل عرصہ سے چھائے دہشت گردی کے سائے 2012ء میں مزید گہرے ہوتے نظر آئے۔
زندگی کے ہر شعبے کی طرح کھیل بھی بری طرح متاثر ہوئے، سال ختم ہوا مگر شائقین کا ملک میں انٹرنیشنل مقابلوں کی بحالی کے لئے انتظار ختم نہ ہوا، کئی غیرملکی ٹیموں نے وعدے تو کئے مگر پاکستان آنے کی جرأت نہ کر سکے، چند باکسرز، فٹ بال ٹیموں، ایشیا کبڈی اور ڈیف کرکٹ کپ، پنجاب یوتھ فیسٹیول میں مختلف ملکوں کے کلبز اور اتھلیٹس کی آمد سے میدانوں کی رونقیں بحال کرنے میں کچھ پیش رفت ضرور ہوئی مگر کسی بڑے عالمی ایونٹ کے انعقاد کا خواب شرمندہ تعبیر نہ ہو سکا، جے سوریا کی قیادت میں انٹرنیشنل کرکٹرز بھی آئے مگر بنگلہ دیشی ٹیم نے کبھی ہاں،کبھی ناں کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے بالآخر دورہ سے انکار کر دیا۔
دسمبر میں آئندہ سال آنے کا شوشہ چھوڑ دیا گیا، پاکستان کرکٹ بورڈ کا سال بھر اصرار رہا کہ پنجاب سمیت صوبائی حکومتیں سکیورٹی فراہم کرنے کی یقین دہانی کروا دیں تو غیرملکی ٹیموں کو بلایا جا سکتا ہے، پی سی بی کی طرف سے پریمیئر لیگ کروانے کی باتیں تو بہت ہوئیں تاہم کوئی ٹھوس پلاننگ سامنے نہ آ سکی، نئے سال میں ہر صورت ایونٹ کرانے کے دعوے بھی کئے جا رہے ہیں تاہم زمینی حقائق کے پیش نظر انتظامی اور مالی طور پر 2013ء میں بھی شیڈول کو حتمی شکل دیئے جانے کے امکانات کم ہی نظر آ رہے ہیں، بورڈ کو سب سے بڑی کامیابی پاک بھارت کرکٹ سیریز کی 5 سال بعد بحالی کی صورت میں ملی، چیئرمین ذکاء اشرف اپنے بھارتی ہم منصب اور دیگر حکام کو قائل کرنے میں کامیاب ہوئے تو دوسری طرف حکومتی سطح پر کوششوں نے بھی پاکستان کا دورہ بھارت ممکن بنایا۔
تنازعات نے بھی پاکستانی کھیلوں کا تعاقب جاری رکھا، انگلش کورٹ نے تحقیقات کا سلسلہ مکمل ہونے پر دانش کنیریاکو میچ فکسنگ کا قصوروار ٹھہرایا، سپنر پر انٹرنیشنل اور ڈومیسٹک کرکٹ کے دروازے بند ہوئے، بنگلہ دیشی پریمیئر لیگ میں ناصر جمشید اور احمد شہزاد بھی الزامات کی زد میں آئے لیکن ثبوت ناکافی نہ ہونے پر بچ نکلے، عبدالرحمن ڈوپ ٹیسٹ میں پکڑے جانے پر 6 ماہ کی پابندی کا شکار ہوئے، محمد آصف اور محمد عامر سزا پوری کر کے انگلینڈ کی جیلوں سے تو رہا ہو گئے تاہم اسپاٹ فکسنگ الزامات کے داغ دھونے میں ناکامی ہوئی، محمد عامر کے لئے سابق کرکٹرز کی ہمدردی بھی آئی سی سی کے دل میں نرم گوشہ پیدا نہ کر سکی۔
ملک میں مختلف پارٹیوں کے رہنما سیاسی کھیل کھیلتے رہے تو کھیلوں کے ارباب اختیار میں سیاست کا چلن عام رہا، پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن، اسپورٹس بورڈ اور حکومتی اداروں میں اختیارات کے لئے کھینچا تانی جاری رہی، پی او اے کے عہدیداروں پر دباؤ رہا کہ وہ عدلیہ کے فیصلے کے تحت دوبار سے زائد مدت کے لئے اختیارات کے مزے نہیں لوٹ سکتے لہٰذا نئے آنے والوں کے لئے جگہ خالی کر دیں، ایسوسی ایشن کے صدر عارف حسن اور سابق عہدیداروں کا انتخاب چیلنج کئے جانے کے بعد انٹرنیشنل اولمپک کمیٹی نے کھیلوں میں سیاسی مداخلت ختم کرنے کی دھمکی دیتے ہوئے پاکستان کی لندن اولمپکس میں شرکت پر ہی سوالیہ نشان لگا دیا۔
بعدازاں مہلت ملنے پر قومی کھلاڑیوں نے ملکی پرچم کے سائے تلے ہی میگا ایونٹ میں شرکت کی لیکن رسہ کشی سال بھر جاری رہی، پنجاب حکومت اور اسپورٹس بورڈ کی طرف سے پی او اے کو عدالتی فیصلے کا منحرف قرار دیئے جانے کی وجہ سے قومی کھیلوں کا انعقاد بھی بار بار تعطل کا شکار ہوا، بالآخر لاہور میں مقابلے شروع بھی ہوئے تو حکومتی مشینری اور فنڈز میسر نہ تھے، پنجاب اولمپک ایسوسی ایشن اپنے وسائل سے ہی کام چلاتی رہی،کئی ٹیموں کی عدم شرکت کے سبب بھی مقابلوں کا رنگ پھیکا پڑ گیا۔
قومی کرکٹ ٹیم کی کارکردگی میں تسلسل کا فقدان رہا، کھلاڑیوں نے کبھی بہترین تو کبھی بدترین کھیل پیش کیا، سری لنکا اور بنگلہ دیش کو کلین سویپ کر کے نئے سال میں قدم رکھنے والی ٹیم کے عبوری کوچ محسن خان تھے جنہوں نے وقار یونس کے جانے کے بعد چیف سلیکٹر کا عہدہ چھوڑ کر نئی ذمے داری قبول کی اور اچھی طرح نبھائی، پاکستان نے سعید اجمل اور عبدالرحمن کی تباہ کن بولنگ کی بدولت متحدہ عرب امارات میں انگلینڈ کو ٹیسٹ سیریزمیں کلین سویپ کرنے کا کارنامہ سرانجام دیا، اس دوران ہی ذکا اشرف نے کوئی کوالیفائیڈ کوچ لانے کے واضح اشارے دینا شروع کر دیئے تھے، بے یقینی پھیلی اور گرین شرٹس ون ڈے سیریز 4-0 سے ہار گئے، مصباح الحق کو قیادت سنبھالنے کے بعد پہلی بار کسی سیریز میں ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔
انگلینڈ نے ٹوئنٹی 20 سیریز بھی 2-1 سے جیت لی تو مصباح الحق کی سلو بیٹنگ کو تنقید کا نشانہ بنانے کی مہم چلی، دورہ مکمل ہونے کے بعد مارچ میں ڈیوڈ واٹمور کے ساتھ دو سال کا معاہدہ ہوا، مہنگے ترین کوچ کی تقرری کے ساتھ ہی محسن خان کی چھٹی ہو گئی، چیف سلیکٹر کی ذمے داری بھی اقبال قاسم کے سپرد کر دی گئی، نئی مینجمنٹ کا پہلا امتحان بنگلہ دیش میں ایشیا کپ تھا، شعیب ملک کو واپسی کا موقع فراہم کیا گیا، بھارت سے شکست کے باوجود پاکستان نے فائنل میں رسائی حاصل کرنے کے بعد بنگلہ دیش کو سخت مقابلے میں زیر کرتے ہوئے ٹائٹل پر قبضہ جمایا۔واپسی پر ٹوئنٹی 20 کا کپتان محمد حفیظ کو مقرر کر دیا گیا، دیگر دونوں فارمیٹ کے لئے قیادت مصباح الحق کے پاس رہی۔ سری لنکا میں میزبان ٹیم کے خلاف ٹیسٹ سیریز 1-0 سے جیتی، ون ڈے میں آئی لینڈر 3-1 سے کامیاب رہے، ٹوئنٹی 20 مقابلے 1-1 سے برابر ہوئے۔
آسٹریلیا کے خلاف ہو م سیریز بھی پاکستان نے متحدہ عرب امارات میں کھیلی، ون ڈے میں کینگروز 2-1 سے سرخرو ہوئے، ٹوئنٹی 20 میں بھی نتیجہ مختلف نہ رہا۔ سری لنکا میں ٹوئنٹی 20 ورلڈ کپ کے لئے پاکستان نے پرانے ہتھیاروں پر انحصار کیا، کامران اکمل، عمران نذیر، عبدالرزاق کو اسکواڈ میں جگہ ملی، گرین شرٹس نے نیوزی لینڈ اور بنگلہ دیش کو ہرا کر سیمی فائنل تک رسائی حاصل کی، سپر ایٹ مرحلے میں جنوبی افریقہ کے بعد آسٹریلیا کو بھی زیر کر لیا،تاہم بھارتی دیوار نہ گرائی جا سکی، پوائنٹس ٹیبل نے کچھ ایسا کھیل کھیلا کہ پاکستان کی راہ ہموار اور دھونی الیون کی میگا ایونٹ سے چھٹی ہو گئی، لو اسکورنگ سیمی فائنل میچ پاکستانی بیٹنگ لائن کی غیرذمے داری کے سبب ہاتھ سے نکل گیا، سینئرز اور آفریدی خاص طور پر تنقید کا نشانہ بنے۔
پاکستان کی بیشتر فتوحات میں سعید اجمل کا کردار اہم رہا، سپنر نے ٹیسٹ وکٹوں کی تیز ترین سنچری مکمل کرتے ہوئے وقار یونس اور محمد آصف کو پیچھے چھوڑا، سعید اجمل نے 19 ٹیسٹ میں کارنامہ سر انجام دیا جبکہ وقار اور آصف نے 20,20 ٹیسٹ کھیل کر سنگ میل عبور کیا تھا۔ سپنر نے ٹوئنٹی 20 اور ون ڈے کی عالمی رینکنگ میں ٹاپ بولر کی پوزیشن پر بھی قبضہ جمایا مگر حیران کن طور پر آئی سی سی بولر آف دی ایئر ایوارڈ کے لئے نامزد کرکٹرز کی فہرست سے خارج کر دیئے گئے، پاکستانی پرستاروں کا غم و غصہ بھی فیصلے میں کوئی تبدیلی نہ لا سکا۔سیالکوٹ اسٹالینز جنوبی افریقہ میں چیمپئنز لیگ کا حصہ بنے مگر شعیب ملک کی قیادت میں ٹیم پہلے مرحلے سے باہر ہو گئی۔انڈر 19 کرکٹ کے ورلڈ کپ میں پاکستان کو کوارٹر فائنل میں شکست ہوئی، چھٹی پوزیشن کے میچ میں ویسٹ انڈیز کے ہاتھوں مات نے بدترین آٹھویں پوزیشن پر پہنچا دیا، ایشیا کپ کا فائنل ٹائی ہونے پر پاکستان اور بھارت مشترکہ چیمپئن قرار پائے۔ ویمنز ٹی 20 ورلڈ کپ میں پاکستان کو آسٹریلیا اور انگلینڈ نے زیر کیا تاہم بھارت کیخلاف کامیابی حاصل ہوئی۔
ورلڈ کپ میں بارہویں اور چیمپئنز ٹرافی میں ساتویں پوزیشن کی شرمندگی کے ساتھ نئے سال کا آغاز کرنے والی ہاکی ٹیم نے اولمپکس کو ہدف قرار دیا، ڈچ کوچ مشل وین ڈین کو فارغ کرکے اختر رسول کو ذمے داری سونپ دی گئی' اذلان شاہ کپ میں سہیل عباس کپتان تھے، گرین شرٹس کو نیوزی لینڈ، ملائشیا، ارجنٹائن، بھارت اور برطانیہ کے ہاتھوں شکستوں نے ساتویں پوزیشن پر دھکیل دیا۔ اولمپکس کے لئے سہیل عباس کو قیادت پر برقرار رکھا گیا، ریحان بٹ، شکیل عباس، وسیم احمد کی واپسی ہوئی، سلمان اکبر یورپ سے بلا کر بھی ٹیم میں شامل نہ کئے گئے۔
میگا ایونٹ کی تیاری کے لئے نیشنل ہاکی اسٹیڈیم میں نیلی آسٹروٹرف بچھانے کا کام کھلاڑیوں کی روانگی تک مکمل نہ ہو سکا، گرین شرٹس نے پریکٹس بیرون ملک ہی کی، پاکستان اسپین سے میچ برابر کھیلنے کے بعد ارجنٹائن کو 2-0 سے زیر کرنے میں کامیاب ہوا مگر برطانیہ نے 4-1 سے زیر کرکے مہم کمزور کر دی، جنوبی افریقہ کیخلاف 5-4 سے فتح کے بعد آسٹریلیا کو ہرانے کی صورت میں ہی سیمی فائنل کا راستہ بن سکتا تھا مگر 7-0 سے شکست نے امیدیں خاک میں ملا دیں، کوریا کیخلاف 3-2 سے فتح نے ساتویں پوزیشن دلائی' ناکامی پر سابق اولمپئنز نے تنقید کی توپوں کا رخ ہاکی فیڈریشن کی طرف موڑ دیا، کچھ وقفے کے بعد سلیکشن کمیٹی ختم کرتے ہوئے ہیڈ کوچ اختر رسول، کوچ حنیف خان اور گول کیپنگ کوچ احمد عالم پر مشتمل مینجمنٹ کو ہی ٹیم منتخب کرنے کا اختیار دے دیا گیا۔
چیمپئنز ٹرافی کے لئے اسکواڈ سے سہیل عباس اور ریحان بٹ کو ڈراپ کرکے ریٹائرمنٹ لینے والے وسیم احمد کو واپس بلا لیا گیا، محمد عمران کپتان مقرر ہوئے، نیا پلان کارگر ثابت ہوا، ہالینڈ اور آسٹریلیا سے شکست ہوئی مگر جرمنی جیسی ورلڈ کلاس ٹیم کے مقابل فتح کی بدولت گرین شرٹس سیمی فائنل میں جگہ بنانے میں کامیاب ہوئے جہاں میزبان ٹیم کی دیوار گرانا ممکن نہ ہوا، تاہم تیسری پوزیشن کے میچ میں بھارت کے خلاف کامیابی نے 8 سال بعد برانز میڈل کا حق دار بنایا، کارکردگی میں نمایاں بہتری کے آثار لیے قومی ٹیم ایشین چیمپئنز ٹرافی کے لئے دوحا روانہ ہوئی۔
پاکستان کے سوئمرز انعم بانڈے، اسرار حسین، اتھلیٹ لیاقت علی، رابعہ عاشق اورشوٹر خرم انعام ابتدائی مرحلے میں ناکامی کے بعد نام کے ساتھ اولمپئن لکھوانے کے بعد واپس آئے مگر بغیر سہولیات اور حکومتی اداروں کی معاونت کے بلغاریہ جانے والے محمد آصف اسنوکر کے ورلڈ چیمپئن بن گئے، فیصل آباد سے تعلق رکھنے والے کیوئسٹ اسپورٹس بورڈ اور پاکستان اولمپکس ایسوسی ایشن کی طرف سے کورا جواب ملنے کے بعد مخیر حضرات کی مدد سے 8 لاکھ روپے اکٹھے کرکے عازم سفر ہوئے اور ٹائٹل جیت کر کھیلوں کے ارباب اختیار کو شرمندہ کیا، مقابلوں میں شرکت کے لئے سپورٹ کے وقت بے رُخی اختیار کرنے والوں سمیت سیاسی اور سماجی رہنمائوں نے بھرپور خیرمقدمی بیانات جاری کرتے ہوئے انعامات کا اعلان بھی کیا، تاہم عملی طور پر اقدامات کم ہی دیکھنے میں آئے۔
کبڈی میں پاکستان نے ایشیا کپ کا میدان تو مار لیا، تاہم بھارت میں کھیلے گئے ورلڈ کپ کے فائنل میں میزبان ٹیم کو شکست نہ دی جا سکی، کوچ اور کپتان نے بھارتی ٹیم پر دھوکا دہی، ڈوپنگ میں ملوث ہونے اور بدن پر بام لگا کر مقابلے میں شریک ہونے کے الزامات عائد کیے، بلائنڈ کرکٹ ورلڈ کپ کے فائنل میں بھی روایتی حریف نے ہی پاکستان کی اُمیدوں پر پانی پھیرا، کپتان ذیشان عباسی کو تیزاب پلانے کی اطلاعات سے میڈیا میں طوفان برپا ہوا، ٹینس اسٹار اعصام الحق ایسٹورل اوپن جیت کر اولمپکس کے لیے کوالیفائی نہ کر سکے، گیری ویبر ٹائٹل کی فتح بھی انھیں میگا ایونٹ میں انٹری نہ دلا سکی۔
تاہم وہ آسٹریلین اوپن مکسڈ ڈبلز کا فائنل کھیلنے میں کامیاب ہوئے، بیوی فاہا اکمل سے علیحدگی کی خبریں بھی گردش میں رہیں جبکہ ٹینس اسٹار کے والد تردید کرتے رہے، بھارتی ٹینس اسٹار ثانیہ مرزا اپنی سالگرہ منانے کے لئے پاکستان آئیں اور بھرپور توجہ کا مرکز بنی رہیں، اسکواش میں بھی پاکستان نے گزشتہ برس کی نسبت بہتر کھیل کا مظاہرہ کیا، فرحان زمان اور فرحان محبوب نے فائنل میں بھارتی کھلاڑیوں کو ہرا کر ایشین چیمپئن کا اعزاز حاصل کیا، ڈیف کرکٹ ٹیم نے سری لنکا کو زیر کرتے ہوئے ایشیا کپ اپنے نام کیا، بھارتی ٹیم فائنل میں رسائی نہ حاصل کر سکی۔
زندگی کے ہر شعبے کی طرح کھیل بھی بری طرح متاثر ہوئے، سال ختم ہوا مگر شائقین کا ملک میں انٹرنیشنل مقابلوں کی بحالی کے لئے انتظار ختم نہ ہوا، کئی غیرملکی ٹیموں نے وعدے تو کئے مگر پاکستان آنے کی جرأت نہ کر سکے، چند باکسرز، فٹ بال ٹیموں، ایشیا کبڈی اور ڈیف کرکٹ کپ، پنجاب یوتھ فیسٹیول میں مختلف ملکوں کے کلبز اور اتھلیٹس کی آمد سے میدانوں کی رونقیں بحال کرنے میں کچھ پیش رفت ضرور ہوئی مگر کسی بڑے عالمی ایونٹ کے انعقاد کا خواب شرمندہ تعبیر نہ ہو سکا، جے سوریا کی قیادت میں انٹرنیشنل کرکٹرز بھی آئے مگر بنگلہ دیشی ٹیم نے کبھی ہاں،کبھی ناں کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے بالآخر دورہ سے انکار کر دیا۔
دسمبر میں آئندہ سال آنے کا شوشہ چھوڑ دیا گیا، پاکستان کرکٹ بورڈ کا سال بھر اصرار رہا کہ پنجاب سمیت صوبائی حکومتیں سکیورٹی فراہم کرنے کی یقین دہانی کروا دیں تو غیرملکی ٹیموں کو بلایا جا سکتا ہے، پی سی بی کی طرف سے پریمیئر لیگ کروانے کی باتیں تو بہت ہوئیں تاہم کوئی ٹھوس پلاننگ سامنے نہ آ سکی، نئے سال میں ہر صورت ایونٹ کرانے کے دعوے بھی کئے جا رہے ہیں تاہم زمینی حقائق کے پیش نظر انتظامی اور مالی طور پر 2013ء میں بھی شیڈول کو حتمی شکل دیئے جانے کے امکانات کم ہی نظر آ رہے ہیں، بورڈ کو سب سے بڑی کامیابی پاک بھارت کرکٹ سیریز کی 5 سال بعد بحالی کی صورت میں ملی، چیئرمین ذکاء اشرف اپنے بھارتی ہم منصب اور دیگر حکام کو قائل کرنے میں کامیاب ہوئے تو دوسری طرف حکومتی سطح پر کوششوں نے بھی پاکستان کا دورہ بھارت ممکن بنایا۔
تنازعات نے بھی پاکستانی کھیلوں کا تعاقب جاری رکھا، انگلش کورٹ نے تحقیقات کا سلسلہ مکمل ہونے پر دانش کنیریاکو میچ فکسنگ کا قصوروار ٹھہرایا، سپنر پر انٹرنیشنل اور ڈومیسٹک کرکٹ کے دروازے بند ہوئے، بنگلہ دیشی پریمیئر لیگ میں ناصر جمشید اور احمد شہزاد بھی الزامات کی زد میں آئے لیکن ثبوت ناکافی نہ ہونے پر بچ نکلے، عبدالرحمن ڈوپ ٹیسٹ میں پکڑے جانے پر 6 ماہ کی پابندی کا شکار ہوئے، محمد آصف اور محمد عامر سزا پوری کر کے انگلینڈ کی جیلوں سے تو رہا ہو گئے تاہم اسپاٹ فکسنگ الزامات کے داغ دھونے میں ناکامی ہوئی، محمد عامر کے لئے سابق کرکٹرز کی ہمدردی بھی آئی سی سی کے دل میں نرم گوشہ پیدا نہ کر سکی۔
ملک میں مختلف پارٹیوں کے رہنما سیاسی کھیل کھیلتے رہے تو کھیلوں کے ارباب اختیار میں سیاست کا چلن عام رہا، پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن، اسپورٹس بورڈ اور حکومتی اداروں میں اختیارات کے لئے کھینچا تانی جاری رہی، پی او اے کے عہدیداروں پر دباؤ رہا کہ وہ عدلیہ کے فیصلے کے تحت دوبار سے زائد مدت کے لئے اختیارات کے مزے نہیں لوٹ سکتے لہٰذا نئے آنے والوں کے لئے جگہ خالی کر دیں، ایسوسی ایشن کے صدر عارف حسن اور سابق عہدیداروں کا انتخاب چیلنج کئے جانے کے بعد انٹرنیشنل اولمپک کمیٹی نے کھیلوں میں سیاسی مداخلت ختم کرنے کی دھمکی دیتے ہوئے پاکستان کی لندن اولمپکس میں شرکت پر ہی سوالیہ نشان لگا دیا۔
بعدازاں مہلت ملنے پر قومی کھلاڑیوں نے ملکی پرچم کے سائے تلے ہی میگا ایونٹ میں شرکت کی لیکن رسہ کشی سال بھر جاری رہی، پنجاب حکومت اور اسپورٹس بورڈ کی طرف سے پی او اے کو عدالتی فیصلے کا منحرف قرار دیئے جانے کی وجہ سے قومی کھیلوں کا انعقاد بھی بار بار تعطل کا شکار ہوا، بالآخر لاہور میں مقابلے شروع بھی ہوئے تو حکومتی مشینری اور فنڈز میسر نہ تھے، پنجاب اولمپک ایسوسی ایشن اپنے وسائل سے ہی کام چلاتی رہی،کئی ٹیموں کی عدم شرکت کے سبب بھی مقابلوں کا رنگ پھیکا پڑ گیا۔
قومی کرکٹ ٹیم کی کارکردگی میں تسلسل کا فقدان رہا، کھلاڑیوں نے کبھی بہترین تو کبھی بدترین کھیل پیش کیا، سری لنکا اور بنگلہ دیش کو کلین سویپ کر کے نئے سال میں قدم رکھنے والی ٹیم کے عبوری کوچ محسن خان تھے جنہوں نے وقار یونس کے جانے کے بعد چیف سلیکٹر کا عہدہ چھوڑ کر نئی ذمے داری قبول کی اور اچھی طرح نبھائی، پاکستان نے سعید اجمل اور عبدالرحمن کی تباہ کن بولنگ کی بدولت متحدہ عرب امارات میں انگلینڈ کو ٹیسٹ سیریزمیں کلین سویپ کرنے کا کارنامہ سرانجام دیا، اس دوران ہی ذکا اشرف نے کوئی کوالیفائیڈ کوچ لانے کے واضح اشارے دینا شروع کر دیئے تھے، بے یقینی پھیلی اور گرین شرٹس ون ڈے سیریز 4-0 سے ہار گئے، مصباح الحق کو قیادت سنبھالنے کے بعد پہلی بار کسی سیریز میں ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔
انگلینڈ نے ٹوئنٹی 20 سیریز بھی 2-1 سے جیت لی تو مصباح الحق کی سلو بیٹنگ کو تنقید کا نشانہ بنانے کی مہم چلی، دورہ مکمل ہونے کے بعد مارچ میں ڈیوڈ واٹمور کے ساتھ دو سال کا معاہدہ ہوا، مہنگے ترین کوچ کی تقرری کے ساتھ ہی محسن خان کی چھٹی ہو گئی، چیف سلیکٹر کی ذمے داری بھی اقبال قاسم کے سپرد کر دی گئی، نئی مینجمنٹ کا پہلا امتحان بنگلہ دیش میں ایشیا کپ تھا، شعیب ملک کو واپسی کا موقع فراہم کیا گیا، بھارت سے شکست کے باوجود پاکستان نے فائنل میں رسائی حاصل کرنے کے بعد بنگلہ دیش کو سخت مقابلے میں زیر کرتے ہوئے ٹائٹل پر قبضہ جمایا۔واپسی پر ٹوئنٹی 20 کا کپتان محمد حفیظ کو مقرر کر دیا گیا، دیگر دونوں فارمیٹ کے لئے قیادت مصباح الحق کے پاس رہی۔ سری لنکا میں میزبان ٹیم کے خلاف ٹیسٹ سیریز 1-0 سے جیتی، ون ڈے میں آئی لینڈر 3-1 سے کامیاب رہے، ٹوئنٹی 20 مقابلے 1-1 سے برابر ہوئے۔
آسٹریلیا کے خلاف ہو م سیریز بھی پاکستان نے متحدہ عرب امارات میں کھیلی، ون ڈے میں کینگروز 2-1 سے سرخرو ہوئے، ٹوئنٹی 20 میں بھی نتیجہ مختلف نہ رہا۔ سری لنکا میں ٹوئنٹی 20 ورلڈ کپ کے لئے پاکستان نے پرانے ہتھیاروں پر انحصار کیا، کامران اکمل، عمران نذیر، عبدالرزاق کو اسکواڈ میں جگہ ملی، گرین شرٹس نے نیوزی لینڈ اور بنگلہ دیش کو ہرا کر سیمی فائنل تک رسائی حاصل کی، سپر ایٹ مرحلے میں جنوبی افریقہ کے بعد آسٹریلیا کو بھی زیر کر لیا،تاہم بھارتی دیوار نہ گرائی جا سکی، پوائنٹس ٹیبل نے کچھ ایسا کھیل کھیلا کہ پاکستان کی راہ ہموار اور دھونی الیون کی میگا ایونٹ سے چھٹی ہو گئی، لو اسکورنگ سیمی فائنل میچ پاکستانی بیٹنگ لائن کی غیرذمے داری کے سبب ہاتھ سے نکل گیا، سینئرز اور آفریدی خاص طور پر تنقید کا نشانہ بنے۔
پاکستان کی بیشتر فتوحات میں سعید اجمل کا کردار اہم رہا، سپنر نے ٹیسٹ وکٹوں کی تیز ترین سنچری مکمل کرتے ہوئے وقار یونس اور محمد آصف کو پیچھے چھوڑا، سعید اجمل نے 19 ٹیسٹ میں کارنامہ سر انجام دیا جبکہ وقار اور آصف نے 20,20 ٹیسٹ کھیل کر سنگ میل عبور کیا تھا۔ سپنر نے ٹوئنٹی 20 اور ون ڈے کی عالمی رینکنگ میں ٹاپ بولر کی پوزیشن پر بھی قبضہ جمایا مگر حیران کن طور پر آئی سی سی بولر آف دی ایئر ایوارڈ کے لئے نامزد کرکٹرز کی فہرست سے خارج کر دیئے گئے، پاکستانی پرستاروں کا غم و غصہ بھی فیصلے میں کوئی تبدیلی نہ لا سکا۔سیالکوٹ اسٹالینز جنوبی افریقہ میں چیمپئنز لیگ کا حصہ بنے مگر شعیب ملک کی قیادت میں ٹیم پہلے مرحلے سے باہر ہو گئی۔انڈر 19 کرکٹ کے ورلڈ کپ میں پاکستان کو کوارٹر فائنل میں شکست ہوئی، چھٹی پوزیشن کے میچ میں ویسٹ انڈیز کے ہاتھوں مات نے بدترین آٹھویں پوزیشن پر پہنچا دیا، ایشیا کپ کا فائنل ٹائی ہونے پر پاکستان اور بھارت مشترکہ چیمپئن قرار پائے۔ ویمنز ٹی 20 ورلڈ کپ میں پاکستان کو آسٹریلیا اور انگلینڈ نے زیر کیا تاہم بھارت کیخلاف کامیابی حاصل ہوئی۔
ورلڈ کپ میں بارہویں اور چیمپئنز ٹرافی میں ساتویں پوزیشن کی شرمندگی کے ساتھ نئے سال کا آغاز کرنے والی ہاکی ٹیم نے اولمپکس کو ہدف قرار دیا، ڈچ کوچ مشل وین ڈین کو فارغ کرکے اختر رسول کو ذمے داری سونپ دی گئی' اذلان شاہ کپ میں سہیل عباس کپتان تھے، گرین شرٹس کو نیوزی لینڈ، ملائشیا، ارجنٹائن، بھارت اور برطانیہ کے ہاتھوں شکستوں نے ساتویں پوزیشن پر دھکیل دیا۔ اولمپکس کے لئے سہیل عباس کو قیادت پر برقرار رکھا گیا، ریحان بٹ، شکیل عباس، وسیم احمد کی واپسی ہوئی، سلمان اکبر یورپ سے بلا کر بھی ٹیم میں شامل نہ کئے گئے۔
میگا ایونٹ کی تیاری کے لئے نیشنل ہاکی اسٹیڈیم میں نیلی آسٹروٹرف بچھانے کا کام کھلاڑیوں کی روانگی تک مکمل نہ ہو سکا، گرین شرٹس نے پریکٹس بیرون ملک ہی کی، پاکستان اسپین سے میچ برابر کھیلنے کے بعد ارجنٹائن کو 2-0 سے زیر کرنے میں کامیاب ہوا مگر برطانیہ نے 4-1 سے زیر کرکے مہم کمزور کر دی، جنوبی افریقہ کیخلاف 5-4 سے فتح کے بعد آسٹریلیا کو ہرانے کی صورت میں ہی سیمی فائنل کا راستہ بن سکتا تھا مگر 7-0 سے شکست نے امیدیں خاک میں ملا دیں، کوریا کیخلاف 3-2 سے فتح نے ساتویں پوزیشن دلائی' ناکامی پر سابق اولمپئنز نے تنقید کی توپوں کا رخ ہاکی فیڈریشن کی طرف موڑ دیا، کچھ وقفے کے بعد سلیکشن کمیٹی ختم کرتے ہوئے ہیڈ کوچ اختر رسول، کوچ حنیف خان اور گول کیپنگ کوچ احمد عالم پر مشتمل مینجمنٹ کو ہی ٹیم منتخب کرنے کا اختیار دے دیا گیا۔
چیمپئنز ٹرافی کے لئے اسکواڈ سے سہیل عباس اور ریحان بٹ کو ڈراپ کرکے ریٹائرمنٹ لینے والے وسیم احمد کو واپس بلا لیا گیا، محمد عمران کپتان مقرر ہوئے، نیا پلان کارگر ثابت ہوا، ہالینڈ اور آسٹریلیا سے شکست ہوئی مگر جرمنی جیسی ورلڈ کلاس ٹیم کے مقابل فتح کی بدولت گرین شرٹس سیمی فائنل میں جگہ بنانے میں کامیاب ہوئے جہاں میزبان ٹیم کی دیوار گرانا ممکن نہ ہوا، تاہم تیسری پوزیشن کے میچ میں بھارت کے خلاف کامیابی نے 8 سال بعد برانز میڈل کا حق دار بنایا، کارکردگی میں نمایاں بہتری کے آثار لیے قومی ٹیم ایشین چیمپئنز ٹرافی کے لئے دوحا روانہ ہوئی۔
پاکستان کے سوئمرز انعم بانڈے، اسرار حسین، اتھلیٹ لیاقت علی، رابعہ عاشق اورشوٹر خرم انعام ابتدائی مرحلے میں ناکامی کے بعد نام کے ساتھ اولمپئن لکھوانے کے بعد واپس آئے مگر بغیر سہولیات اور حکومتی اداروں کی معاونت کے بلغاریہ جانے والے محمد آصف اسنوکر کے ورلڈ چیمپئن بن گئے، فیصل آباد سے تعلق رکھنے والے کیوئسٹ اسپورٹس بورڈ اور پاکستان اولمپکس ایسوسی ایشن کی طرف سے کورا جواب ملنے کے بعد مخیر حضرات کی مدد سے 8 لاکھ روپے اکٹھے کرکے عازم سفر ہوئے اور ٹائٹل جیت کر کھیلوں کے ارباب اختیار کو شرمندہ کیا، مقابلوں میں شرکت کے لئے سپورٹ کے وقت بے رُخی اختیار کرنے والوں سمیت سیاسی اور سماجی رہنمائوں نے بھرپور خیرمقدمی بیانات جاری کرتے ہوئے انعامات کا اعلان بھی کیا، تاہم عملی طور پر اقدامات کم ہی دیکھنے میں آئے۔
کبڈی میں پاکستان نے ایشیا کپ کا میدان تو مار لیا، تاہم بھارت میں کھیلے گئے ورلڈ کپ کے فائنل میں میزبان ٹیم کو شکست نہ دی جا سکی، کوچ اور کپتان نے بھارتی ٹیم پر دھوکا دہی، ڈوپنگ میں ملوث ہونے اور بدن پر بام لگا کر مقابلے میں شریک ہونے کے الزامات عائد کیے، بلائنڈ کرکٹ ورلڈ کپ کے فائنل میں بھی روایتی حریف نے ہی پاکستان کی اُمیدوں پر پانی پھیرا، کپتان ذیشان عباسی کو تیزاب پلانے کی اطلاعات سے میڈیا میں طوفان برپا ہوا، ٹینس اسٹار اعصام الحق ایسٹورل اوپن جیت کر اولمپکس کے لیے کوالیفائی نہ کر سکے، گیری ویبر ٹائٹل کی فتح بھی انھیں میگا ایونٹ میں انٹری نہ دلا سکی۔
تاہم وہ آسٹریلین اوپن مکسڈ ڈبلز کا فائنل کھیلنے میں کامیاب ہوئے، بیوی فاہا اکمل سے علیحدگی کی خبریں بھی گردش میں رہیں جبکہ ٹینس اسٹار کے والد تردید کرتے رہے، بھارتی ٹینس اسٹار ثانیہ مرزا اپنی سالگرہ منانے کے لئے پاکستان آئیں اور بھرپور توجہ کا مرکز بنی رہیں، اسکواش میں بھی پاکستان نے گزشتہ برس کی نسبت بہتر کھیل کا مظاہرہ کیا، فرحان زمان اور فرحان محبوب نے فائنل میں بھارتی کھلاڑیوں کو ہرا کر ایشین چیمپئن کا اعزاز حاصل کیا، ڈیف کرکٹ ٹیم نے سری لنکا کو زیر کرتے ہوئے ایشیا کپ اپنے نام کیا، بھارتی ٹیم فائنل میں رسائی نہ حاصل کر سکی۔